23 مارچ کو اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں یوم جمہوریہ کے طور پر پہلے کبھی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔
بانیاں پاکستان قائد اعظم و علامہ اقبال کے فلسفہ اور اصولوں کے مطابق
پاکستان کے قیام کی یادگار کو پوری قوم کے سامنے تاریخ دہرائی جاتی تھی ۔پاکستان
کی حقیقی منزل کو پانے کی دعوے ہر حکومت کی جانب سے عزم ہوا کرتا تھا ۔ قوم
کے بچے اسکولوں ، کالجوں اور دیگر تعلیمی درسگاہوں میں یوم جمہوریہ پاکستان
کی مناسبت سے پروگراموں کا انعقادہوا کرتے تھے ۔ لیکن اب تیئس مارچ ، سیاسی
جماعتوں کی پوائنٹ اسکورنگ اور سیاسی جلسے ، جلوسوں کی حد تک محدود ہوگیا
ہے ۔ کسی بھی طالب علم یا تعلیم یافتہ کہلوانے والے سے پوچھ لیں تو ایسے
پاکستان کی یوم جمہوریہ کے بجائے بھارت کی ایشوریہ رائے کے بارے میں زیادہ
معلومات ہونگی۔73سال قبل جب اسلامیان ِبر صغیر نے جناح کی زیر قیادت آل
انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک آزاد اسلامی
مملکت کے قیام کےلئے اپنا انقلابی منشور پیش کیا تو ایسے مقبوضہ ہندوستان
کی پریس ، انگریز حکومت اور کانگریس نے "دیوانے کی بڑ"قرار دیا۔مگر قائد
اعظم محمد علی جناح نے ، مصور پاکستان اقبال کے افکار کی روشنی میں واضح
طور پر دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھ دیا تھا کہ یہ ایک خطے میں محض روایتی
نہیں ، بلکہ انسانی حقوق کی بنیادوں پر عالمی سیاسی مسئلہ ہے۔ جیسے اقوام
وعالم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ حقائق کی روشنی میں مسلم لیگ کے
نکتہ نظر سے اس کا حل نکالنا ناگزیر ہے۔قائد اعظم نے واضح کردیا تھا کہ"
مسلم و ہندومحض مذاہب پر مبنی قومیںنہیں بلکہ معاشرتی لحاظ سے درحقیقت دو
مختلف معاشرتی نظام ہیں۔اس لئے اس حقیقت کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ
دونوں قومیں ملکر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔"قائد اعظم نے اس کی
وضاحت یوں کی کہ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست اور ایک حکومت کی مشترکہ گاڑی
کے دو پہیے بنانے اور انہیں باہمی تعاون کے ساتھ قدم بڑھانے پر آمادہ کرنے
کا یہ نتیجہ ہوگا کہ دونوں کے دلوں میں بے صبری بڑھتی چلی جائے گی ، جو
انجام کار تباہی لائیگی۔"انہوں نے اپنی تقریر میںبر صغیر کے مسلمانوں کےلئے
الگ خطے کی جغرافیائی حدود کا بھی تعین کرکے کہہ دیا تھا ہندوستان کے وسیع
علاقے مسلمانوں کے قبضہ میں ۔ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے مثلا بنگال ،
پنجاب ، سرحد بلوچستان ؛ بالاآخر یہی علاقے پاکستان بن کر دنیا کے نقشے میں
ابھرے ، بدقسمتی سے اندرونی و بیرونی سازشوں نے ملک کو دو لخت کردیا اور
پاکستان کے نظرئےے اور اساس کو دریا ئے بنگال میں ڈبو دیا ۔ آج بھی بد
قسمتی ہے کہ متحدہ قومیت کے پرچارک اپنے قول و فعل کی تضاد کی بنا پر
پاکستان کو ایک بار پھراسی موڑ پر لے آئے ہیں جہاں ، پاکستان سے زیادہ اپنے
فروعی نظریات کو فوقیت دی جاتی ہے۔پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ تو اس
قدر منقسم ہوگئی کہ قائد کی مسلم لیگ کہلانے کے بجائے اپنے اپنے ناموں کی
تشہر کےلئے اربوں روپوں کے اخراجات کرنا ان کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔سیاسی
جماعتوں کی جانب سے قوم کی خدمت کے بجائے اقتدار کی ہوس نے پاکستان کو
شدیدمشکلات میں پھنسادیا ہے جس سے نکلنے کے لئے ہمیں قائد اعظم اور مفکر
پاکستان کی اساس کو اپنانا ہوگا ۔ بلا شبہ پاکستان اب جناح کا وہ پاکستان
نہیں رہا جس کا خواب اقبال نے اور تعبیر جناح نے دی تھی اب کوئی قائد اعظم
نہیں بن سکتا ور نہ ہی مفکر پاکستان اقبال کی خاک پا ۔لیکن جہاں ہم نظریاتی
طور پر مغربی ممالک کی نقول میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ، اگر پاکستان کی
اساسی نظریات کو اپنے منشور میں پہلی ترجیح دےتے ہوئے کوشش کریں تو ممکن ہے
کہ آنے والے نئی نسل پاکستان میں وہ نظام لا سکتی ہے جس کی جدوجہد میں
