دہشت گردی کے گرداب میں پھنسے
پاکستان کو ایک نئے عزم ضرورت
73ویں یوم پاکستان پر ابن شمسی کی خصوصی تحریر
آج ان تاریخی گھڑیوں کو گزرے73سال ہو گئے جب لاہور کے اقبال پارک میں
برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کا عزم کیا
تھا۔انہوں نے عہد و پیمان کی اس شمع کو اپنے خون سے روشن کرکے اس وقت تک
جلائے رکھا جب تک آزادی کی منزل حاصل نہ کرلی۔خواب سے تعبیر تک کا یہ سفر
بڑا کٹھن اور صبر آزماتھا۔انہوں نے نہ صرف انگریزوں کے ظلم و جبر کا مقابلہ
کیا بلکہ ہندوﺅں کی سازشوں اور مکاریوں کا بھی خوب مقابلہ کیا۔ہندو بنیا
بظاہر اس جدوجہد کو مشترکہ گردانتالیکن درپردہ مسلمانوں کو غلام بنانے کی
سازشوں میں انگریزوں سے گٹھ جوڑ کئے ہوئے تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ
کو ہندوﺅں کی اس سازش کا اسی وقت ادراک ہوگیا تھا جب انہوں نے کانگریس میں
شمولیت اختیار کی تھی۔ ہندو ﺅں کوہرگز گوارا نہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان
ایک آزاد اور خود مختار وطن میں آزادی کی سانسیںلے سکیں۔ 23مارچ 1940ءکو جب
مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تو اسی وقت ان کے سینوںپر سانپ
لوٹنا شروع ہوگئے تھے۔انہوں نے قیام پاکستان میں بہت روڑھے اٹکائے مگر قدرت
پاکستان کو دنیا کے نقشے پر لانے کا فیصلہ کرچکی تھی۔
برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد فضاﺅں میں سانس لینے کی تڑپ، لگن اور سب سے بڑھ
کر قربانی کے جذبے کو قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی پرجوش و پرخلوص قیادت
میسر تھی۔ قائد کے بلا جیسے اعتماد کے سامنے انگریزوں اور ہندوﺅں کی تمام
سازشیںدم توڑگئیںاور مسلمان اپنی منزل کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ قائد اعظم نے
برصغیر کے مسلمانوں کو ایسی سیاسی بصیرت عطا کی کہ وہ نہتے ہی دنیا کی سپر
پاور کے سامنے ڈٹ گئے۔ قائداعظم نے قوم کو اتحاد، تنظیم اور ڈسپلن کے وہ
ہتھیار دیئے جس کے سامنے دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اورتمام
ہتھیاروں سے لیس دنیا کی سپر پاوران کے عزم کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔قائد اعظم
نے فرمایا: ” مسلمانوں کو اب یہ معلوم ہوتا چاہئے کہ پاکستان ہماری طاقت سے
حاصل ہوگااور وہ طاقت ہمارا اتحاد و تنظیم ڈسپلن اور کریکٹر ہے۔ ان خصائص
کی نشونما اور حصول کسی قوم کو صحت مند اور مضبوط بناتا ہے۔ کوئی قوم اس
وقت تک آزاد نہیں ہوسکتی یااپنی زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکتی جب تک اس کی
تنظیم میں انتشار ہو اس کا ڈسلپن کمزور اور اس کے عوام پست ہمت ہوں۔ لگاتار
محنت اور قربانی کے لئے آمادگی کے بغیر آج زندگی اور موت کی جدوجہد میں
کامیابی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مضبوط تنظیم اور ڈسپلن کے
بغیرہماری قوت مدافعت کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے اگر خدانخواستہ کبھی ایسا
ہوا تو اس نیم براعظم میں دس کروڑ مسلمانوں کے لئے امید کی کوئی کرن باقی
نہیں رہ جاتی۔“
پاکستان نے جب ترقی کی منزل حاصل کی تو شدید بے سروسامانی کی کیفیت
تھی۔کوئی ادارہ فعال اور نہ کوئی سسٹم رواں تھا۔اس عجیب بے ترتیبی اور
نامساعد حالات کے پس میں ہندو و انگریز رہنماﺅں سمیت مختلف عالمی مبصرین کا
یہی خیال تھا کہ یہ نوخیز مملکت شاید چند سال ہی اپنا آزادانہ وجود برقرار
رکھ سکے۔ اکثریت کا خیال تھا کہ یہ کٹا پھٹا پاکستان زیادہ دیر تک بھارت سے
الگ نہیں رہ سکے گاچنانچہ تقسیم ہند کے فوراََ بعد گاندھی نے ایک ”پرارتھنا
سبھا “ میں کہا کہ ” مسلم لیگ جلد ہی بھارت میں واپس آنے کے لئے کہے گی“ ۔
مولانا آزاد کے بقول ( ایک اور ہندو لیڈر) آنجہانی پٹیل نے اس یقین کا
اظہار کیا تھا کہ ” پاکستان زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا، اور مسلم
لیگ کو پاکستان کو سنبھالتے وقت ایسا وقت ملے گا جو وہ کبھی نہیں بھلا سکے
گی۔“ ہندﺅوں کے ایک کے ایک سیاسی مفکر آنجہانی وی پی مینن نے قیام پاکستان
کے فوراََ بعد بڑے وثوق سے کہا تھا کہ ” ہمارا ملک دراصل متحد ہونے کے لئے
