پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کا ایک
انمٹ رشتہ ہے خواہ وہ مذہب کا ہو ،مسلک کا یا کلمہ کا ہر دو اعتبار سے یہ
رشتہ قابل احترام ہے کشمیریوں نے ہر پلیٹ فارم پر پاکستان سے والہانہ محبت
کا اظہار کیا ۔مگر پاکستان کی جانب سے وہ محبت ہم کشمیریوں کو نہیں ملی جو
کہ ان کا حق تھا ہم پاکستانیوں کو عزت و تکریم سے دیکھیں مگر پاکستان
کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے ہمشہ سے محروم رکھ رہا ہے ان کے ساتھ وہ
سلوک روا رکھا گیا ہے جیسے یہ کوئی اچھوت ہیں باور یہ کرایا جا رہا ہے ہمیں
ان محبان ریاست سے کوئی سروکار نہیں اس کی مثال ریاست جموں و کشمیر میں
بسنے والوں کو انسانیت سوز سلوک کیے جا رہے ہیں کشمیر کے ضلع نیلم سے
حکمراں طبقہ کو گہری دلچسبی تھی جس کا ادراک اس وقت ہوا جب نیلم سے معدنیات
کی سمگلنگ شروع کی گی تو یہ راز افشا ہوا ۔۔۔۔۔۔؟تو نیلم کے مسائل یوں کے
توں ہیں اس جانب کسی کی بھی نظریں نہیں اٹھیں ،غربت ،مہنگائی ،بے روز گاری
،جہالت ،افلاس نے عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔کیا مقبوضہ کشمیر کے
دوسرئے حصہ جو بھارت کے زیر تسلط ہے وہاں بھی غربت و مسائل کی شرح یہی ہے ؟دریائے
نیلم کے دوسرئے کنارے بسنے والے کشمیریوں کو راشن کارڈ ملے ہوئے ہیں جس کی
آمدن کے حساب سے اشیاءخورد نوش ملتی ہیں وہاں بجلی کی کیا ریٹس ہیں ؟فون کی
ماہانہ بل کی کیا کیٹگری ہے حکومت نے ان کو کیا سہولیات فراہم کی ہیں تو اس
کو دیکھتے ہوئے ہمیں پاکستان سے محبت کا فیصلہ ایک جر م سے کم نہیں لگتا ۔بنیادی
سہولیات سے محروم ویلی جہاں اس جدید دور میں بھی موبائل سروس سے عوام محروم
ہے اس پر ستم ظریفی ریاست پہ غیر ریاستی سامراجی مسلط ہو کر لینڈ لائن فون
کے بھاری بلات دئیے جاتے ہیں جس کو صارفین برداشت نہیں کر سکتے اور فون کو
بند ہونے پہ ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں جب لینڈ لائن فون لگوایا جاتا ہے اس
کی باقاعدہ سیکورٹی لی جاتی ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے جمع شدہ رقم سے بل
تجاوز کر گی تو ادارہ فون بند کرنے کا مجاز ہے ،اسی طرح محکمہ برقیات کے
اندر بھی یہی قانون ہے سیکورٹی فیس جمع کروانے کے بغیر کنکشن نہیں دیا جاتا
تاکہ سیکورٹی فیس سے بل زیادہ ہو جائے تو بجلی کا کنکشن منقطع کر دیا جائے
یہاں ایک بات انتہائی ضروری سمجھتا ہوں عرصہ پندرہ سال جب نیلم ویلی میدان
جنگ بنی رہی تو نیلم کے باسیوں نے مورچوں میں زندگی گزاری اور اس دوران
بجلی بند رہی جب سیز فائر ہوا تو بجلی بحال ہوئی تو عوام کو جو ریلیف محکمہ
برقیات کی جانب سے ملا وہ بھاری بلات کی صورت میں ایک لاکھ ،پچاس ہزار اس
طرح کے بلات صارفین کو تھما دیئے گئے جن کے پاس کچھ جمع پونجی باقی بچی تھی
انہوں نے جمع کروا دیئے اور جنہوں نے حالت جنگ میں جب حکومت پاکستان نے ایک
روپے کی مدد نہیں کی تھی اس دوران خرچ کر دی تھی تو ان کی حب الوطنی کی یہ
سزا دی گی ان کو پابند سلاسل کر کے سر عام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گی
یہ وہ تذلیل ہے جو ناقابل برداشت فعل تھا مگر سادہ لوح عوام ،لٹے ،کٹے
قافلے نے یہ ظلم بھی ہنس کر سہہ لیا حالانکہ چاہیے تو یہ تھا نیلم ویلی سے
تیار ہونے والی بجلی نیلم کو مفت فراہم کی جاتی، اسی کرپٹ اسی ادارئے کی
تقلید کرتے ہوئے ایس سی او نے حالیہ بقایا جات کی وہ ظالمانہ و کالے قانون
کے زریعے 20,000تک کی بلات بلات بھجوا دی ہیں جو نمبر سال ہا سال سے بند
پڑئے تھے اور وہ نمبر ز بھی دوسرئے صارفین کو الاٹ کر دیئے ہیں حالانکہ
قانون یہ بنتا تھا جتنی سیکورٹی فیس صارف نے جمع کروائی ہے اس سے بل تجاوز
کرتے ہی فون عدم ادائیگی بند کر دیا جائے اور سیکورٹی فیس کا مقصد ہی یہی
ہے مگر سامراجی سسٹم نے گزشتہ چند ماہ قبل موبائل سروس کی عدم فراہمی کے
خلاف سراپا احتجاج بننے والے نیلم کے غیور عوام کو انتقام کا نشانہ بناتے
ہوئے 20,000روپے تک کی ریکوری لکھی ہے اور شنید میں آیا ہے اس کی ایک کاپی
ڈپٹی کمشنر نیلم کو بھجی گی ہے تاکہ انتظامیہ سے مل کر عوام کو ظلم کی چکی
میں پیسا جائے مگر یہ ایس سی او کی خام خیالی ہے گوچہ وطن عزیز میں ابھی تک
انگریز کا قانون رائج ہے مگر قانون سے بالاتر ایس سی او بھی نہیں جب
سیکورٹی فیس سے صارفین کی بلات تجاوز کر چکی تھی تو فون بند ہوگیا بند فون
کی بلات اتنی نہیں ہو سکتی اور اگر عوام کی توجہ اس طرف موڑ کر موبائل کاز
کو نقصان پہنچانے کی سازش ہو رہی ہے تو یہ سب غیر ریاستی وطن کش پالیسی کو
کشمیری کالعدم و باطل قرار دیتے ہیں ادارہ یہ نہ سمجھے کشمیری میدان سے
بھاگ جائیں نہیں مقبوضہ علاقہ کے غیر ریاستی افراد کو ہم بھی عرصہ دراز سے
برداشت کر رہے ہیں ظلم کی رات جتنی بھی لمبی اور تاریک ہو آخر ایک دن صبح
ضرور ہوتی ہے یہ وہ دن ہیں جب ظلم کے بادل چھٹنے والے ہیں اور صبح کازب ہو
چکی تو منتظر رہو طلوح سحر کا مگر ہم یہ نہیں کہیں گئے بخشو بی بلی چوہا
لنڈورا ہی بلا۔ |