روزنامہ اُڑان ۲
نومبر۹۰۰۲ءکوشروع ہوا۔ میں نے روزنامہ اُڑان کاپہلااخبارغالباً ۴یا۵
دسمبر۹۰۰۲ءکوپہلی مرتبہ اخبارسٹال پرپڑاہوادیکھا۔اخبارچونکہ نیانیاتھاجس کی
وجہ سے بہت کم لوگوں کوپتہ تھاکہ” اُڑان“ کے عنوان سے کوئی اخبارشروع
ہواہے۔میں اُن دِنوں روزنامہ تسکین جوکہ جموں سے شائع ہونے والابہت
پرانااخبارہے کیساتھ کام کررہاتھا۔اتوارکے روزروزنامہ تسکین میں
کمپیوٹرآپریٹروں کوچھٹی ہواکرتی تھی اورمیں اخبارمیں اتوارکوچھٹی ہونے کی
وجہ سے ہرہفتے اپنے والدین اوربھائی بہنوں سے ملاقات کی غرض سے اپنے گاﺅں”
دھنوں“ جوکہ جموں سے قریباً پچاس کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ہے چلاجاتاتھا۔
معمول کے مطابق ۴ یا۵ دسمبر۹۰۰۲ءکوصبح سویرے گھرجانے کےلئے راقم بس
سٹینڈجموں کی جانب قدم بڑھاہی رہاتھاکہ راستے میں اخبارکے سٹال پرنئی
اخبارکودیکھ کرمیرے قدم رُک گئے۔
نئی اخبارکوخریدکرپڑھاتونہ صرف اخبارمیں خبریں دلچسپ لگیں بلکہ مضامین بھی
عوامی مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے نظرآئے۔ عوامی مسائل کی عکاسی کرنے والے
روزنامہ اُڑان کودیکھ کرمجھے یہ احساس ہواکہ شایدیہی وہ اخبارہے جس کاغریب
،مظلوم ، لاچاراوربے بس عوام کوانتظارتھا۔
اخبارپڑھتے پڑھتے ہی میرے دِل میں یہ تمناجاگ گئی کہ۔ کاش!مجھے اس اخبارمیں
کام کرنے کاموقعہ مل جائے۔ دِل سے کاش! نکلنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ
۷۰۰۲ءمیں راقم کوایک موقراُردوروزنامہ میں انٹرویودینے کاموقعہ
ملاتھامگراُس وقت مجھے نہ توانگریزی پریس ریلیزکاترجمہ اُردومیں
کرناآتاتھااورنہ ہی اُردوٹائپنگ ۔ جس کی وجہ سے میراانتخاب نہ ہوا۔ چونکہ
میں ابھی کم عمری میں تھااورغربت کی وجہ سے روزگارکی تلاش میں تھا۔اخبارمیں
کام کرنے کاموقعہ نہ ملنے سے مایوسی ہوئی مگراس سے مشکلات سے لڑنے کاحوصلہ
پیداہوااوراس کے بعدمیں نے دِل میں ایک مقصدکوپال لیاکہ ایک دِن ضروربڑے
اخبارمیں کام کروں گا۔ اخبارمیں کا م کرنے کےلئے ضروری صلاحیتوں کواپنے
اندرپیدااُجاگرکرنے کی کوشش شروع کردی۔
پھرروزانہ اُڑان کوبازارسے خریدکرپڑھنامعمول بن گیااوریوں میراتعلق
بطورقاری روزنامہ اُڑان کیساتھ جڑگیا۔میرے اندراُڑان میں کام کرنے کا شوق
اس لیے بھی بڑھ گیاکہ اخبارمیں شائع خبروں کی سرخیاں دلکش ہونے کے ساتھ
ساتھ رنگین صفحات یعنی پہلے صفحہ اورآخری صفحہ کی ڈیزائننگ بھی منفردتھی
اورسب سے بڑی بات کہ اس اخبارکوپڑھنے کے بعدقاری کویہ محسوس ہوجاتاہے کہ