لاکھوں انسانوں نے اپنی جان کی قربانی دیں۔اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور
انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے قیام کے لئے جتنی قربانی اقلیتی صوبوں میں
رہنے والے ہندوستان کے مسلمانوں نے دیں ، وہ اکثریت پر مبنی مسلمان صرف اس
کا تصور ہی کرسکتے ہیں اور آج ان کی تصاویر دیکھ کر نئی نسل صرف آگاہ
ہوسکتی ہے ۔ لیکن یہ ہمارا المیہ ہے۔پاکستان کے لئے جن لوگوں نے اپنی قیمتی
جانوں اور مال و اسباب کی قربانیاں دیں انھیں ، موجودہ پاکستان میں دیوار
سے لگایا جا رہا ہے ، کبھی انھیں ان کی پرانی نسبت سے یاد کیا جاتا رہا تو
کبھی ان کے لئے نفرت پر مبنی نئے نئے الفاظ تراشے جاتے رہے ، قومیتوں کو
آپس میں لڑانے کی سازشیں ، انتخابی کامیابی کےلئے ناگزیر ہوگئیں۔کسی بھی
سیاسی جماعت سے اختلاف ، ہو سکتا ہے ، کسی بھی جماعت کی سر گرمیوں پر
اعتراض ہوسکتا ہے ، لیکن ان سب معاملات کےلئے عدلیہ کے دروازے کھلے ہیں ،
عوام کے شعور کےلئے میڈیا آزاد ہے ، ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے کوئی
بھی اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو کیا ایسے سمندر برد کردیا جائے ۔ یقینی
طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ الیکشن کے دنوں میں صرف پوائنٹ اسکورنگ کےلئے
بانیاں پاکستان کے خلاف سازشوں سے قائد کی روح اور اقبال کی فکر مذاق کا
نشانہ بن کر تڑپ اٹھی گی۔ بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو ان کے اوراح اب پیشمان
ہونگی کہ یہ کیسے جانشین تھے جنھوں نے پاکستان کی بھاگ دوڑ اور اقتدار پر
قبضے کی خواہش نے دو قومی نظرئےے کو ہی دریا برد کردیا ۔جب پاکستان کی
تقسیم کی سیاسی جماعت کی ناقابل معافی غلطی کو معاف اور فراموش کیا جا سکتا
ہے ، جب قائد اعظم و اقبال کے فرمودات پر مبنی آئین و نظریہ پاکستان سے
اغراض برتنے والوں کو معاف کی جا سکتا ہے ، جب پاکستان بنانے کے گناہ میں
شریک نہ ہونے کے اعلان کرنے والوں کو سروں پر بیٹھایا جاسکتا ، جب پاکستان
کی مخالف ترین جماعت کو دھرنوں ، ریلیوں اور کئی بار اقتدار میں آمرےت کی
گود میں بیٹھ کر عوام پر حکمرانی کا حق دیا جاسکتا ہے ، جب ہندوستان کی
تقسیم کو آج تک تسلیم نہ کرنے والوں کو گلے سے لگایا جاسکتا ہے تو بھائی ،
جنھوں نے پاکستان بنانے کےلئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ، اپنی جاں ، مال
عزت وناموس کو پاکستان پر وار دیا، تو بغض معاویہ میں ان کے ساتھ غیر
مساویانہ سلوک کرکے ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔کہ بچا کچا
پاکستان ، پاکستان کےلئے قربانی دینے والوں کےلئے نہیں بلکہ جنھیں ، گھر
بیٹھے پاکستان جیسی نعمت ملی ، اس پر ان کی اجراہ داری ہے تو ، کم از کم
میں پاکستانی پختون ہونے کے ناطے اس بات کو کبھی بھی ، مرتے دم تک تسلیم
نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے نظریات کےلئے سب کچھ قربان کردینے والے پاکستان
کے مخالف ہوسکتے ہیں ، ہجرت کا درد ، ہم نے سوات ، قبائل سے گھر چھوڑنے پر
محسوس کیا ہی نہیں برداشت بھی کیا ہے اور آج بھی ہمارے رونگٹے اپنی تکالیف
کو یاد کرکے ، کھڑے ہوجاتے ہیں ، ہمارے بچے محض چند سال کی جانے والی ہجرت
کے نفسیاتی سحر سے باہر نہیں نکل سکے،لاشوں کے انبار ہم نے بھی دیکھے ہیں ،
ہم نے بھی اپنے اداروں پر کافی دلخراش اعتراضات کئے ، لیکن جنھوں نے
پاکستان بنایا ، خدارا ان کے درد کو محسوس کریں ۔ انھیں خود سے جدانہ
سمجھیں ، یہی تو سچے پاکستانی ہیں۔کسی بھی جماعت سے سیاسی اختلاف ضرور
رکھیں ،یہ سب کا جمہوری حق ہے ، لیکن یوم پاکستان کے دن اس عہد کی تجدید
کرلیں کہ ہماری قومییت بلاشبہ جداگانہ ہوسکتیں ہیں ، رنگ و نسل ، زبان
مختلف ہوسکتی ہیں ، لیکن با لحاظ امت ہم مسلم ، اور بحیثیت قوم پاکستانی
ہیں۔ ہمیں ایک بار پھر پاکستان کی بقا کےلئے ، پاکستانی بننے کا عہد کرنا
ہوگا ۔ 23 مارچ یوم تجدید عہد وفا ہے۔ |