کہنا بڑوں کا مانو

گرمیوں کی دس چھٹیاں ہمارے لئے کس قدر اہم ہو تی تھی کہ پورے سال میں بس یہ حساب لگاتے، دن گنتے رہتے تھے کہ کب وہ دن آئیںکہ دس چھٹیاں ہو جائیں اور ہم خوب مستی کے مزے لیں ان دس دنوں میں اتنی مستی مارتے تھے کہ شام کے آٹھ بجے گھر کے اندر قدم رکھتے تھے۔دن بھر کھیل کود میں گذرتا تھا۔ میں اپنے دوست مستور کے گھر جا تا جہاں ہم محلہ کے بہت سارے لڑکے اکھٹے ہو کر دن بھر کھیلتے تھے میرا چھوٹا بھائی جو مجھ سے ڈیڑھ سال چھوٹا تھا بہت ہی ضدی تھا میں چاہتا تھا کہ میں اکیلا ہی کھیلنے جاﺅں لیکن یہ ضد کر بیٹھتا تھا کہ میں بھی آپ کے ساتھ کھیلنے چلوں ۔ میں خود کو اس سے بڑا سمجھ کر اسے کہتا کہ تو ابھی چھوٹا ہے کہیں کھیلتے کھیلتے گر جائے گا تو پاپا میری کلاس لیں گے اور اگر کہیں چوٹ آگئی تو میں کیا کروں اس لئے تو گھر پر ہی رہ میں کھیلنے جاﺅں گا۔ سونو!کیا آپ کو زیادہ کھیلنا آتا ہے میں آپ سے اچھا کھیلوں گا آپ اپنے آپ کو سچن تندولکر سمجھتے ہو چھوڑو میں بھی آپ کے ساتھ ہی چلوں گا کچھ بھی ہو جائے ،میں کئی بار اس کو سمجھاتا کہ سونو! پا پااکثر کہتارہتا ہے کہ بڑوں کا ماننا چاہیے اس لئے میں آپ سے بڑا ہوں تو آپ کو میرا ماننا ہی پڑے گا۔آپ گھر میں رہو میں کھیلنے جاﺅں گا........سونو.... لیکن بھیا یہ بات بھی تو پا پا نے ہی کہی تھی کہ جب کھیلنا ہو تو اکھٹے کھیلا کرو تو پھر آپ مجھے بھی اپنے ساتھ کیوں نہیں لے چلتے ہو ........سونو آپ ہمارے ساتھ نہیں کھیل سکتے آپ چھوٹے ہو کہیں گر جاﺅ گے اس لئے بڑے کا ماننا چاہیے آپ گھر میں ہی رہوتو میں چلتا ہوں میرا ٹائم ہو گیا۔ مستور چلا تو سونو نے ایک نہ مانی اپنی ضد پر ڈٹا رہااور اپنے بھائی مستور کے پیچھے پیچھے چل پڑا ۔ جب مستور اپنے دوست شیرازکے گھر میں پہنچا تو شیراز مستور کا انتظار میں تھا مستور کے آتے ہیں شیراز کھڑے ہو کر مستور کے گلے ملا اور مستور سے کہا کہ آج تو آپ نے ایک اور کھلاڑی اپنے ساتھ لا یا ہے ۔

