خلیج بنگال کے دروازے پر ایک
جزیرہ جمہوریہ سری لنکا 1972سے قبل جسے سیلان،سیلون اور قدیم تاریخ میں
سراندیپ کہاجاتاتھا، الف لیلۃ کی عجیب وغریب کہانیوں میں اس سراندیپ کا
تذکرہ کچھ زیادہ ہی ملتا ہے، یہاں کے ’’جبل نور‘‘ کے متعلق مشہور ہے کہ
حضرت آدم علیہ السلام کا نزول مبارک بھی اسی پر ہواتھا، انگریزوں کے دور
میں شہرت پانے والا علاقہ ’’کالاپانی ‘‘ جوبطور جیل کام میں لایا
جاتاتھا،وہ بھی اس کے پڑوس میں ہندوستان کے آخری کنارے پرہے۔16ویں صدی
عیسوی سے 19ویں صدی عیسوی تک سری لنکا پر تگال ، ہاؤلنڈ اور بر طانیہ کی
یکے بعد دیگرے کالونی رہی ،جاپان کے خلاف دوسری عالمی جنگ میں اتحادی قوتوں
نے اسے بطور بیس استعمال کیا،جاپان پر فضائی اور بحری حملوں کی کمان یہاں
سے کی جاتی تھی،1948میں انگریزی استعمار سے اسے آزادی ملی ۔
یہاں بدھ مت ،ہندومت اوراسلام کے پیروکاروں کے علاوہ قلیل تعداد میں کرسچن
بھی آباد ہیں ، 1981سے 2001 تک سری لنکا کے شمال میں تامل ٹائیگرز آزادی
اور خود مختاری کے حصول کے لئے مرکزی حکومت سے لڑتے رہے، مگر بالآخر ان میں
صلح ہوگئی ، یہ دنیا کا واحدملک ہے جہاں نوے کی دھائی میں ماں بیٹی’’
چندریکا کماراٹنگااور بندرانائیکا‘‘بیک وقت بالترتیب صدارت اور وزارت عظمی
پر فائز رہی ہیں۔
یہاں 500 کے قریب اسلامک سکولزاور قریبا ً200 اربک انسٹی ٹیوٹ ہیں، کئی
دارالیتامی ،متعدد کالجز اور دینی وعصری علوم کی مسلم یونی ورسٹیاں ہیں ،اتوار
سکولز بھی یہاں بہت مشہور ہیں ، یہ مسلمان بچوں کی دینی ومذہبی تربیت کے
لئے حکومت ہی کے سکولوں میں چھٹی کے ایام میں تعلیم وتربیت فراہم کرتے ہیں
،اسلامک لائبریریز،اسلامک کلچر ہالز اور مکاتب تحفیظ القرآن کابھی جال بچھا
ہواہے۔
محمود سامی بارودی سابق وزیر اعظم مصر کو انگریزوں نے کالاپانی کے بجائے
سری لانکا جلاوطن کر دیاتھا،جہاں انہوں نے 17 برس گذارے تھے، اور آخری عمر
میں مصر واپس ہوئے ، چارسال کے بعد وفات پائی ، انہوں نے یہاں خود تو
انگریزی پر عبور حاصل کرلیاتھا، فارسی اور ترکی میں بھی وہ ید طولی رکھتے
تھے، کولمبو میں انہوں نے اپنی جلاوطنی کے زمانے میں عربی زبان کے
نشرواشاعت کے متعدد انسٹی ٹیوٹ قائم کئے تھے، ان ہی کے وجہ سے آج بھی یہاں
ایسے ادارے ہیں ،جہاں سری لنکا کے علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا،برما ، تھائی
لینڈ، اور ہندوستان سے مسلمانوں کے بچے عربی زبان سیکھنے کے لئے رختِ سفر
باندھتے ہیں ، بارودی صاحب کی وجہ سے یہاں شافعی مذہب بہت پھیلا، اگر چہ
اسلام یہاں پہلی اور دوسری صدی ہجری میں داخل ہواتھا، نیز عرب تاجراور سیاح
