شریف شہری اور پولیس کا رشتہ

گزشتہ روز10بجے سے لے کر3بجے تک کاہنہ کے اردگرد کی مسجدوں میں 7.6 سال عمر کی بچی کے ورثاءکی تلاش کے لیے اعلانات ہوتے ۔لیکن شام تک کوئی پتا نہ چل سکاکہ وہ بچی کس کی ہے 4بجے کے قریب کسی دوست نے اُس رکشہ ڈرائیورکو میرے پاس بھیج دیاتاکہ میں اُس بچی کے ورثاءکی تلاش کے لیے میڈیا میں خبر بھیج کر کچھ مدد کردوں ۔رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ سر بچی مجھے صبح 10بجے کے قریب مین فیروز پورروڈپر اکیلی سفر کرتی ہوئی ملی ،جب میں نے بچی سے پوچھا کہ بیٹا آپ کہاں جارہی ہواور آپ کے ساتھ کون ہے؟جس پربچی کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے پائی تو مجھے شک گزرا کہ بچی گھر کاراستہ بھول گئی اور اُس کے ساتھ کوئی بڑا نہ ہے۔ بچی نے بامشکل اپنانام نمرہ بتایااور کچھ نہ بتاسکی ۔رکشہ ڈرائیور کہنے لگاسر میں صبح 10سے اب تک بہت سی مسجدوں میں اعلان کروا چکاہوں لیکن ابھی تک نمرہ کے گھروالوں کا کہیں کوئی نشان نہ ہے ۔نمرہ اُس کے ساتھ ہی تھی میں نے اسے غور سے دیکھنے کے بعد کہا بھائی میں تو بچی کو نہیں پہچانتا۔وہ کہنے لگاسر مجھے آپ کے پاس جس نے بھیجا ہے وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کسی ٹی وی چینل پر خبرچلوا سکتے ہیں ۔برائے مہربانی کچھ مددکردیں ۔میں نے اُسے کہا آپ ساتھ والے فوٹوسٹوڈیوسے بچی کی ایک تصویر بنوالاﺅ میں خبر چلادیتا ہوں لیکن تم ایسے بچی کو لیے نہ پھروں تم فوراکاہنہ تھانہ رپورٹ دوکہ یہ بچی اس طرح مجھے ملی ہے اور میں نے کافی کوشش کی کہ اس کے ورثاءکی تلاش کرسکوں لیکن ابھی تک کچھ پتا نہیں چل سکا ۔میں نے رکشہ ڈرائیور کو برادرانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا بھائی آج کل حالات اچھے نہیں ہیں،اس لیے زیادہ دیرتک بچی کواپنے پاس نہ رکھو ۔رکشہ ڈرائیور میری بات سن کرپسینے پسینے ہوگیا اور کہنے لگا سرجی میں غریب آدمی ہوں رکشہ میرا اپنا نہیں ہے میں ٹھیکے پر چلاتا ہوں۔تین سو روپے شام تک مالک کوادا کرنے ہوتے ہیں۔آج سارادن گزر گیا ہے ابھی تک صرف 20روپے کاکام کیاہے اور پھر میں ساری زندگی کبھی تھانے نہیں گیااس لیے مجھے تو بہت ڈرلگتا ہے تھانے جانے سے اُس پر میری جیب میں تو پولیس والوں کودینے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔میں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا ارئے بھائی پولیس بھلا تم سے کیوں پیسے لے گی تم کوئی مجرم ہوں جو پولیس سے ڈر رہے ہو۔یہ تو بھلے کاکام ہے اور پھر اس طرح تم پولیس کی مدد کررہے ہو،ہوسکتا ہے کہ اس بچی کے والدین نے بچی کے گم ہونے کی اطلاح پولیس کودے دی ہو،بس میرایہ کہنا ہی تھا کہ والدین نے بچی کے گم ہونے کی اطلاح پولیس کودے دی ہو۔رکشہ ڈرائیوربچی کو وہی چھوڑ بھاگ کھڑا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اُوجھل ہوگیا ۔کچھ دیر بعد بچی کے والدین کو پتاچل گیا کہ اُن کی بچی پراناکاہنہ میں موجود ہے ۔بچی کے والدین اُسے ڈھونڈتے ہوئے میرے پاس آپہنچے ۔اتفاق سے میں بچی کے والدین کوجانتا تھا جس کی وجہ سے میں نے بچی اُن کے حوالے کردی ۔ابھی دماغ سے یہ بات نکلی نہ تھی کہ عوام اور محکمہ پولیس کے درمیان فاصلے کس قدر بڑھ گئے ہیں کہ کراچی سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ قومی اخبار کی بڑی خبر پرنظرپڑگئی جس میں لکھا تھا کہ انسپکٹرجنرل پولیس آف سندھ غلام شبیر شیخ نے کہا ہے کہ پولیس اہلکار ڈیوٹی کے دوران غافل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گرد اُن پر حملہ کررہے ہیں ،اہلکار سب سے پہلے اپنی حفاظت پر توجہ دیں پھرعوام کی حفاظت کریں ۔