خالد احمد :تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے

خالد احمد جو گزشتہ کچھ عرصے سے پھیپھڑوں کے سرطان کے سامنے سینہ سپر تھے بالآخر زندگی کی بازی ہار گئے ۔بیماری نے اس توانا شاعر کو نگل لیا۔5جون 1943کو لکھنو کے افق سے طلوع ہونے والا علم ،ادب اور فنون لطیفہ کا یہ خورشید جہاں تاب پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے بقعہءنور کرنے کے بعد 19مارچ 2013کی شام لاہور میں غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوںمیں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گیا۔اس کے پس ماندگان میں ایک بیوہ ،دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہے ۔دنیا بھر میں اس کے لاکھوں مداح اس جانکاہ خبر کو سن کر صدمے سے نڈھا ل ہیں۔جوہر ٹاﺅن لاہور کی زمین نے اس چاند چہرے اور علم ،ادب ،آگہی اور فنون لطیفہ کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔اردو صحافت ،ڈرامہ نگاری ،کالم نگاری ،شعر وادب ،ترجمہ نگاری اور تحقیق و تنقید کا ایک سر بفلک مینار اجل کے بے رحم ہاتھوں زمیں بوس ہو گیا۔علم دوستی ،ادب پروری ،انسانیت نوازی ،بے لوث محبت ، صبر و تحمل ،بے باک صداقت ،ایثار ،وفا ،قناعت و استغنا اور حب الوطنی کا ایک مجسم نمونہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا ۔توحید و رسالت کا شیدائی ، مذہب کی آفاقی اقدار کا ترجمان ،اسلامی تہذیب و ثقافت کا پیروکار راہ جہاں سے گزر گیا ۔اس کی وفات پر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔توحیدو رسالت کی مشعل تھام سفاک ظلمتوں میں روشنی کا سفر جاری رکھنے والے اس زیرک تخلیق کار کے جانے سے اب دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے ۔یوں لگتا ہے کہ بہا ر کے دن اب مستقل طور پر ہم سے روٹھ گئے ہیں ۔فروغ گلشن و صوت ہزار کے موسم کی تمنا لیے یہ جواں ہمت ادیب زینہ ءہستی سے چپکے سے اتر گیا ۔حریت فکر و عمل کا وہ مجاہد جس نے حریت ضمیر سے جینے کے لیے ہمیشہ اسوہءشبیر ؓکو پیش نظر رکھابزم ادب کو سوگوار کر گیا۔خالد احمد کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس کے باعث اردو زبان و ادب کی کوششوں کو شدید ضعف پہنچے گا۔اس نے نعت گوئی او رنعتیہ قصائد نگاری کو ہمیشہ اپنا زادراہ قرا ر دیا:
خالد احمد تری نسبت سے ہے خالد احمد --- تو نے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی

زندگی کی اقدار عالیہ سے والہانہ محبت کرنے والا یہ ادیب اپنی گل افشانی گفتار سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتا۔وطن ،اہل وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اس کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔قناعت ،خوداری اور عجز و انکسار کی بدولت خالد احمد نے معاشرتی زندگی میں جو بلند مقام حاصل کیا اس میںکوئی اس کا شریک وسہیم نہیں۔وہ ایک نظریاتی ادیب تھا لیکن وہ کسی قسم کی عصبیت کا قائل نہ تھا ۔ہر دبستا ن ادب اور ہر مکتبہ ءفکر کے لوگوںسے اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا اس کا معمول تھا۔وہ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار تھا۔ اپنی دھن میں مگن رہتے ہوئے پرورش لوح وقلم کا فریضہ انجام دیتے وقت اس نے ہمیشہ تعمیری انداز فکر اپنا یا ،کسی کی تخریب سے اس کا کو ئی واسطہ نہ تھا۔لاہور میں دبستان فنون کا وہ اہم رکن تھا۔ اس نے اپنے قلم کو انسانیت کی امانت سمجھتے ہوئے انسانی حقوق،انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور مظلوم کی حمایت کی خاطر بھر پور جدوجہدکی۔ اپنے قلم کو اپنی قو می ، ملی اور تہذیبی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے استعمال کر ناہمیشہ اس کا نصب العین رہا۔ اگرچہ اس میں فن کار کی انا تھی مگر عجزو انکسار نے ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے تھے ۔ اس نے بر ملا کہا تھا:
بات کر نے کا ہنر --- شعر بنانے کا طریقہ
مجھے کچھ بھی نہیں آتا --- اعتراف عجز کے ساتھ