مستور نے کہا کہ یار شیراز!! یہ سونو نابڑا ضدی ہے کہتا ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ کھیلوں گا کہیں گر پڑے گا یا ر تو پاپا شام کو میری کلاس لیں گے۔ شیراز نہیں مستور آج سونو کو ہم اپنے ساتھ کھیلنے کا موقع ضرور دیں گے۔........مستور!!نہیں یار شیراز، ایسا مت کرنا اس کو چپ چاپ بیٹھنے دو۔ اتنے میں محلہ کے سارے لڑکے گراونڈ میں جمع ہو گئے ۔ کچھ ہی دیر بعد کرکٹ کا کھیل شروع ہو گیا ۔ ایک ٹیم باﺅلنگ اور ایک ٹیم بیٹنگ کرنے لگی۔جس ٹیم میں مستور کھیلا رہا تھا اس ٹیم کی مد مقابل دوسری ٹیم میں سونو کو کھیلنے کا موقع دیا گیا ۔ سونو آج بہت خوش تھا کہ مجھے کھیلنے کامو قع ملا۔اس سے بھی زیادہ خوش اس لئے تھا کہ اپنے بھائی مستور کے خلاف کھیلنے کا موقع جو ملا ۔ اتفاقاً جس ٹیم میں سونو کھیل رہا تھا تو وہ ٹیم بیٹنگ کرنی لگی چار کھلاڑی آوٹ ہونے کے بعد سونو کو بیٹنگ کے لئے گراونڈ میں بھیجا گیا ۔ سونو بڑے جوش سے گراونڈ میں اترا اُس نے یہ ٹھان رکھی تھی آج میں اتنا اچھا کھیلوں گاتاکہ بھیا کو پتہ چلے کہ میں بھی کھیلنے کے لائق ہوں یا نہیں ۔سونو نے دو بال کھیلے ایک رن اپنے کھاتے میں جوڑاچھوٹی سے معصوم زندگی کا یہ پہلا ہی رن تھا۔ اوورختم ہو گیا ۔ تو اب اوور کرنے لے لئے کپتان نے مستور کو بلایا۔ اتفاقاً اب یہاں پر عزت کا معاملہ تھا ۔ مستور بہت اچھی باﺅلنگ کرتا تھا۔ اب آزمائش کی گھڑی تھی ۔ایک طرف سے ٹیم کی عزت کا سوال تھا اور اک طرف سے اپنے معصوم چھوٹے بھائی کا خیال تھا۔ مجبور حالت میں مستور باﺅلنگ کے لئے بلایا گیا۔ یہاں سے سونو اور زیادہ خوش ہو گیا کہ آج تو موقع مل ہی گیا بھیا کو کھیل دکھانے کا۔ مستور جو کہ پورے محلہ میں سب لڑکوں سے اچھی باﺅلنگ کرتا تھا۔اور سب سے تیز باولنگ بھی کرتا تھا،مایوسی کی حالت میں جب مستور نے پہلی بال پھینکی تو سونو نے مایوسی کا فائدہ اٹھا کر مستور کی پہلی ہی بال پر چوکا مارا مستورکے کپتان نے مستور کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ یہ آپ کا بھائی ہے اسی لئے اس کو صحیح بال نہیں پھینک رہے ہو ، اتنا تو تھا ہی باہر سے تماشائی بھی مستور کو ہنسنے لگے ۔

اب مستور کا چہرہ پھیکا پڑ گیا تھا۔ مستور دوسری بال پھینکنے کی تیار ی میں تھا کپتان نے پھر سے مستور کو اپنے پاس بلایا، اور خفیہ طور پر کچھ کہا،....وائے شومئی قسمت اب جونہی مستور نے دوسری بال پھینکی تو بال سونو کے آنکھ پر جا لگی اور سونو دھڑام کر کے نیچے گرا، سارے لڑکے دوڑ پڑے اور سونو کو اوپر اٹھایا پانی پلایا، سونوپوری طرح سے بے ہوش ، مستور کی آنکھوں سے ٹھڑ ٹھر کر تے آنسو گر رہے تھے کہ آج میری خیر نہیں ۔ اتنے میں پو رے محلہ میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی مستور کے پاپا کو بھی اس بات کا پتہ چلا اور وہاں پہنچ گیا وہاں سے سونو کا اٹھا یا گیا اورہسپتال لے گئے ، ڈاکٹر نے سونو کو دیکھا تو کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹرنے سون کے پاپا کو بلایا اور کہاکہ سونو کی ایک آنکھ پھٹ گئی ہے اس لئے آج سے آپ کا سونو ایک آنکھ سے اندھا ہو گیا ہے ۔ایک نافرمانی کی اتنی سزا کی پوری عمر روشنی کے لئے ترستا رہا۔اس لئے میرانام سونو ہے میں تمام بچوں کو یہ پیغام دے رہا ہوں کہ اپنے بڑوں کا ماننا چاہیے۔کہ ایسا نہ ہو کہ ساری عمر رونا پڑے۔
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 33393 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More