سب سے طاقت ورمیڈیامسلمانوں کے پاس ہے

میڈیاکوہمیشہ ہدف تنقیدبنانے والے کیااپنے انتہائی طاقت وراورمؤثر میڈیاکوصحیح طورپراستعمال کررہے ہیں؟

جی ہاں!عنوان پڑھ کرچونکیے مت،سب سے زیادہ طاقت ور،مؤثر،پائے داراوربااعتمادمیڈیااگرکسی قوم کے پاس ہے تووہ کوئی اور نہیں مسلمان ہی ہیں۔یہ میڈیاکون ساہے، اس میں زیادہ سرکھپانے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی ہے جس سے مسلمانوں کاروزانہ پانچ وقت واسطہ پڑتاہے ۔اسلام میں اس میڈیائی ادارے کی اہمیت اس قدرزیادہ ہے کہ اس کے بغیرکوئی بھی بستی مسلمانوں کی بستی نہیں کہلاسکتی۔یہ میڈیاہماری روایت اورہماری تہذیب کا استعارہ ہے ،مرکزی استعارہ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان دنیامیں جہاں بھی رہتے ہیں وہاں اس میڈیائی ادارے کاقیام ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی اہمیت،عظمت ،افادیت اورمقصدیت کااس سے بڑاثبو ت اورکیاہوسکتاہے کہ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت فرمائی توسب سے پہلے جوکام کیاوہ اسی میڈیاہاؤس کاقیام تھا ۔اسلام میں اس کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ اس کے بغیرکسی مسلم بستی کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتااوراس سے رشتہ مستحکم کیے بغیر کوئی مسلمان ہوہی نہیں سکتا۔جانتے ہوکہ اس میڈیاکانام کیاہے ؟ اس میڈیاکانام ہے مسجداورجمعہ کے خطابات۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ نماز پڑھنے کی تاکید کے ساتھ ساتھ جماعت قائم کرنے پربھی بہت زور دیا گیا ہے اورحدیث شریف میں قیام جماعت کے ثواب کو عام نمازوں کے مقابلے ۲۷گناتک بڑھایاگیاہے۔جمعہ کی نمازکے لیے مزیدتاکیدکی گئی ہے اوراپنے کام کاج چھوڑ کر مسجدکی طرف جانے کاحکم دیاگیاہے ۔اس کی ایک اہم ترین وجہ جمعہ کے وہ خطابات ہیں جو جمعہ سے قبل امام صاحب پیش کرتے ہیں ۔ در اصل یہی وہ خطابات ہیں جواسلام کاطاقت ور،بااعتماداورمؤثرترین میڈیاکی حیثیت رکھتے ہیں۔آج کی طرح جب جدیدذرائع ابلاغ انٹرنیٹ ، اخبارات ،مائیکروفون ،ٹیلی فون،موبائل اورنت نئی میڈیائی ایجادات نہیں تھیں توجمعہ کے یہی خطابات تھے جوپیغام رسانی کاذریعہ تھے۔ مساجد کے منبرسے نشرہونے والے پیغامات تھے جومیڈیا کاکردار نبھاتے تھے۔جوپیغام یہاں سے دیاجاتاتھا وہ پوری دنیامیں پھیل جاتاتھا۔

مساجد کے منبر ومحراب نے نمازیوں (مسلمانوں) کے باطن کو ستھرا کیا اور ان کے رگ وریشے میں اسلامی تعلیمات کی روح اتاردی۔ذہن پرزوردے کرسوچیں توان کی ایک اورحیثیت نمایاں ہوگی ۔ لوگ خصوصاً عورتیں اپنے چہرے کی جھریاں ختم کرنے کے لیے طرح طرح کی چیزیں خریدتی ہیں بیوٹی پارلر جاتی ہیں مگران کے باطن کاچہرہ توجھریوں سے بھرارہتاہے ۔لیکن یہ مساجد ان کاباطن خوبصورت بناتی ہیں اورصرف باطن ہی نہیں ان کے ظاہری جمال کوبھی دیدہ زیب کردیتی ہیں اورچہرے کو پروقار اورپرنوربنادیتی ہیں گویایہ مسجدیں مسلمانوں کے لیے بیوٹی پارلر کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