خالد احمد کے تخلیقی عمل میں اس کی شخصیت کے داخلی اور خارجی محرکات میں پائی جانی والی مطابقت ید بیضاکا معجزہ دکھائی دیتا ہے۔اس کے تخلیقی عمل میں جذبوں کی صداقت اور وجدانی کیفیت کی لامحدود وسعت ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کر تی ۔ زمان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے وہ موضوع ، مواد ،اظہارو ابلاغ کی تمام دشواریوں پر قابوپانے کے بعد وہ مسحور کن لہجے میں اپنے جذبات و احساسات کو اشعار کے قالب میں ڈھالتا چلا جاتا ہے ۔اس کے اسلوب میں ندرت تخیل ،جذبوں کی صداقت ،پر خلوص حقیقت نگاری او رابلاغ کی ہمہ گیری اور فنی پختگی کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے ۔اس کی شاعری جو قلب اورروح کی اتھا گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے قاری کے قلب و نظر کو مسخر کرلیتی ہے ۔اس کی شاعری میں ترقی پسندانہ سوچ اور اصلاحی و تعمیری انداز فکر کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔اس نے نہایت خلوص اور درد مندی سے دکھی انسانیت کے ساتھ اپنے درد کے رشتے کو استوار رکھا ۔
بھر دکھ رگوں میں بھرتا ہے ---- جان لے کر ہی دل ٹھہرتاہے

لاہور سے شائع ہونے وال علمی و ادبی مجلہ ”بیاض “جو گزشتہ بائیس سال سے خالد احمد کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے،اپنے دور کا ایک مقبول ادبی مجلہ سمجھا جاتا ہے ۔بیاض نے نئے اور کہنہ مشق اہل قلم کو نمائندگی دے کر اس مجلے کو معاصر ادب کا جام جہاں نما بنا دیا ۔اس رجحان ساز ادبی مجلے نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ،وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھی جائیں گی ۔خالد احمد کی علمی ،ادبی ،قومی اور ملی خدمات کے اعتراف میں انھیں پرائڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ حکومت پاکستان کی طرف سے عطا کیا گیا۔

خالد احمد کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب اور دانش ور احمد ندیم قاسمی نے اس خاندان کے نو خیز اور ہو نہار بچوں کی رہنمائی کی ۔خالد احمد کی بہنوں خدیجہ مستور او رہاجرہ مسرور نے اردو فکشن کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا ۔ان دونوں بہنوں کا مو ثر اور جان دار اسلوب پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے ۔خالد احمد کے بھائی توصیف احمد خان نے اردو صحافت میں اہم خدمات انجام دیں ۔خالد احمد نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ کیا ۔ان کی ادبی خدمات کو دنیا بھر میں بہ نظر تحسین دیکھا گیا۔روزنامہ نوائے وقت لاہور میںان کے کالم ”لمحہ لمحہ “ نے قارئین میں مثبت شعور و آگہی کی بیداری میں کلیدی کردار اد اکیا ۔قارئین اس کالم کو نہایت توجہ سے پڑھتے اور خالد احمد کے تجزیاتی انداز سے بہت متاثر ہوتے تھے ۔خالد احمد کی تصانیف درج ذیل ہیں :
شاعری :نشیب ،ایک مٹھی ہوا ،ہتھیلیوں پہ چراغ ،پہلی صدا پرندے کی ،دراز پلکوں کے سائے سائے ،نم گرفتہ
نثر :لمحہ لمحہ ،جدید تر پاکستانی ادب ،بین السطور

ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے خا لد احمد سلطانی ءجمہور کے زبردست حامی تھے ۔غیر نمائندہ اور غیر جمہوری حکمو متوں کے مسلط کردہ جبر کو وہ ہمیشہ نفرت کی نگا ہ سے دیکھتے تھے ۔ان کی دلی تمنا تھی کہ پاکستان میں حق و صداقت اور انصاف و مسرت پر مبنی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنا یا جائے ۔ان کا مشہور ڈراما” کاجل گھر“ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرتا ہے ۔خالد احمد کی شخصیت کی عظمت اس کے منفرد اسلوب میں بھی جلوہ گر ہے ۔اس کی تخلیقات کے مطالعے سے قاری کے دل کو تسکین ملتی ہے اور روح مسرت کے احساس سے سر شار ہوتی ہے ۔
جو سمت عشق میں جھیل ہے ،یہ جو سمت غم میں پہاڑ ہے
مری راہ دیکھ رہا نہ ہومر ا شہ سوار یہیں کہیں
فرس ہوا پہ سوار ہوں کہ غبار ناقہءیار ہوں
مجھے راستے میں نہ چھوڑ دے مرا راہوار یہیں کہیں
اسی تنگ و تار اطاق میں،اسی کنج کے کسی طاق میں
غم یار رکھ کے گیا تھا میں غم روزگار یہیں کہیں

