نا جانے وہ رات کا کونسا پہر تھا، نیند اُس
کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ اپنے بیڈ روم کے پلنگ پر سیدھا لیٹا
اندھیری خلاوں میں گھورے جا رہا تھا۔ دھیرے دھیرے اپنا پسندیدہ گیت بھی
مسلسل گنگناتا جارہا تھا لیکن اسکی آواز اتنی بھی بلند نا تھی جو اسکے پہلو
میں گہری نیند سوتی بیوی کی نیند میں کسی خلل کا موجب بنتی۔
وہ گیت اُسے کچھ ایسا ہی پسند تھا، اُسکے سارے بول اسے ازبر تھے اور اکثر
اُسکے ہونٹوں پر مچلنے لگتا۔ اُس وقت بھی ایسا ہی تو ہوا تھا۔ پہلے تو وہ
کافی دیر تک اپنے بیدار زہن کو مختلیف حیلے بہانوں سے تھپک تھپک کر سلانے
کی کوشیش کرتا رہا لیکن پھر ناکام ہو کر اپنے زہن کو آزاد چھوڑ دیا اور حسبِ
معمول اُسکے ہونٹ پھر وہی گیت گنگنانے لگے۔
تجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہُوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشان ہُوں میں
یوں تو اِس گیت کا ایک ایک بول اُسکے دل پر اثر کرتا تھا لیکن جب جب بھی وہ
یہ بول سنتا:۔
جینے کے لیئے سوچا ہی نہیں درد سبنھالنے ہونگے
مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہونگے
مسکراوں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے
تب تب نا چاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھیں بھر آتیں۔
ویسے وہ کسی طور بھی زندگی سے ناراض نا تھا اور بھلا ہو بھی کیسے سکتا تھا؟
اُسنے ذندگی سے وہ سب کچھ ہی تو پایا تھا جسکی اُسنے خواہش کی تھی۔ ایک
اچھا عہدہ، معاشرے میں عزت و احترام، ایک خونصورت سی پیار کرنے والی بیوی،
دو پیارے پیارے بچے، اپنا گھر اورگاڑی۔
تو پھر وہ کیا شئے تھی جسکی کمی وہ پر وقت محسوس کرتا؟
ذندگی مکمل ہوتے ہوئے بھی اسقدر نامکمل کیوں تھی؟
وہ کونسا قرض تھا جسکے بوجھ تلے اسکے ہونٹ مسکرائے ہوِئے بھی مسکرانا بھول
گئے تھے
اور دل کا عالم بقول شاعر کچھ یوں تھا:۔
دل ہے تو ڈھرکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
وہ لیٹا لیٹا بس اُسی ادھیڑ بن میں مصروف تھا۔ ایسا نا تھا کے اب شادی کے
پندرہ سالوں بعد اسکا جی اپنی بیوی سے بھر گیا ہو۔ اُسے آج بھی اپنی بیوی
سے اتنی ہی محبت تھی جتنی شادی سے پہلے اور شادی کے فوراً بعد تھی۔ بلکے
کبھی کبھی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کے جیسے اسکی محبت تو شاید اب پہلے سے
بھی ذیادہ شدید تر ہوتی جاری ہے۔
دوست احباب اور رشتے داروں اِنہیں ایک مثالی جوڑے کی حیثیت سے جانے جاتے
تھے اور انکی محبت کی مثالیں پیش کی جاتیں تھیں۔
لیکن پھر بھی کوئی شئے تو ایسی ضرور تھی جو وہ اب اپنے اور اپنی بیوی
کےدرمیان گمشدہ سی محسوس کرتا۔ وہ شدت سے اُن دنوں کو یاد کرتا جب وہ اور
اُسکی بیوی ندا ابھی رشتہِ ازدواج میں تو نہیں البتہ جس رشتے کی ڈوری میں
بندھے تھے، تھا تو وہ کسی کمزور سی ڈور ہی کی مانند ہی لیکن اُس کمزور سی
ڈور نے ایک مضبوط رشتے کی مانند دونوں کو تھام رکھا تھا دونوں ہی کا حال یہ
تھا کہ بقول شخصے:۔
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
