نجات

میاں محمد نوز شریف کی آئینی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویز مشرف پاکستان پر حکومت کر رہا تھا اور شوکت عزیز اس کا وزیرِ اعظم تھا۔اس دور میں شوکت عزیز کی کرپشن کی کہانیاں زبان زدہ خا ص و عام تھیں لیکن شوکت عزیز کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد ان ساری کہانیوں کو فراموش کر دیا گیا۔اب ان کہانیوں کی بجائے موجودہ حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں زبان زدہ خاص و عام ہیں۔اصولاً تو یہ ہونا چا ئیے تھا کہ شوکت عزیز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا تا اور پھر اس سے قوم کی لوٹی ہوئی رقم واپس لی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں ایک خا ص طبقہ ہے جسے حکمران کہا جاتاہے۔جو بھی اس حکمران طبقے میں شامل ہو جاتا ہے وہ ہر قسم کے احتساب سے پاک ہو جاتاہے۔ہم ٹیلیو یژن پر حکمران طبقے کی زبان سے اکثر سنتے رہتے ہیں کہ اگر ہمارے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ہے توپھر عوام کو ہمارا احتساب کر نا چائیے کیونکہ عوام بہترین محتسب ہیں ۔ایسا کہتے ہوئے میرے یہ محترم راہنما بھول جاتے ہیں کہ عوام کا کام منتخب کرنا ہے احتساب کرنا نہیں۔احتساب کا فریضہ عدالتوں کے ذمہ ہوتا ہے اور انھوں نے ہی یہ کام سر انجام دینا ہوتا ہے۔ہمارے سیاسی قائدین کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کرپشن کے الزامات کے بعد بھی عوام انھیں ووٹ دے دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ پاک دامن ہیں اور ان کا احتساب ہو گیا ہے۔یہ انتہائی غلط اور ناقابلِ فہم سوچ ہے جس کا ازالہ کیا جا نا بہت ضروری ہے۔کسی جرم کے خلاف سزا دینا عدالتوں کا کام ہوتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب کسی جرم کے خلاف عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا جائے اور ثبوت فراہم کئے جائیں۔اگر مقدمہ ہی دائر نہیں ہو گا تو سزا کیسے ہو گی؟ مقدمہ دار کرنا اور اس مقدمے کی پیروی کرنا حکومتِ وقت کا کام ہو تا ہے لیکن اگر سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے کسی کے خلاف مقدمہ ہی دائر نہیں کیا جاتا تو پھر جھوٹ اور سچ کا نتارہ کیسے ہو گا؟سوال کسی ایک جمات کی کرپشن کا نہیں ہے بلکہ بحثیتِ قوم ہم مجموعی طورپر کرپشن کا شکار ہیں اور اس سے نکلنے کی ہمیں کوئی راہ سجھا ئی نہیں دے رہی کیونکہ ایک جماعت لوٹ مار کرنے کے بعد جب فارغ ہو جاتی ہے تو دوسری جماعت تازہ دم ہو کر میدان میں اتر آتی ہے اور اپنا کام شروع کر دیتی ہے لیکن پہلے لٹیروں سے کوئی حسا ب کتاب نہیں لیتی ۔ہارنے والا سمجھتا ہے کہ اس کی ناکامی ہی اس کا احتساب ہے اور جیتنے والا سمجھتا ہے کہ چونکہ اسے بھی لوٹ مار مچانی ہے لہذا پہلے لٹیروں کو معاف کر دیا جائے تا کہ کل کو میرے بعد آنے والے میرے ساتھ بھی اسی انداز کو اپنائیں اور مجھے احتساب سے بالا تر قرار دے دیں۔یہی اندازِ سیاست ہے جو پچھلے کئی سالوں سے رو بعمل ہے۔کیا اس بات کی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوا ایک ممبر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے دوسرے ممبر کا احتساب کرے گا ؟بالکل نہیں کرے گا کیونکہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں اور ایک ننگا دوسرے ننگے کی تشہیر کیسے کرے گا کیونکہ وہ تو خود بھی ننگا ہے۔

اس بے لگام کرپشن کا دروازہ بند کرنے اور انصا ف کا علم بلند کرنے کے لئے ڈ ا کٹر علامہ طاہرالقادری نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا تو عوام نے ان کی اس آواز کو جس طرح زبردست پذیر ائی سے نوازا اس نے اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔سچ تو یہ ہے کہ عوام لوٹ کھسوٹ سے تنگ آچکے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ ۳۱ جنوری کو اسلام آباد کی جانب ان کا لانگ مارچ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہےگا کیونکہ کرپٹ نظام سے چھٹکارے کےلئے یہ لانگ مارچ عوامی جذبوں کا بڑا خوبصورت اور توانا اظہار تھا۔ آئین کی دفعہ ۲۶ اور ۳۶ کو ڈ ا کٹر علامہ طاہرالقادری نے جس خوبصورتی سے اجا گر کیا ہے اس نے عوامی نمائندگی کے لئے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔عمران خان بھی اسی تبدیلی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور گلی گلی کو چے کوچے تبدیلی کا شور بلند کر رہے ہیں۔عوام ان کی آواز پر کان دھر رہے ہیں اور ان کے ساتھ تبدیلی کو یقینی بنا نا چاہتے ہیں لیکن پرانے شکاری یہ تبدیلی نہیں چاہتے کیونکہ اس تبدیلی سے ان کی موت واقع ہو جائے گی اور اپنی موت تو کوئی نہیں چاہتا۔ پاکستان کا ہر شہری آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر عملد اری کا خواہا ں ہے لیکن پارلیمنٹ نے جس طرح ان دفعات کو رو بعمل لانے کےلئے سرد مہری کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ ممبرانِ پارلیمنٹ ان دفعات کے ضمن میں مناسب قانون سازی کرنے سے محروم رہے کیونکہ اس طرح وہ خود بھی اس کے شکنجے میں پھنس سکتے تھے اور پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی اہلیت سے محروم ہو سکتے تھے۔ان کے اس طرح کے رویوں نے قوم کے زخموں پر ایسی نمک پاشی کی جس سے وہ بلبلا اٹھی۔قوم چونکہ بیدار ہو چکی ہے اور اسے اپنے حقو ق کا ادراک ہو چکا ہے لہذا وہ شفافیت کو ہر حال میں یقینی بنانا چاہتی ہے۔ وہ لٹیرا گروپ ،قبضہ مافیا ،ڈیفالٹرز اور قرضے معاف کروانے والوں کی قبیح حرکتوں کی وجہ سے انھیں ہر صورت میں انتخا بات سے باہر دیکھنا چاہتی ہے تا کہ ایک صاف ستھری قیادت سامنے آئے جو پاکستان کو اس کی موجودہ مایوس کن صورتِ حا ل سے باہر نکال کر وطن کو اعتماد اور وقار عطا کرے۔