جابر سلطان کے سامنے کلمہ ءحق کہنا خالد احمد کا مطمح نظر رہا ۔ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اور جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حریت فکر کا علم بلند رکھنے والے اس جری تخلیق کار نے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے پر اصرار کیا۔وہ در کسریٰ پر صدا کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ان بوسیدہ کھنڈرات میں موجود جامد و ساکت لاشیں زندہ انسانوں کے مصائب و آلام اور مسائل کے بارے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں ۔خالد احمد کے کردار اور شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں معاشرتی ،سماجی اور تاریخی حالات نے اہم کردار ادا کیا۔بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس نے پوری لگن سے ا پنے اسلو ب اور نصب العین میں کامل ہم آ ہنگی پید ا کر لی تھی ۔ اس کے نصب العین اورشخصیت کی رفعت و عظمت اس کی شاعری کو ساحری میں بد ل دیتی ہے :
دل بھر آئے تو سمندر نہیں دیکھے جاتے ---- عکس ،پانی میں اتر کر نہیں دیکھے جاتے
دیکھ،اے سست روی ہم سے کنارہ کر لے ---- ہر قدم ،راہ کے پتھر نہیں دیکھے جاتے
دیکھ،اے سادہ دل و سادہ رخ و سادہ جمال ---- ہر جگہ یہ زر و زیور نہیں دیکھے جاتے
اپنے ہاتھوں میں لکیروں کے سو ا کچھ بھی نہیں ---- درد مندوں کے مقدر نہیں دیکھے جاتے
سر گرفتوں کے لیے گھر بھی قفس ہے خالد --- ہمت ،اے خیرہ سرو سر نہیں دیکھے جاتے

خالد احمد کا اسلوب مثالی اسلوب تھا ۔ اس کی شخصیت کے اعجاز سے یہ اسلوب اپنی مثال آ پ ہے ۔ خالد احمد نے عالمی کلاسیک ،پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب بالخصوص پنجابی زبان و ادب کا وسیع مطالعہ کیا تھا ۔ پنجابی زبان کے کلاسیکی شعراکے کلام سے اس زیرک تخلیق کار نے گہرے اثرات قبول کیے تھے ۔اس نے اپنی شاعری میں وہی لسانی تجربہ کیا جو شیر افضل جعفری نے کیا تھا ۔اردو میں پنجابی زبان کے الفاظ کا بر محل استعمال اس کے اسلوب کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔
خون سے جلتے چہرے تن میں سلگتی ہڈیاں ----- سانول ویہڑے آیا،دیکھوں چک چک اڈیاں

اس کی شاعری میں نئے خیالات ،اچھوتے انداز بیان اور متنوع موضوعات سے دھنک رنگ منظر نامہ مرتب ہوتا ہے۔اس نوعیت کے لسانی اور فنی تجربات قاری کو زندگی اور اس کی مقتضیات کے بارے میں نئے انداز فکر اور مثبت شعور سے متمتع کرنے کا موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔خالد احمد کی دلی تمنا تھی کہ تخلیق فن کے لمحوں میں جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم رہے اورخون بن کر رگ سنگ میںاترنے کی سعی کی جائے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان پر دوہرا دکھ سہہ رہے تھے وہ تکلیف دہ حالات دیکھتے اوران کے بارے میںسوچ کر دلی کرب محسوس کرتے تھے ۔خالد احمد نے اظہار و ابلاغ کو نئی بصیرت ،مثبت آگہی اور قابل قدر وسعت سے آشنا کیا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ خالد احمد نے تصوف کے موضوعات سے بھی مقدور بھر خوشہ چینی کی ۔وہ تصوف کے گلستانوں میں زندگی کے حقائق انسانیت کی عظمت رفتہ کی داستانوں اور معرفت کے خزانوںکی جستجو میں سرگرداں دکھائی دیتا ہے ۔
زندگی بھر یہ بو جھ ڈھونا ہے ---- آگہی عمر بھر کا رونا ہے
رات ان کے بدن کی چاندی تھی ----- صبح ان کے بدن کا سونا ہے
سایہءدیوار سایہ دیوار ---- عشق کا اوڑھنا بچھونا ہے
کاش کوئی ہمیں یہ بتلا دے ---- کس کے سینے سے لگ کے رونا ہے
علم ،عرفان ،آگہی، خالد ---- خاک کے ساتھ خاک ہونا ہے