آج کی مساجد ظاہری رنگ روغن اور آرائش وزیبائش کے لحاظ سے کل کی مساجد سے کئی درجے اعلیٰ ہیں اورآج تومساجدمیں مائیکروفون بھی لگے ہوئے ہیں۔مگر آخر کیا وجہ ہے کہ ان سے وہ کام نہیں ہورپا ہے جو کل کی چھپر والی،ٹوٹی پھوٹی اور بغیر مائیکروفون والی مساجد سے ہوتا تھا ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے خالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ مسلمان نماز کے تئیں حد درجہ بے رغبتی کے باوجود جمعہ وغیرہ میں اتنے کثیر تعداد میں حاضر ہوہی جاتے ہیں کہ مساجد کا صحن تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگتاہے۔ کل کی مساجد میں اگرچہ مسلمان اتنی بڑی تعداد میں شریک نہ ہوتے تھے مگر اہم بات یہ تھی کہ جتنے بھی مسلما ن تھے ، مساجد میں پانچوں وقت اپناداخلہ لازمی تصورکرتے تھے۔

یہ ائمہ مساجد جمعہ کے خطابات میں نمازیوں کی تربیت کرتے، انہیں عقلاً ونقلاً دین کی باتیں سمجھاتے اوران کی اجڑی ہوئی روح کی بستی میں ایسا چراغاں کرتے کہ پھر مسلمان ساری زندگی اپنی چراغاں روح کا جشن مناتے اور اس جشن چراغاں میں ان لوگوں کو بھی شامل کرتے جن کی روحیں باطل کی اتھاہ تاریکیوں میں بھٹک رہی ہوتیں۔ پچھلے زمانے اور اس زمانے پر غور کریں تو بظاہر نت نئی ایجادات اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کے اعتبار سے یہ دور اُس دور سے کئی گنا طاقت ور ہے ۔آج ہمارے پاس انٹرنیٹ ہے، اخبارات ہیں، ٹیلی فون ہے، موبائیل ہے، ٹی وی ہے، وی ڈیو ہے، مائیکروفون ہے جس کے ذریعے آج گھر گھر اپناپیغام پہنچایا جارہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے وسائل ہمیں میسر ہونے کے باوجود اسلام گھر گھر پہنچ جاتا، مسلمان صحیح مسلمان بن جاتا اور ہماری وہ حالت نہ ہوتی جہاں ہم پہنچ گئے ہیں۔ اس کے برعکس اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو وہاں اس طرح کی کوئی چیز نہ تھی مگرپھربھی اسلام شرق وغرب کوبقعۂ نوربنارہاتھا۔ جو لوگ مسجد میں جمعہ کی جماعت یا کسی محفل وعظ میں شریک ہوتے بس انہی کو معلومات ہوجاتی باقی لوگ راست طور سے ان پندوموعظت سے محروم ہی رہتے۔ ہاں، ایک چیز جو نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں عطافرمائی تھی،وہ حدیث شریف فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ تھی ۔اس حدیث کااثرتھاکہ محفل میں شریک رہنے والے افراد غیر حاضر افراد کویہ معلومات پہنچا دیا کرتے تھے اوراس طرح سے پورامعاشرہ اپنے ذہن وفکر کو معطر رکھتاتھا۔یہ حدیث اگرچہ صرف تین لفظوں پرمشتمل ہے مگرا س میں معانی کے کئی جہاں آبادہیں۔اگرتہ درتہ اترکردیکھیں تواس سے میڈیاکی اہمیت کااندازہ ہوتاہے۔ا س میں پیغامات کے ارسال کے لیے جدیدمیڈیائی ایجادات کی رہنمائی بھی ہے۔بہرحال یہ ہماراموضوع نہیں ہے، اس پرگفتگو پھرکبھی ۔ان شاء اﷲ

