اگر آپ یہ سمجھ کر اس کہانی کو
پڑھنے بیٹھے ہیں کہ کوئی چونکا دینے والہ قصہ ہو گا، کوئی انوکھی سی داستاں
میں آپ کو سُنانے لگا ہوں، تو یقین کیجیے ایسا کچھ نہیں ہے ، وہی پُرانی
گھسی پٹی کہانی ، وہی پُرانے کردار بس اداکار نئے ہیں۔ نام شائد پہلے آپ نے
نہ سُنے ہوں۔ لیکن کہانی کا تسلسل وہی ہے۔ غربت، ہیرو، ہیروئن، ویلن اور
مجبوریاں۔ میں تو صرف آپ کی توجہ بادل پر دھوپ کی طرف مبذول کروانا چاہتا
ہوں کہ جس کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا، بادل ہمیں سایہ فراہم کرتا ہے
تو اُسے اس کے لیے بہت سی دھوپ کا تشدد بھی تو برداشت کرنا پڑتا ہے، بادل
کے اپنے اوپر جو دھوپ ہوتی ہے، کیا کبھی آپ کو اس کا
احساس ہوا؟ خیر سُنئیے:
علی دفتر سے نکلے تو خلاف توقع سخت گرمی کے موسم میں ایک بادل نے جیسے
اُنہیں حصار میں لے لیا ہو اور اُن تک پہنچنے والی دھوپ کا راستہ روک لیا
ہو۔ دھوپ کی تمام تر تمازت اپنے وجود میں سموتے ہوئے وہ بادل کا ٹکڑا اُن
کو راحت فراہم کر رہا تھا۔ وہ جلدی سے اُڑ کر حلوائی کی دکان پر پہنچنا
چاہتے تھے تاکہ خالی ہاتھ گھر نہ جائیں۔
ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ لئے وہ گھر آئے تھے اور آتے ساتھ ہی اُس کی
قلقاریوں نے اُن کا استقبال کیا تھا۔ چوڑا ماتھا، صاف رنگت، بڑی بڑی آنکھیں،
پتلے پتلے نقش اور نازک سی دھان پان سی گڑیا۔ علی کی ترقی ہوئی تھی اور وہ
یہ خبر سنانے اپنے گھر آئے تھے جہاں ایک اور خوشی اُن کی منتظر تھی۔ اُن کی
دوسری بیٹی، علی نے مٹھائی کا ڈبہ اپنی بیوی کے ہاتھ میں تھمایا اور ننھی
سی جان کو سینے سے لپٹا لیا۔ یہ راحت ہے، راحت علی، اُنہوں نے جیسے اعلان
کرتے ہوئے کہا ہو۔ مہمان خواتین نے جو اُن کی بیگم کے پاس بیٹھی تھیں کورس
میں مبارک سلامت کا شور بلند کر دیا اور مٹھائی پر پل پڑیں۔ چند منٹوں بعد
ہی مسز علی حسرت سے خالی ڈبہ دیکھ کر مُسکرا رہی تھیں۔
وہ گھر جس میں دو وقت چولھا مشکل سے جلا کرتا تھا اب وہاں دو پلنگ جن پر
خوشنُما رنگوں سے گلکاریاں کی ہوئیں تھیں موجود تھے اور موڑھوں پر بھی کڑھے
ہوئے غلاف ڈال دیے گئے تھے۔ نئے سٹیل کے برتن بڑی ترتیب کے ساتھ شیلف پر
آویزاں تھے اور گھر کی بیٹھک میں آتے ہی مہمان کو اپنے ہونے کا پتہ دیتے
تھے۔
ایک برس مانو پلک جھپکتے ہی گزر گیا تھا اور منظر نے جیسے خود کو دہرا لیا
ہو، بس فرق تھا تو اتنا کہ علی کو گھر بیٹھے اطلاع ملی کہ اُن کا تبادلہ ہو
گیا ہے اور وہ بھی ترقی کے ساتھ۔ ابھی وہ یہ خبر اپنے دوست سے سُن ہی رہے
تھے کہ پیچھے کوٹھڑی میں سے سے بچے کے رونے کی آواز آئی جہاں مسز علی دائی
حمیدہ کے ساتھ ایک اور زندگی کو دنیا میں لانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ اب کی
بار بھی بیٹی ہوئی تھی لیکن اس بار مسز علی نے وزارت داخلہ پر فائز ہونے کا
فائدہ اُٹھاتے ہوئے بنفس نفیس اعلان کیا کہ اس بیٹی کا نام شرمین ہو گا ۔
علی یہ فیصلہ سننے کے بعد مسکُرا دیے تھے اور مٹھائی لینے چل پڑے۔
فرحین، راحت اور شرمین وقت کے ساتھ ساتھ جیسا کہ ہوتا ہے، لڑکیاں تھیں،
بانس کی طرح بڑھنے لگیں۔ راحت بہنوں کا بہت خیال رکھتی۔ اُن کی چھوٹی چھوٹی
چیزوں کو سنبھال کر رکھتی، خاص طور پر چھوٹی بہن شرمین کا،اور یہاں تک کہ
جب اُس کی خالہ کی بیٹی ناجیہ اُن کے گھر آتی تو اُسے بھی شرمین کے کھلونوں
سے کھیلنے نہیں دیتی تھی۔ ناجیہ شرمین کی ہم عمر تھی اور دونوں مل کر
کھیلتیں۔ جب وہ دونوں اکٹھی ہو جاتیں تو لگتا کہ راحت کا وجود ہی نہیں ہے۔
لیکن راحت تو اُن دونوں کی خوشی میں ہی خوش تھی اور اُنہیں دیکھ دیکھ کر
نہال ہوا کرتی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ علی کچھ کھانے پینے کا سامان لے آتے اور
بچوں میں برابر تقسیم کر دیتے۔ شرمین کم چیز دیکھ کر بھنا جایا کرتی اور
راحت اپنا حصہ اُسے دے دیتی۔ ایسے میں شرمین کے چہرے پر چھا جانے والی
مُسکُراہٹ اُسے بہت بھلی لگتی۔