ہماری زندگی ریگ ساحل پر لکھی وقت کی ایسی تحریر ہے جسے اجل کے ہاتھ پلک جھپکتے میں مٹا دیتے ہیں ۔ خالد احمد نے کاروان ہستی کی برق رفتاریوں کو محسوس کرتے ہوئے زندگی کی کم مائیگی کی جانب متوجہ کیا ہے ۔
یہ میرا نجد بھی ،میری کربلا بھی ہے ---- یہ موڑ چھوڑ کے چل دے نہ کارواں کہیں

خالد احمد کی شاعری اور نثر میں فکر پرور خیالات اور بصیرت افروز تجزیاتی انداز فکر قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں ۔تخلیقی فکر کی یہ تونگری اس کے اسلوب کو نئے زمانے اور نئے صبح و شام سے آ شنا کرتی ہے ۔اس کے اسلوب میں خیالات کی بو قلمونی ،جذبات واحساسات کامد و جزر اور پیرایہءاظہار کی مسحور کن دلکشی قاری کو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا منظر دکھانے پر قادر ہے ۔وہ جس سلیقے سے اپنے لا شعوری محرکات اور داخلی کیفیات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالتا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔خیا لات اوراسلوب کی عمدگی اور نفاست ،اظہار کی سادگی ،سلاست اور سہل ممتنع انداز اسے اپنے عہد کے ممتاز شاعرکے منصب پر فائز کرتا ہے۔اس کے اسلوب میں حسن کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔خالد احمد کی نثر ہو یا شاعری ہر تخلیق میںا س کی فنی اورتخلیقی مہارت اپنا رنگ جماتی ہے۔ ایک حساس اور قادر الکلام شاعرکی حیثیت سے خالد احمد نے بڑے زوروں سے اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کیا اور اپنے منفرد اسلوب سے ارد و ادب کے دامن کو گل ہائے رنگ رنگ سے مزین کر دیا ہے ۔
سر حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی ----- کلام بھی نہ جیا اور مر گئے ہم بھی
یہ عہد ایک مسیحا نفس میں زندہ تھا ----- رہا نہ وہ بھی سلامت ،بکھر گئے ہم بھی
چمک اٹھا تھا وہ چہرہ ،دھڑ ک اٹھاتھایہ دل ----- نہ اس نے راستہ بدلا ،نہ گھرگئے ہم بھی
بتوں کی طرح کھڑے تھے ہم اک دو راہے پہ ----- رخ اس نے پھیر لیا ،چشم تر گئے ہم بھی
کچھ ایسے زور سے کڑکا فراق کا بادل ----- لرز اٹھا کوئی پہلو میں،ڈر گئے ہم بھی
جدائی میںبھی ہم اک دوسرے کے ساتھ رہے ----- کڈھب رہانہ وہ خالد سنور گئے ہم بھی

اللہ کریم نے خالد احمد کو ذوق سلیم سے متمتع کیا تھا ۔اس کے اسلوب میںاس کا ذوق سلیم ایک شان دل ربائی کے ساتھ متنوع اور ہمہ گیر وصف کی صورت میں ضیاپاشیاں کرتا ہے ۔اس کے اسلوب میں ذوق سلیم کی معجز نما کیفیات اس کی فہم و فراست ،تدبر و تفکر اور جذبات و احسا سات کے باہمی امتزاج کو جو صد رنگی عطا کرتی ہیں وہ قاری کے لیے ایک وجدانی کیفیت کی مظہر ہیں ۔خالد احمد اب وہاں جا چکا ہے جہاں سے کوئی بھی کبھی واپس نہیں آیا۔ہم رفتگاں کی یاد میں صدائے جرس کی جستجو میں دیوانہ وار بھٹکتے پھرتے ہیںلیکن جب ہم سکوت کے صحرا میں خود کو بے بسی کے عالم میں پاتے ہیں تو ہماری حیرت حسرت کا روپ دھار لیتی ہے ۔دائمی مفارقت دینے والے ہم پس ماندگان کو زندگی کی سونی راہوں پہ تنہا چھوڑ کے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد سیل زماں کے مہیب تھپیڑے سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں ۔بچھڑنے والوں کی یادیںدلوں کو درد سے آباد رکھنے کا وسیلہ بن جاتی ہیں ۔خالد احمد نے ترک رفاقت کر لی ۔ شام الم میں جو درد کی ہوا چل رہی ہے اس نے پورے ماحول کو مسموم کر دیا ہے ۔ راہ رفتگان کا سراغ تو تیشہ ءنظر سے بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ ان کے نقش قدم بھی آہستہ آہستہ خیا ل و خواب بن جائیں گے ۔اس بزم وفا سے جانے والے یقین رکھیں کہ بہت جلد ہم بھی ان سے آ ملیں گے ۔
ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں ---- لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 612602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.