اُسے اپنی شادی سے پہلے کے اُن دو برسوں کا ایک ایک لمحہ یاد آیا جسمیں شہر
کا وہ کونسا کونا، وہ کونسی جگہ تھی جہاں وہ اور ندا نا گئے ہو اور وہ کیسی
بیقراری تھی جو دونوں کو روز ملنے پر نہ صرف مجبور کردیا کرتی بلکے ان
ملاقاتوں کا سرور اب بھی اُسے ایسے ہی یاد تھا جیسے کل ہی کی تو بات ہو۔
دونوں کا خاندانی پس ِمنظر کم و بیش یکساں ہونے کے سبب دوںوں کی شادی بناء
کسی روکاٹ کے ہوگئی اور شادی کے اخراجات سے بچ رہنے والی رقم سے وہ دونوں
ہنی مون پر بھی گئے۔ لاہور، اسلام آباد، مری، نتھیا گلی، ایبٹ آباد، وادی
سوات وغیرہ کی خوب خوب سیریں کیں۔
شادی کے پہلے ڈیرھ دو سال کا وہ خوشگوار زمانہ تو جسے عرفِ عام میں "ہنی
مون پیریڈ" کہا جاتا ہے، ندا کو اپنا پسندیدہ ترین رومانوی گیت گا کر سناتے
نا جانے کب اور کیسے بیت گیا:۔
سونا نا چاندی نا کوئی محل جانِ من
تجھ کو میں دے سکوں گا
پھر بھی یہ وعدہ ہے تجھ سے
تو جو کرے پیار مجھ سے
چھوٹا سا گھر تجھ کو دونگا
دکھ سکھ کا ساتھی بنوں گا
سچ تو یہ تھا کہ وہ ندا کے دکھ سکھ کا ساتھی تو ضرور بن گیا تھا اور پھر
ماشاءاللہ سے ندا کی گود میں چند ماہ کے ننھے اسد نے قلقاریاں مارنا بھی
شروع کردیں تھیں لیکن وہ اُسے جسبِ وعدہ ایک چھوٹا سا گھر اب تک نا دے سکا
تھا اور باپ بن جانے کے بعد تو اِس احساس نے اور شدت اختیار کرلی تھی کے
ابتک کرائے کا گھر ہی انکا مقدر ہے۔
وہ ٹہرا ایک ملازمت پیشہ فرد اوراُسے اتنی تنخواہ تو ضرور مل جایا کرتی تھی
کے جس سے اُسکے گھر کا ماھانہ خرچ تو بخُوبی چل جایا کرتا تھا اور بچ رہنے
والی رقم کو اگر دو تین عشروں تک بھی جمع کیا جاتا رہتا تو بھی اسمیں چھوٹا
سا تو کیا کوئی ایک کمرے کا مکان بھی خریدنا ممکن نا ہوپاتا۔
تعلیم سے فراغت کے فوری بعد ہی اُسے اپنی ایم بی اے کی ڈگری جسمیں اسنے
اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا کے سبب ایک اچھی فرم میں بطور
جونیئراسسٹنٹ منیجر ملازمت تو فورا ہی مل گئی تھی، تنخواہ بھی بس مناسب ہی
تھی اوراسنے فوری ملازمت مل جانے پراللہ کا لاکھ شکر ادا کیا تھا کیونکہ وہ
دیکھ چکا تھا کے نئےفارغ التحصیل ایم بی اے کس طرح سے ملازمت کے حصول کی
خاطر دفاتر میں اپنی جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور ویسے بھی اُسے اپنی
قابیلیت، محنت، ایمانداری اور اِس سب سے بڑھکر اپنے والدین کی دعاوں اور
اللہ کی رحمت پر پورا پورا بھروسہ تھا۔ اُسنے ہمیشہ اپنے فرائضِ منصبی کو
نہ صرف بھرپور انداز میں سر انجام دیا بلکے اپنے دورِ طالب علمی کے تمام تر
مشاغل جسمیں کتب بینی، لکھنا لکھانا اور گٹار بجانا سر فہرست تھے انکو بھی
تیاگ دیا۔
کتب بینی کی تو اُسے وہ لت تھی کے شاید ہی شہر کی کوئی لائبریری ہو جہاں جا
کر اس نے استعفادہ نا کیا ہو کیونکہ اُسکے والدین نے اپنے محدود معاشی
وسائل کے باوجود بھی اُسکی تعلیم میں کسی قسم کی کمی بیشی نا آنے دی تھی
اور پھر اُسکی اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے شہر کے سب سے
نامور تعلیمی ادارے میں نا صرف باآسانی داخلہ بھی مل گیا اور کسی قدر
