کانگریس اور بی جے پی کی غلطیاں

اگلے پارلیمانی انتخابات (2014ء میں ہوں یا اس سے قبل) کے بارے میں یہ بات (آج کل کی صورتِ حال کے مدِنظر) قطعی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مرکز میں کسی ایک جماعت کی حکمرانی کا کوئی امکان نہیں ہے جو بھی حکومت بنے گی وہ مخلوط ہوگی۔ ملک کی پیچیدہ صورت حا ل کے پیش نظر ’’تیسرے محاذ‘‘ یا بی جے پی اور کانگریس کی مدد سے کسی علاقائی جماعت کا فرد وزیر اعظم بن تو سکتا ہے لیکن ان کی وزارتِ عظمیٰ کا انحصار بی جے پی یا کانگریس پر ہی ہوگا۔

کانگریس اور بی جے پی دونوں کی حکمت عملی یا رویہ کچھ ایسا ہے کہ لگتا ہے کہ ان کو برسراقتدار آنے سے زیادہ اقتدار سے دور رہنے سے زیادہ دلچسپی ہے۔ اس سلسلہ میں اگر دونوں جماعتوں کے حق میں جانے والے مثبت اقدامات پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بی جے پی اور کانگریس اسی مثبت نکتہ یا ان نکات کو جو اس کے حق میں جاتے ہیں وہ ان ہی کو اپنے خلاف بنانے یا استعمال کئے جانے کی حکمت عملی پر عمل کررہی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ یو پی اے اول و دوم (خاص طور پر دور دوم میں کرپشن اور مہنگائی میں بھیانک اضافہ ہوا۔ عام آدمی کی زندگی کو ہر قسم کی مشکلات سے دوچار کرکے کانگریس نے ووٹرس کی ہمدردیوں سے خود کو محروم کرلیا ہے۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں اس وقت مخالف حکومت رجحان Anti Incombancy Factor کے باعث شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ کانگریس کے لئے سردست اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہی ہے اور بی جے پی کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھائے لیکن بی جے پی یہ موقع ضائع کررہی ہے وہ اس طرح کہ بی جے پی کے سخت ہندوتوا اور نریندر مودی کے مخالف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے تین چار گنا زیادہ مودی اور ہندوتوا کا مخالف ملک کا غیر مسلم، سیکولر طبقہ ہے گو کہ باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے لیکن تمام آثار و قرائین یہی ہیں کہ بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے امیدوار نریندر مودی ہوں گے۔ اس طرح تبدیلی کے خواہاں، کانگریس کے کرپشن اور مہنگائی سے بیزار وہ لوگ جو کانگریس کو محض سزا دینے کے لئے بی جے پی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ (بہ شمول خاصی تعداد میں مسلمان) اب ان کی خاصی بڑی تعداد مودی کی وجہ سے بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کرچکی ہوگی۔ بی جے پی سے نریندر مودی کی وجہ سے عوامی ناراضگی کیا کم تھی اب بی جے پی نے اعلیٰ سطح پر قیادت کے لئے جس ٹیم کا انتخاب کیا ہے وہ بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے اور سخت ہندوتوا کی حامی ہے(اس میں جسونت سنگھ اور یشونت سنہا تک شامل نہیں ہیں) اس ٹیم کی وجہ سے عام ووٹر بی جے پی سے بلاشبہ دور رہے گا مخالف حکومت رجحان کے فائدے سے محرومی کی یہ تو ہوس سب سے بڑی وجہ بی جے پی نے اپنے ہندوتوا چہرے کو نمایاں کرکے ایک بھیانک غلطی کی ہے۔

آج نریندر مودی کی طاقت اور اثر رسوخ بلکہ ہندوتوا وادیوں میں ان کی مقبولیت نے بی جے پی کو طاقت ور، اثر و رسوخ کا مالک اور مقبو ل بنادیا ہے۔ بی جے پی پھر ایک مرتبہ کانگریس کے لئے خطرہ بن گئی ہے اور اس خطرہ کی اصل وجہ نریندر مودی ہیں اور مودی کو اس مقام تک پہنچانے کی ذمہ دار کانگریس ہی ہے۔ 2004ء میں پارلیمانی انتخابات کے بعد کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی کی طاقت، مقبولیت اور ان کے موقف میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ 2004ء کے بعد بی جے پی روبہ زوال تھی اور کانگریس کا ستارہ عروج پر تھا۔ 2009ء کے انتخابات کے بعد یہی صورت حال کسی حدتک برقرار تھی تاہم کانگریس کے زیر قیادت محاذ (یو پی اے) میں نمایاں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ دوسری جانب بی جے پی صرف اپنے طور پر اپنے نقصانات کا ازالہ کرتے ہوئے کانگریس کی غلطیوں سے بھر پور فائدہ اٹھارہی تھی۔