یہی وہ اخبارہے جومعیاری صحافت کے تحت عوام کی حقیقی نمائندگی کررہا ہے جس
کی وجہ سے روزنامہ اُڑان ہی میرے موقرروزنامہ میں کام کرنے کے خواب کی
تعبیرنظرآنے لگی ۔
جوں جوں دِن گذرتے گئے اُڑان کے چرچے خاص وعام کی زباں پرہوئے کیونکہ
روزنامہ اُڑان نے ابتدائی چھ ماہ میں جوعوامی مقبولیت حاصل کی وہ ریاست
جموں وکشمیرکی صحافت میں بہت ہی کم اخبارات کے حِصّے میں آئی ہے ۔اُڑان
شروع ہوئے چھ ماہ کاہی عرصہ گذراتھاکہ مجھے روزنامہ اُڑان میں ایک پریس
ریلیزدینے کی ضرورت پیش آئی۔پریس ریلیزایک سرکاری محکمے کے آفیسرسے متعلق
تھی جس نے بدعنوانی کرکے میری چھوٹی بہن کومیرٹ پرہونے کے باوجودملازمت
کےلئے منتخب نہ کیاتھاکیونکہ وہ خاتون آفیسرراشی تھی۔ویسے تومیں کئی دوسرے
اخبارات میں راشی آفیسرکی کارستانی کی خبرشائع کرواچکاتھامگرروزنامہ اُڑان
کی مقبولیت کودیکھتے ہوئے میں نے سوچاکہ اس اخبارمیں اگریہ خبرشائع ہوجائے
گی توسرکاری محکمہ ضرورراشی آفیسرکیخلاف کاروائی عمل میں لائے گا۔
روزنامہ اُڑان کامالک کون ہے ؟ اوراس کے عملے میں کون کون شخص شامل ہے کی
جانکاری مجھے نہ تھی ۔ بس اتناکسی سے سناتھاکہ جان محمدجوکہ گوجربکروال
ہوسٹل جموں میں میراسینئرتھااُڑان میں کام کررہاہے۔ میں نے اپنے ایک دوست
سے جان محمدکافون نمبرحاصل کرکے فوراً جان محمدصاحب کوفون کیااوراپنے بارے
میں بتایاکہ ”میں طارق حسین بول رہاہوں جوگوجرہوسٹل جموں میں آپ
کاجونیئرتھا“ ۔ میں نے فون پرہی بتایاکہ میں روزنامہ تسکین میں بحیثیت
کمپیوٹرآپریٹرکام کررہاہوں اورایک مسئلہ درپیش ہے جس سے متعلق پریس ریلیزآپ
کے اخبارروزنامہ ”اُڑان “ میں شائع کرانے کامتمنی ہوں ۔جان صاحب نے بڑے
خلوص کیساتھ بات کی اورکہاکہ” میں کہیں باہرہوں اوردس منٹ میں دفترپہنچوں
گالہذاآپ دس منٹ کے بعدہمارے دفترپہنچ جانا“۔
میں نے اُردومیں ٹائپ کی ہوئی پریس ریلیزہاتھ میں اُٹھائی اوردس منٹ کے
بعد”اُڑان“ کے دفترمیں پہنچ گیا۔دوپہرسواایک بجے کاوقت تھا، دفترمیں اُس
وقت صرف دواشخاص بیٹھے تھے ۔اُنہوں نے مجھ سے پوچھاکہ کیاکام ہے ۔میں نے
پریس ریلیزدکھائی ۔ مجھے بیٹھنے کےلئے کہاگیااورپانی کاگلاس پیش کیاگیا۔
دفترمیں جودوافرادموجودتھے اُن میں سے ایک اخبارکے مدیراعلیٰ جناب اقبال
حسین کاظمی صاحب تھے اوردوسرے شخص اخبارکے نائب مدیر تنویراحمدخطیب صاحب
تھے ۔اقبال صاحب نے اُردومیں ٹائپ شدہ پریس ریلیزدیکھ کرپوچھاکہ آپ کیاکرتے
ہو۔ میں نے صاف صاف کہہ دیاکہ میں تسکین اخبارمیں بطورکمپیوٹرآپریٹرکام
