بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تابعین کی پاکیزہ زندگیاں
عربی سے ترجمہ : محمد سہیل احمد سیالوی
’’ میں نے تین آدمیوں کے سوا کسی کو علم کے ذریعے رضائے خداوندی حاصل کرتے
نہیں دیکھا ……عطا بن ابی رباح……طاووس……مجاہد ‘‘
(سلمۃ بن کہیل )
٭٭٭٭٭
یہ ذی الحج کے مہینے کی دسویں تاریخ ہے، ۹۷ ہجری کا سن ہے، اﷲ کا مقدس
گھر،بیت اﷲ دیس دیس سے آنے والے مہمانوں سے بھرا ہوا ہے ،اس ہجوم ِبے کراں
میں پیادہ بھی ہیں سوار بھی ،بوڑھے بھی ہیں جوان بھی ، مرد ،عورتیں ،سیاہ و
سفید ،عربی اورعجمی ،آقا اور خادم سبھی موجود ہیں -
سب اس بادشاہِ مطلق کے درِ رحمت پہ امیدیں لگائے، دامن ِطلب پھیلائے ،سر
جھکائے حاضر ہیں ،انہی میں بادشاہ ِ وقت ، سلیمان بن عبد الملک بھی ننگے سر
،ننگے پاؤں بیت اﷲ کا طواف کر رہا ہے ، اس کے بدن پہ دو چادروں کے سوا کچھ
نہیں ،اس وقت وسیع ترین سلطنت کے مالک بادشاہ پر بھی وہی حالت طاری ہے جو
رعایا کے کسی بھی عام فرد پر ہے - اس کے دونوں بیٹے بھی اس کے پیچھے پیچھے
ہیں -دونوں لڑکوں کے چہرے چمک دمک میں چودھویں کے چاند کی طرح ہیں ،ان کے
بدن پھولوں بھری ٹہنی کے مانند مہک رہے ہیں -
بادشاہ نے طواف سے فارغ ہوتے ہی اپنے قریبی لوگو ں میں سے ایک شخص سے پوچھا
: تمہارے شیخ کدھر ہیں ؟ اس نے مسجد حرام کے مغربی کنارے کی طرف اشارہ کرتے
ہوے بتایا کہ ’’شیخ وہاں نماز ادا کر رہے ہیں‘‘ -
بادشاہ اس کونے کی طرف چل پڑا جس طرف اشارہ کیا گیا تھا،دونوں لڑکے بھی اس
کے پیچھے پیچھے چل پڑے ،پروٹوکول کے عملے نے لوگوں کو دھکیل کر راستہ خالی
کرنا چاہا کہ بادشاہ کو ازدحام سے تکلیف نہ پہنچے ،لیکن بادشاہ نے یہ کہہ
کر روک دیا :
’’یہ وہ مقام ہے جہاں بادشاہ اور خاک نشین برابر ہوجاتے ہیں،اور جہاں مقام
و مرتبہ کا دار و مدار قبولیت اور تقوی پرہوتا ہے ‘‘
سچ بھی یہی ہے کہ بہت سے غبار آلود چہرے جو اِس در پہ آتے ہیں اُن کو وہ
مقبولیت مل جاتی ہے جو شاہان ِ جہاں کو بھی نصیب نہیں ہوتی -
بادشاہ چلتے چلتے اس شخصیت کے پاس پہنچ گیا، جو خشوع و خضوع کے سمندر میں
غوطہ زن ،رکوع و سجود میں مشغول تھے ،ان کے ارد گرد لوگوں کا حلقہ بنا تھا،
بادشاہ کو بھی جہاں جگی ملی بیٹھ گیا ، دونوں شہزادے بھی بیٹھ گئے ،وہ سوچ
رہے تھے کہ آخر یہ شخص ہے کون کہ جس سے ملنے امیر المومنین خود آئے ہیں اور
اس کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں -
نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب انہوں نے اہل ِمجلس کی طرف رخ کیا تو شہزادوں
نے خودکو ایک حبشی عمر رسیدہ شخص کے سامنے بیٹھاپایا ،جس کا رنگ کوے کے
