فاتح اعظم کاکریمانہ سلوک

قارئین!مشرق ومغرب کی ساری لیڈر شپ اور عرب وعجم کے تمام لیڈروں کے حالات کا آپ نے بغور جائزہ لیا ہوگا،مگر کوئی ایسا قائد اور لیڈر آپ کو نہیں ملے گا،جس کو گالیاں دی گئی ہوں ،اور اس نے تحفہ پیش کیاہو،جس کو خاردار راستہ پر چلایا گیا ہو،اور اس نے بدلے میں پھول نچھاور ئے ہوں ،جس نے پتھر برسائے ہوں ،اس کو گلدستہ پیش کیا ہو، اگر وہ مثال اور نمونہ ملےگا ،تو تاجدار مکہ و مدینہ سالار قوم ،بادشاہوں کے بادشاہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ملے گا۔

دنیا کے بادشاہوں اور حکمرانوں کی مثال تو یہ ہے کہ جب وہ فاتح بن کر کسی بستی میں گھستا ہے، تو انسانی آبادی خاک وخون میں تڑپنے لگتی ہے ،ہنستے بستے شہر کھنڈ رات میں تبدیل ہوجاتے ہیں ،قرآن کریم اس کا نقشہ اس طرح کھینچتاہے ،اِنَّ ال ±مُلُو ±کَ اِذَا دَخَلُو ±ا قَر ±یَ ©ة ا ¿ف ±سَدُو ±ھَاوَجَعَلُو ±ا ¿عِزَّةَ ا ¿ھلھاا ¿ذِلة [ الایة] بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو بستی کو خراب کر دیتے ہیں،سرداروں کوذلیل کر دےتے ہیں ،بچے یتیم ہو جاتے ہیں، ماﺅں کی مامتا لُٹ جاتی ہے، بہنوں کی چادریںچِھن جاتی ہیں، بیٹےوں کی عصمت تارتار ہو جاتی ہیں، زمین تھرانے لگتی ہے؛مگر قربان جائیے سرکاردو عالم اپر کہ دس ہزار صحابہ ¿ کرام کا مجمع ہے اور آپ ا نہایت ہی عزت واحترام شان و شوکت رعب ودبدبہ کے ساتھ ایک فاتحِ اعظم کی شکل میں مکة المکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں اِدھر مکہ کے لوگ گلیو ںگھروں اور جھاڑیوں میں چھپ رہے ہیں۔آپ کے پاس اُس وقت اتنی طاقت موجود ہے کہ ایک ایک کو قتل کر کے سر زمین مکہ کو خون سے رنگین کر دیں ،اگر آپ چاہتے ایک ایک کو پیس کر رکھدیتے مگر شفقت ومحبت اور رافت کا یہ عالم کہ ایک شخص قریش میں سے دربار اقدس ا میں حاضر ہوتا ہے، خوف ودہشت سے کپکپی طاری ہے، بات منہ سے بھی نہیں نکلتی ہے، بولنے کی کوشش کرتا ہے، تو زبان لڑکھڑا جاتی ہے ، آپ ا اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرماتے ہیں :گھبراﺅ نہیں! میں کوئی بادشاہ نہیں بلکہ ایک معمولی عورت کا بیٹا ہوں ۔(سیرت خاتم الانبیا ئ ۴۹)

ابو سفیان جو قریش کے مشہور سردار وں میں سے ایک ہے، اسلام سے دشمنی اور آپ کی ایذادہی میں انہیں کمال حاصل ہے، یہ وہی شخص ہے جس نے ہرموڑپراسلام کا جنازہ نکالنے اور اسلام کو اس کی اصلی شکل سے ہٹاکر پیش کرنے کی لا حاصل کوشش کیں ،آپ کی لائی ہوئی شریعت اور آپ کے لائے ہوئے دین کو جڑسے اُکھاڑپھینکنے کیلئے نہ جانے ”دارالندوہ“ میں کتنی بارمشورے کئے ،مگر وہی ابوسفیان دشمنِ رسول،رسول اللہا کے خون کے پیاسے آج فتح مکہ کیلئے آرہے اسلامی لشکرکاجائزہ لیتاہواجاسوس بنکرباہرنکلاتواسلامی لشکرکے پہرداراورچوکیدارنے اسے دیکھ کرپہچان لیااورگرفتارکرکے ر سول اللہ کے دربار میں حاضر کردیا۔

رسول اللہ ااور رسول اللہ ا کی لائی ہوئی شریعت کا ایک بڑاخونخواردشمن ،مفتوح، آج فاتحِ اعظم کے جال میںپھنساہواہے ،دونوں جہان کے سرادر،مکہ ومدینہ کے تاجدار،رحمت مجسم ، پیکرصدق وصفااکے زیرتسلط اورقبضہ ¿ قدرت میں ہے،اِدھرحیدرکرّارصحابی ¿ رسول حضرت عمرفاروق ؓ بھی آموجودہوتے ہیں اورعرض کرتے ہیں: اے اللہ کے رسول!”یہ ۔ابوسفیان “مجھے اجازت دیجئے کہ میںاپنی تلوارسے ان کی گردن اتاردوں اور بتادوں کے دشمن رسول کا یہی انجام ہوتاہے۔ رحمت للعالمین ازیرلب مسکراتے ہوئے نفرت وعداوت کے تمام قصوں کو نظراندازکرتے ہوئے اسے معاف فرمادیتے ہیں۔

