ملک کے دو بڑے صوبوں یوپی اور
بہارجہاں مسلمانوں کی آبادی (قابل لحاظ ہے) کے مسلمان اس وقت ایک بڑی
آزمائش سے گذررہے ہیں۔ ایک صوبہ میں مسلمانوں کو اس حکومت سے بددل، بدگمان
اور بدظن کرنے کی جان توڑ کوشش کی جارہی ہے جس کو برسراقتدار لانے میں
مسلمانوں نے اپنی بادشاہ گری کا کمال دکھایا ہے یعنی یو پی کی سماج وادی
پارٹی کی حکومت تو دوسری طرف بہار کی بی جے پی اور جنتادل (یو) کی مخلوط
حکومت مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار
مسلمانوں کو راغب کرنے کے لئے بدترین سیاسی حربے استعمال کررہے ہیں۔ یو پی
کی بعض سیاسی پارٹیوں اور بہار کی نتیش کمار حکومت نے اردو کے صحافیوں کو
لگتا ہے کہ اپنے جال میں اس طرح گرفتار کررکھا ہے کہ حق اور ناحق کا امتیاز
ہی ختم ہوگیا ہے دہلی کے ایک صحافی دوست نے ہم سے حال ہی میں کہا تھا کہ یو
پی اور بہار کے بارے میں لکھنا آگ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ خاص طور پر
بہار میں صحافی صاحبان نتیش کمار کی بہائی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے
کثیر تعداد میں بے قرار ہیں۔ پٹنہ سے شائع ہونے والے ایک رسالہ کے مدیر نے
حال ہی میں اپنے 15 فروری کے شمارے میں لکھا ہے کہ ’’اردو صحافی نتیش کمار
کی جی حضوری میں ہندی میڈیا سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا ہے اگر مولانا لوگ
فتویٰ نہ دینے کا یقین دلادیں تو یہ حضرات (اردو صحافی) اپنی ولدیت بدل کر
نتیش کمار لکھنے سے باز نہ آئیں‘‘ لیکن اس قسم کی باتیں بغیر کسی بنیاد کے
نہیں کی جاسکتی ہیں۔ مستند ذرائع سے ملی اطلاعات اور شائع شدہ خبروں سے
ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی شخصیات، درگاہوں اور خانقاہوں کے ذمہ دار
افراد بقول ساحرؔ لدھیانوی مرحوم’’دین کے تاجر‘‘ مفادات کی خاطر اپنے علم و
تقدس کی قیمت وصول کررہے ہیں۔ ہم کو یاد ہے کہ بہار کے باہر بھی یہ خبر
مشہور ہوئی تھی کہ خانقاہ مونگیز کے مولانا محمد ولی رحمانی نے راجیہ سبھا
کی رکنیت کے ساتھ پانچ کروڑ روپے کی پیشکش ٹھکرانے کے بعد این ڈی اے کے
وزیر داخلہ اڈوانی سے ملنے تک انکار کردیا تھا! آج ذی مرتبت لوگ اس نتیش
کمار کی جس نے گودھرا کے خونیں واقعہ کے وقت ریلوے کے وزیر کی حیثیت
سابرمتی ایکسپریس کی بوگی نمبر 6 کی پراسرارآتش زدگی کے بعد ریلوے کی جانب
سے تحقیق نہ کروانے نریندر مودی کے کذب وافتر کو من و عن قبول کرکے گجرات
کے قاتل کی مدد خود ’’آلہ قتل‘‘ بن کر کی تھی۔آج اسی نتیش کا ساتھ دینے
والے بہاری مسلمان بہار ہی کے نہیں ملک کے مسلمانوں سے غداری کررہے ہیں۔
’’اشتہاری خبروں‘‘ کے بعد بہار اور یو پی کے بعض اردو صحافی بھی دوسرے
صحافیوں کے ساتھ صحافی کی جگہ ’’اشتہار نویس(Paid Writer)بن کر اشتہاری
مضامین (Paid Articles)لکھ رہے ہیں۔ ان سے بھی آگے ٹی وی چیانلز والے ہیں
جو نتیش کے دہلی میں طویل پروگراموں کو راست ٹیلی کاسٹ کرکے اپنے چینل
کو(Paid Channel)بناچکے ہیں۔ واضح ہوکہ علاحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک کے
