خالق کائنات عَزَّوَجَلَّ ارشاد
فرماتا ہے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ
الْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی
کَثِیۡرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیۡلًا(بني اسرائيل:٧٠)اور بیشک ہم نے
اولادِ آدم کو عزت دی اوران کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری
چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا۔ (کنزالایمان شریف)
تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واعلیٰ بنایا، اسے عقل و علم،گویائی،
پاکیزہ صورت، معتدل قامت اور معاش ومعاد کی تدابیر، لطیف وخوش ذائقہ حیوانی
اورنباتی ہر طرح کی غذائیں اور تمام چیزوں پر برتری و تصرف عطا
فرمایا(تفسیر خزائن العرفان)۔ الغرض زمین اور آسمان کی تمام نعمتیں اس کے
نفع کے لئے پیدا فرمائیں، ہوائیں اس کے لئے، بادلوں کا امڈنا اس کے لئے،
سورج اور چاندکی ضیائیں اس کے لئے، برٰ وبر کی روانی اس کے لئے، کائنات کی
ہر حقیقت تک رسائی اس کے لئے اور سب سے بڑا انعام یہ کہ زمین پر باری تعالیٰ
کی نیابت اور خلافت اس کے لئےحتی کہ نبوت ورسالت کا تاج بھی انسانوں ہی کے
سر سجایا گیا اور یہ سعادت عظمیٰ بھی انسانی افتخار کا حصہ بنی کہ سب سے
اعلیٰ، کامل اور بےمثل انسان وہاں سے بھی آگے تشریف لے گئے جہاں پہنچ کر
زمان ومکان کی قیود ختم ہوجاتی ہیں۔(مقالاتِ سعیدی،ص٣٠٧،ماخوذاوملتقتا)
انسان تین اجزاجسم، روح اور عقل کا مجموعہ ہے اور ان تینوں کے لئے مختلف
غذائیں رکھی گئیں ہیں۔ جسم کے لئے کھانا، روح کے لئے عبادت اور عقل کے لئے
غور وفکر کو مقرر کیا گیا ہے۔ غذا کے لئے ضروری ہے کہ وہ صحت افزا اورصحت
بخش ہونے کے ساتھ ساتھ منفی ومضر اثرات سے پاک ہو، لہٰذا جسم کوحفظانِ صحت
کے اصولوں کے مطابق اچھاکھانا اور صاف پانی وغیرہ، روح کو شریعت کے اصولوں
کے مطابق نماز روزہ وغیرہ مختلف عبادات اور عقل کو فطرت کے اصولوں کے مطابق
اچھی سوچ اور پختہ غور وفکر سے ہم کنار کرنا ضروری ہے ورنہ نہ صرف ان تینوں
کی ترقی کا عمل رک جائے گا بلکہ یہ تنزلی کا شکار ہوجائیں گے۔جسم کی ترقی
یہ ہے کہ درست غذا ملنے کی صورت میں یہ طاقتور وتوانا رہے گا اور مسلسل خون
کی پیداوارسے صحت مند وتندرست رہے گا، روح کی ترقی یہ ہے کہ درست غذا ملنے
کے سبب یہ روحانی معراج کا سفر جاری رکھے گی اور عقل کی ترقی یہ ہے کہ درست
غذا پانے کی وجہ سے یہ سلامتی کی راہ پر گامزن رہے گی، لہٰذا جو جسم کواچھی
خوراک نہیں دیتا بیمار ہوجاتاہے، جوروح کو عبادت سے محروم رکھتا ہے وہ بے
چینی اوربے راہ روی کا شکار ہوجاتاہے اور جو عقل کو اچھے خیالات اور اچھی
سوچ سے روشن نہیں کرتا وہ ذہنی انتشاراور پاگل پن سے دوچار ہوجاتا ہے۔
پھر یہ کہ درست غذا اسی وقت فائدہ دیتی ہے جب نقصان دہ باتوں سے پرہیز کیا
جائے، لہٰذا روح کی غذا یعنی عبادت اسی وقت نفع دے گی جب انسان پہلے کفر
وشرک کی آلائشوں سے پھر گناہوں کی گندگیوں سے پرہیز کرے اورجب وہ ایسا
کرلیتا ہے تو اُسے”انسان“ کے ساتھ ساتھ ”مسلمان“اور پھر”کامل مسلمان“کہا
جاتا ہے اورمسلمان کی شان یہ ہے کہ ایمان لاتے ہی وہ ایک الگ قوم، علیحدہ
معاشرے اورایک منفرد تہذیب کافرد بن جاتا ہے۔ اس لئے اس کیروحانی غذا، رہن
سہن اور لوگوں کے ساتھ میل جول کاانداز اور طور طریقے سب بدل جاتے ہیں
اوروہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں دنیا میں عزت وبلندی اور آخرت میں نجات
