سیاسی جماعتوں کی توجہ کا طلبگار ایک انتہائی اہم ایشو

ایک ایسے وقت میں جب تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشورکا اعلان کررہی ہیں میں ایک ایسے ایشو کی جانب سب جماعتوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو سب جماعتوں کی فوری توجہ چاہتا ہے اور ان سب کو چاہئے کہ وہ اس کو فوراََ اپنی ترجیحات اور منشور میں شامل کریں اوروہ ایشوہے معذورافرادکی بحالی معذورافراد ہمارے ملک کی سب سے بڑی کمیونٹی ہیں جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک معذورافراد کو مسلسل نظرانداز کیا جارہاہے ان کی بحالی اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی مخلصانہ کوششیں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں معذورافراد کے بارے میں پہلی قانون سازی 1981ءمیں جنرل ضیاالحق کے دور میں ہوئی جب ان کیلئے disable persons employment and rehabilitation ordinance 1981بنایا گیا جس میں معذورافراد کیلئے معذوری سرٹیفکیٹ ،نیشنل کونسل برائے معذورافراد اور حق ملازمت کے تحت ایک فی صد کوٹا(جسے بعد میں بڑھا کردوفیصد کردیا گیا)سمیت کچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا لیکن افسوس اس آرڈی نینس پر بھی آج تک مکمل عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے بعض ماہرین معذور افراد کی بحالی کیلئے بنائے گئے اس قانون کو خود ایک معذور قانون قراردیتے ہیں اس قانون میں موجود خرابیوں کا تفصیلی ذکر میں پھر کسی کالم میں کروں گا لیکن ایک مضحکہ خیز چیزکا تذکرہ یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ میرے قارئین کو یہ اندازہ ہوسکے کہ اپنے مفاد اور مراعات کیلئے راتوں رات آرڈی نینس،قراردادیں اور قوانین بناڈالنے والے ہمارے یہ ''ہمدرد''پاکستان کی سب سے بڑی کمیونٹی معذورافراد کی بحالی کیلئے کس قدر سنجیدہ ہیں ۔آرڈی نینس میں معذورافراد کو handicapکے نام سے پکارا گیا ہے یاد رہے یہ لفظ cap in handکا ماخذ ہے جس کی مختصر سی تاریخ یہ ہے کہ ماضی میں بھکاری ہاتھ میں capپکڑ کر اس میں بھیک مانگا کرتے تھے اس طرح بھکاری کو handicap کہا جانے لگا اور ہمارے ''شہ دماغ''قانون دانوں نے اسی لفظ کو اٹھا کر قانون کا حصہ بناڈالا حالاں کہ اب یہ لفظ برطانیہ و یورپ (جواس لفظ کے موجدہیں) میں خود بھکاریوں کیلئے بھی استعمال نہیں ہوتا ۔ہاں تو میں عرض کررہاتھا کہ معذوری پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کیلئے دنیا بھر میں کوششیں کی جارہی ہیں اور معذورافراد کی رہائش ،خوراک اورعلاج معالجے سمیت تمام ضروریات ان کوگھر کی دہلیز پر میسر ہیں جب کہ اسلام کے مبارک نام پر وجود میں آنیوالے وطن عزیز پاکستان میں معذور افراد اپنے گھر،معاشرے اور حکومت کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے حالاں کہ اسلام معذورافراد کو خصوصی رعایات اور ان کیساتھ خصوصی شفقت کا تقاضاکرتا ہے اس ضمن میں اگرچہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے کچھ اقدامات ضرور کئے ہیں جن پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن ایک توبیورو کریسی کی بدنیتی اور دوسری بعض معاملات میں حکومت کی روائتی سستی کے باعث معذورافراد کے مسائل تاحال حل ہوتے نظرنہیں آرہے مثلاََ کچھ عرصہ قبل حکومت نے معذورافراد کیلئے ایک لاکھ سے تین لاکھ تک بلاسود قرضوں کا اعلان کیا جس سے معذورافراد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اس اقدام سے معذورافراد کے روزگار کا بڑا مسئلہ کافی حد تک حل ہوجاتا لیکن افسوس اس ہنگامی اعلان پر عملدرآمد کا نوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں ہوسکا ۔ میری تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ وہ معذورافراد کی بحالی کو اپنے منشور میں لازمی شامل کریں اوراپنے نمائندگان کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ اس گھمیر مسئلے کو نہ صرف ہرجگہ اجاگر کریں بلکہ قومی وصوبائی اسمبلیوں مسلسل اس آواز کو اس وقت تک زندہ رکھیں جب تک ان کیلئے حکومت موثر قانون سازی نہ کرلے ۔اس کے علاوہ ان نمائندوں کی یہ بھی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ معذورافراد کے بارے میں معاشرے میں شعورپیدا کرنے کیلئے وقتاََ فوقتاََ سیمینارزاور کنونشنز کا اہتمام کریں جہاں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ معذور افراد کی مناسب حوصلہ افزائی کی جائے جس سے ان معذورافراد کو جینے کی ایک نئی امنگ ملے گی جو اپنی معذوری کومجبوری سمجھ کر محض چارپائی کے ہوکررہ گئے ہیں اور اپنی زندگی کوبیکار سمجھ کر ضائع کررہے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی مناسب ذہنی و جسمانی تربیت کی جائے تو یہی معذورافراد صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں ۔معذورافراد کی مچال اس ہیرے سکی مانند ہے جس کو ایک جوہری کی تلاش ہے جو اس کی قدروقیمت پہچانتا ہو اب یہ وقت بتائے گا کہ وہ جوہری کون ہوگا یا اسی طرح کوئلوں کے دلال ہمیں معذورافراد کو یوں ہی سبزباغ دکھاتے رہیں گے۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.