کرتاہوں ۔انہوں نے پریس ریلیزکوتفصیلاً پڑھااورپوچھاکہ حقیقت میں بتاﺅکہ
کیامسئلہ ہے ؟۔ میں نے بتایاکہ میری بہن میرٹ پرہے لیکن راشی آفیسردوسرے
کسی اُمیدوارسے رشوت لے کراُس کوتعینات کررہی ہے جس سے جائزاُمیدوارکی حق
تلفی ہورہی ہے ۔ اقبال صاحب نے کہاکہ پہلے آفیسرکافون نمبرلاﺅ۔میں آپ کی
بھرپورمددکروں گا۔اقبال صاحب نے جس انسان دوست جذبے کے تحت مجھے یقین دہانی
کرائی تھی کہ پہلے نمبرلاﺅمیں بات کروں گااورکوشش کروں گاکہ آپ کیساتھ
ناانصافی نہ ہوپرعملدرآمدکرتے ہوئے آفیسرکانمبرلاکراقبال صاحب کودیا۔اقبال
صاحب نے آفیسرکیساتھ رابطہ کرکے میری مددکرنے کی ہرممکن کوشش کی مگراس وقت
سلیکشن لسٹ کوشائع ہوئے تین چارمہینے ہوچکے تھے اورمعاملہ حل نہ
ہوااورحقدارکواس کاحق نصیب نہ ہوسکا۔
جان صاحب کی وساطت سے اُڑان اخبارکے دفترکیساتھ قائم ہوئے رشتے کے باعث میں
ہفتے میں ایک دومرتبہ وہاںضرورجاتا۔مئی ۔جون ۰۱۰۲ءگرمیوں کے دِن تھے
۔دوپہرکے وقت میں اُڑان دفترمیں گیاوہاں پرتنویرصاحب نے میری ٹائپنگ کی
رفتار کاپتہ لگانے کےلئے میرے ہاتھ میں ایک مضمون تھمادیا، میں نے مضمون
کوٹائپ کردیاجس سے تنویرصاحب نے میری ٹائپنگ کی رفتارکاجائز ہ لے لیا۔
جان صاحب کادِل بہت ہی صاف ہے جوبات کرتے ہیں ہمیشہ دوسرے کے بھلے کی کرتے
ہیں۔ جان صاحب نے پوچھاکہ کتنی تنخواہ لیتے ہو۔ میں نے صاف صاف بتادیاجتنی
تنخواہ میں تسکین سے لے رہاتھا۔مسکراتے ہوئے جان صاحب نے مجھ سے پوچھاکہ
اُڑان میں کام کروگے ۔ میں چونکہ پہلے ہی چاہتاتھاتھاکہ اُڑان میں کام کروں
، دِ ل ہی دِل میں کافی خوش ہوامگرسیدھے طورپرہاں یانہ میں جواب نہ
دیااورکہاکہ سوچ کربتاﺅں گا۔
دوہفتوں کے بعدجب میں گھرگیاہواتھاجان صاحب نے فون کیااورکہاکہ اُڑان کب
جوائن کررہے ہو۔ میں نے کہہ دیاکہ جب آپ کہیں گے ۔ اُنہوں نے کہاکہ ایک
دودِن میں جوائن کرواُڑان کو۔ جان صاحب کی زبانی یہ جملہ سُن کرمیری خوشی
کی انتہانہ رہی کیونکہ میں نے یہ نہیں سوچاتھاکہ اِتنی جلدی مجھے اُڑان میں
کام کرنے کاموقعہ مل جائے گا۔جان صاحب کے کہنے پردوسرے یاتیسرے روزہی میں
نے روزنامہ اُڑان کوجوائن کرلیا۔ واضح رہے کہ روزنامہ تسکین کومیں نے
16اکتوبر2007ءکوجوائن کیاتھااورجون 2010ءکوجان صاحب کی رہنمائی
اورتنویرصاحب کے خلوص کے باعث معیاری صحافت کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے
روزنامہ اُڑان کادامن تھاما۔میں سمجھتاہوں کہ جس دِن میں نے روزنامہ اُڑان