اسکالرشپ بھی میسر آگئی تھی۔ لیکن وہ اس "عیاشی" کا متحمل تو ہرگز نہیں
ہوسکتا تھا کے خود کتابیں خرید سکتا لہذا شہر بھر کی لائبریروں سے کتابیں
حاصل کرکے اپنی آتشِ شوق سرد کیا کرتا۔ اپنی تعلیی سرگرمیوں اور کتب بینی
سے جو بھی تھوڑا بہت فارغ وقت دستیاب ہوتا وہ اپنے لکھنے لکھانے کے شوق میں
صرف کرتا اور اکثر و بیشتر اسکی تخلیقات ملک کے معروف ادبی رسالوں کی زینت
بنا کرتیں تھیِں۔
گٹار بجانے کا بھی اُسے بہت شوق تھا۔ اچھا خاصہ بجا بھی لیا کرتا تھا اور
کچھ ٹھیک ٹھاک گا بھی لیتا تھا۔ اکثر جب وہ یونیورسٹی میں اپنے دوستوں کی
فرمائش پر انہیں خود ہی گیٹار بجا کر ساتھ انکا کوئی فرمائشی گیت سناتا تو
یار دوست اُسے خوب خوب داد و تحسین سے نوازا کرتے تھے۔
ندا سے شادی کے وقت اُسے ملازمت کرتے دو سال کا عرصہ بیت چکا تھا اور خود
ندا سے اُسکی ملاقات اُسی دفتر میں ہی تو ہوئی تھی۔ شاید خُدا نے دونوں کو
ایک دوجے ہی کے لیئے تو بنایا تھا۔ دونوں میں فوراً دوستی ہوگئی اور وہ
دوستی دیکھتے ہی دیکھتے پیار میں بدل گئی، پھرانہوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا
اوردونوں خاندانوں کی مکمل باہمی رضامندی کے ساتھ وہ ہنسی خوشی رشتہِ
ازدواج میں بندھ گئے۔
ندا کے پاوں بھاری ہونے تک تو ندا نے اپنی ملازمت جاری رکھی لیکن پھراُس ہی
کے اصرار پر ملازمت سے استعفہ دے دیا اور گھر بیٹھ گئی۔
اُسکی سوچوں کے دھارے اُسے بہائے چلے جارہے تھے۔ پھر اُسے وہ دن بھی یاد
آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!۔
اسد دو برس کا ہوچلا تھا، اُس روز وہ ابھی دفتر میں آکر بیھٹا ہی تھا کے
چپراسی نے اُسکی میز پر آکر کہا:۔
۔"احد صاحب، آپکو قریشی صاحب یاد کررہے ہیں"۔
۔"قریشی صاحب نے اُسے اِس وقت کیوں طلب کیا ہے؟"۔
قریشی صاحب اُسکے شبعہ جاتی منیجر تھے اورعموماً وہ خود لنچ بریک سے قبل ہی
ساری رپورٹس وغیرہ لیکر انکی خدمت میں حاضر ہو جایا کرتا تھا۔
۔"جی احد صاحب، تشریف رکھیں"۔
قریشی صاحب نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:۔
۔"مجھے آپکی شکایت موصول ہوئی ہے تو میں نے سوچا کے آپکو خود ہی بلا کر بات
کرلوں"۔
۔"میری شکایت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔
احد اُن کی بات سنکر بھونچکا سا ہو کر بولا۔
قریشی صاحب نے فوراً اپنے دائیں جانب رکھا ایک فولڈر کھولا اور اُسے میں سے
چند واوچرز نکال کر احد کے سامنے رکھ دیئے۔
۔"گذشتہ ماہ سے تصویض شدہ نئی ڈیوٹی جسکے تحت آپکو ہر پیر کے روز فیکڑی جا
کر پرچیز سیکشن کی فزیکل انوینٹری رپورٹ تیار کرنا ہوتی ہے اور آپ نے مقرر
کردہ کنوئینس الاوئنس میں سے پہلے ہفتے 285 روپے اوراس کے بعد صرف 22 روپے
فی ہفتہ کے حساب سے دو واوچرز جمع کروائے ہیں، حالانکہ فی ہفتہ کی مقررہ
رقم 300 روپے ہے"۔
۔"لیکن جناب اسمیں شکایت والی بھلا کونسی بات ہے؟"۔
احد نے حیرت کے سمندر میں غوطے لگاتے لہجے میں دریافت کیا۔
۔"تمام افسران جو اپنے اپنے شبعوں کی انسپکشن روپوٹس کی تیاری کے لیئے
فیکڑی جاتے ہیں انہوں نے یکجا ہوکر مجھ سے آپکی شکایت کی ہے"۔