سلسلے میں دہلی میں تلنگانہ قیادت کو ان ٹی وی چیانلز نے جس طرح نظر انداز
کیا تھا وہ کون بھول سکتا ہے؟ جبکہ تلنگانہ کی خاطر لوگوں نے جان دی تھی
مظاہروں ، ہڑتالوں اور بند کی وجہ سے تلنگانہ میں معمول کی زندگی اس وقت
مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ تلنگانہ قیادت تہی دست ہے اور
نتیش کمار کے پاس پانی کی طرح روپیہ بہانے کے لئے سرکاری فنڈس کی کمی نہیں
ہے۔
یو پی میں ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی کی اکھلیش حکومت کی چند سنگین
غلطیوں کے سبب سماج وادی پارٹی کے مخالفوں کو موقع ہی مل گیا کہ وہ یو پی
کے مسلمانوں کو اکھلیش حکومت سے بددل، بدگمان بلکہ بیزار کرنے کے لئے
مسلمانوں کی ناعاقبت اندیشانہ جذباتیت، عجلت پسندی، بے صبری کا بھر پور
فائدہ اٹھانے کے لئے مخالف حکومت پروپگنڈہ کی انتہاء کردی یہاں بھی مخالف
ملائم عناصر کے پاس فنڈس کی کمی نہیں ہے اس لئے اشتہاری خبروں کے ساتھ
اشتہاری مضامین لکھنے والے حضرات کی چاندی ہوگئی۔ مایاوتی اور راہول گاندھی
کے قصیدوں اور ملائم سنگھ و اکھلیش کی ہجو لکھنے والے آج کل خاصے سرگرم ہیں۔
ان حالات حق بات لکھتے ہوئے بھی خیال آتا ہے کہ ہماری حق گوئی بھی ’’اشتہاری‘‘
نہ سمجھ لی جائے حد تو یہ ہے کہ ہمارے اجداد کا تعلق لکھنؤ کے ایک مشہور
خانوادہ سے ہے۔ اسی خانوادہ کے ایک نوجوان عالم جو اکثر ٹی وی چیانلز پر
نظر آتے ہیں اور وہی باتیں کرتے ہیں جو عام طور پر ٹی وی چیانلز کے
میزبانوں کو خوش کرنے والی ہوتی ہیں۔ اس لئے ہم نے اپنے خانوادہ کا ذکر
کرنا چھوڑ دیا ہے کہ کوئی ہم کو غلط نہ سمجھ لے!
ذکر تھا اکھلیش سنگھ کی حکومت اور اس کی غلطیوں کا۔ اکھلیش نے راجہ بھیا کو
اپنی کابینہ میں شامل کرکے ہمالیاتی غلطی کی تھی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ
راجہ بھیا کا سنگھ پریوار سے اٹوٹ تعلق ہی نہیں بلکہ تعلق خاطر ہے۔ اکھلیش
حکومت کے آتے ہی مسلم کش فسادات میں اکھلیش کی کمزوری، ناتجربہ کاری اور
نرم روی سے زیادہ راجہ بھیا کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے کیونکہ سنگھ پریوار کے
کارکن سنگھ پریوار کے دشمنوں میں رہ کر بھی سنگھ پریوار کے ایجنڈے پر اس
طرح عمل کرتے ہیں ’’خفیہ ہاتھ‘‘ نظر نہیں آتا ہے۔ اکھلیش نے فسادات کے ذمہ
دار پولیس والوں کو فسادات کی پاوش میں سخت سزائیں نہ دے کر بھاری غلطی کی
وہ یہ بھول گئے کہ یو پی کی پولیس ہی نہیں امن و قانون کے ذمہ دار افراد ان
سے زیادہ بی جے پی، کانگریس اور مایاوتی کے وفادار ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے تو
شائد راجہ بھیا پر تک شبہ نہ کیا ہوگا۔ اکھلیش تیسری غلطی یہ کررہے ہیں کہ
راجہ بھیا کو گرفتار کرنے میں تاخیر کررہے ہیں ۔پولیس افسر ضیاء الحق کے
قتل کے بعد ان کی گرفتاری میں تاخیر کردی وہ راجہ بھیا کو گرفتار کرکے ہیرو
بن سکتے تھے۔ ابھی وہ سی بی آئی پر زور ڈال سکتے ہیں۔