کوجوائن کیاوہ دِن میری زندگی کاسب سے خوش قسمت دِن تھا۔ اُڑان میں کام
کرتے ہوئے تین سال کاعرصہ ہونے کوہے ۔ مجھے جوتجربہ اقبال صاحب ، جان صاحب
،تنویرصاحب اوربیتاب جے پوری کے زیرسایہ اوردیگرساتھیوں بشیراحمدملک صاحب ،
دلاورحسین صاحب ، زاہدبشیرصاحب، محمدشفیع
صاحب،مظفراحمد،رشیداحمداورمحمدعارف کیساتھ کام کرنے سے ملاوہ ہی میری زندگی
کاسرمایہ ہے ۔جان صاحب نے ہرموڑپرمجھے صبروتحمل کادامن تھامے رکھنے کی
تلقین کی اورکام کوجانفشانی اورلگن سے کرنے کی ترغیب دی۔تنویرصاحب اوراقبال
صاحب میرے لیے والدین کادرجہ رکھتے ہیں ۔تنویرصاحب نے ہمیشہ میرے ساتھ
مشفقانہ رویہ رکھا،اقبال صاحب نے بھی بچے کی نظرسے مجھے دیکھا۔ آج میں
اگرکالم لکھنے کے قابل ہواہوں اس میں تنویرصاحب اورجان محمدصاحب کااہم رول
ہے جس کوزندگی بھرفراموش نہ کرسکتاہوں اورنہ کروں گا۔ میں سمجھتاہوں کہ جان
صاحب اورتنویرصاحب نے مجھ پرکبھی کوئی زیادتی نہ کی بلکہ مجھے ایسالگتاہے
کہ میں نے ہی کبھی اُن کادِل دکھایاہوگاکیونکہ میرے اندرقوت برداشت کامادہ
بہت کم ہے جوجان صاحب اورتنویرصاحب کے زیرسایہ کام کرنے کے باعث دِن بدن
بڑھ رہاہے۔ روزنامہ اُڑان سے وابستہ تمام محاسن حضرات کااحسان مندہوں ۔
احسان کالوگ شکریہ اداکرتے ہیں لیکن میں سمجھتاہوں کہ میں روزنامہ اُڑان
اوراس سے وابستہ محاسن کاشکریہ ادانہیں کرسکتاہوں اورنہ کبھی کرپاﺅں گا۔
شکریہ اداکرنے کےلئے اگرمیں لاکھوں صفحات بھی کالے کردوں توبھی کبھی اُن
احسانات کاشکریہ ادانہیں ہوسکے گاجواقبال صاحب ، تنویرصاحب اورجان صاحب نے
مجھ پرکیے ہیں ۔میری زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت روزنامہ اُڑان کی ہے جس
نے مجھے زندگی ،دُنیااورآخرت کوسمجھنے کاموقعہ بخشا۔آج مجھ ناچیزمیں
جوشعورہے ،اخلاق وآداب ہیں وہ ماں باپ کی اُس جفاکشی اورغربت اورمالی
پسماندگی کے خلاف کی گئی جدوجہدکانتیجہ ہے ۔میرے والدین نے غربت کے
باوجودمجھے تعلیم کی طرف گامزن رکھااورکبھی نہیں کہاکہ آپ گھرکاکام کرو۔
والدین کی طرف سے اچھے معاشرے کی طرف دھکیلنے کے نتیجے میں ہی اُڑان کے
منتظمین اورباادب لوگوں تک پہنچ سکا۔
اُڑان کی وساطت سے مجھے جموں یونیورسٹی میں بطورکنٹریکچول ملازم سروس کرتے
ہوئے دوسال مکمل ہونے کوہیں ۔تنویرصاحب نے ہی مجھے اُس وقت کے صدرشعبہ
اُردوجموں یونیورسٹی پروفیسرشہاب عنایت ملک کی زیرسرپرستی جموں یونیورسٹی
میں کام کرنے کاموقعہ فراہم کیا۔ پروفیسرشہاب عنایت ملک میرے محسن
