جمشید خٹک
سُپر طاقت کے دھمکیوں اور تحفظات کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن کے
منصوبے کا افتتاح ہوا۔اس منصوبے پر خرچ ہو نیوالی رقم کا تخمینہ ساڑھے سات
ارب ڈالر لگا یا گیا ہے ۔جبکہ پاکستان نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی حامی بھری ہے ۔ایران
نے پاکستان کو اس پروجیکٹ کے لئے 500 ملین ڈالر کا قرضہ بھی دیا ہے ۔ایرا ن
کے اندرنو سو کلومیٹر پائپ لائن کی بچھائی کا کا م مکمل ہوگیا ہے۔جبکہ سات
سو پچاس کلومیٹر پائپ لائن پاکستان میں 15 مہینوں میں مکمل کیا جائیگا۔ا س
کی تکمیل سے پاکستان کو روزانہ کی بنیاد پر 21.5 ملین کیوبک میٹر گیس کی
فراہمی یقینی بنائی جائیگی۔اس پروجیکٹ سے 4000 میگا واٹ بجلی بھی ہماری رسد
میں شامل ہو سکتی ہے ۔ جس سے موجودہ لوڈشیڈنگ اور بجلی کی پیداوار کی حالت
بہتر بنائی جاسکتی ہے ۔یہ پروجیکٹ دسمبر 2014 تک مکمل ہونا ہے ۔
امریکہ میں دُنیا میں سب سے زیادہ گیس 611 بلین کیوبک میٹر گیس پیدا ہوتی
ہے ۔روس کے بعد ایران میں دُنیا کے سب سے بڑے گیس کے ذخائر ہیں ۔ایران میں
کل گیس کی پیداوار 146 بلین کیوبک میٹر ہے ۔جب کہ طلب 144 بلین کیوبک میٹر
ہے ۔ اس لحاظ سے ایران میں گیس کی فاضل مقدار موجود ہے ۔پاکستان میں کل گیس
کی پیداوار 42 بلین کیوبک میٹر ہے ۔جبکہ طلب اس سے کہیں زیادہ ہے۔اس وجہ سے
پاکستان کو گیس لوڈشیڈنگ بھی کرنی پڑتی ہے ۔اور بیرونی ممالک سے LNG اور
LPG کی درآمد بھی ہورہی ہے ۔تا کہ گیس کی شارٹ فال کو پورا کیا جاسکے ۔پاکستان
اپنی ضروریات کا صرف 30 فی صد گیس پیدا کرتا ہے ۔جب گیس اور بجلی دونوں کی
رسد وطلب میں فرق بڑھتا جارہا ہے ۔بجلی کی پیداوار کا انحصار بھی گیس پر ہے
۔جب گیس کی کمی ہو جاتی ہے ۔توبجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے ۔پاکستان
میں صحیح بروقت پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے CNG اسٹیشنز کی بھرمار نے سارے
تخمینے اور اندازے غلط ثابت کردئیے ۔ رسد سے زیادہ اسٹیشنز کے قیام سے گیس
کی لو ڈشیڈنگ مجبوراً کرنی پڑتی ہے ۔پاکستان کی تقریباً 21 فی صد گاڑیاں
گیس سے چلتی ہیں۔اس وقت پوری دُنیا میں 14.8 ملین گاڑیوں میں گیس بطور
ایندھن استعمال کی جاتی ہے ۔دُنیا میں گاڑیوں میں CNG استعمال کرنے والے
ممالک میں ایران پہلے نمبر پر جو 2.86 ملین گاڑیوں میں ، پاکستان دوسرے
نمبر پرجو 2.85 ملین گاڑویوں میں ، ارجنٹائن 2.07 ملین گاڑیوں میں ، برازیل
1.7 ملین گاڑیوں میں ، انڈیا 1.10 ملین گاڑیوں میں گیس کا استعمال کرتے
ہیں۔ایران اگر اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں میں گیس بطور ایندھن استعمال کرتا
ہے ۔تو اس کا جواز موجود ہے ۔کہ مقامی طور پر گیس میسر ہے ۔جبکہ پاکستان
میں گیس کی کمی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں میں گیس کا استعمال
کسی طرح بھی جائز نہیں ہے ۔اور یہ گیس صنعتوں کو بند کرکے گاڑیوں میں
استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو کہ ملکی صنعت کیلئے نقصان دہ ہے ۔قدرتی گیس کا یہ
بے ترتیب استعمال ملک کی صنعت اور گھریلو استعمال کیلئے سود مند نہیں ہے ۔
1994 میں پاک ایران پائپ لائن منصوبہ زیر غور آیا ۔ اٹھارہ سال تک یہ
منصوبہ مختلف مراحل سے گزر کر اُتار چڑھاؤ کا شکار رہا ۔ ایک مرحلے پر
بھارت اور چین بھی اس منصوبے میں دلچسپی لیتے رہے ۔ لیکن مختلف مصلحتوں اور
بین الاقوامی سطح پر اس منصوبے کی مخالفت کی بناء پر کئی ممالک اس سے
لاتعلق رہے ۔ابتدائی مراحل میں اس پروجیکٹ میں بھارت بھی شامل تھا۔لیکن
2009 میں بھارت اس پروجیکٹ سے دستبردار ہوگیا۔بھارت نے قیمت اور سیکیورٹی
خدشات کیوجہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے ۔کہ
بھارت کی دستبرداری امریکہ سے بھارت کی نزدیکی اور پاکستان وایران کے ساتھ
عد م اعتماد کا اظہار ہے ۔لیکن بھارت اس وقت بھی ایران سے تیل کا ایک بڑا
خریدار ہے ۔
امریکہ کو اس منصوبے پر شدید خدشات ہیں ۔ایران پر عائد کردہ پابندیوں کی
