مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی طالب
علموں کے ننھے مُنے دلوں کی عجب کیفیت ہوتی ، سبز ہلالی پرچم دیکھ کر حسن
اور سعد میاں خوب خوش ہوتے اور پاکستان اور ’’قیامِ پاکستان ‘‘ سے متعلق
معلومات کے حصول کے لیے بے چارے ابّا میاں کی شامت آجاتی اور وہ بھی آسان
زبان میں پاکستان سے متعلق معلوماتی کتابیں پڑھ کر حسن اور سعد کو اُن کے
تمام سوالات کے جوابات دیا کرتے،مایوس کبھی نہ کرتے ، کیونکہ اُن کو معلوم
تھا کہ اگر بچہ کے سوال کا اُس کی ذہنی سطح کے مطابق جواب نہ دیا جائے تو
اُس کی ادھوری شخصیت معاشرے میں ایک مذاق بن جاتی ہے لہٰذا اَبّا میاں اپنے
پوتوں اور پاکستان کے تمام بچوں کی ایک توانا اور بھرپور شخصیت دیکھنا
چاہتے تھے ۔
اسکول میں بھی ’’یام پاکستان ‘‘ کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔تمام بچّے
جنھڈیوں سے اپنی اپنی کلاسوں کو سجا رہے تھے اور ایک انجانا سا جوش و ولولہ
اُن کے ننھے دلوں میں تھا ۔ حسن نوید میاں ، فرقان سے بولے : ’’ فرقان ایسا
لگتا ہے جیسے ہم لوگ بھی تحریکِ پاکستان میں حصہ لے رہے ہیں ہا ہا ہا !‘‘
اتنا کہہ کر حسن میاں خوب ہنسے ۔ فرقان کو حیرت ہوئی کہ حسن اتنی بڑی بڑی
باتیں کیسے کرلیتے ہیں لیکن وہ جانتا تھا کہ حسن کے ابّا اور امّاں دونوں
استاد ہیں ، معلم ہیں اور وہ اپنے پوتوں حسن اور سعد پر خصوصی توجہ دیتے
ہیں اس لیے وہ بڑی حسرت سے حسن سے کہا بھی کرتا کہ تم اپنے ابّا اور امّاں
سے میری دوستی بھی کروادو ۔ حسن نے جا کر ابّا سے کہا تو ابّا خوب ہنسے اور
بولے : ’’ نادان پوتے ۔۔۔کبھی بڑوں اور بچوں میں بھی دوستی ہوتی ہے ، دوستی
تو ہمیشہ اپنے ہم عمر سے کی جاتی ہے اور وہی کامیاب بھی رہتی ہے ، کیا
سمجھے ؟؟؟ ‘‘ ابّا مسکرانے لگے تو حسن میاں اپنی بغلیں جھانکنے لگے ( یعنی
شرمندہ ہوگئے)۔
تیئیس مارچ سے دو دن پہلے کی بات ہے کہ حسن میاں اپنے ابّا کے ساتھ عصر کی
نماز ادا کرنے کے بعد مارکیٹ(بازار) سے کچھ ضروری اشیاء کی خریداری کے
سلسلے میں جارہے تھے کہ کچّی آبادی کی جانب ، سڑک کے ایک طرف ایک چھوٹا سا
بچہ ایک چھوٹے سے اسٹول پر تھوڑی سی جھنڈیاں ، دو چار بیجز لیے بیٹھا تھا
۔حسن میاں سے ضبط نہ ہوسکا ، انہوں نے ابّا سے پوچھا : ’’ ابّا ۔۔۔یہ بچہ
اسکول نھیں جاتا ہے کیا؟ اور اس کے پاس اتنا تھوڑا سا سامان کیوں ہے ؟ بڑے
بڑے جھنڈے کیوں نہیں ہیں ابّا ؟‘‘
ابّا بھی سوچ میں پڑ گئے ، وہ معصوم بچہ شکل ہی سے غریب اور مُفلس دکھائی
دیتا تھا ۔ کچھ سوچ کر ابّا اُس بچّہ کی جانب بڑھے اور آہستہ سے پوچھا :