مانند سیاہ ، بال سخت گھنگھریالے اورناک بالکل پچکی ہوئی ہے -
جب وہ خلیفہ کی طرف متوجہ ہوے تو خلیفہ نے انہیں سلام کہا، انہوں نے اتنا
ہی جواب دیا ،خلیفہ آگے بڑھا اور ان سے مناسک ِ حج کے متعلق سوال کرنے لگا،
بادشاہ ایک ایک منسک کے بارے پوچھتاجا رہا تھااور وہ اتنی تفصیل کے ساتھ
جواب دے رہے تھے کہ اس کے بعد مزید سوال کی حاجت باقی نہ رہتی، اُن کے ہر
جواب کی سند رسول اﷲ ﷺ تک پہنچتی تھی ،سلسلۂ سوال و جواب ختم ہوا تو بادشاہ
نے ان کا شکریہ ادا کیا ،بیٹوں سے کہا ،اٹھو ، شہزادے اٹھ کھڑے ہوے ،تینوں
باپ بیٹے سعی والے مقام کی طرف چل پڑے -ابھی وہ مقام ِسعی کی طرف جا ہی رہے
تھے کہ شہزادوں نے منادی (ندا دینے والے)کو پکارتے سنا:
’’اے گروہ ِ اہل ِ اسلام !
’’یہاں عطاء بن ابی رباح کے سوا کوئی فتوی نہ دے ،اگر وہ نہ ہوں تو عبد اﷲ
ابن ابی نجیح سے فتوی لیا جائے ‘‘
ایک شہزادہ بادشاہ کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا :
’’امیر المومنین کا گورنر یہ اعلان کیوں کروا رہا ہے کہ یہاں عطاء بن ابی
رباح اور ان کے شاگرد کے سوا کوئی فتوی نہ دے ؟اور یہ شخص کون ہے جس نے
امیر المومنین کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی ،اور نہ ہی آداب ِ شاہی بجا لایا
ہے ‘‘
سلیمان بن عبد الملک نے یہ سن کر بیٹے سے کہا :
’’بیٹا ! یہ شخص جس کو تو نے ابھی دیکھا ،جس کے سامنے ہم بے حیثیت ہیں ،یہ
عطاء ابن ابی رباح ہیں، مسجد حرام کے مفتی، اور علم میں عبد اﷲ بن عباس کے
جانشین ‘‘
پھر بادشاہ نے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوے کہا :
’’میرے جگر کے ٹکڑو!علم حاصل کرو! علم ہی سے پست درجہ لوگ بلندیاں حاصل
کرتے ہیں ،گم نام لوگوں کو علم ہی کی بدولت شہرت نصیب ہوتی ہے ،یہی وہ دولت
ہے جس کی بنیاد پر غلام ، بادشاہوں سے بھی بلند رتبہ پا لیتے ہیں‘‘
٭٭٭٭٭
سلیمان نے عطاء بن ابی رباح کے متعلق بیٹوں کو جو کچھ کہا اس میں ذرہ بھر
بھی مبالغہ نہیں تھا -عطا ء ابن ابی رباح بچپن میں مکہ کی ایک خاتون کے غلا
م تھے، رب کریم کا اس کم سن غلام پر کتنا کرم تھا کہ بچپن ہی سے اسے راہِ
علم کا مسافر بنا دیا، عطاء نے بچپن ہی میں اپنے اوقات کو تین حصوں میں
تقسیم کر لیا تھا---
ایک حصے میں اپنی مالکن کی خدمت کرتے ، اور اتنی اچھی طرح خدمت بجا لاتے
جتنی ان میں صلاحیت تھی ،وہ مالکن کے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا کر رہے
تھے---
اوقات کا دوسرا حصہ انہوں نے عبادت ِ خداوندی کے لیے مختص کیا ہوا تھا ،اس
میں وہ کامل خشوع اور خلوص کے ساتھ اﷲ رب العالمین کے حضور جھکے رہتے ---