آج نریندر مودی کانگریس کے لئے ایک خطرناک چیلنج بن گئے ہیں اس کی ذمہ دار کانگریس ہے۔ یہ بات راقم الحروف نے ہی نہیں کئی اور تجزیہ نگاروں نے بھی لکھا ہے کہ کانگریس نے ’’ہندووٹ بینک‘‘ کو مستحکم کرنے اور بی جے پی کو شدید ردِعمل کے خوف سے نریندر مودی کو کھلی چھوٹ دے دی۔ دوسری طرف امریکہ سے کئے گئے بے فیض نیوکلیئر معاہدے کی خاطر بائیں بازو کی جماعتوں کو یو پی اے سے علاحدگی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ نیوکلیئر معاہدے پر دستخط ہوئے تقریباً چھ سال ہوچکے ہیں لیکن فائدہ تو دور رہا خود یو پی اے کو نقصانات زیادہ ہوئے۔ دوسری طرف بہار میں لالو پرساد یادو جیسے سیکولر ازم کے علمبردار کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے بہار میں اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے لئے کانگریس نے لالوپرساد یادو کو نقصان پہنچاکر بی جے پی کے حلیف نتیش کمار کو بہار سونپ دیا یکہ و تنہا اقتدار پر قابض رہنا کانگریس کی فطرت میں داخل ہے۔ اگر کانگریس کو مل جل کر اقتدار چلانا پسند ہوتا تو ملک تقسیم نہ ہوتا ملک کی تقسیم کے مطالبہ کا مسلم لگے کو موقع ہی نہ ملتا! آزادی کے بعد طویل عرصہ تک کانگریس اقتدار پر قابض رہی او ر مخلوط حکومت چلانے کا کلچر کانگریس کیلئے اجنبی بن گیا! اگر بہار میں کانگریس لالو پرساد سے اقتدارچھین لینے کے چکر میں نہ پڑتی تو بہار کانگریس کے نہ صرف مضبوط بلکہ مخلص حلیف کے قبضے میں رہتا۔ بہار کا نتیش کے قبضے میں رہنا بی جے پی کے لئے بے حد اہم اور مفید ہے لیکن نریندر مودی کی محبت میں بی جے پی بہار میں ماری جائے گی۔ جنتادل یو اور بی جے پی کے ٹکراؤ میں لالو کو اسی طرح فائدہ ہوگا جس طرح کانگریس اور راشٹریہ جنتادل میں سیکولر ووٹس کی تقسیم سے نتیش کمار کو فائدہ ہوا تھا۔

یو پی اے کے دور اول میں نریندر مودی کو 2002ء کے سزادینے کی جگہ لالوپرساد یادو اور بائیں بازو کی جماعتوں کو خود سے دور کرکے فرقہ پرستی، فاشزم اور سرمایہ دارانہ استحصال کے بھوتو ں کو مودی کا مدد گار بنادیا۔ 2002ء میں مودی کے جرائم کی تحقیقات کروانے کی کوشش کی جاتی اور مودی کے خلاف عدالت عظمیٰ سے اس سلسلے میں خصوصی اجازت اور احکام لے کر نہ صرف 2002کے قتل عام، جعلی پولیس مقابلوں او ربی جے پی قائد و مودی کابینہ کے سابق وزیر داخلہ ہر ین پانڈیا کے قتل وغیرہ میں مودی کے جرائم پر گرفت کی جاسکتی تھی۔ کانگریس نے کمال تو یہ کیا کہ اپنے ہی وزیر ریلوے کی تحقیقاتی کمیٹی کی جسٹس بنرجی کی رپورٹ کو دیا کر مودی پر احسان کیا ۔ جسٹس بنرجی نے تو گودھرا میں بوگی 6کی آتشزدگی کو محض حادثہ قرار دیا تھا۔ لیکن اس سے مودی کے عمل اور ردِعمل کا نظریہ دھرے کا دھرراہ گیا! لیکن کانگریس کو تو مودی کو بچانا بھی تھا اور لالو پرساد کو کریڈٹ Creditسے محروم کرنا تھا۔