۔"قریشی صاحب، بخدا میں سمجھنے سے عاری ہوں کے بھلا اسمیں اسیی کونسی غلط
بات ہے جس سے انہیں مجھ سے شکایت ہوگئی ہے؟"۔
احد کے چہرے پر دنیا بھر کی حیرت موجزن تھی
۔"دیکھیں قریشی صاحب! پہلے ہفتے میں نے اس وجہ سے 285 روپے کا واوچز داخل
کیا کے میں پہلی بار فیکٹری جارہا تھا اور راستے سے ناواقف ہونے کے سبب میں
نے آنے جانے کے لیئے رکشہ استعمال کیا تھا لیکن پھردفتر ہی کے کسی ساتھی سے
یہ معلوم ہونے پر کے ہمارے دفتر کی عمارت کے عین سامنے والے بس اسٹاپ سے
ویگن چلتی ہے جو سیدھا فیکڑی کے دروازے پر اتارتی ہے اوراس وقت چونکے رش
آورز بھی نہیں ہوتے، ویگن کم و بیش خالی ہی ہوتی ہے، میں دونوں اطراف میں
اپنا سفر باآسانی طے کرلیتا ہوں اوراسکا یکطرفہ کرایہ 11 روپے بنتا ہے
لہٰذا میں نے اسے کے بعد کل 22 روپوں ہی کے واوچز اپنے سفر خرچ کی وصولی کے
لیئے داخل کیئے"۔
احد نے وصاحت کرنا چاہی۔
۔"احد صاحب آپ شوق سے ویگن میں جائیں، لیکن یہ آپ سے کس نے کہا ہے کے آپ
300 روپوں کی جگہ 22 روپے کے واوچر داخل کریں، اسطرح سے تو کل اُن تمام
افسران پر اعتراص ہوسکتا ہے جو جاتے تو آپ ہی کی طرح سے ویگنوں ہی میں ہیں
لیکن کنوینس الاوئنس پورے 300 روپے وصول کرتے ہیں"۔
۔"لیکن قریشی صاحب جب میں نے اپنی جیب سے 22 روپے ہی خرچ کیئے ہیں تو بھلا
میں 300 روپے کا واوچر کیسے داخل کرسکتا ہوں اور ویسے بھی یہ بات میرے اصول
کے خلاف ہے؟"۔
احد نے واضح طور پر یہ محسوس کیا کے اسکا یہ جواب قریشی صاحب کو پسند نہیں
آیا تھا لیکن وہ محض اپنا سر ہلا کر ہی رھ گئے اور اسے جانے کا ارشارہ
کردیا۔
اپنی میز تک جاتے ہوئے اسے کل کا دن یاد آیا جب وہ ندا کے ہمراہ بازار اسد
کیلیئے کپڑوں کی خریداری کرنے گیا ہوا تھا۔
موسم بدل رہا تھا یہ اسد کا پہلا موسمِ سرما ہے، اور ندا کا تقاضہ تھا کے
ہم اپنے لیئے گرم کپڑے لیں یا نا لیں، کم ازکم اسد کیلیئے گرم کپڑوں کی
خریداری ازحد ضروری تھی۔ جب وہ دکاندار کو ندا کے منتخب کردہ تمام کپڑوں کی
قیمت ادا کررہا تھا تو ایک لمحے کیلیئے اُسے خیال آیا کے اِس طرح کے خرچے
تو ہر ماہ نکلتے ہی رہتے ہیں اور دفتر سے ملنے والا سفری خرچ جسے وہ وصول
نہیں کرتا، اِس قسم کے اخراجات میں بخوبی کام آسکتا ہے۔ کچھ دیر اُسکے زہن
میں یہ کشمکش چلتی رہی کے اُسے 300 روپے فی ہفتہ کی رقم پوری پوری وصول
کرلینی چاہیے۔ لیکن پھر آخرِکار دل دماغ ہر حاوی رہا۔
کچھ ہی عرصے بعد اسکا تبادلہ براہ راست فیکٹری میں ہی کردیا گیا۔ اب وہ
پروکیورمینٹ مینیحر کےماتحت کام کرنے لگا۔ کچھ ہی روز گزرے ہونگے تو اُسے
پتہ چلا کے ہر آرڈر پر سپلائیرز کی جانب سے پروکیورمنیٹ ڈیپارٹنمنٹ کےتمام
تر افسران کو حسبِ عہدہ کمیشن سے نوازا جاتا ہے اور جب اسنے اپنا حصّہ قبول
کرنے سے انکار کیا تو منیجر اس کے خلاف ہوگیا۔
احد کسی جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا لہٰذا اسنے فوری طور پر دوسری
ملازمت کی تلاش شروع کردی اور وہ جو کہتے ہیں نا کے ڈھونڈنے والے کو تو خدا
بھی مل جاتا ہے، اسے نا صرف بہتر تنخواہ کی ملازمت ملی گئی بلکے کمپنی کی