’’کیوں مُنّے میاں ، آپ کے پاس بڑے جھنڈے نھیں ہیں ؟ ‘‘ ابّا جان بوجھ کر
اُس بچہ سے بات شروع کرنا چاہ رہے تھے۔اُس بچہ نے سر اُٹھا کر ابّا کی جانب
دیکھا ، یہ دیکھ کر حسن اور ابّا کی تو گویا جان ہی نکل گئی کہ اُس معصوم
کی آنکھوں میں آنسو تھے۔وہ ہچکچاتے ہوئے بولا : ’’ سر جی میں بھی اسکول میں
پڑھتا تھا ، کراچی کے آئے روز کے ہنگاموں اور ہڑتالوں کی وجہ سے میرے ابّو
کا کاروبار تباہ ہوگیا ۔ہماری دُکان قرض دینے والوں نے بیچ دی اور اب امّی
نے مجھے پانچ سو رُپے کسی سے لے کر دیے ہیں کہ یوم پاکستان کے موقع پر تو
پاکستانیوں کے دل ’’نرم‘‘ ہوجاتے ہیں ، وہ مجھے بچہ دیکھ کر اور ضرورت مند
دیکھ کر مجھ سے یہ چیزیں خرید لیں گے ۔
میری امّی کے پاس پیسے ہوں گے تو اگلے سال میں بھی بڑا جھنڈا خریدوں گا !‘‘
ابّا کا دل جیسے کسی نے مَسل دیا ہو، اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ
بچّہ کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولے :’’ بیٹا پاکستان تو مسلمانوں ہی کا پیارا
وطن ہے ، یہاں کا ہر بچہ ایک پھول ہے جس کی مہک سے پاکستان کا گلشن مہک رہا
ہے ، یم نے بھیک مانگنے کی بجائے رزقِ حلال کو اپنایا ، یہ بہت بڑی بات ہے
، میں تمہاری مدد کروں گا ، اللہ مجھے حوصلہ دے کہ میں تمہارے کام آسکوں ،
بیٹا پانچوں انگلیاں برابر نھیں پوتیں ، تمام پاکستانی رشوت خور ، کرپٹ ،
بے ایمان ، ظالم ، چور اور لُٹیرے نہیں ہیں ، جو چند ایک ہیں تو اللہ
تعالیٰ اُن سے ضرور اُن کے کیے کا حساب لے گا ۔‘‘اتنا کہہ کر ابّا خاموش
ہوگئے پھر وہ حسن کے ساتھ اُس بچہ کے گھر گئے ، اُس کے والد صاحب کو بیس
ہزار رُپے اُدھار دیے کہ وہ اپنا چھوٹا موٹا کام شروع کرسکیں ۔ اُس بچّہ کا
تمام سامان بھی خرید لیا ۔ اب خوشی اُس مختصے سے غریب خاندان والوں کے چہرے
پر ’’یومِ پاکستان‘‘ کی چمک بن کر جھلکنے لگی۔
ابّا نے محمد حسن نوید میاں سے کہا : ’’ لو حسن میاں دیکھ لو یہ ہے ہمارے
پیارے آزاد مسلم وطن کے یوم آزادی کی شان کہ خوشی سب کے لیے ہوتی ہے ، میرے
بچّے جب میں مرجاؤں اور تم جوان ہوجاؤ تو بھی کبھی خوشی کے ان دیؤں کو
بُجھنے نہ دینا ۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر ابّا اپنے ضزبات پر قابو نہ رکھ سے ۔
حسن نوید میں نے ایک پرجوش نعرہ لگایا : ’’ پاکستان زندہ باد ، جیوے جیوے
پاکستان ، جیوے جیوے ابّا جان !!!‘‘ خوشی اور اطمینان حسن میاں کے معصوم
چہرے پر رقصاں تھا ، آپ سب کو بھی ’’یومِ پاکستان ‘‘ مبارک ہو !
پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی ( بابائے ادبِ اطفال ، پاکستان) |