عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نا ناری ہے حکیم الامت شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عمل ہی ایک ایسی واحد شے ہے جس سے انسان اپنی زندگی کو کامیاب ، خوشگوار اور پرآشوب بناسکتا ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اسی لئے اس ذاتِ پاک نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ عقل دی تاکہ اپنے لئے صحیح راستہ کا انتخاب کرے اور سعی و کوشش کی خوبی سے نوازا تاکہ اس کے منتخب کردہ راستے کے حصول کے لئے جدوجہدِ عمل سے کام لے، ہمت و استقلال، بردباری اور عرفان دیا تاکہ مقاصد کے حصول میں پیش آنے والی پریشانیوں کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی حدود متعین کی ہوئی ہیں۔ جن کے اندر رہ کر انسان بہت کچھ کرسکتا ہے اور جہاں تک خدا چاہتا ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ مفلسی اور امیری بھی اللہ نے انسانوں کے اختیار میں کی ہے جس نے عمل کیا کوشش کی ترقی کی راہ اختیار کی اسی ترقی ملی ہے۔

کامیاب لوگوں کی ترقی کا زینہ بے اندازہ جدوجہد، شب و روز کی محنت اور عملِ پیہم سے مل کر بنا ہے۔ کم ہمتی اور بے عملی انسان کی ناکامی کا سبب بنتی ہے۔ وہ تدبیر کو چھوڑ کر تقدیر کے سرہانے بیٹھ کر روتے ہیں اور نتیجاً آنسو اور آہیں ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ قسمت بنی بنائی نہیں ہوتی بلکہ قسمت انسان خود بناتا ہے اگر اس کے مقاصد نیک ہوں تو باتدبیر عمل، صحیح سمت، محنت، لگن اور دیانت داری کے ذریعے وہ اپنی منزلِ مقصود تک ضرور پہنچ جائے گا اور اس میں خدا اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ اگر انسان کوتاہیوں اور غلط منصوبہ بندی سے کام لے گا تو اس کے لئے اپنے مقاصد کا حصول بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر بڑا آدمی اپنے عزم و استقلال اور ہمت و جوانمردی سے تدبیرو عمل کے ذریعے اپنے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ وہ عزت، شہرت، شان و شوکت غرض سب کچھ جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے حاصل کرتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ ہمت و استقلال پر قائم رہتا ہے اور اپنے ارادوں کو چٹان کی طرح مضبوط رکھتا ہے۔ ہر کامیاب انسان اپنے مقصد سے غافل نہیں ہوتا۔ فضول گفتار میں وقت جیسی اہم چیز کو برباد نہیں کرتا۔ تمام اہلِ شہرت و عزت کی کامیابی کا راز عمل ہے۔ ان کی زدنگی سے ہمیں دعوتِ عمل ملتی ہے۔

پس انسان کی زندگی اس کے اپنے اعمال و کردار سے بنتی ہے خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا قارئین ہم لوگ عمل کے بجائے شا رٹ کٹ کا راستہ اپنانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔پچھلے دنوں کی بات ہے میرے موبائل پر کسی اجنبی شخص کا ایس ایم ایس آیا جس میں اُس نے عرض کیاکہ زرداری حکومت نے ایک بہت بڑا غلط کام کیا ہے جس سے ہم متفق نہیں ہیں اور وہ غلط کام ملکی سرکاری ٹی وی چینل(پی ٹی وی)سے عشا کی اذان کی نشریات بند کرا دینا ہے ۔اس شخص نے مزید کہا کہاللہ تعالی صدر آصف علی زرداری کو تباہ برباد کرے جس نے اس طرح کا کام کیا ہے۔اس ایس ایم ایس کو اتنا فارورڈ کرو تا کہ حکومت دابارہ پی ٹی وی پر عشاء کی اذان نشر کرنا شروع کرے اور میسیج کے آخر میں موصوف نے طالبِ دعا کے ساتھ اپنانام لکھا ہوا تھا۔

قارئین ہمارے لیے حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اگر ٹی وی پر عشاء کی اذان نشر ہونا بند ہو گئی تو کیا لوگنماز پڑھنا چھوڑ دیں گے؟نہیں ہر گز ایسا نہیں ہے کیونکہ ''عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے''اس لیے ٹی وی پر اذان نشر نہ ہونے سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جنہوں نیانہوں نے تو ٹی وی پی اذان سنے بغیر ہی پڑھ لینی ہے کیونکہ اُن کی نیت نماز پڑھنے کی ہے اور جن لوگوں کی نیت ہی نہ ہو نما ز پڑھنے کو انہیں ٹی وی پر اذان نشر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑنا،مگر اتنا ضرور ہے کہ عشاء کی اذان پی ٹی وی پہ نشر ہونے کی روایت جو 40سال سے چلی آ رہی تھی وہ روایت ختم ہو گئی ہے اس سے زیادہ کوئی فرق نہیں پڑا۔

سوشل میڈیا اور موبائل میسیج پر اور بھی ایسی کئی تحریکیں شروع ہوتی رہتی ہیں کہ اس میسیج یا پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرو تا کہ یہ بات حکومت وفد تک پہنچ جائے اور اس کا حل نکلے مگر ایسی تحریکوں میں زیادہ تر فضول ہی ہوتی ہیں جبکہ چند ایک کسی اچھے مقصد کے لیے ہوتی ہیں جیسے کہ دومہینے پہلے کراچی میں قتل ہونے والے شاہ زیب نامی لڑکے کے متعلق فیس بک پر آرہا تھا کہ اس کو جاگیرداروں اور وڈیروں کے بیٹوں نے قتل کر دیا ہے۔آپ یہ پوسٹ زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ سپریم کورٹ اس پر ایکشن لے اور یہی خبر میڈیا پر آنے کے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس سر گرم ہو گئی جسکی کی وجہ سے وڈیروں کے بیٹے قانون کی گرفت میں آ گئے۔

قارئین اب ضرورت اس امر کی ہے ہم بحثیت مسلمانوں کو اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید میں بنان کی گئی اسلام اصطلاحات کے مطابق اپنی اندگی بسر کرنی چاہیے۔مسلمان پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہاسلامی اصطلاحات کو اپنی زندگی میں نافذ عمل نی کرنا ہے ۔بس ہم شارٹ کٹ سے چھوٹی چھوٹی نیکیاں کمانے کے عادی ہو گئے ہین مگر اصل اسلامی اقدارپر عمل نہیں کر رہے۔ہمیں چاہیے کہ اسلام کے دیئے گئے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں اور اسی میں ہی مسلمانوں کے فلاح ہے۔
Muhammad Furqan
About the Author: Muhammad Furqan Read More Articles by Muhammad Furqan: 45 Articles with 89365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.