ہم اپنے عوام وخواص کوروزانہ یہ شکوہ کرتے سنتے ہیں کہ میڈیا ہمارا دشمن ہے ، ہماری خبریں نہیں شائع کرتا، انٹرنیٹ اور اخبارات اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط تصویر بنا کر پیش کرتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔سوال یہ ہے کہ جومیڈیاہمیں میسرہے ہم ا س کاکتناصحیح استعمال کررہے ہیں؟ دراصل ہمیں اپنی ناکامیوں کاباردوسروں کے دوش پر ڈالنے اوراپناپلہ جھاڑنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔یہ جدید ذرائع ابلاغ ،یہ ٹیکنالوجی آج جس شکل میں ہے ، مستقبل میں اس سے بھی زیادہ ماڈرن اورتیزتربننے کے امکانات رکھتی ہے۔ دنیا میں ایک سے ایک ذرائع آئے اور آئیں گے مگر مساجدکے منبران اورجمعہ کے خطابات اتنا بڑا میڈیا ہے کہ دنیا کا بڑا سے بڑااورطاقت ور میڈیا بھی اس کا ہمسر نہیں ہوسکتا۔میڈیاچاہے جتنا بھی طاقت ورہوجائے اوراس کے اثرات کادائرہ چاہے کتنابھی وسیع ہوجائے مگریہ میڈیاجسے ہم مسجدی میڈیاکانام دے رہے ہیں،ا س کے اثرات کبھی مدھم پڑنے والے نہیں۔ دیگرمیڈیائی اداروں سے مستفیدہونے کے لیے الگ سے وقت نکالناہوگاکیوں کہ وہ دین کاحصہ نہیں ہیں،ان سے استفادے کااسلام نے کوئی حکم نہیں دیاہے ۔ برخلاف مسجدی میڈیاکے کہ یہ ہمارے دین اورہماری روایت کاحصہ ہے ا س لیے مسلمان منازل ومناصب کی آخری سرحدتک پہنچ جائے مگراسے جمعہ کی نماز کے لیے مسجدکے درودیوارکے بوسے تولینے ہی پڑیں گے۔

کبھی آپ نے غورکیاکہ بہت مختصرسی مدت میں اسلام بحر وبر کی وسعتوں میں کیوں کر پھیل گیا؟حالانکہ اس زمانے میں آج کی طرح کوئی میڈیانہیں تھا کہ ایک جگہ کی باتیں بیک وقت دوسری جگہ پہنچائی جاسکیں توپھراتنابڑا انقلاب کیوں کر برپا ہوا؟ آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ صرف مساجد اور خطبۂ جمعہ کا کرشمہ تھا۔ جمعہ کے خطابات امام صاحب اس انداز سے دیتے کہ مقتدیوں کی دینی ضرورتیں بھی پوری ہوجاتیں اور دنیوی تقاضے بھی مکمل ہوجاتے۔ جمعہ کے خطبے ان کی دینی اور دنیوی ضرورتوں کے کفیل تھے۔آج المیہ یہ ہے کہ اب سب کچھ ہورہا ہے بس یہی نہیں ہورہا ہے۔ جمعہ کے خطبے تاثیر سے یکسر خالی ہیں، الاماشاء اﷲ ۔اس لیے وہ اثرات بھی باقی نہ رہے کہ معاشرے کودینی ودینوی مسائل سے آسودگی میسرہو۔ یہ شکایت عام ہے کہ وقت کی فتارکے ساتھ ساتھ مسلمان دین سے دورہوتے جارہے ہیں اورمادیت کی گرد میں اتنے اٹے ہوئے ہیں کہ ان کے دین اوران کی روایت کی شناخت مشکل ہوگئی ہے ۔اس کاحل صرف یہی ہے کہ مسجدی میڈیاکوصحیح طورپراستعمال کیاجائے شکوے کے انبارخودبخودختم ہوجائیں گے۔