ڈاکٹر مبشر حسن نے آئین کی دفعات 62 اور 63 پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کےلئے ایک درخو است سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے ۔مجھے یہ جان کر بڑی خو شی ہو ری ہے کہ سپریم کورٹ نے جعلی دگری ہولڈرز،دوہری شہریت والوں، ڈیفالٹرز اور قر ضہ معاف کروانے والوں کے خلاف جس طرح کی آبزر ویشن دی ہیں اس نے عوام میں امید کی ایک نئی کرن پیدا کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جعلی ڈگریوں والوں نے قوم کو دھوکہ دیا ہے ان کے خلاف دو دن میں کاروائی مکمل کی جائے۔ الیکشن کمیشن کو ا سکروٹنی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ امید وا روں کے کاغذاتِ نامزدگی کی مکمل چھان بین کی جائے اور انھیں ویب سائٹ پر ڈالا جائے تاکہ عوام ان سے آگاہی حا صل کر سکیں اور ان کے سارے چٹے چٹھے سامنے لا سکیں ۔بد عنوانوں کو کسی بھی صو رت میں اسمبلیوں میں نہیں جانے دیا جائے گا کیونکہ اب ملک اس طرح کے اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مرحومہ اسمبلی سے اس کے آخری لمحوں میں کچھ ذمہ داروں نے جس طرح ذا تی منفعت کے بلوں کی منظوی حا صل کی ہے وہ ان کے اخلاقی بانجھ پن کی علامت ہے ۔ اس گھٹیا فعل نے ملک میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ذمہ دار شخصیتوں نے اپنے لئے اس طرح مراعات حا صل کی ہیں جیسے عوام کا پیسہ ان کے لئے شیرِ مادر کی حیثیت رکھتا ہے اور جسے ہضم کرنا ان کا آئینی ۔قانونی اور پیدائشی حق ہے۔ سچ کہا ہے بڑو ں نے کہ جب لالچ اور طمع سر پر سوار ہو جائیں تو پھر انسان شرم و حیا کے وصف سے محروم ہو جاتا ہے ۔ غر یب عوام کے پیسے سے عیش کرنے کے راستے وہ لوگ تلاش کر رہے ہیں جن کے ہاں پہلے ہی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ کاش عوام کا پیسہ ایسی شخصیتوں کی آ سا ئشات پر خرچ ہونے کی بجائے عوام کی فلا ح و بہبود پر خرچ ہو تا تو شائد ملک کے حا لات میں بہتری کے ا مکا نات روشن ہو جاتے۔

پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر مر کوز ہو چکی ہیں کیونکہ سارے ادارے لٹیرا مافیا کے مفادات کا تحفظ کر نے میں مصروف ہیں۔ہائر ایجوکیشن کمیشن ممبرانِ پارلیمنت کی ڈگریوں کی تصدیق کرنے سے گریزاں ہے۔ وہ وقت کے ضیاع کےعلاوہ کچھ نہیں کر رہا۔اس ادارے کے کرتا دھرتوں کو یہ خوف ستائے جا رہا ہے کہ اگر انھوں نے سچ اگل دیا تو شائد طا قت ور مافیا آنے والے دنوں میں ان کا جینا دوبھر کر دے لہذا وہ حیلے بہانوں سے اس معاملے کو ٹا لتے جا رہے ہیں لیکن شائد اب کٹ حجتیوں کا وقت گزر چکا ہے کیونکہ پوری قوم دو ٹو ک فیصلہ چاہتی ہے،وہ جھوٹ اور سچ میں تمیز چاہتی ہے۔ وہ جعل سازوں اور دروغ گو ﺅں سے نجات چاہتی ہے۔ وہ ساف ستھرے،کھرے،دیانت دار اور ایمان دار لوگوں کو منتخب کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ انتخابات کو با وقار ،شفاف اور قابلِ قبول بنانے کےلئے پہلے ریا کاروں ، مکاروں اور دغا بازوں کو امیدوار وں کی فہرست سے خارج کرنا ہو گا تاکہ ایماندار قیادت کے منتخب ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہی لٹیرے دوبارہ اسمبلیوں میں پپہنچ جا ئیں گئے اور ایک دفعہ پھر لوٹ مار کا بازار گرم کر دیں گئے ۔الیکشن کمیشن کوبا جرات فیصلے کرکے ایسے افراد کی چھانٹی کرنی ہو گی اور انھیںالیکشن کے لئے نااہل قرار دینا ہو گا ۔۔۔۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 630 Articles with 523288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.