جانب سے بالکل نئی موٹرسائیکل بمعہ پٹرول اور مینٹیننس بھی فراہم کردی گئی۔
اِس نئی ملازمت کا ماحول احد کو اپنی پچھلی ملازمت سے کہیں بہتر محسوس ہوا۔
احد نے اپنی تماتر صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرنا شروع کردیا اور اِس حقیت
کے باوجود کے وہ مینحرکی سطح پر فائز تھا، نچلے اسٹاف کی طرح سے اوور ٹائم
نا ملتا تھا، اپنے پروجیکٹس اور اسائنمیٹس کو جلدازجلد مکمل کرنے کے لیئے
اُسنے دفتری اوقات کے بعد بھی اپنے سیکشن کے نچلے اسٹاف کے ہمراہ دفتر میں
روزانہ اضافی دو تین گھنٹے بیٹھنا شروع کردیا اور اُسکی شاندار کارکردگی نے
اُسے کمپنی کے بورڈ آف ڈایکٹرز کی آنکھوں کا تارا بنا دیا اور چھے ماہ بعد
ہی اُسکی تنخواہ میں خاظر خواہ اضافہ کردیا گیا۔
لیکن اِن سب باتوں کے باوجود بھی وہ خود کو اِس قابل نا پاتا تھا کے چھوٹا
ہی سہی مگر کوئی ذاتی گھر خرید سکے۔
اب اسد 5 سال کا ہوچکا تھا اور ایک روز ندا نے احد سے دوبارہ ملازمت کرنے
کی خواہش کا اظہار کردیا۔ کچھ روز تو احد گومگوں کی سی کفیت میں رہا مگر
ندا کے مسلسل اصرار اور اِس استد لال کے اب وہ زمانہ نہیں رہا جب ایک شخص
کماتا اور سارا کنبہ کھاتا، ہمیں اپنے بچے کے بہتر مسقبل کے لیئے سوچنا ہے
اور آخر ہم کب تک اسی طرح سے کرائے کے گھر میں ہی پڑے رہینگے؟
بحرحال ندا کو اُسکی ماسٹرز ڈگری اور سابقہ تجربے کے سبب کچھ ہی عرصے میں
ایک معروف این جی او میں مناسب سی جاب مل گئی جو کے گھر سے بہت دور بھی نا
تھی اور اوقاتِ کار بھی صبح 9 سے شام 5 تک ہی تھے۔ ندا کے برسرِ روزگار
ہوجانے سے گھر میں مذید خوشحالی آئی اور ساتھ ہی ساتھ دونوں نے ملکر شہر کے
ایک اچھے علاقے میں کوئی مناسب سا گھر خریدنے کی منصونہ بندی کا آغاز کیا۔
وہ جو کہتے ہیں نا آٹے دال کا بھاو، خیر اُن کے بھاو تاو سے تووہ دونوں
بخوبی آگاہ تھے لیکن شہر کے کسی اچھے رہائشی علاقے میں ایک چھوٹے سے گھر کی
قیمت جان کر تو جیسے دونوں کے ہوش ہی اڑ گئے اور قریب تھا کے احد ہمت ہار
ہی جاتا لیکن ندا نے احد کے سامنے اپنے سارے زیورات ڈال دیئے۔ ساری جمع
پونجی بمعہ زیورات کے بھی اسقدر نا بنتے تھے لہٰذا احد نے قرضے کے حصول کے
لیئے بھاگ دوڑ شروع کردی اور کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد وہ بنک سے اسقدر
قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا کے اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہوسکے۔
نئے گھر میں منتقل ہوتے ہی احد اور ندا دونوں پائی پائی کا حساب رکھنے لگے
کیونکہ جہاں بڑے گھر اور متمول علاقے میں منتقل ہونے سے انکے ماہانہ
اخراجات میں مذید اضافہ ہوگیا۔ کرائے کی رقم کی بچت تو ضرور ہوئی لیکن اب
لون کی اقساط جو کے کرائے کی رقم سے کہیں ذیادہ تھی نے گھر کے بجٹ کو تلپٹ
کرنا شروع کردیا۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کے مشکلات بھی اوپر والا پیدا کرتا ہے اور ان کو حل
بھی وہی فراہم کرتا ہے۔ اُنہیں نئے گھر میں منتقل ہوئے کچھ سات آٹھ ماہ ہی
ہوئے ہونگے کے احد کے دفترمیں شبعہِ درآمدات و برآمدت کے منجیر حفیظ صاحب
