طاہر القادری صاحب کی وجہ سے
لفظِ’’شیخ الاسلام‘‘ہر کسی کی زبان اورنوکِ قلم پرہے،عرفان صدیقی اور
عطائالحق قاسمی تو ہاتھ دھوکے اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں،ماحول کی اس مناسبت
سے ہم نے سوچا کہ مراتبِ علم وعلماء سے متعلقہ اصطلاحات کی تحقیقی وضاحت
کچھ یوں کی جائے:
طالب ،طَلِیب ،ج طَلَبہ وطْلباء :تلاش کرنے والا ،طلب علم میں مصروف شخص ،کسی
تعلیمی ادارے کابا قاعدہ طالب علم ،اردواورپشتو میں اس کی جمع طالبان ہے ،جو
عربی میں صرف دو( تثنیہ )کے لئے آتاہے ،فی زمانہ یہ ایک شہرۂ آفاق تنظیم ’’طالبان‘‘کا
نام میڈیا کے ذریعے پڑچکاہے، افغانستان کے ملاّ محمد عمر اس کے بانی
وامیرسمجھے جاتے ہیں، لیکن حقیقت میں اس نام کی تنظیم کسی نے رجسٹر ڈکرائی
ہے نہ ہی کسی باٖضابطہ اجلاس میں اس کی منظوری دی گئی ہے،بلکہ افغان
مجاھدین روسی انقلابی کے بعد جب باہمی نزاعات میں الھ کررہ گئے، تو وہاں کے
دینی مدارس کے طلبہ نے ایک قسم کی انقلابی تحریک چلاکر ملک کی باگ ڈور
سنبھالی ،انہیں دیکھ کر عام لوگوں کی زبان پر تھا ،’’طالبان آگئے ،طالبان
آگئے ‘‘،چنانچہ یہیں سے ان کا یہ نام پڑگیا،بعد میں ان کی دیکھا دیکھی شاید
تحریک طالبان پاکستان کے نام سے گروہ منظم ہواہے ، یا خداجانے رحمان ملک
جیسے لوگوں نے منظم کرایا ۔
حافظ ،ج حُفّاظ : حفاظت کرنے والا ،قراآن کریم از بر یا د کرنے والا ، جیسے
حافظ حسین احمد ،چونکہ نابینا بچوں کو قدیم زمانے میں حفظ قرآن ہی کرایا
جاتاتھا ،اس لئے عرف عام میں نابیناؤں کو علی سبیل العموم ’’حافظ جی ‘‘کہا
جانے لگا۔احادیث کا معتد بہ ذخیرہ مع سندوروایات حفظ کر نے والا ، جیسے
حافظ ابن حجر عسقلانی ،’’حفیظ ‘‘اﷲ تعالی کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام
۔قاری ،ج قراء : پڑھنے والا ، حفظ قرآن کے بعد دوسالہ تجوید وقراء ت کورس
کا فاضل ۔
مولوی، مولانا : مولی بمعنی آقا، یا مولی کی طرف منسوب: اﷲ والے ،بر صغیر
میں یہ لفظ مسجد ومدرسہ سے متعلق حضرات کیلئے مستعمل ہے ،بعض لوگ ہر داڑھی
والے کو مولوی کہتے ہیں، عالمِ عرب میں مولوی کے لیے لفظِ’’مُطَوَّع‘‘اور
ایران میں’’حُجَّۃالاسلام‘‘زبان زدِ عام ہے ۔
عالم،ج عالِمین ،علماء : جاننے والا ،سمجھ بوجھ رکھنے والا ،اصطلاح میں درس
نظامی کی تکمیل کر نے والا ۔’’علیم‘‘، باری تعالی کا نام ہے ۔عرف عام میں
مدارس کے تحصیل علم سے فارغ حضرات کو فضلاء بھی بولاجاتا ہے ،۔فاضل اور
صاحب الفضیلۃ ،گریجویٹ بیچلراور بی اے پاس کو کہاجاتا ہے ،ایم اے پاس
کو(ماسٹر کا معرّب )ماجِستَیر کہتے ہیں ،علماء کی سند’’ شہادۃالعالِمیۃ‘‘
ڈگری آف ماسٹر کاترجمہ ہے ،یعنی عا لِمیت (بکسر اللام ) کی سند۔
مفتی،ج مفتِین : فتوی دینے والا ،مستفتی ،:فتوی طلب کرنے والا ۔درس نظامی
کے بعد فتوی نویسی کا دو سالہ کورس مکمل کرنے والے کو مفتی کہتے ہیں ،یہ
اور اس طرح کے دوسالہ کورسز دینی مدارس وجامعات میں مختلف فنون وعلوم