حضرت سعدبن عبادہؓ آج انصاری لشکرکے سردارہیں،اور اسلام کاپرچم ان کے ہاتھوں میں ہے،جب انہوں نے ابوسفیان کو دیکھاتو جذبہ ¿ اسلام نے گدگدایااور غیرت ایمانی جوش میں آگئی بلندآوازسے کہنے لگے الیَو ±م یوم الملحہ الیَو ±م یوم الملحہ الیوم تستحل الکعبہ(مدارج النبوت ۱۴۳)آج جنگ کادن ہے اور آج کعبہ میں جنگ کی اجازت ہے ، آپ ا نے اس واقعہ کو سناتوارشادفرمایا:الیوم یوم المرحمة الیوم تکسی الکعبة الیوم یعزاللہ قریشا(مدارج النبوت ۲۱۴۳)آج رحم وکرم کادن ہے آج کعبہ پرغلاف چڑھایاجائے گا، اس کی عظمت کامظاہرہ کیا جائیگا اور آج اللہ تعالیٰ قریش کو عزت بخشے گا اوراسلام کی توثیق فرمائیگا۔یہی نہیں بلکہ آپ ا نے سعدبن عبادہؓ کو معزول کرکے ان کے صاحبزادے حضرت قیسؓ کے ہاتھ میں پرچمِ اسلام دے دیا، ابوسفیان اس بے نظیرمثال کو دیکھ کر تڑپ اٹھااور اسلام کاقلادہ اپنے گردن میں ڈال لیا۔

صحابہ ¿ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب صحن ِحرم میں تمام گستاخانِ رسالت اور دشمنانِ اسلام کے مجمع کو دیکھاتو پکارپکارکرکہنے لگے ،اے قریش کے جیالو!ماضی تمہاراتھا،حال ہماراہے، کل تمہاری تلواراورہماری گردن تھی اور آج ہماری تلواراور تمہاری کردن ہوگی ،آج تمہارے مظالم کا بدلہ لیا جائیگا ، برسوں سے تم ہمارے خون سے ہولی کھیلتے رہے اور اپنی پیاس بجھاتے رہے، آج تمہاراخون ؓبہایا جائیگا۔

اورپھریہی صحابہ ¿ کرام سرکاردوعالم اکی طرف متوجہ ہوئے اورعرض کرنے لگے یارسول اللہ! انہیں درندوں نے تو حضرت بلال حبشیؓ کے سینہ پر پتھرمارکران کو تڑپایاتھا،انہیں بدبختوں نے تو حضرت سمیہؓ کی شرمگاہ پربرچھی مارکرشرمناک طریقہ سے ہلاک کیاتھااور ناک کان کاٹ کرگلے کا ہار بنایاتھا،یہی وہ گستاخوں کی جماعت ہے جس نے بحالتِ نمازآپ کی گردن میں غلاظت ڈالی تھی، مکہ کی گلیوں اور آپ کے گذرگاہوں پر کانٹے بچھاتے تھے ،آپ کے قتل کامنصوبہ بنایاتھااورآپ کے خون کے پیاسے تھے،حضرت ابوبکرؓ کو بحالت نمازجوتوں اور چپلوں سے مارمارکربے ہوش کردیا تھا یا رسول اللہ! ہمیں اجازت دیجئے، ایک ایک کوقتل کرکے مکہ کی سرزمین کوخون سے رنگین کردوں۔ مگر سرکاراقدس ایہ اعلان کرتے ہیں:”آج ابوسفیان کے گھر میں جو چلاگیا ،اس کو امان ہے،جو مسجد حرام میں داخل ہو گیا اس کو امان ہے ،جس نے گھر کا دروازہ بند کر لیا ،اس کو امان ہے ،‘اور صحابہ کرام سے فرمایا :مکہ کی ماﺅں سے کہدو:تمہاری ممتا نہیں لوٹی جائیگی مکہ کے بچوں سے کہدو‘ تمہیں یتیم نہیں بنایا جائیگا ،مکہ کی بہنوں سے کہدو :تمہارے دوپٹے نہیں اتارے جائے جائینگے ،آج جس نے گلے پر تلوار چلائی تھی،اس کو گلے سے لگایا جائیگا،جس نے سینے پر خنجر گھونپا تھا ،اس کو سینے سے چمٹا یا جائیگا ، لاتثریب علیکم الیوم اذھبووانتم الطلقاتم پرآج کوئی سرزنش نہیں، جاو ¿تم سب آزاد ہو اور سنو : جو پیغام موت بن کر حملہ آور ہوا تھا ،اس کو جام حیات دیا جائیگا ، اورصحابہ ¿ کرام کو سختی سے منع فرمادیاکہ ہر گز کوئی قتل کاارادہ نہ کرے ۔

تین دن کے بعدسب لوگ اپنے اپنے گھرسے نکلے اور حضوراکے پاس تشریف لاکرعرض کرنے لگے ،حضرت صاف صاف بولتاہوں جھوٹ نہیں بولتا،ہم سب آپ کی حکمرانی دیکھناچاہتے تھے ،سو ہم نے دیکھ لیاکہ آپ کی حکمرانی ایک طرف اوردنیاکی حکومتیں، قیصروکسریٰ کی حکومتیں ایک طرف۔

آئے دنیا میں بہت پاک مکرم بن کر
آیا نہ کوئی مگر رحمت للعالمین بن کر
Khalid Anwar Purnawi   خالد انور پورنوی المظاہری
About the Author: Khalid Anwar Purnawi خالد انور پورنوی المظاہری Read More Articles by Khalid Anwar Purnawi خالد انور پورنوی المظاہری: 22 Articles with 26506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.