جن کی رئیٹائرمینٹ میں کوئی سال بھرکا عرصہ رھ گیا تھا کے جانشین کے طور پر
بورڈ آف ڈاریکڑز نے متفقہ طور پر احد ہی کا نام تجویز کیا اور اُسے فوری
طور پرضروری ٹریننیگ کے لیئے کمپنی کی جانب سے چھے ماہ کے کورس کے لیئے
لندن بھجوادیا دیا گیا تاکے کورس کی تکیمل کے بعد وہ چند ماہ حفیظ صاحب کی
زیرِنگرانی متعلقہ شعبے کے سارے اسرار ورموز سے کماحقہ آگاہی حاصل کرلے۔
لندن روانگی سے قبل ہی اسکی تنخواہ میں اضافہ ہو چکا تھا اور واپسی پر اسکے
پاس کمپنی کی فراہم کردہ نئی نویلی کار تھی۔
دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے۔ اسد اب دس سال کا ہوچکا تھا اور
ندا ایک بار پھر امید سے تھی لیکن پچھلی بار کی طرح سے اسنے اپنی ملازمت سے
استعفہ دینے کی بجائے اپنے دفتر سے چھے ماہ کی طویل رخصت لے لی تھی۔
پہلے تو دونوں نے ملکر اس بات پر کچھ دیر غور کیا کے کیوں نا اب ندا طویل
رخصت کے اختتام پر اپنا استعفہ بھیج دے لیکن پھر فوراً ہی انہیں یہ احساس
بھی ہوا کے اب وہ جس لائف اسٹائل کے عادی ہوچکے ہیں اور موجود اسٹیٹس کو
برقرار رکھنے کے لیئے دونوں آمدنی کے سلسلوں کا جاری رہنا اشد ضروری ہے۔
لیکن ندا نے اسکا فوری اورآسان حل بھی ڈھونڈ نکالا اور وہ حل تھا زینب،
زینب ایک پچاس باون سالہ تجربہ کارآیا تھی۔ زینب نے آتے ہی ننھے فہد کے
ساتھ ساتھ اسد کی زمہ داری کو بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھانا شروع کردیا
تھا۔
احد کی طرح سے اب ندا بھی اپنی این جی او میں سنیئر مینیجمینٹ لیول پر آچکی
تھی۔ البتہ اتنا ضرور تھا کے اُسکے اوقاتِ کار احد کی طرح سے بےقابو نا تھے
اور نا ہی اُسے ہر دو ایک ماہ بعد اپنی کمپنی کے درآمدی و برآمدی معاملات
دیکھنے کی غرض سے بیرونی ممالک کے دورے کرنے پڑتے تھے۔
گذشتہ کئی سالوں میں احد اپنی بے حساب دفتری مصروفیات اور اپنے وقت بے وقت
کے غیرملکی دوروں پر بچوں، اپنی اور ندا کی اور حد تو یہ کےاپنی شادی کی
سالگرہیں بھی قربان کرچکا تھا۔
سوچ کا بے لگام گھوڑا یادوں کے تاحدِ نگاہ پھیلے جنگل میں سرپٹ دوڑے چلا
جارہا تھا۔ وہ چاہتا تو تھا کے سو جائے لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور
تھی۔ اُسکی نگاہوں میں شادی کے پہلے پانچ چھے برسوں میں آنے والیں شادی کی
سالگروں کے مناظر جو اُن دوںوں نے شہر کے کسی نا کسی اچھے ریسٹورینٹ میں
کینڈل لائٹ ڈنر پر منائیں، یکے بعد دیگرے کسی خوبصورت تصویری البم کی طرح
سے گھمونے لگے۔
یادوں کے جھرکوں سے جھانکتے ہوئے اُسنے سوچا کے یہ ضرور تھا کے اُن دںوں
ہمارے پاس اپنا گھر اور گاڑی نا تھی، پہلے پہل تو ہم ٹیکسی اور پھر کمپنی
سے ملنے والے اسکوٹر پر سوار ہوکر کینڈل لائٹ ڈنر کرنے جایا کرتے تھے۔ آج
کی سی آسائشات میسر نا تھیں لیکن اِس کے باوجود بھی ہم شاید آج سے ذیادہ
خوش تھے۔
موم بتیوں کی ذرد سی مدھم مدھم روشنی میں ڈوبا وہ کینڈل لائٹ ڈنرٹیبل اور
ریسٹورینٹ کا نیم تاریک ماحول دنیا سے پرے ایک ایسا حسین و طلسماتی جزیرہ
معلوم ہوتا جہاں صرف وہ اور ندا ایک جلتے الاو کی روشنی میں ہاتھ تھامے