عمومی طورپر جمعہ کے خطبے کے دوران گنے چنے چندموضوعات کی گفتگوکو سماعتیں اپنے اوپربوجھ محسوس کرتی ہیں اورسامعین اس تکرارسے اکتا جاتے ہیں ۔ ایسی گفتگو بہت کم ہوتی ہے جو ذہن وفکر کو اپیل کرسکے اورسامعین بصدشوق اپنی سماعتوں کواس کے حوالے کردیں ۔میں ذاتی طور پر ایسے پچاسیوں اماموں کو جانتاہوں جو جمعہ کے خطبات میں بھی خطابت کے وہی جوہر دکھا تے ہیں جو کسی جلسۂ عام میں دکھائے جاتے ہیں۔ ان کوکون سمجھائے کہ حضرت!یہ جلسہ گاہ نہیں تربیت گاہ ہے۔ امام صاحبان کے جذبۂ اخلاص کوسلام مگر یہ جذبہ صحیح معنوں میں صداقت سے اسی وقت ہم کنار ہو سکے گا جب اس کے اثرات مرتب ہوں اور مسلمانوں کی زندگیوں میں خوش گوارتبدیلی نظر آئے۔ دوسری بڑی اہم بات یہ ہے کہ مساجدصرف دینی تربیت اور دینی ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ امت مسلمہ کی ہر طرح کی ضرورتیں اس سے متعلق ہیں ۔چاہے وہ کسی طرح کا بھی مسئلہ ہو ۔ہر مسئلے میں مسلمانوں کی رہ نمائی جمعہ کے خطابات میں ہوناضروری ہے۔یہ اس وقت ہوگا جب جمعہ کے امام صاحب دین کی گہری معلومات کے ساتھ عصری احوال سے بھی اچھی طرح باخبر ہوں گے ۔ عہد رسالت کی تاریخ گواہ ہے کہ مسجدوں سے مسلمانوں کی ہر طرح کی رہنمائی ہوتی رہی ہے۔ اگر ہم نے صرف نمازوں کے لیے انہیں مخصوص کر رکھا ہے تو یہ ہمارا اپنا قصور ہے۔ ائمۂ مساجدمیں نہ جانے کتنے ایسے ہیں جوعصری احوال سے باخبرتوکیادینی کتابیں بھی شوق سے نہیں پڑھتے ۔یہی ہمارے معاشرے کاسب سے خطرناک سانحہ ہے اورہمارے تہذیبی زوال کی علامت بھی۔ ہم نے مسجد کی امامت کو بہت معمولی چیز سمجھ لیا ہے۔ ۹۰ فیصدی عوام بس پانچ وقت کی نمازپڑھانے والے کوامام صاحب سمجھ لیتے ہیں۔ اکثرایساہوتا ہے کہ امامت کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کیاجاتاہے جو معمولی طور پر پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ گاؤں قصبوں میں تواوربھی زیادہ خراب صورت حال ہے۔ ایسے انسان کاتقررکریں گے جوان کی محدودمعلومات کے مطابق بس نمازپڑھا سکے۔چاہے صحیح معنوں میں وہ نماز پڑھانے کے لائق ہوکہ نہ ہو۔ مجھے انصاف سے بتائیے کہ کیا ایسا نہیں ہے؟

غالباًحضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جس کو بازار کے بھاؤ معلوم نہ ہوں وہ مسجدوں کی امامت نہ کرے۔ کیا حضرت عمر نے یہ جملہ یوں ہی کہہ دیاتھا؟۔ اس دور میں بھی ایسے سیکڑوں عوام نہیں خواص مل جائیں گے جو جمعہ کے خطبوں میں کسی دنیاوی مسئلے میں رہ نمائی کو غیر ضرور ی اور خلاف اسلام جیسی کوئی مترادف چیز سمجھتے ہیں۔ ’’دورکعت کے امام‘‘ کے متعلق ڈاکٹر اقبال کا شعر ضرور بہت سارے لوگوں کو کھٹکتا ہوگا مگر واقعہ یہ ہے کہ اس شعر میں بہت بڑا سبق ہے، بہت بڑا پیغام بھی،ہمارے تہذیبی زوال کانوحہ بھی اورناخداؤں پرطنزلطیف بھی۔ آپ اگر باشعور ہیں تو نظر اٹھا کر دیکھیے کہ مساجد میں جمعہ کے خطبوں کے لیے ایسے کتنے حضرات ہیں جو عوام کی صحیح ڈھنگ سے تربیت کررہے ہیں۔؟جب حالات یہ ہوں تو پھر اچھے رزلٹ کی امیدنہ کی جائے توبہتر ہے۔ امام کا مطلب رہ نما ہے اور یہ رہ نمائی کسی ایک میں نہیں بلکہ دینی، فکری، سماجی، سیاسی، معاشرتی، صحافتی، زراعتی، تدریسی، تصنیفی، تجارتی، تعلیمی اورتربیتی ہر طرح کی رہ نمائی کومحیط ہے۔امامت اورقیادت کامطلب صرف دین میں قیادت وامامت نہیں بلکہ ہرطرح کے مسائل قیادت کے ذیل میں آتے ہیں۔ اگر امام صاحب رہ نمائی نہیں کریں گے تو عوام کہاں جائیں گے۔؟ بڑا سے بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور صحیح رہ نمائی نہ ہونے کے باعث بے چارے عوام اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے ذمے دار کون لوگ ہیں۔؟ لہٰذا اب یہ ڈھنڈورا بند کیا جائے کہ میڈیا ہمارا دشمن ہے، یہ میڈیا ہمارے خلاف خبریں شائع کرتاہے ۔ بین الاقوامی سطح پراسلام اورمسلمانوں کے متعلق جب بھی کوئی مسئلہ پیداہوتاہے توجدیدذرائع ابلاغ ہمیشہ ہماری منفی تصویرپیش کرتاہے اورہم اپنے پاس طاقت ور میڈیاموجودہونے کے باوجودا س کاصحیح ڈھنگ سے استعمال نہیں کر تے تواس کے ذمے دار ہم ہی ہیں،صرف ہم ۔

یقین جانیے عوام پیاسی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی تربیت کی جائے ،اس کی اصلاح ہو مگر اصلاح کا انداز بھی تو ایسا ہو جو ان کے دل میں گھر کر جائے اورجسے مان لینے اوراس پرعمل کرنے میں ان کے لیے چارہ ہی نہ ہو۔ ہر ہفتے میں جمعے کے خطبے کا نظام یوں ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر ہفتے مسلمانوں کی ٹریننگ ہو تاکہ معاشرے کا کوئی بھی مسئلہ ان کی پریشانی کا باعث نہ بن جائے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ دوسری اقوام کے پاس بھی توعبادت خانے ہیں جہاں وہ جمع ہوتے ہیں اور اپنی روحانی غذا حاصل کرتے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے معابد میں اس طرح کا کوئی نظام نہیں ہے جو ہمارے پاس ہے۔ آپ خود غور فرمائیے کہ مسلمانوں پر ہر پنج گانہ جماعت ، پھر ہفتے میں جمعہ کی نماز اور پھر سال بھر میں دو بار عیدین کی نماز کو لازم وضروری قرار دیاگیا۔ جماعت میں کم افراد شریک ہوتے ہیں اس سے بڑا اجتماع جمعہ کی نماز میں ہوتا ہے اور پھر اس سے بڑا اجتماع عیدین کے دن عید گاہ میں ہوتاہے جہاں شہرکے سارے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور پھر اس سے بھی بڑا اجتماع حج کے موقع پر ہوتاہے جہاں پوری دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ کیا یہ ساری چیزیں بس یوں ہی اتفاقی طورپراسلام میں شامل ہوگئی ہیں؟ کیا ان کے کچھ مقاصد نہیں؟کیاان کاکوئی پیغام نہیں؟ ان کا مقصد مسلم معاشرے میں اسلام کا پیغام پہنچانا ، مسائل کا حل تلاش کرنا، ان کی روح کا تذکیہ کرنا اور انہیں آگے بڑھنے کے لیے فکری رہ نمائی ہے۔ اگر یہ ساری چیزیں مفقود ہیں تو ہم اپنے اسلامی میڈیاسے انصاف نہیں کررہے ہیں۔اسے دانش مندی نہیں کہتے کہ میڈیاہمارے خلاف حربیں استعمال کرے اورہم اپنے مسجدی میڈیاکے صحیح استعمال تودرکناراس کی اہمیت سے بھی واقف نہ ہوں۔