پھر یہ ہوا کہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح فراز اُن کے گھر رہنے آ گیا،
دور پار کی پھُپھُو لگتی تھیں اُس کی والدہ راحت کی۔ پہلی بار راحت نے کسی
لڑکے کو آنکھ بھر کے دیکھا تھا، ورنہ گلی محلے اور اسکول کالج کے لڑکوں کے
پاس سے ایسے گزر جایا کرتی تھی جیسے کہ اُن کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ مردانہ
وجاہت کا شاہکار اگر نہ بھی کہیں تو فراز کچھ اتنا کم وجیہ بھی نہ تھا، نرم
گُفتاری اور نگاہ نیچی سے جب بات کرتا تو راحت کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو
جاتیں۔
اب ایسا بھی نہیں تھا کہ راحت کی آرپار ہوتی نگاہوں کو فراز محسوس نہ کر
سکتا، اور ہوا بھی وہی کہ اس آنچ نے دھیرے دھیرے فراز کو پگھلا دیا۔ دو دن
کے لیے اُن کے گھر آیا فراز جب دس دن کے بعد واپس گیا تو پیار اور محبت کے
کئی عہدوپیماں ساتھ لے کر ہی گیا تھا، اور بات وہیں ختم نہیں ہوئی تھی اُس
کے بعد وہ اکثر وہاں آنے جانے لگا۔
فرحین کالج سے فارغ ہوئی تو حاصل کردہ نمبر سرکاری اعلی تعلیمی درسگاہوں
میں داخلے کے لیے کم پڑ گئے، لیکن اُس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے والدین
نے اُسے نجی تعلیمی ادارے میں طب کی تعلیم دلوانے کا فیصلہ کر لیا، کم و
بیش یہی صورتحال راحت کے کالج سے فارغ التحصیل ہونے پر بھی درپیش تھی، لیکن
فرق پڑا تو یہ کہ راحت کسی نجی تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہو سکتی تھی
کیونکہ مالی حالات اس کی اجازت دیتے نظر نہیں آ رہے تھے۔ راحت نے اپنی خوشی
قُربان کر دی اور بڑی بہن کے برعکس بی اے میں داخلہ قبول کر لیا کہ درسگاہ
سرکاری تھی اور اخراجات برداشت کیے جا سکتے تھے
راحت کے لیے اُس کے گھر والے اور اُن کی خوشیاں عبادت کا درجہ رکھتی تھیں،
وہ خود تہی دامن رہ کر اُن کی جھولیاں مسرتوں سے بھرتی رہی۔ وقت کے تیز
دھارے میں بہتے بہتے یہ کنبہ راحت کی قربانیوں کے ثمرات کے فوائد اُٹھاتے
ہوئے اُس کی اپنی تہی دامنی سے بے خبرماہ و سال کی راہداریوں سے ہوتا ہوا
آگے بڑھتا رہا
احمد صاحب، علی کے بچپن کے دوست تھے اور ایک طویل عرصہ سمندر پار گزار کر
واپس آئے تھے، دونوں دوست روایتی گرم جوشی سے ملے تھے اور احمد نے اپنے
صاحبزادے عامر سے گھر والوں کا تعارف کروایا، عامر برسر روزگار تھا خلیج
میں اور کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اچھے خاصے پیسے کما رہا تھا، واجبی
سی شکل صورت اور بول چال میں اکھڑ پن اُس کا خاصہ تھا۔
شام کو شرمین نے جیسے دھماکا سا کر دیا، احمد صاحب اپنے ایک عزیز کے ہاں
چلے گئے تھے اور وہاں سے انہوں سے اگلے دن راحت کے گھر آنا تھا ، یہاں تک
بھی تشویش کی کوئی بات نہیں تھی لیکن اس کے بعد جو کچھ بتایا گیا اُسے
سُنتے ہی راحت غش کھا کر گر گئی تھی۔ والدہ نے پانی کے چھینٹے مارمار کے
اُسے ہوش دلایا۔ وہ ہوش میں آئی تو اہل خانہ کو یوں دیکھنے لگی جیسے کوئی
انجان لوگوں کو دیکھتا ہے۔ لگتا تھا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔
نہ جانے اُس کے بعد کیا کیا گھر میں ہوتا رہا، راحت کو کچھ خبر نہ تھی،
اُسے خبر ہوئی تو جب اگلے دن اُس کے والد اُس کے کمرے میں داخل ہوئے اور
اُسے بتایا کہ مولوی صاحب اُس سے نکاح کی اجازت لینے اندر آیا چاہتے ہیں
اور علی چاہتے تھے کہ راحت اپنی مرضی سے ایجاب و قبول کرتی ۔ مولوی صاحب
کمرے میں دو حضرات کے ساتھ داخل ہوئے تو علی باہر صحن میں جا کھڑے ہوئے
جہاں دھوپ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اُن کے سر پر حملہ آور ہوئی
اُنہیں اُس کا قطعا احساس نہیں ہو رہا تھا اور وہ گہری سوچ میں تھے۔ اتنے
میں اندر سے مبارک سلامت کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں اور ساتھ ہی ایک بادل
نے جیسے تمام تر دھوپ کو اپنے اندر سموتے ہوئے علی کو راحت فراہم کر دی ہو۔
علی بادل کی اپنی تڑپ سے بے خبر اُس کی چھاوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ بادل
دھوپ میں جلتا رہا۔ |