تیسرا حصہ طلب ِعلم کے لیے تھا، اس حصے میں عطاء ان صحابۂ کرام کی خدمت میں
حاضر ہوتے جو ابھی بقید حیات تھے، وہ علم کے ان ٹھنڈے میٹھے چشموں سے خوب
خوب سیراب ہوتے ،وہ حضرت ابو ہریرہ کی خدمت میں بھی گئے ، حضرت عبد اﷲ بن
عمر کے قدموں میں بھی بیٹھے، عبد اﷲ بن عباس سے بھی اکتسابِ فیض کیا ،دیگر
صحابہ سے بھی ملاقاتیں کی یہاں تک کہ انہوں نے اپنے سینے کو فقہ اور احادیث
ِرسول ﷺ کا خزینہ بنا لیا -
جب مالکن نے دیکھا کہ اس لڑکے نے تو اپنا آپ راہ ِ علم و عبادت میں وقف کر
دیا ہے تو وہ اپنے حق سے دستبردار ہوگئی ،اس نے رضائے خدا اور تقرب خداوندی
حاصل کرنے کے لیے عطا کو آزاد کر دیا ،اس امید پر کہ اﷲ تعالی اس لڑکے کے
ذریعے اہل ِاسلام کو بہت بڑا نفع عطا فرمائے گا -
اسی دن سے عطاء ابن ابی رباح نے مسجد حرام کو اپنا ٹھکانا بنا لیا ،مسجد
حرام ہی عطاء بن ابی رباح کا گھر تھاجس میں وہ آرام کرتے ، یہی ان کا مدرسہ
تھا جہاں وہ تشنگان ِ علم کی پیاس بجھاتے ،یہی ان کی عبادت کا مقام تھا
جہاں وہ تقوی اور اطاعت کے ذریعے قرب ِخداکی لذتیں سمیٹتے،مؤرخین کہتے ہیں
کہ بیس سال تک مسجد حرام عطاء ابن ابی رباح کا ٹھکانابنی رہی -
٭٭٭٭٭
رفتہ رفتہ عطاء ابن ابی رباح تابعین میں اس مقام پر فائز ہو ے جس کو لفظوں
میں بیان نہیں کیا جا سکتا، اور ان بلندیوں پر پہنچے کہ ان کے معاصرین میں
سے بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ قرار دیے جا سکتے ہیں -
ایک وقت وہ بھی آیا کہ جلیل القدر صحابیٔ رسول ، حضرت عبد اﷲ بن عمر ،عمرہ
کے لیے مکہ مکرمہ آئے اور لوگوں نے ان سے سوالات پوچھنے شروع کیے تو انہوں
نے فرمایا:
’’مکہ والو ! مجھے تم پر حیرانگی ہے کہ عطاء ابن ابی رباح کے ہوتے ہوے تم
مجھ سے سوال کر رہے ہو ‘‘
اﷲ اکبر ……اﷲ اکبر ……اﷲ اکبر
علم اور تقوی میں یہ بلند مقام عطاء ابن ابی رباح کو دو خصلتوں کی بناء پر
حاصل ہوا :
۱) انہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا غلام بنا لیا تھا،وہ اپنے آپ کو کسی بھی
غیر نفع بخش چیز میں قطعا ًمشغول نہیں ہونے نہیں دیتے تھے -
۲) انہوں نے اپنے وقت کو بھی پا بہ زنجیر کر رکھا تھا وہ اپنا ایک لمحہ بھی
کسی فضول بات چیت یا لا یعنی کام کی نذر نہیں ہونے دیتے تھے -
محمد بن سوقہ کہتے ہیں کہ آؤ میں تمہیں عطاء ابن ابی رباح کا ایک فرمان
سناتا ہوں ،ہو سکتا ہے جیسے اس سے مجھے فائدہ ملا ہے تمہیں بھی مل جائے :
ایک دن عطاء مجھ سے کہنے لگے :
بیٹا!ہم سے پہلے لوگ( صحابۂ کرام ) فضول گوئی کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے
!