اور جنت کے نہ ختم ہونے والے ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اس کے برعکس آج
کا مسلمان جسم اور عقل کوتوغذا دے رہاہے مگراس نے روح کواس کی غذا سے محروم
کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان آج بے شمار روحانی بیماریوں اور باطنی
گناہوں کا شکار نظر آتا ہے۔ روح چونکہ عالَم اَرواح میں باری تعالیٰ کے
قرب میں تھی جہاں اس نے رب تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا اس لئے لازم
تھا کہ اس کی غذا یعنی عبادت بھی وہیں سے آتی۔ارشادِ ربانی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ (الذٰريٰت:٥٦)
ترجمہ :اور میں نے جن اور آدمی اپنے ہی لئے بنائے کہ میری بندگی
کریں(کنزالایمان شریف)
جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کا مقصد حیات اور اس کی روحانی غذاصرف اللہ
عَزَّوَجَلَّ کی عبادت ہے تو یہاں یہ وسوسہ آتا ہے کہ کیادین صرف
نماز،روزہ اور تسبیح پڑھنے کا نام ہے؟ جبکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں
کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نےقرآن کریم میں کئی مقامات پر دین اور دنیا
دونوں کے احکامات بیان فرمائے ہیں۔ صرف دوآیات ِ مقدسہ ملاحظہ فرمائیے:
(١)وَ ابْتَغِ فِیۡمَاۤ اٰتٰىکَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنۡسَ
نَصِیۡبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنۡ کَمَاۤ اَحْسَنَ اللہُ اِلَیۡکَ
وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ
الْمُفْسِدِیۡنَ (القصص:٧٧) ترجمہ :اور جو مال تجھے الله نے دیا ہے اس سے
آخرت کا گھر طلب کراور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسااللہ نے
تجھ پر احسان کیا اور زمین میں فساد نہ چاہ بے شک اللہ فسادیوں کو دوست
نہیں رکھتا۔(کنزالایمان شریف)
(٢)فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الْاَرْضِ وَ
ابْتَغُوۡا مِنۡ فَضْلِ اللہِ وَ اذْکُرُوا اللہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمْ
تُفْلِحُوۡنَ (الجمعة:١٠)ترجمہ :پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ
اور اللّٰہ کا فضل تلاش کرو اورالله کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ فلاح
پاؤ۔(کنزالایمان شریف)
یہ اور ان جیسی دیگر آیاتِ قرآنیہ کو پیش نظر رکھا جائے تو ہمیں معلوم
ہوجائے گا کہ ہمارادین صرف مسجد کا دین نہیں بلکہ یہ بازار میں بھی ہماری
راہ نمائی کرتا ہے اور لوگوں کے ساتھ میل جول اور ان کے ساتھ درست معاملات
کابھی حکم دیتا ہے۔ الغرض پورے دین کا بنیادی نکتہ فرد کی روحانی اصلاح، اس
کی روحانی ترقی،روزمرہ کے معاملات میں سرخروئی، رزق حلال کی فراہمی، آپسی
حقوق کی احسن طریقے سے ادائیگی، معاشرہ کے عادلانہ نظام اور کامیاب زندگی
پر محیط ہے۔(بڑے عذاب کا ڈر،ص٧۔٨ ملتقتا)
تصوف وطریقت کوالفاظ کا جامہ پہنانےوالےمصنفین خواہ امام ابوطالب مکی ہوں
یا امام غزالی ،امام قشیری ہوں یا شیخ شہاب الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللّٰہِ
تعالٰی علیہم سبھی نے اپنی کتب میں مقاصد شریعت کو اجاگر کرتے ہوئے اسلام
کے روحانی پہلوکو ترجیح دی اورشریعت کی واقعی اہمیت کو واضح کیاہے۔انہوں نے
اس بات پر زور دیا ہے کہ ایک مسلمان مسجد میں ہو یا بازار میں، سفر میں ہو
یا حضر میں، خلوت میں ہو یا جلوت میں ہمہ وقت اسے درست روحانی غذا کی ضرورت
ہے، یہی اس کی ترقی ومعراج کی ضامن ہے اوراسی سے حقیقی کامیابی وابستہ ہے