خاموشی سے ایک دوجے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے ہوں۔
رییسٹورینٹ سے نکل کراسکوٹر پر سوار ہوکر دیر تک شہر بھر کی سڑکوں پر
ہواخوری کرنے نکل کھڑے ہوتے اور اکثر ساحلِ سمندر پر یونہی بےمقصد گھنٹوں
چہل قدمی کیا کرتے۔ جب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہمارے گالوں کو سہلاتے
اور بالوں کو اڑاتے تو ایسا محسوس ہوتا کے جیسے ان کی نرمی اور ٹھنڈک گالوں
سے ہوتی ہوئی روحوں میں اترتی چلی جارہی ہو۔
اُسکا جی چاہ رہا تھا کے وقت کا پہیہ الٹا چل پڑے۔ وہ ایک بار پھر ندا کے
ساتھ کینڈل لائٹ ڈنر کی ٹیبل سے ہوتا ہوا ان طلسماتی جزیروں میں جا نکلے
اور وہ دونوں نرم ٹھنڈی ہواوں کے دوش پر کسی جہانِ دیگر کی سیر کو نکل
جائیں۔
پھر اسے وہ وقت یاد آیا جب وہ کتابیوں کا رسیا ہوا کرتا تھا۔ کتابیں دیکھ
کر کو اسکا دل ایسے ہی للچایا کرتا تھا جیسے کوئی ندیدہ بچہ ٹافیاں ریکھ کر
للچاتا ہے لیکن کبھی اتنے جیب بھر پیسے ہوتے ہی نا تھے کے وہ اپنی آتشِ شوق
کو سرد کرسکتا۔ آج جب اُسکے پاس جیب بھر پیسہ ہے اور گھر کا ایک پورا کمرہ
کتابوں سے اُٹا ٹٹ بھرا پڑا ہے، اسکے پاس کتاب پڑھنے تک کو بھی وقت میسر
نہیں۔
اور وہ گٹار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، بجانا تو دور رہا، کتنے سالوں سے تو اُسنے
اپنا گٹار دیکھا تک نا تھا۔ اسے تو یاد ہی نہیں تھا کے وہ کبھی گیٹاربجا کر
اسکے ساتھ گانے بھی گایا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔
افسانہ نویسی کا اسے کتنا شوق تھا۔ زمانہِ طالب علمی ہی میں وہ ملک کے
نامور ادبی جرائد میں چھپنے لگا تھا۔ لیکن عملی ذندگی میں قدم رکھتے ہی
اُسے یہ شوق بھی تیاگ دینا پڑا۔
اُسکے افسانے خواہ کتنے ہی بلند پایہ ادبی جرائد میں کیوں نا چھپتے رہے
ہوں۔ اُسکے گھر کا چولہا گرم نہیں رکھ سکتے تھے اور اُسے کونسا وراثت کے
ترکے میں کوئی بنک بیلینس یا جائیدادیں ملیں تھیں کے جن کے سہارے وہ اپنے
شوق پورے کرتا پھرتا۔ اُسے جو کرنا تھا اللہ تعالی کی رحمت اور والدین کی
دعاوں کے بعد اپنے روزِبازو ہی پر تو کرنا تھا اور وہ اُسنے کیا بھی۔
بنک بیلنس، جائیداد اور روتہ ترکا نا سہی لیکن اگر ماں باپ نے اسے اپنا جیب
اور پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی حق حلال کی کمائی سے اعلیٰ تعلیم نا دلوائی ہوتی
تو شاید آج وہ بھی کسی عام آدمی کی طرح سے کہیں کلرکی کرکے اپنے نصیبوں کو
دھائیاں دیتا پھر رہا ہوتا۔
اُسے والدین کا ترکہ تو میسر نا آسکا، ہاں البتہ اسے روثے میں انکی طرف سے
محنت، ایمانداری، اصول اور رزقِ حلال کے حصول کا سبق ضرور ملا تھا جو کے
اُس نے ہمیشہ ہی اپنی گرہ میں باندھ کر رکھا۔
اپنے سلیف میڈ، اصول پسند اور ایماندار ہونے کے سبب اسکا ضمیر مطمین تو
تھا۔ کم و بیش ہر دیناوی آسائش و خوشی اسے میسر تو تھی لیکن وہ خود کو نفسِ
مطمعنہ نا پاتا تھا۔ کہیں کسی نامعلوم جگہ کوئی کمی تھی ضرور جو اسے بیچپن
کیئے رکھتی تھی۔
یہ سب کچھ سوچتے سوچتے نا جانے کب اسکی آنکھ لگ گئی.