کی یہاں قبل از اسلام بھی آمد ورفت تھی ،مگر محمود سامی بارودی کی جدوجہد
نے یہاں مسلمانوں کی موجود گی کو مہمیز بخشی ،بارودی عرب دنیا کے عصر حاضر
کے بہت بڑے ادیب ،شاعر اور دانشور شمار کئے جاتے ہیں ، ان کی لازوال نظم
’’قصیدۃ سراندیب ‘‘ عربی ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے، دسیوں اس کی شرحیں
لکھی گئی ہیں، ادبِ عربی کی تاریخ میں چند نامور قصائد میں ’’قصیدۃ سراندیب‘‘
ایک سنہری اضافہ ہے۔
اسلامی رفاہی اداروں اسلامک مشنری تنظیموں ،تبلیغی جماعت ، جماعت اسلامی،
جمعیت علمائے سری لنکا، جمعیت البخاری ،جماعت مسلمہ اور جمعیت انصار السنۃ
کی اس جزیرے میں نمایاں خدمات ہیں ۔
سیاست میں بھی یہاں کے مسلمان ماضی کے زمانوں سے اِن ہیں ، وزارت ،سفارت ،بیوروکریسی
اور اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ ان کی اپنی سیاسی جماعت سریلنکن پیپلز کانفرنس بھی
فعال ہے۔
حالیہ دنوں میانمار کی طرح سری لنکا میں بھی مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت
کی آگ بھڑکائی گئی ہے،الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق ،باحجاب خواتین ،مسلم
مارکیٹیں ، مسلمانوں کی دکانیں ،’’حلال ‘‘ مارکہ غذائی مصنوعات ،مساجد اور
مدارس کو بطور خاص ہدف بنایاگیاہے، رپورٹ کے مطابق بعض مسلم خواتین کوبسوں
تک سے صر ف اس لئے اتارا گیا کہ وہ مسلمان ہیں ، عقیل الدین جو ایک ٹیچر ہے
کے بقول سکول میں ایک بڈھسٹ بچے نے جب مسلم بچے سے پانی مانگا تو دوسرے نے
چلاّکر روکا کہ حلال ہے، عام سڑکوں پر کچھ جنونیوں نے مسلمان خواتین سے
عبائیں کھینچ کر اتارنے کی کوشش بھی کی ، کئی مساجد کو عارضی اور ایک دو کو
مستقل بند کر ایاگیاہے۔ کولمبو میں ایک سپر سٹور کے مالک رضوان نے بتایا کہ
’’بوڈھو بالاسینا‘‘ بڈھسٹ جنونی تنظیم کی وحشیانہ کارروائیوں کے بعدسے میں
صبح اپنے تین بیٹوں سمیت کاروبار کے لئے آتا ہوں اور شام خالی ہاتھ لوٹتا
ہوں ۔جلال بوڈھا گنانا سارا جنرل سیکرٹری بوڈھو بالاسینا نے ان بٖڈھسٹ
خواتین وحضرات کو جو’’ مسلم مارکیٹس بائیکاٹ ‘‘کا خیال نہیں ر کھتے، گندے
انڈے قرار دیاہے ، اور انہیں سخت سزائیں دینے کا عندیہ بھی دیاہے۔
ان حالات میں امت مسلمہ کو اتحاد دو اتفاق کا مظاہرہ کر ناچاہئے ،عالمی
فورموں پر اپنی آواز بلند کرنی چاہیۓ ،نیز انسانی حقوق کی تنظیموں اور
انسانیت کے نام پر شہرۂ آفاق شخصیات کو بھی آگے بڑھ کر منافرت وتشدد کی ان
کا رروائیوں پر شدید تنقید کرنی ہوگی ، اقوام ِ متحدہ اور اس کے ذیلی
اداروں کا بھی فرض بنتاہے کہ اقلیات کے ساتھ زیادتیوں پر قدغن لگائے ،تاکہ
دنیا میں کمزوروں سے نفرت کا یہ سلسلہ رک جائے ۔ |