مسجد کے منبرومحراب کی قدروقیمت اگر سمجھ لی جائے تو یہ اخبارات، انٹرنیٹ، وی ڈیو اور، ٹی وی اسکرین، پروجیکٹر اور نت نئی میڈیائی ایجادات اس کے فوائد کے سامنے بونی اور کمتر نظر آئیں گی۔ بس ضرورت صرف اتنی ہے کہ جمعہ کے امام صاحبان حالات پر نظر رکھیں اور دین کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور پھر اس کے مطابق ان کی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیں۔ خدارا یہ تصور اپنے ذہن سے کھرچ کھرچ کر نکال دیں کہ نمازوں کی امامت کے لیے گاؤں کے کسی کم پڑھے لکھے اوردین داربوڑھے شخص کو رکھ لینا کافی ہے۔ امامت کا تصور حد درجہ وسیع ہے اور اسلام نے اسے نہایت اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔ یہ عہدہ کم پڑھے لکھے لوگوں کا نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ، مخلص اور دیانت داراشخاص کاہے۔ اگر ان حیثیتوں کے علاوہ کوئی اس عظیم منصب پر فائز ہے تو یقین کیجیے کہ اس عہدے کا تقاضاپوراہورہاہے اورنہ ہم سے اپنی ذمے داریاں پوری ہورہی ہیں۔

بڑے دردسے یہ بات کہی جارہی ہے آج مسلمان خاص طورپرنوجوان جمعہ کے خطابات سے زیادہ ٹی وی اوروی ڈیوسے نشرہونے والی تقریروں کوترجیح دیتاہے ۔ان تقریروں کے فوائدیانقصانات سے قطع نظراس کے اسباب پرغورکریں تواس کاسراانہی باتوں سے مل جائے گاجس کاہم اوپرتذکرہ کرچکے ہیں۔

جمعہ کے امام صاحبان جمعہ کے خطابات کے لیے سب سے پہلے موضوعات کا انتخاب کریں اور ان کی ضروریات کے مطابق ہر طرح کی غذافراہم کریں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس عظیم الشان میڈیا اور زبردست پلیٹ فارم جو اسلام میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، کے لیے امامت پرمنتخب کرنے سے پہلے امام صاحب کی تربیت کاانتظام کیاجائے۔یہ تربیت متبحراورجہاں دیدہ علمااوردانشوروں کی نگرانی میں ہو۔مسلمانوں کایہ میڈیانہایت بنیادی ہے کہ اس کے بغیراسلام کی عمارت صحیح سلامت نہیں رہ سکتی۔ اگر اس میڈیا کو بااثر، پائے دار اور مزید طاقت ور بنانا ہے تو اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہمارے بعض امام صاحبان کو شاید اس میں اپنی ہتک عزت محسوس ہو مگر واقعہ یہ ہے کہ اسی میں ان کی عزت وعظمت ہے اوران کے لیے اس سے بڑی سعادت کی بات کیاہوگی کہ ان کے ذریعے مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کاکام ہوسکے گا۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آج کی میڈیائی ایجادات کتنی بھی بااثر ہوجائیں وہ با اعتماد نہیں ہوسکتیں مگر ہمارا میڈیا یعنی مساجد کے منبران ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ بااعتماد بھی ہیں۔ کیونکہ یہاں سے جو چیز نشر ہوگی وہ کسی عالم دین کی زبانی ہوگی،یہ کسی بھی طرح جھوٹی نہیں ہوسکتی ۔جب کہ دیگر میڈیا ئی اداروں میں ایسانہیں ہے۔اس کے تجربات سے ہرباشعورشخص واقف ہے کہ میڈیا میں بعض ایسی خبریں آتی ہیں جو مشکوک ہوتی ہیں اور عوام ان پر مشکل سے یقین کرتے ہیں مگر مساجد کے میڈیا پر عوام آنکھ بند کرکے اعتماد کرتے ہیں اورکیوں یقین نہ کریں کہ یہ نشریات ان کے دینی قائدکی زبانی اداکی جاتی ہیں ۔ اس لیے اماموں کی تربیت کے بعد ہی ایسے علما کا انتخاب ہو جو اس اہم مقصد کے لیے موزوں ہوں۔اخبارات میں آئے دن ا س طرح کی تجاویزاورلائحہ عمل پیش کیے جاتے ہیں۔خداکرے یہ لائحہ عمل،عمل سے قریب بھی ہوجائیں۔