،مثلاً تفسیر ، حدیث، فقہ ،ادب عربی ،اور تقابل ادیان وغیرہ کے علماء
وفضلاء کو کرائے جاتے ہیں ،اس سند کے حامل کو متخصص اور اس مرحلۂ تعلیم کو
تخصص کہاجاتا ہے ، یہ ایم فل کے برابر ڈگری ہوتی ہے ،بعض اوقات اسی متخصص
سے اگلے سالوں کسی فن میں طویل تحقیقی مقالۂ مشیخت بھی تیار کرایا جاتاہے ،
یوں اسے پی ایچ ڈی اور ڈاکٹریٹ(دکتوراہ) کامساوی بھی سمجھاجاسکتاہے ، اس
آخری مرحلے پر پہنچنے والے طالب علم کوعلامہ کہاجاسکتاہے ، البتہ علاّم کا
اطلاق صرف اﷲ تعالی کے ساتھ خاص ہے ، اسی علامہ کو شیخ، ج( شیوخ ومشائخ )
بھی کہتے ہیں ،مہارتِ تامہ کے بعدشیخ التفسیر، شیخ الحدیث اور شیخالادب
وغیرہ ان ہی میں سے بنتے ہیں۔نیز شیخ عربوں کا خان اور چودھری کی طرح ایک
لقب ہے،بوڑھے کے لیے بھی بولاجاتاہے۔اصطلاح میں’’شیخ الاسلام‘‘ اور مفتیٔ
اعظم مترادف و ہم معنی الفاظ ہیں،جو بنیادی طورپرمہتمم،وائس چانسلر،چئیرمین
اوروزیرِمذہبی امور کے مانند مرکزی حکومت یا کسی ہیئتِ بالاسے منظور شدہ
انتظامی القاب ہیں، شیخ الاسلام کی ابتدا و انتہا ترکوں کی خلافتِ عثمانیہ
میں ہوئی، ان سے قبل وبعد یہ عہدہ کسی کے پاس نہیں رہا۔مفتی ٔ اعظم
بطورِحکومتی منصب مصر ،سعودیہ، قطروغیرہ میں اور بطورصرف لقب بر صغیر پاک
وہند میں مستعمل ہے،ایران میں اس عہدے پر ’’رہبر‘‘ ہوتاہے،لیکن اس کے
اختیارات لا محدود ہیں۔
حضرت ،ج حضرات : مرد،عالم ، صاحب ،بزرگ ، کسی ادارے کا سربراہ،پیر ومرشد
۔جبکہ اعلی حضرت اورسماحۃ الشیخ دونوں پیرانِ پیر ،شیخ الکل،شیخ
المشائخ،آیۃاﷲ اور استاذ الاساتذہ کے معنی میں ہیں ان سب سے آگے بڑھنے والے
کو ’’امام‘‘کا لفظ مستخدم ہے ۔
مجتھد ، ج مجتھدین ،:اجتھاد کر نے والا، محنت کرنے والا ، قرآن وحدیث کی
کلیات کومدنظر رکھکر پیش آمدہ جزئیات کے متعلق شریعت کے احکام معلوم کر نے
والا ، اجتھاد کے مترادف الفاظ قیاس ،استنباط اور استقراء بھی ہیں ، کسی
فقہی مذھب کا مقلِّد جب اجتھاد کرتاہے ،تواسے مجتھد فی المذھب اور غیر مقلد
کو مجتھد مطلق کہاجاتاہے۔
مجدِّد، ج مجدّدین : تجدید کرنے والا، دین کا احیاء کرنے والا ، جب کوئی
شخص خاص ،مکان یا زمان اور بعض علوم وفنون کی تجدید کرتاہے تو اسے مجدّد
جزئی اور اگر عمومِ زمان ومکان اور جمیع اسلامی علوم کی تجدید کا کوئی بیڑا
اٹھا تاہے، تواسے مجدّد کلی کہا جاتاہے ،جیسے مجدد الف ثانی شیخ احمد سر
ہندی ۔ حدیث شریف میں مجددین کی صفات وتفصیلات وافر مقدار میں موجود ہیں ،
ایک روایت میں انہیں انبیاء ؑ سے صرف ایک درجہ کم قرار دیاگیاہے ، سابق
مرسلین علیہم الصلاۃ والسلام کے بعد ان سے مرتبے میں کم انبیاء تجدید دین
کا کام کرتے تھے ،اس امت میں تجدید واحیائے دین کی ذمہ داری علماء پر عائد
کی گئی ہے ،چنانچہ یہ اس امت کا خاصہ ہے ، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا :میری
امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابرہیں۔اﷲ تعالٰی ان القاب کے
تمام حاملین کو قول وفعل میں تضاد سے بچائے۔ |