اُستادہیں جن سے میں نے آج تک کوئی باضابطہ کلاس تواُ ن سے نہیں پڑھی مگران
کے اِردگردبیٹھ کرجوکچھ سیکھاوہ بھی میری زندگی کااہم سرمایہ ہے
۔پروفیسرشہاب عنایت ملک صوبہ جموں میں ایک ایسی ادبی شخصیت ہیں جن کی ادبی
خدمات کااعتراف اُن کے دشمنوں نے بھی بڑے بے باکانہ اندازمیں کیاہے۔
پروفیسرشہاب عنایت ملک اس وقت ڈائریکٹرکشتواڑکیمپس ہیں اُنہوں نے اُردوادب
کے تئیں خدمات کاسلسلہ وہاں بھی جاری رکھاہواہے ۔ مجھے شہاب ملک صاحب کی
بہت سی عادات اچھی لگتی ہیں جن میں ایک دواہم یہ ہیں کہ اُن کے دِل میں
جوہوتاہے وہ زبان اورچہرے بھی ہوتاہے ۔اُن کواگرکسی کیساتھ گلہ ہوتاہے تووہ
بڑے بے باکانہ اندازمیں کہتے ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ انسان کی شناخت کرنے
میں کہ کون ساشخص کیساہے اس میں شہاب ملک صاحب کاکوئی ثانی نہیں۔ میں
پروفیسرشہاب عنایت ملک کیساتھ جانفشانی کیساتھ کام کررہاہوں ۔مجھ سے
اگرکوئی کبھی غلطی ہوئی بھی توسامنے ڈانٹاکسی کے ساتھ بات نہیں کی۔ شہاب
عنایت ملک کے احسانات کاشکریہ بھی میں زندگی بھرلاکھوں الفاظ پرمشتمل
مضامین کیساتھ بھی ادانہ کرسکوں گا۔میں اپنے گاﺅں کے اُن تمام لوگوں کابھی
ہمیشہ مشکوررہوں گاجنھوں نے دوران تعلیم مالی مددفراہم کی ۔کپل کوہلی
اورراہل کوہلی جی جن سے میں نے انگلش ٹائپنگ سیکھی کابھی میری زندگی کوصحیح
سمت گامزن کرنے میں اہم رول ہے اُن کابھی شکریہ اداکرتاہوں ۔گلوبل انسٹی
چیوٹ جانی پورکے منتظم پرشوتم بھاردواج کابھی شکریہ اداکرتاہوں جنھوں نے
مجھے اُردوٹائپنگ سیکھنے کی صلاح دی۔ میں بیتاب جے پوری صاحب جوکہ جموں کے
ممتازشاعرہیں کابھی ممنون ہوں جنھوں نے ہمیشہ میری تحریروں کی اصلاح کی
اورمجھے لکھنے کی طرف مائل کیا۔
اللہ تعالیٰ کالاکھ لاکھ احسان مندہوں جس نے زندگی کے ہرموڑپرمیری رہنمائی
کی اورسیدھاراستہ دکھایااوردُعاگوہوں کہ مجھے ایسے ہی مخلص ،دانااور نیک
لوگوں جن کاذکرمیں نے درج بالاسطورمیں کیاہے کے زیرسایہ میں رکھے تاکہ میں
بھی ضرورتمندوں کی رہنمائی کے قابل بن سکوں۔میں سمجھتاہوں کہ انسان ہمت نہ
ہارے،ثابت قدم رہے توخدابارک وتعالیٰ کبھی اُسے مایوس نہیں کرتا،بشرطیکہ ہم
اُسے یادرکھیں اورصبرکادام تھامے رکھیں۔میں بے روزگاری کی مارجھیل رہے اپنے
لاکھوں ساتھیوں کومشورہ دےتاہوں کہ وہ ذہن میں ذرہ بھربھی پریشانی کوجگہ نہ
دیں بلکہ ثابت قدم رہیں اوراپنے قدموں پہ کھڑاہونے کی ہمت رکھیں۔انشااللہ
کامیابی اُن کامقدربن جائےگی۔ |