مساجد میں جس وقت جمعہ کے خطابات ہورہے ہوں تو انتظامیہ کی دینی واخلاقی ذمے داری ہے کہ مائکروفون کھول دیں تاکہ محلے والے، جہاں تک آواز جاسکے اور خاص طور پر گھر کی خواتین تک پیغام پہنچ سکے۔ لیکن اس بات کا اعادہ ایک بار پھر ضروری ہے کہ ان خطابات میں موضوعاتی تکرار بالکل نہ ہو۔ آپ یقین کیجیے کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ ہمارے امام صاحب کوئی نئی چیزنہیں بتاتے اور اختلافی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس لیے یاتو لوگ صرف جماعت کے وقت پہنچتے ہیں یا اگر پہنچتے بھی ہیں تو مجبوراً سن لیتے ہیں اورمسجد سے نکلنے کے بعد سنی ہوئی ساری باتیں مسجد کے دروازے پر ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایک طرف تو ہماری یہ شکایت کہ مسلمان مساجد کارخ نہیں کرتے، پابندی کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے اور جمعہ کے خطبات میں صحیح ڈھنگ سے شریک نہیں ہوتے مگر سوال توپھریہی ہے کہ جب تک ذہن وفکرکواپیل کرنے والی باتیں گوش گزارنہیں کی جائیں گی اس وقت تک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شکوے مزیدتوانائی اختیار کرتے جائیں گے ۔جمعے کی نماز سے قبل آدھے یا ایک گھنٹے کا جو وقت ہے وہ بہت قیمتی ہے ۔یہ اتناقیمتی ہے کہ اگر اس کا صحیح استعمال ہوتو یہی آدھا گھنٹہ یہی چندمنٹ سالوں پر بھاری ہوسکتے ہیں۔مقتدی تو آئیں گے ہی چاہے آپ انہیں کچھ بھی بتائیں ۔آپ کو تووقت استعمال کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔

قصہ مختصر ٹیکنالوجی کتنی بھی طاقت ور ہوجائے مگر وہ مسجدی میڈیا کے ہم پلہ نہیں ہوسکتی اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین، ناظرین اورقارئین کا وہ اعتماد تو کبھی بھی حاصل کرہی نہیں سکتی جو مسجدی میڈیا کے ذریعے حاصل ہوتاہے۔ اس لیے خدارا شکوہ سنج ہونے ،واویلا کرنے، الزام تراشیاں کرنے کے بجائے اس اہم ترین میڈیا کو استعمال کیجیے ۔پھر دیکھیے دوسری میڈیائی ایجادات کا اثر جوہمارے معاشرے پر پڑ رہا ہے، بہت حد تک کم ہوجائے گااورہم اپنے شاندارماضی اورماضی کی شاندارروایات کی بہاروں سے لطف اندوزہوسکیں گے۔ان شاء اﷲ ۔
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 189342 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More