تقسیم ہوا ہے۔“ لیکن قائد اعظم کی بصیرت اور مسلمانوں کے جوش و جذبہ نے ان
کے تمام خیالات کو محض قیاس آرائیاں ثابت کردیا۔ہندﺅوں کے انہی انتقامی
عزائم کو مدنظر رکھتے ہوئے، بانی پاکستان قائد اعظم ؒ نے یکم نومبر 1947ءکو
ہندوستان میں انگریزوں کے نمائندہ گورنر ماﺅنٹ بیٹن سے واشگاف انداز میں
کہا تھا کہ ” مجھے یہ بالکل صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت پاکستان کی پیدائش ہی
پر اس کا گلا دبا کر اسے موت کی نیند سلا دینا چاہتا ہے۔“
قائد اعظم کا یہ بیان اس وقت سچ ثابت ہوا جب بٹوارے کے وقت پاکستان کے حصے
میں محض ایک زمین کے ٹکڑے کے سوا کچھ بھی نہ آیا۔اسلحہ نہ روپیہ، اثاثہ نہ
سازوسامان لیکن ان حالات میں اتحاد، ایمان اور تنظیم کا اصول پاکستان کو
استحکام بخشتا گیا۔آزادی کے روز قائد اعظم ؒ نے قوم سے خطاب میں اسی سنہرے
اصول کو استحکام پاکستان کارازپاکستان کے باسیوں کا نصب العین اور کامیابی
کی کنجی بتایا: ” اگرچہ افق پر تاریکی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، لیکن میں آپ
سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے میں تحریک پاکستان جیسا مومنانہ جذبہ پیدا کریں۔
حوصلے اور امید کے ساتھ اپنا کام کئے جائیں۔ اسلام کی تاریخ مشکلات اور
پریشانیوں کے مقابلے میں عزم و ہمت ، ایثار اور غیرت مندی کی مثالوں سے
بھری پڑی ہے۔ آپ بھی مشکلوں اور رکاوٹوں کے باوجودآگے بڑھتے جائیں۔ ایک
ایسی متحدہ قوم جو عظیم ارادے کی مالک ہو، عظیم اسلامی تہذیب و تاریخ کی
وارث ہو، اسے بدترین حالات میں کسی بھی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئےکیونکہ
جب رب کریم نے ہمیں آزادی کا نشان پاکستان عطا فرمایا، وہ اس کے دفاع،
سلامتی، استحکام اور خوشحالی کا سامان بھی پیدا فرمائے گا۔ اب آپ کا فرض ہے
کہ آپ جہاں بھی ہیں، جو کچھ بھی ہیں، کام ، کام، کام اور دیانتداری سے اپنا
کام کئے جائیں اور اپنا یہ نصب العین کبھی نہ بھولیں: اتحاد، ایمان اور
تنظیم۔ انشاءاللہ تعالیٰ کامیابی پاکستان اور اہل پاکستان کا مقدر ہے۔“
آج2013ءمیں جب پاکستان پھر مشکلات کی ایک گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ ازلی
دشمن بھارت کی سازشیں عروج پر ہیں۔ آج بھی وہ پاکستان کو تباہ کرنے کا خواب
دیکھ رہا ہے۔ پاکستان نے ان بھارتی سازشوں کو بھانپتے ہوئے خطے میں دفاعی
توازن برقرار رکھنے کی پالیسی مرتب کی اور اس کو جاری و ساری رکھا۔ اسی
پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت کو پاکستان کی جدید اسلحے سے لیس بہادر
افواج کی موجودگی میں اکھنڈ بھارت کی تعبیر نظر نہیں آتی۔ قیام پاکستان کے
وقت ہمارے پاس پیپر پن تک نہیں تھے آج پاکستان جدید ترین میزائلوں سے لیس
ہے۔ آج پاکستان اسلامی دنیا کی واحد اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے طور
پرتسلیم کیا جاتا ہے۔ ہم دفاعی خود کفالت کی منزل حاصل کرکے خطے میں دفاعی
توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان
کو تباہ کرنے کیلئے دوسرا طریقہ اپنا لیا ہے۔ بھارت نے طاقت کی بجائے
امریکہ اور اسرائیل کی معاونت سے پاکستان کو کمزور کرنے کا ایک ایسا جال
بنا ہے کہ ہمارے اپنے ہی لوگ اس کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی
کا نام نہاد عفریت ہمارے وجود کو نگلتا جارہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ
لوگ خود کو پاکستانی اور مسلمان کہتے ہیں اور پاکستان اور اسلام کے خلا ف
ہی حملے کررہے ہیں۔ افواج پاکستان کے خلاف ڈٹ کر دشمن کا ہاتھ بٹانے میں
مصروف ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمیں فرقہ واریت اورصوبائیت میں
الجھایا جارہا ہے۔ہمارا دشمن ہمارے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے
معصوم ذہنوں میں زہر گھول کر انہیں اپنے بھائیوں سے ہی دست وگریبان کروا کر
ہماری حرمت کو پامال ، ہماری آزادی کو یرغمال بنا لینا چاہتا ہے۔آج کے دن
ہم سب کو اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ کہیں ہم جانے انجانے دشمن کے بُنے
سازشوں کے جال کا حصہ بن کراس کی منافقانہ پالیسی ”تقسیم کر، راج کر“ کو
عملی جامہ پہنانے میں اس کا ہاتھ تو نہیں بٹا رہے؟(ختم شد) |