نریندر مودی نے 2002ء میں گجرات میں ہفتوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کا کھیل کھیلا۔ مسلمانوں کی جائیدادوں سے دیپاولی کے دئیے جلانے اور مسلمان عورتوں کی عصمت دری سے ’’بھارتی نازی‘‘ کی عزت بڑھائی تھی۔ واجپائی اور اڈوانی خاموش تھے۔ آنجہانی صدر نارائینن سے نہیں رہا گیا۔ انہوں نے وزیر اعظم واجپائی کو خطوط لکھے تھے اس خط و کتابت کو جب جسٹس ناناوتی نے فسادات کی تحقیق کے سلسلے میں طلب کیا تو وزیر اعظم کے اس وقت کے مشیر قومی سلامتی ایم کے نارائنن نے قومی سلامتی سے متعلق راز کے حوالے سے یہ اہم دستاویز نہ دے کر ان کو راز میں رکھ کر بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے کی مرکزی حکومت اور مودی کی ساز با ز کا پردہ فاش ہونے سے بچالیا۔ وزیر اعظم کے مشیر ہی جب ہندتووادی ہوں تو مودی بھلا کیسے اور کس طرح نہ بچتے؟ کانگریس نے مودی کو بچاکر بی جے پی اور مودی کی جو مدد کی سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ مودی جیسے ظالم کو بچانے کا ذمہ دار کون ہے۔ سونیا گاندھی، منموہن سنگھ اور تمام وزرائے داخلہ (بہ طور خاص شیوراج پاٹل) یا بڑے بڑے سرمایہ دار؟ مودی کو بچاکر اگر کانگریس مودی کے ’’مودی پن‘‘ سے بچ سکے تو بڑی بات ہوگی۔

2004ء کے بعد 2009ء میں لالو پرساد کو کمزور کرکے بائیں بازو کی جماعتوں سے دور ہوکر کانگریس کو جو کامیابی ملی تو کانگریس آپے سے باہر ہوکر یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ کامیابی تو کانگریس کی باندی ہے۔ ناقص کارکردگی، کرپشن، پولیس، ریاستی و مرکزی، ایجنسیوں کی مسلم دشمنی میڈیا کی تخریب کاری، فرقہ پرستوں اور فاشسٹوں کو دی گئی کھلی چھوٹ وغیرہ ایسی غلطیاں ہیں جنہوں نے کانگریس کی کامیابی کے احکامات پر کازی ضرب لگائی ہے۔

اپنے دورِ دوم میں یو پی اے نے جو غلطیاں کی ہیں اور جس طرح اپنے رائے دہندوں کو اپنا مخالف بنالیا ہے۔ اس سے حزب مخالف بھر پور فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ کانگریس کی حریف بی جے پی کا حال کانگریس سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ پہلی وجہ تو نریندر مودی ہے وہ تمام ووٹرس جو بی جے پی کے ہندوتوا کے باوجود بی جے پی کو کانگریس کا متبادل سمجھ کر بی جے پی کو ووٹ دے سکتے تھے وہ بی جے پی کا مودی والا ہندوتوا چہرہ دیکھ کر کانگریس نہ سہی علاقائی جماعتوں کا رخ کرسکتے ہیں۔ مودی کا نام آنے سے بے شمار حلقوں میں بی جے پی کو متبادل کے طور پر قبول کرنے کا رجحان فروغ پارہا تھا وہ اب ختم ہوگیا ہے۔ راج ناتھ سنگھ بی جے پی کے ان قائدین (جن کی وجہ سے بی جے پی میں کشش ہو ا کرتی تھی مثلاً واجپائی، جسونت سنگھ اور یشونت سنہا) میں شامل نہیں ہیں جیسے وہ خود ہندوتوا کے علم بردار سوئم سیوک ہیں۔ ویسی ہی ان کی ٹیم بھی ہے۔ بی جے پی کی کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ مک میں مخالف ہندوتوا عناصر کی تعداد اور طاقت کے معاملے میں نہ صرف ہمارا بلکہ بیشتر لکھنے والوں کے اندازے یکسر غلط ثابت ہوں۔ اسی طرح اگر کانگریس کے مقابلے میں مودی برانڈ ، ہندوتواکے چہرہ والی بی جے پی کو اگر رائے ہندوں کی کثیر تعداد مسترد کرتی ہے تو کانگریس کامیابی ممکن ہے۔

کانگریس و بی جے پی کا راست مقابلہ چند ریاستوں میں ہی ہوگا۔ جن میں گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اور ایک دو چھوٹی ریاستوں میں ممکن ہے قیام حکومت کے لئے زیادہ نشستوں پر کامیابی پانے والی علاقائی جماعتوں کا رول قیام حکومت میں اہم رہے گا۔ موقع پرستی اور جوڑ توڑ کی سیاست وزیر اعظم بنانے میں اہم رول ادا کرے گی۔ مسلمانوں کا رول بے حد اہم ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ ’’ایک ہوں مسلم‘‘ یہ موضوع ایک علاحدہ مبسوط تحریر کا طالب ہے لیکن بی جے پی یا اس کے کسی حلیف (از قسم شیوسینا یا جنتادل (یو) کے بارے میں سوچنے کو بھی تباہی کے طوفان کی دستک ہی تصور کی جاسکتی ہے۔ جہاں کانگریس کا متباد ل نہ ہو وہاں تو مجبوری ہوگی لیکن کانگریس کے متبادل کئی بڑی ریاستوں میں موجود ہیں۔ ان میں کس کو ترجیح دی جائے یہی مومن کی خراست کا امتحان ہوگا۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 185239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.