میں نے پوچھا : وہ لوگ کس بات کو فضول بات سمجھتے تھے ؟
عطاء نے فرمایا:
وہ لوگ کہتے تھے کہ :
اﷲ کی کتاب پڑھو، اس کو سمجھو ،سمجھاؤ،حدیث ِ رسول سنو سناؤ، نیکی کا حکم
دو ،برائی سے منع کرو،ایسی بات کرو جو تمہیں اﷲ کا قرب دلا دے ،یا وہ بات
کرو جسے کیے بغیر زندگی میں گزارا نہ ہو ( جیسے گھر میں کھانا مانگ لیا ،
پانی طلب کر لیا وغیرہ )
اس کے علاوہ سب باتوں کو وہ فضول سمجھتے تھے،
پھر آپ نے میرے چہرے پہ نظریں گاڑتے ہوے فرمایا:
کیا تمہارا
ان علیکم لحافظین - کراما کاتبین (الانفطار:11،10)
پر ایمان نہیں ؟
کیا تمہارا ایمان نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ دو فرشتے ہیں -
عن الیمین و عن الشمال قعید - ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید-
(ق:18،17)
پھر فرمایا:
’’کتنی شرم کی بات ہے کہ ہم میں سے کسی کا نامۂ اعمال شام کو کھولا جائے تو
اس میں زیادہ باتیں ایسی ہوں جن کا اُسے نہ دین میں فائدہ ہے نہ دنیا میں
‘‘
٭٭٭٭٭
عطاء ابن ابی رباح کا علمی فیضان اتنا پھیلا کہ خاص علم کے پیاسوں نے توان
سے فائدہ لیا ہی لیا ، مختلف پیشہ رکھنے والے بھی اس شمع ِ علم سے روشنی
پاتے گئے ،امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں :
ایک دفعہ حج کے دوران میں نے پانچ مناسک کی ادائیگی میں غلطی کی اور ایک
حجام نے میری غلطیاں درست کیں :
ہوا یوں کہ جب میں سر منڈوانے کے لیے حرم سے باہر نکلا تو میں نے حجام سے
پوچھا:
سر مونڈنے کے کتنے پیسے لو گے ؟
اس نے کہا :ـاﷲ تجھے ہدایت دے، مناسک کی ادائیگی میں اجرت طے کرنا درست
نہیں ،بیٹھ جاؤ، جتنے دے سکو دے دینا !
میں شرمندہ ہوا اور بیٹھ گیا ،لیکن میرا منہ قبلہ کی طرف نہیں تھا ،
اس نے مجھے اشارہ کیا کہ قبلہ کی طرف منہ کرو، میں قبلہ کی طرف پھر گیا،
میری شرمندگی میں مزید اضافہ ہو گیاتھا،
میں نے سر کی بائیں جانب اس کی طرف کی ،اس نے کہا :
دائیں جانب میری طرف کرو ،میں نے دائیں جانب اس کی طرف کر دی -
وہ سر مونڈنے لگا، میں چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا ،اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا
اور کہا :خاموش کیوں بیٹھے ہو ؟تکبیر کہو !
بال کٹ چکے تو میں اٹھ کر چل پڑا ، اس نے کہا : کہاں چل دیے ؟
میں نے کہا : اپنے خیمے میں جا رہا ہوں !