انہوں نے کہاکہ پولیس اہلکار خود محفوظ نہیں ہوں گے تو عوام کی حفاظت کیسے کریں گے ؟لہٰذا پولیس پہلے اپنی حفاظت پرتوجہ دے بعد میں عوام کی حفاظت کرے۔آئی جی سندھ نے کہا کہ ہمارا قانون عام شہری کویہ حق دیتا ہے کہ اگر کوئی جرائم پیشہ فرد اس کوجان سے مارنے کی نیت سے اسلحہ تان لے تووہ اپنے بچاﺅ میں اسے گولی مار دے اسے کچھ نہیں کہا جائے گا“قارئین محترم غور کریں آئی جی سندھ نے کہاکہ پولیس اہلکار پہلے اپنی حفاظت کریں بعد میں عوام کی ۔جبکہ جہاں تک میری معلومات ہیں پولیس اہلکاروں سے اس بات کا حلف لیا جاتا ہے کہ وہ اپنے جان پرکھیل کرعوام کے جان ومال اور عزت و آبروکی حفاظت کریں گے۔دوسری بات آئی جی صاحب نے کہی کہ ہمارا قانون عام شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ خود کوخطرے میں محسوس کرے تو جرائم پیشہ فرد کوگولی مار دے اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔اس بات کامطلب یہ کہ ہرعام وخاص شہری اپنی حفاظت کی غرض سے اپنے ساتھ اسلحہ رکھ سکتا ہے ۔اگر ایسا ہے تو پھر اسلحہ لانسس کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے تھی ؟اگر عام شہری نے اپنی حفاظت خود کرنی ہے تو پھر محکمہ پولیس کی قیام کا مقصد کیا ہے؟میں قانون نہیں سمجھتا لیکن اگر عام شہری کو عام اجازت دے دی جائے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کو گولی مارسکتا ہے تو اس بات کا فرق کون کرے گا کہ مرنے والا جرائم پیشہ ہی تھا ؟اور اگر یہ کام عام شہری ہی کو کرنا ہے تو ریاستی قانون اور اُس کے رکھوالوں کی کیا ضرورت ہے ؟کتنے افسوس کی بات ہے کہ عوام کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں عوام کی حفاظت کرنے کی بجائے اس فکر میں گم ہیں کہ اُن کی حفاطت کون کرے گا۔لیکن یہ بات تو ثابت ہوئی کہ پولیس اہلکار دوران دیوٹی غافل ہوجاتے ہیں ۔جس کا اقرار خود آئی جی سندھ نے کیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولیس اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے اُن پر دہشتگرد حملہ کردیتے ہیں توپھرعوام پر ہونے والے دہشتگردی کے حملوں کی وجہ بھی پولیس اہلکاروں اور آفیسروں کی غفلت ہی ہے اور کچھ نہیں ۔جب ایک شریف شہری بے گناہ ہوکر بغیر کسی جرائم پیشہ فرد کوگولی مارے تھانے جانے سے اس قدر ڈرتا ہے کہ تھانے کا نام سن کراسے پسینہ آجائے اور وہ اپناجوتا چھوڑ بھاگ جائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ کسی جرائم پیشہ فرد کوگولی مار نے والے شہری کو پولیس کچھ نہ کہے گی ؟ایک سوال یہ بھی پیداہوتا ہے کہ پولیس کا فرض تو شریف شہریوں کے جان ومال کو تحفظ فراہم کرنا ہے جبکہ شریف شہری تھانے جاتا ہی نہیں تو پھر پولیس تھانوں میں رش ڈالنے والے کون ہیں ؟ جب تک شریف شہری اور محکمہ پولیس کا آپسی رشتہ اس قدر کمزور رہے گا تب تک امن وامان قائم کرنا ایساہی ہے جیسا کہ کسی دیوانے کاخواب۔ان حالات میں نہ تو پولیس اہلکار اپنی حفاظت کرسکتے ہیں اور نہ ہی عوام کی ۔پولیس اہلکاروں اورعوام کی حفاظت آپسی اتحاد اور اعتماد کے بغیر ممکن نہیں ،جب تک شریف شہری کے دل سے پولیس کاخوف نکال کر جرائم پیشہ عناصر کے دل و دماغ میں نہیں ڈالا جاتا تب تک امن و امان قائم کرنا مشکل ہی ناممکن ہے :
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 518535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.