وجہ سے یہ منصوبہ متاثر ہونے کے علاوہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی ان
پابندیوں کی ضد میں آسکتے ہیں ۔اگر امریکہ نے ایران پر پابندیوں پر عمل
درآمد کر کے پاکستان کے ساتھ بھی تجارتی ، معاشی تعلقات کو ایران پر پابندی
سے منسلک کیا تو پاکستان کیلئے یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہوگی۔اس وقت پاکستان
امریکہ کا سب سے بڑ ا تجارتی پارٹنر ہے ۔پاکستان اور امریکہ کے مابین کل 5
ارب ڈالر کی سالانہ تجارت ہوتی ہے ۔پاکستان کے کل برآمدات کا 20 فی صد حصہ
امریکہ کو جاتا ہے ۔امریکہ سے پاکستان میں ایک کثیر رقم بیرونی سرمایہ کاری
کی شکل میں آتی ہے ۔امریکہ کی طرف سے پابندیوں کے بعد اس سرمایہ کاری کے رک
جانے کے بھی خدشات ہیں ۔پچھلے سال امریکہ سے 238.6 ملین ڈالر کی سرمایہ
کاری ہوئی ہے ۔اس سرمایہ کاری میں کئی سالوں سے مسلسل کمی آرہی ہے ۔اس وقت
امریکہ سے پاکستان کی دوطرفہ سرمایہ کاری (BIT) کے معاہدے کے سلسلے میں
مذاکرات آخری مراحل میں پہنچ گئے ہیں ۔کئی شقوں پر اتفاق ہوچکا ہے ۔لیکن
ایران کے پائپ لائن منصوبے کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے پیش نظر اس بات کے
امکانات ہیں ۔کہ امریکہ دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کو سرد خانے میں ڈال
دے ۔
روپے کی ساکھ ڈالر کے مقابلے میں روز بروز گرتی جارہی ہے ۔ڈالر کی قیمت 100
روپے سے تجاوز کرگیا ہے ۔ایک سال قبل ڈالر کی قیمت تقریباً 86 روپے بنتی
تھی ۔ایک سال کے عرصے میں روپے کی قدر میں اتنی کمی ہماری معیشت کیلئے
سودمند نہیں ہے ۔ہماری تمام تر تجارت ڈالر سے منسلک ہے ۔امریکہ کی طرف سے
پابندیوں کے خدشات کے پیش نظر روپے کی قیمت مزید گھٹنے کا خطرہ لاحق ہوسکتا
ہے ۔جیسے ایران کی کرنسی کا حال ہے ۔پاکستان کی کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے
میں بہت نیچے حد تک جاسکتی ہے ۔روپے کی قیمت گرنے سے بیرونی قرضوں میں
اضافہ اور افراط زر کے سائے ہماری معیشت پر منڈلاتے رہتے ہیں ۔جس سے
برآمدات متاثر ہونے کا بھی احتما ل ہوسکتا ہے ۔درآمدات خودبخود مہنگی ہو
جاتی ہیں۔
امریکہ ناراضگی کی حالت میں IMF کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے
۔امکانات ہیں کہ امریکہ ناخوش ہوکر پاکستان کو IMF کی طرف سے دئیے جانے
والے قرضوں کو بھی بلاک کریں۔پاکستان نے IMF کے پانچ بلین ڈالر دوسال کے
عرصے کے دوران ادا کرنے ہیں۔اس خدشے کا اظہار کیا جاررہا ہے ۔کہ آئند ہ
سالوں میں پاکستان کو ادائیگیوں میں توازن کو برقرار رکھنے کیلئے 9 ارب
ڈالر کی ضرورت پڑیگی ۔
امریکہ نے اس منصوبے پر شدید ردعمل کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر گیس
پائپ لائن منصوبے پر حقیقتاً کام شروع کیا گیا ۔ تو پاکستان پر پابندیوں کے
لگنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔امریکہ محکمہ خارجہ کے ترجمان پریس
بریفنگ کے دوران کہا ہے ۔کہ پاکستان کے خلاف پابندیوں کے خدشات کو کم نہیں
کیا جاسکتا ہے ۔اُنھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو آگاہ کر
دیا ہے ۔کہ اگر پائپ لائن منصوبے پر کام شروع ہوا ۔ تو اس صورت میں U.S
Iran Sanctions ایکٹ کے تحت پابندیوں کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔
پاکستان اس وقت شدید انرجی کے بحران کا شکار ہے ۔گیس اور بجلی کی شدید قلت
ہے ۔انرجی بحران کی وجہ سے ملکی صنعت سست روی کا شکار ہوگیا ہے ۔برآمدات
بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔کارخانے بند پڑے ہیں ۔اور کئی دوسرے ممالک کو شفٹ
ہو رہے ہیں ۔ ملک کو گیس کی ضرورت ہے ۔بجلی کی ضرورت ہے ۔موجود ہ حکومت کی
نڈر اور بے باک فیصلے کا جتنا بھی خیر مقدم کیا جائے کم ہے ۔اور آئند ہ آنے
والی حکومت سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے ۔کہ وہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک
پہنچانے کیلئے بھر پور انداز میں اپنا کردار ادا کریں ۔ |