جو ہا نسبر گ سے بذریعہ ہوائی
جہاز ہم P.E پہنچے ،مولانااسماعیل ڈیسائی شہر ومضافات کے علماء ،فضلاء اور
عمائدین کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھے ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم
اﷲ خان ایک عظیم مدرس ،محدث ، مصنف ، مہتمم اور وفاق المدارس العر بیہ
پاکستان واتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے عرصۂ دراز سے صدر ہیں یہاں
جنوبی افریقہ کے علماء میں ان کے تلامذہ ومسترشدین کی تعداد بے شمار
ہے،پانچ چھ سال قبل حضرت شیخ ان ہی علماء کی دعوت پر وہاں جلوہ افروز تھے ،ساؤتھ
افریقہ کے علماء منظم بھی ہیں اور دینی کام کے ساتھ بطور خاص رفاہی خدمات
کا پورے ملک میں ان کامستحکم نیٹ ورک بھی ہے ، سیاست کے بجائے خدمت ان کا
شعار ہے،ان کا سکول تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کیلئے مکتب سسٹم قابل
دید اور قابل تقلید ہے ۔
پورٹ الزبتھ ایک خوبصورت ،کشادہ اور چمن زار شہرہے، یہاں کالے ، گورے ،انڈین
،کلرڈ ،مسلم ،عیسائی ، یہودی اور ہندو سب باہمی احترامِ انسانیت کے ساتھ
رہتے ہیں ، غلام یہ بھی رہ چکے ہیں ، شہر کے نام ہی سے اندازہ لگایا
جاسکتاہے ، ڈچ اور انگریزوں کے مظالم کا تخمینہ آپ صرف اس سے لگائیں کہ ان
استعماری قوتوں نے جنسی زیادتی کوبطور ہتھیار اتنا استعمال کیا کہ آج یہاں
گورے مرد اور کالی عورت کی یہ نسل جوکلرڈ (مُلَوَّنِین) کہلاتے ہیں ۳۵ لاکھ
سے متجاوزہے ، اﷲ تعالی کو ان پر ترس آیا تو انہیں نیلسن منڈیلا دے دیا ،
جوآج صر ف ساؤتھ افریقہ نہیں دنیائے انسانیت کے عظیم رہنماسمجھے جاتے ہیں ،ہم
لوگ کم فہمی سے چونکہ ہر لال ڈاڑی والے کو شاہ گل سمجھتے ہیں اس لئے یہا ں
اگر کوئی قومی مجرم ایک دو ماہ جیل کاٹ کر یا جلاوطن رہ جائے تو ہم اسے
منڈیلا کا لقب بڑی ارزانی سے دے ڈالتے ہیں ،حالانکہ ہر کس وناکس کومنڈیلا
سے تشبیہ دینا ان کی طویل ترین جدوجہد کی توہین ہے، کبھی موقع ملے تو ان کی
خود نوشت ’’آزادی کی شاہراہ ‘‘ پر ضرور مطالعہ فرمایئے گا ۔
مولانا ڈیسائی نے کہا کہ حضرت مولانا مسیح اﷲ خان مرحوم جب ساؤتھ تشریف لا
تے تو پی ای ضرور قدم رنجہ فرماتے ، ایک مرتبہ انہیں ’’ ڈولفن شو ‘‘ میں لے
گئے وہ بڑے محظوظ ہوئے تھے ، چونکہ حضرت مولانا سلیم اﷲ خان ان ہی کے ہاں
جلال آباد میں پڑھے تھے ، ان کے شاگرد اور حلقہ ٔارادت سے وابستہ تھے ، یہ
حوالہ دے کر ڈیسائی صاحب نے شیخ سلیم اﷲ خان کو وہاں جانے پر قانع وراضی
کرلیا تھا۔
یہاں گورنمنٹ نے تفریح ِطبع کی خاطر آبی حیات سے متعلق زندہ ونوشتہ قسم قسم
کی معلومات اکٹھی کی ہیں ، وہ سب کچھ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ،مگر ڈولفن
کی جوتربیت کی گئی وہ نمایاں ہے، ان کا معلّم ان کے ساتھ تیر اکی وپیراکی
بھی کررہا تھا ، فٹبال بھی کھیل رہا تھا ، زیر تربیت ڈرائیور کی طرح ان کو
مختلف مگر مناسب زگ زیک راستوں سے بھی گذار رہا تھا ، انہیں کھلا بھی
رہاتھا ، کبھی یہ پانی میں اترکر ان سے کھیلتا اور کبھی وہ خشکی میں آکر ان
کے قدموں کا بوسہ لیتے ، کبھی ناظرین پر ان سے اس طرح پانی پھینکواتھا کہ
سب بھیگ جاتے ، یہ آواز دیتا ،وہ جواب دیتے ،قریباً ڈیڑھ گھنٹے تک یہ تماشا
رہا۔
نیٹ پر ہاتھیوں کو سونڈسے لکھتے ہوئے ، بندروں سے کام لیتے ہوئے تو دیکھا
تھا، اور کبوتروں سے پیغام رسانی تو بہت مشہور ہے ، لیکن اتنی پر فیکٹ
تربیت بچشم خود پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ، میں سوچ رہا تھا کہ ایک گونگے
حیوان کی تربیت یہ لوگ اتنا بہترین کر سکتے ہیں ،اور خود ان حیوانات کے
خالق کی شناسائی سے بے بہرہ ہے، آخر کیوں ؟ سیلانی کی طرح میں سوچتارہا ،سوچتارہا
اور سوچتا چلاگیا۔
ایک دن اس کا شاید ناقص ساجواب ہی سہی مگر مجھے مل گیا ،وہ یہ کہ ہم اہل
اسلام شاید’’ دعوت وتبلیغ‘‘ کے تقاضے صحیح طرح پورے نہیں کرتے ، اور الزام
انہیں دیتے ہیں ، ہمارے قول وفعل کا تضاد نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ اسلام
کوبھی عالمی سطح پر بدنام کررہاہے، ہماری سیاست ،معیشت ،تعلیم ، میڈیا ،
رفا ہی خدمات ، عدلیہ ،شہریت اور مسالک کیا چیز ہے جو اغیار کے لئے متاثر
کن ہو؟ یا تو ہمارا اپنا عقیدہ وایمان اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات
کے متعلق پختہ نہیں ، الاماشاء اﷲ ،اور اگر پختہ ہے اور ہم اہل حق ہیں تو
پھر ہمیں سوچنا ہو گا کہ خرابی کہاں ہے ، اغیار کفر میں بضد ہیں یا ہمارا
فہم اور فہمائش ناقص ہے ، کیونکہ دنیا کو دورِحاضر کی ترقی یافتہ جہالت
کاسا منا ہے، لوگ نجات کی راہوں کے متلاشی ہیں، اسلام ہی راہ نجات ہے، لیکن
اسلام کی وسعت نظری ، وسعت ظرفی ،ہمہ گیریت کو کون سمجھے اور سمجھائے ،اسلام
سلامتی سے ہے اور ایمان امن سے ہے ، دنیائے بشریت کو آج اگر کسی چیز کی
ضرورت ہے ، تو وہ’’ امن وسلامتی ‘‘ہے، اسلام کے امن وسلامتی والے پہلو کو
اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ، اگرہم اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں
کہ وہ حیوانات کی تربیت کر سکتے ہیں توہم اُن انسانوں کی کیونکر نہ کرسکے۔ |