ایک جنگ میں لڑائی اپنے عروج پر تھی‘ موت
کا رقص جاری تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہادت کے شوق میں میدان
کارزار میں اپنی جان کی بازی لگاتے ہوئے کسی تردودتامل اور بزدلی کے بغیر
جوہر شجاعت دکھارہے تھے اور بہت سے یہودیوں کو ٹھکانے لگا چکے تھے‘ قلعہ
فتح ہونے کے قریب تھا کہ اچانک قلعہ کے پہرہ داروں کا ایک گروہ نکلا اور اس
گروہ کے ایک آدمی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس زور سے وار کیا کہ
ڈھال بھی آپ کے ہاتھ سے گرگئی چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکار
کر کہا:” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یا تو میں بھی شہادت کا
وہی مزا چکھوں گا جو حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چکھا تھا یا اللہ تعالیٰ
میرے لیے ضرور اس قلعہ کو فتح فرمادیگا۔“
یہ فرما کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیر کی طرح ایک پرانے دروازے کی طرف
دوڑے جو قلعہ کے پاس پڑا ہوا تھا آپ نے اس دروازہ کو اٹھایا اور اس کو ڈھال
کی جگہ استعمال کرتے ہوئے بچاﺅ کا ذریعہ بناتے رہے‘ جب تک آپ دشمنوں سے
لڑنے میں مصروف رہے وہ دروازہ آپ کے ہاتھ میں ہی رہا‘ یہاں تک کہ آپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے اس قلعہ کو فتح فرمایا تو آپ نے
اس دروازہ کو پھینک دیا۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے ساتھ موجود لشکر اس بات کا عینی شاہد ہے کہ میں نے اپنے سات آدمیوں
سمیت یہ کوشش کی کہ اس دروازہ کو اٹھائیں یا الٹا کردیں جسے حضرت علی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے اٹھا رکھا تھا لیکن ہم ایسا نہ کرسکے۔ “ |