اس نے کہا : پہلے دو رکعت نفل پڑھو ،پھر اپنی رہا ئش پہ جانا -
میں نے نفل پڑھے ، میرے دل میں خیال آیا کہ ضرور یہ کوئی عالم ہے جس نے یہ
پیشہ اختیار کر رکھا ہے ،میں نے اس سے پوچھا یہ مناسک آپ نے کہاں سے سیکھے
ہیں ؟
اس نے کہا :
’’میں نے عطاء ابن ابی رباح کو ایسا کرتے دیکھا ہے ، میں نے ان مناسک کو
یاد کر لیا ہے اور لوگوں کو بتاتا رہتا ہوں ‘‘سبحان اﷲ ---
٭٭٭٭٭
دنیا اپنی رنگینیوں کے ساتھ عطا ء کی طرف لپکی ،مگر عطا ابن ابی رباح نے اس
سے یوں منہ پھیرا جیسے پھیرنے کا حق ہوتا ہے ،انہوں نے ساری عمر ایسی قمیص
استعمال کی جس کی قیمت پانچ درہم سے زیادہ نہیں ہوتی تھی -
بادشاہان ِ وقت انہیں مصاحبت کے لیے بلاتے رہے مگر وہ کبھی نہیں گئے ،انہیں
یہ خطرہ تھا کہ اُن کی دنیا پرستی میری دین داری کو نقصان نہ پہنچا دے ،ہاں
مسلمانوں کی اجتماعی بھلائی کی بات ہوتی یا اسلام کی بہتری کا معاملہ ہوتا
تو وہ وفد کی صورت بادشاہ کے پاس چلے جاتے -
عثمان بن عطاء خراسانی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے والد کے ساتھ ہشام بن
عبد الملک کے در بار کی طرف جا رہے تھا، دمشق کے قریب پہنچے تو میں نے ایک
بوڑھے کو دیکھا جو سیاہ رنگ کے ایک دراز گوش پر سوار تھا، قمیص بوسیدہ
،پرانا جبہ ،سر سے چمٹی ہوئی ٹوپی،اور لکڑی کے جوتے ،میں ہنس پڑا ،اورمیں
نے کہا:
والد ِگرامی! یہ کون ہے ؟
والد نے کہا : خاموش! یہ حجاز کے فقہاء کے سردار عطاء ابن ابی رباح ہیں -
جب ان کا دراز گوش ہمارے خچر کے قریب پہنچا تو دونوں سواریاں رکیں ،میرے
والد اور وہ دونوں سواریوں سے نیچے اترے سلام ،معانقہ اور ایک دوسرے کی
خیریت معلوم کرنے کے بعد دونوں اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہو کر چل پڑے
،چلتے چلتے ہشام کا محل آگیا، کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ دونوں کو اندر جانے
کی اجازت مل گئی اور دونوں اند ر چلے گئے ،
عثمان کہتے ہیں کہ بعد میں میں نے اپنے والدسے اندر کے حالات پوچھے تو
انہوں نے کہا :
جب ہشام کو معلوم ہوا کہ باہر عطاء ابن ابی رباح موجود ہیں ،تو وہ بھاگتا
ہوا دروازے کی طرف آیا ،اندر آنے کی اجازت دی اور آج مجھے بھی انہی کی وجہ
سے اندر جانے کی اجازت ملی ،انہیں دیکھتے ہی ہشام نے مرحبا ،مرحبا کہنا
شروع کر دیا، وہ برابر کہتا رہا ، اِدھر تشریف لائیے، اِدھر آئیے ،یہاں سے
آئیے ، یہاں آئیے ، یہاں تک کہ وہ انہیں تخت پر اپنے ساتھ لے گیا ، اپنے
ساتھ انہیں بٹھایا ،اپنے گھٹنے ان کے گھٹنوں سے ملا لیے ،سب مصاحبین کی
زبانیں خاموش ہو گئیں،ہشام ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا :
فرمائیے : کوئی حکم ؟
انہوں نے کہاـ :
امیر المومنین !اہل ِحرمین اﷲ اور اس کے رسول ﷺکے پڑوسی ہیں ،ان کی زکاۃ کا
مال اُن پر ہی خرچ ہو نا چاہیے !
ہشام نے (منشی سے ) کہا :
’’لڑکے ! لکھ لے کہ سال بہ سال مکہ اور مدینہ کے باسیوں کو عطیے اور تن
خواہیں دی جائیں ‘‘
پھر ہشام نے کہا: کوئی اور حکم ؟
عطاء یوں بولے :
’’امیر المومنین ! اہل ِحجاز اور اہل ِنجد عرب کی اصل اور بنیاد ہیں ،یہ
اہل ِاسلام کے قائد ہیں،ان کے زاید مال انہی پر خرچ کیے جانے چاہییں‘‘
ہشام نے کہا : لڑکے لکھ !
