ظفر اور مسٹر ہاشمی دونوں ہی ہال میں اکٹھے
بیٹھے تھے مغرب کا وقت ختم ہونے کو آیا تھا یہ دونوں باپ بیٹے نماز ادا
کر کے کھانے کا بےصبری سے انتظار کر رہے تھے ٹی وی پر بھی نظر بے چینی سے
نہ ٹکتی تھی دونوں نے کئی بار کچن میں ہوتی ہلکی ہلکی برتنوں کی آواز پر
ایک دوسرے کو دیکھا تھا کہ کب کھانے کا بلاوا آجائے تب ہی چھناکے سے کچھ
ٹوٹنے کی آواز آئی دونوں چونک گئے مسز ہاشم بھی بہو کے ساتھ مصروف تھی ۔۔
لگتا ہے کچھ ٹوٹ گیا مسٹر ہاشمی نے کہا بابا لگتا ہے کانچ کا گلاس ٹوٹ گیا
ظفر نے کہا کس کے ہاتھ سے ٹوٹا ہوگا مسٹر ہاشم نے کہا ماں کے ہاتھ سے ظفر
نے کہا ہوسکتا ہے بہو کے ہاتھ سے گرا ہو تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے
ہو مسٹر ہاشمی نے اندر کی طرف جاتے ہوئے بولے اندر جا کے پتہ چلایا
واقعی گلاس ٹوٹا ہے اور مسز ہاشمی کے ہاتھ سے ٹوٹا ہے اپنے بیٹے کے
جواب پر حیران ہوتے ہوئے واپس آئے ظفر تم نے اتنے یقین سے کیسے
کہا کہ گلاس تمہاری مما نے ہی توڑا ہے مسٹر ہاشمی بولے گلاس ٹوٹنے
پر بھی اندر سب خاموش خاموش تھا اگر یہ کے ہاتھ سے گرتا تووہ مما
خاموش ہوتی ظفر کی بات پرسب ہنس پڑے |