روز کے معمول اور عادت کے عین مطابق اسکی آنکھ ٹھیک سات بجے کھلی۔ اُسنے
اپنے پہلو میں بے خبر سوئی ندا کو دیکھا اور بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ خیر دن
تو وہ اتوار کا تھا دفتر جانے جیسا کوئی بکھیڑا بھی نا تھا۔ احد دبے پاوں
غسل جانے کی طرف بڑھا اور اسکے اندر داخل ہوکر دھیرے سے دروازہ بند کردیا۔
وہ نہیں چاہتا تھا ندا کی آنکھ کھل جائے وہ اپنے اُس منصوبے کو پایہِ تکمیل
پہچانے میں ناکام رہے جو اسکے زہن میں گذشتہ ایک ہفتے سے پنپ رہا تھا۔
فریش اور نہا دھو کر وہ دبے پاوں باہر آیا اور پھر چپکے سے بیڈ روم کا
روازہ دھیرے سے کھول کر باہر نکل آیا۔
اب وہ اپنی گاڑی میں سوار شہر کی سب سے مشہور بیکری کی جانب رواں دواں تھا۔
بیکری پہنچ کر اسنے ندا کا پسندیدہ ایک بڑا سے فریش کریم پائن ایپل کیک کا
آرڈر کرتے ہوئے کچھ ضروری ہدایات بھی دیں۔
واپس گھر جاتے ہوئے ایک فلاور شاپ سے بڑا سا سرخ گلابوں کا بوکے بھی خریدا
گھرمیں وہ کیک کا ڈبہ اور بوکے لیکر چوروں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے
داخل ہوا کے کہیں ندا کی نظر اُس پر نا پڑ جائے۔ ڈبہ کو باورچی خانے میں
رکھنے کے بعد اپنے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی
طرف دیکھا جو اُس وقت نو بجا رہی تھی۔
ابھی وہ دروازے پر لگے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر اسے کھولنے کو تھا ہی کے
دروازہ ازخُو کھلا اور اس میں سے خُوب بنی سنوری سی ندا برآمد ہوئی۔
پہلے تو اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ تو خود ندا کو سرپرائز دینا چارہا تھا
لیکن ندا نے تو اسے ہی سرپرائزڈ کردیا تھا۔
وہ تو بس اُسے دیکھتا کا دیکھتا ہی رھ گیا۔ آج شادی کے سولہ سال بعد بھی وہ
روزِاول والی ہی ندا لگ رہی تھی۔
احد کو دیکھتے ہی ندا کے چہرے پر ایک بڑی حسین سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
۔"کہاں تھے احد آپ، میں تو پریشان ہورہی تھی، بھئی مجھے بہت دیر ہورہی ہے۔
مجھے آج ہماری این جی او کے خصوصی سمینار میں پہنچنا ہے جو کے ایک مقامی
ہوٹل میں دس بجے ہورہا ہے۔ رات آپ لیٹ آئے تھے تو اِس بارے میں کوئی بات ہی
نا ہوسکی۔ میں نے زینب سے کہ دیا ہے وہ آکر بچوں کو بھی دیکھ لے گی اور
کھانا وغیرہ بھی پکا لے گی۔ آپ نے اگر کہیں جانا ہو یا پھر آسونا چاہیں تو
اپنا کمرہ بند کرے سوجائیں۔ میں نے بچوں سے کہہ دیا کے کوئی بھی آپکو ڈسٹرب
نا کرے گا۔ جب اٹھیں تو کھانا کھا لیجِئے گا میرا انتظار نا کیجئے گا میں
سیمنار سے شام دیر گئے ہی آونگی"۔
ندا بغیر رکے کہتی چلی گئی اور اِس سے پہلے کے احد کچھ کہتا ندا نے اپنی
گاڑی کی چابی اٹھائی اور احد کوایک بھرپور الوداعی مسکراہٹ کے ساتھ خدا
حافظ کہتے ہوئے گھر کے مرکزی دروازے سے باہر نکل گئی
احد وہیں کھڑا کا کھڑا ہی رہ گیا پھر اسنے ندا کی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے اور
پھر جانے کی آواز سنی۔ گاڑی کی آواز مدھم ہوتے ہوتے معدوم ہوگئی۔
اب وہاں ایک مہیب سناٹا تھا۔ ایسا سناٹا جسمیں احد اپنے دل کی ڈھرکن تک سن
سکتا تھا۔
۔"تو کیا ندا کو یہ بھی یاد نہیں تھا کے آج ہماری شادی کی سہولویں سالگرہ
ہے"۔
اسنے سوچا تھا کے امسال وہ شادی کی سالگرہ اُسی طرح سے منائے گا جیسے وہ
شروع کے چند سالوں تک منایا کرتے تھے۔
اسی لیئے تو آج وہ صبح صبح ندا کے پسندیدہ ترین کیک پر بھی بڑے ہی خوبصورت
سے انداز میں
"Happy 16th Wedding Anniversary
Ahad & Nida"
لکھوا لایا تھا۔ پھر بوکے خریدا۔
سونے کا ایک بڑا ہی نازک اور حسین سا بریسلیٹ تو وہ پچھلے ہفتے ہی خرید چکا
تھا اور ایک پیارا سا اینیورسری کارڈ بھی لیکر اسپر بڑا ہی رومانٹک سا
پیغام بھی درج کرلیا تھا۔
وہ تھکے تھکے قدم اٹھاتا ہوا اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھا، دروازہ کھولا کر
اندر داخل ہوتے ہی ساری بتیاں گُل کرکے اپنے بستر پر ڈھیر ہو کر تکیہ اپنے
سر پر لیکر ایک بار پھر سونے کی کوشیش کرنے لگا۔ اُس کے ہونٹ تو خاموش تھے
لیکن اندھیرے کمرے میں کہیں دور سے آتی مدھم سی صدا سنائی دیتی محسوس ہونے
لگی:۔
تجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہُوں میں |