’’ان کے زائد مال انہیں کو لوٹا دیے جائیں ‘‘
ہشام پھر بولا: کوئی اور حاجت ؟
عطاء نے فرمایا:ـ
امیر المومنین! ’’اسلامی سرحدوں کے پہرے دار سپاہی ،ہمارے محافظ ہیں ،وہ
اہل اسلام کو شر سے بچاتے ہیں ،ان کی اتنی تن خواہیں مقرر کر دیجیے کہ وہ
خوش ہو جائیں، اگر یہ لوگ نہ رہے تو ہماری سرحدیں محفوظ نہیں رہیں گی ‘‘
ہشام نے کہا : لڑکے لکھ !
’’ان کی ضروریات پوری کی جائیں ‘‘
ہشام پھر بولا: کوئی اور حکم ؟
عطاء نے کہا : امیر المومنین !
’’اسلامی سلطنت میں رہنے والے غیر مسلموں پر آپ نے جو ٹیکس لگا رکھے ہیں وہ
ان کی طاقت سے زیادہ ہیں اگر آپ اُن کی دلجوئی کریں گے تو وہ دشمنوں کے
خلاف آپ کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ‘‘
ہشام نے کہا: لڑکے لکھ !
’’غیر مسلموں سے ناروا بوجھ ختم کر دیا جائے ‘‘
ہشام پھر بولا: کوئی اور حکم ؟
عطاء نے فرمایا ـ: ہاں!
اے امیرالمومنین !’’ اپنے معاملے میں اﷲ سے ڈریے !
اچھی طرح جان لیجیے کہ آپ اکیلے دنیا میں آئے !
اکیلے ہی جائیں گے ،
اکیلے ہی قبر سے اٹھائے جائیں گے ،
اکیلے ہی حساب کے لیے لے جائے جائیں گے ،
ان مصاحبین میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ نہیں ہوگا ،
یہ سن کر ہشام پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ،اس کی نظریں زمین میں گڑی تھیں ،
(عثمان کے والد کہتے ہیں )اتنے میں عطاء کھڑے ہو گئے تو میں بھی کھڑا گیا ،
ہم دروازے کے قریب پہنچے تو ایک درباری تھیلا اٹھائے آیا،اور عطاء سے کہا
کہ امیر المومنین نے یہ آپ کے لیے بھجوایا ہے ،
عطا ء نے فرمایا: ہٹ جاؤ !
وما اسئلکم علیہ من اجرا ان اجری الا علی رب العالمین (الشعراء :109)
میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں لیتا، میرا اجر میرے رب العالمین کے پاس ہے
---
خدا کی قسم ! وہ بادشاہ کے پاس گئے ،اور پھر واپس آگئے اور پانی کا ایک
قطرہ بھی نہیں پیا-
٭٭٭٭٭
عطاء ابن ابی رباح نے سو سال کے قریب عمر پائی ،انہوں نے زندگی کو علم اور
تقوی سے بھر دیا، اور نیکی وپرہیزگاری سے معمور کر دیا،
ان کی زندگی لوگوں کے ہاتھوں میں موجود مال کی ہوس سے یکسر پاک تھی، انہیں
رغبت تھی تو ان نعمتوں سے جو اﷲ رب العالمین نے اپنے ہاں تیار کر رکھی ہیں
-
جب وقت ِ اجل آیا ،تو وہ دنیا کے بوجھ سے آزاد تھے،
البتہ آخرت کے لیے اعمال صالحہ کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے ہم راہ تھا ،
انہوں نے ستر سے زیادہ حج کیے ،
ان حجوں میں ستر مرتبہ انہوں نے عرفات میں کھڑے ہوکر
ہاتھ پھیلائے، اﷲ تعالی سے اس کی رضااور جنت کا سوال کیا تھا ،
اور جہنم سے اور اﷲ کی ناراضگی سے پناہ طلب کی تھی ---
(اﷲ تعالٰی ان سے راضی ہو اور ہمیں بھی ان جیسی حق آگاہی نصیب فرما دے
-آمین) |