اکھلیش کی غلطیوں کی فہرست مزید خاصہ اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ مسلمانوں سے
کئے ہوئے کئی وعدوں کی ابھی تکمیل باقی ہے۔ ان میں اہم بے قصور نوجوانوں کی
رہائی بھی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ یو پی کا عام مسلمان یادانشور یا صحافی صرف ملائم
سنگھ واکھلیش کی غلطیوں پر شور و غل کیوں کرتا ہے۔ یو پی میں (11) مسلمان
وزیر ہیں 70سے زیادہ ارکان اسمبلی مسلمان ہیں۔ ریاستی کونسل اور پارلیمان
کے دونوں ایوانوں میں بھی خاصے مسلمان ہیں۔ یو پی کے مسلمان اپنے تمام
منتخب نمائندوں کو مختلف ایوانوں میں مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے
مسلمانوں کے حقوق و مفادات کی حفاظت کے لئے موجود ہیں۔ وہ صاحبان عیش کرنے
کے سوا کیا کررہے ہیں کیوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد سے لے کر غلام نبی
آزاد ( خواتین میں بیگم اعراز رسول سے لے کر محسنہ قدوائی نے) تک ’’کچھ نہ
کرنے ‘‘کی مذموم روایت انہوں نے قائم کی ہے۔ اس لئے ان کے پیشرو آج بھی وہی
کررہے ہیں لیکن زمانہ بدل گیا ہے آج مسلمان کی فکر یہ ہونی چاہئے کہ ’’بھیک
کا سوال نہیں حق کی مانگ ہے‘‘۔ سماج وادی پارٹی کا ایک اہم و نمایاں چہرہ
اعظم خاں بھی ہیں۔ عام سے خاص مسلمان صحافی صاحبان اعظم خاں، مسلم وزرأ اور
ارکان پارلیمان و اسمبلی سب کو چھوڑ کر صرف ملائم و اکھلیش کو مورد الزام
قرار دینا بددیانتی ہے۔ اگر ان مسلمان صاحبان جو اقتدار کا حصہ ہیں شنوائی
نہیں ہوتی تو وہ حکومت سے مختلف ایوانوں سے اجتماعی طور مستعفی ہوکر اقتدار
کے تمام ایوانوں کو لرزہ براندام کرسکتے ہیں۔ ہاں اس کے لئے عہدوں، وزارت و
رکنیت کی قربانی دینی ہوگی!
یو پی کے مسلمان بی جے پی کانگریس اور بی ایس پی کو آزماچکا ہے ۔ کم تر
برائی ملائم سنگھ ہی ہیں ان کے ساتھ رہ کر اپنے مفادات حاصل کرنا ہے کیونکہ
کوئی اور متبادل نہیں ہے یہی ان کی آزمائش ہے۔
اسی طرح بہار کے مسلمانوں کی آزمائش ہے جنہوں نے نتیش کمار کے دھوکے میں
آکر ناعاقبت اندیشی کی انتہاء کردی ہے۔ نتیش کمار نے بہ کمال ہوشیاری مذہبی
شخصیات، بکاؤ سیاستدانوں اور ’’اشتہار نویس‘‘ قسم کے صحافیوں کو خرید رکھا
ہے یہ ملت فروش ’’وکاس (ترقی) کی ڈگڈگی بجاکر بہار کے مسلمانوں کو جی بھرکر
الو بنارہے ہیں۔ نتیش کمار کی چالبازیوں دھوکہ بازیوں کے ذکر کے لئے ایک
علاحدہ تحریر رقم کرنا ضرور ی ہے۔ فی الحال صرف اتنا کہ نتیش کمار زور شور
سے سنگھ پریوار کے ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں۔ مودی کی مخالفت یا تو ذاتی
مفادات کی خاطر یا مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے ہے۔ مودی کا مخالف اگر
مخلص ہوتو بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت تو دور کی بات ہے بی جے پی سے
وابستہ تک نہیں رہ سکتا ہے!۔ لالو پرساد یادو کی خود اعتمادی، غرور اور بے
عملی و تساہل کی سزا اتنی بڑی نہیں ہوسکتی ہے۔ ان کو اقتدر سے باہر رکھنے
کے لئے ہندوتوا کے علمبردار نتیش کو پھر ایک مرتبہ قبول کرلیا جائے ۔ |