تو جو لوگ اپنی روح کو مسلسل روحانی غذا دیتے رہتے ہیں کامیابی ان کے قدم
چوم لیتی ہے ۔روحانی غذا یعنی عبادت حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے ۔حدیث قدسی
ملاحظہ فرمائیے:
حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی ٔ کریمﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ میرا بندہ فرائض کی
ادائیگی کے ذریعے جتنا میراقرب حاصل کرتا ہے اس کی مثل کسی دوسرے عمل سے
حاصل نہیں کرتااورمیرا بندہ نوافل(کی کثرت)سے میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک
کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں اورجب مَیں اسے محبوب بنالیتاہوں تو میں
اس کاکان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے اورمیں اس کی آنکھ ہوجاتا
ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے
اورمیں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔ اگروہ مجھ سے مانگے تو
میں اسے ضروردیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا
ہوں اورمجھے کسی کام میں تردد نہیں جسے میں کرتاہوں ۔ میں کسی کام کے کرنے
میں کبھی اس طرح تردد نہیں کرتا جس طرح جانِ مؤمن قبض کرتے وقت تردد کرتا
ہوں کہ وہ موت کو نا پسند کرتا ہے اور میں اس کے مکروہ سمجھنے کو برا جانتا
ہوں۔‘‘
(صحیح البخاری ،رقم الحدیث:۶۵۰۲،ص۵۴۵)
امام فخر الدین ابوعبداللہ محمدبن عمر رازی(متوفی ۶۰۶ھ)
نے’’تفسیرکبیر‘‘،محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی(متوفی ۱۰۵۲ھ)نے’’
شرح فتوح الغیب‘‘اورحضرت قاضی عیاضرَحْمَۃُ اللّٰہِ تعالٰی علیہم (متوفی
۵۴۴ھ) نے ’’شفاء شریف‘‘ میں اس حدیث پاک کامعنی ومقصدیہ بیان فرمایاہے کہ
جب بندہ اپنے آپ کواللہ ربُّ العزت کے عشق ومحبت والی آگ میں
جلاکرفناکردیتاہے اورنفسانیت وانانیت والازنگ اورمیل کچیل دور ہو جاتا ہے
اورانوارِالہٰیہ سے اس کابدن منورہوجاتاہے تووہ اللہ تعالیٰ کے انوارہی سے
دیکھتا ہے اورانہی کی بدولت سنتاہے ،اس کابولناانہی انوارکے ذریعے ہے اور
اس کا چلنا پھرنااورپکڑنامارناانہی سے ہوتاہے (کوثر الخیرات ،ص۳۴۲)اورامام
رازی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ حدیث ِقدسی کامعنی بیان کرتے ہوئے ارشاد
فرماتے ہیں: ’’اِذَاصَارَنُوْرُجَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ سَمْعًا سَمِعَ
الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَاصَارَنُوْرُجَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ
بَصَرًارَأَی الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَا صَارَذَالِکَ
النُّوْرُیَدًالَہٗ قَدَّرَعَلَی التَّصَرُّفِ فِی الصَّعْبِ وَالسَّہْلِ
وَالْقَرِیْبِ وَالْبَعِیْدِترجمہ:اللہ ربُّ العزت کانورِجلال جب بندۂ
محبوب کے کان بن جاتاہے تووہ ہر آوازکوسن سکتاہے نزدیک ہویادور اور
آنکھیں نورِجلال سے منورہوجاتی ہیں تودورونزدیک کا فرق ختم ہوجاتاہے یعنی
ہرگوشۂ کائنات پیش نظرہوتاہے اورجب وہی نوربندہ کے ہاتھوں میں جلوہ گر
ہوتا ہے توقریب وبعید اور مشکل وآسان کام میں اسے تصرف کی قدرت حاصل
ہوجاتی ہے۔‘‘( التفسیرالکبیر،ج۷، ص۴۳۶)
یہ ہے حقیقی کامیابی کہ جب بندہ نے اپنی روح کو درست روحانی غذا بہم
پہنچائی تو روح ترقی کرتے کرتے اس مقام رفیع تک پہنچ جاتی ہے اورپھر جب یہ
منزل مل جاتی ہے توروح سکون واطمینان کے باغات کی سیر کرتی ہے ،دنیا وآخرت
میں بشارتوں سے لطف اندوزہوتی ہے اور خوف وغم کے سایوں سے محفوظ ہوجاتی ہے۔ |