جب سے نگران حکومت بنی ہے الیکشن
کی گہما گہمی میں اضافہ ہو چکا ہے اس سلسلے میں جوڑ توڑ عروج پر ہے اور
مختلف سیاسی پارٹیوں کے ورکر اپنی اپنی پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے لئے سر توڑ
کوشش کر رہے ہیں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس وقت بہت ہی مشکل کا
سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ امیدوار زیادہ اور ٹکٹ کم ہیں اور زیادہ تر
مخلص کارکن متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پارٹیاں بھی گو مگو
کی کیفیت میں ہیں کیونکہ اگر انھوں نے غریب کارکنوں کو ٹکٹ دے دیے تو پارٹی
فنڈنگ اور الیکشن کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے ایسی صورت حال میں ٹکٹوں
کی تقسیم ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے اس کی دوسری بڑی وجہ اب کے بار کے
الیکشن میں نوجوان امیدواروں کا آنا بھی ہے پاکستان میں آنے والے انتخابات
میں جہاں کئی نئے چہرے سامنے آ رہے ہیں وہاں کئی سابق ارکانِ اسمبلی
پارلیمانی اکھاڑے سے باہر ہوگئے ہیں اور انہیں ان کی جماعتوں نے پارٹی ٹکٹ
نہیں دیے ہیں اس کی بھی وجہ یہ نوجوان ہیں کیونکہ نوجوان طبقے کا ایک وسیع
ترین ووٹ بینک ہے جسے کوئی بھی پارٹی بوڑھے امیدوار کھڑے کر کے کھونا نہیں
چاہتی ان ریجیکٹ لوگوں میں سے زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کا تعلق سابق حکمراں
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے نظر آتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے جیلیں
کاٹنے اور جلاوطنی گزارنے والے پیر مظہرالحق گذشتہ صوبائی انتخابات میں
دادو کی نشست سے کامیاب ہوئے تاہم ان کی جماعت نے اس بار ان کی جگہ ان کے
بیٹے بیرسٹر مجیب الحق کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ دیا ہے پیپلز
پارٹی ہی کے رکن قومی اسمبلی اور پیر آف بھرچونڈی میاں مٹھوگذشتہ انتخابات
میں گھوٹکی سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے لیکن
وہ اس بار اپنی جماعت کی نظرِ کرم سے محروم رہے پی پی پی کے سینیئر رہنما
پیر آفتاب شاہ جیلانی نے میر پور خاص کی قومی اسمبلی کی نشست سے سنہ انیس
سو ترانوے، ستانوے، دو ہزار دو اور سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں
کامیابی حاصل کی انہیں بھی اس مرتبہ پیپلز پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیاان کے والد
پیر غلام رسول شاہ بھی پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے، ان کے بھائی پیر امجد
شاہ حیدرآباد کے دیہی حلقے سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوتے رہے
ہیں اس بار انہیں بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا بلکہ سابق صوبائی وزیر اطلاعات
شرجیل انعام میمن کو نامزد کیا گیا ہے ایم کیو ایم کے ارکانسندھ کے شہری
علاقوں کی مقبول جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے چار ایسے اراکین ہیں جو دوہری
شہریت رکھنے کے باعث آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے قاصر رہے ہیں یہ
اراکین حیدر عباس رضوی، رضا ہارون، عبدالمعید صدیقی، اور فرحت محمد خان ہیں
گذشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست جیتنے والے
حامد سعید کاظمی کو بھی اس بار پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں ٹکٹ دینے سے
گریز کیا ہے پیپلز پارٹی کے سابق رہنما سردار آصف علی نے اپنی جماعت کو
کوئی سوا برس پہلے خیر باد کہہ دیا تھا انہوں نے گزشتہ انتخابات میں پنجاب
کے شہر قصور کی قومی اسمبلی کی نشست سے کامیابی حاصل کی اور سنہ انیس سو
ترانوے سے چھیانوے تک پاکستان کے اٹھارہویں وزیر خارجہ کی حیثیت سے ذمہ
داریاں بھی نبھائی تھیں انہوں نے پچیس دسمبر سنہ دو ہزار گیارہ کو اپنی
جماعت کو خیرباد کہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی لیکن
جب انہیں تحریک انصاف نے قصور سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے نامزد نہیں
کیا اور ان پر خورشید محمود قصوری کو فوقیت دی تو انہوں نے تحریک انصاف کی
رکنیت سے استعفٰی دے کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑنے کا فیصلہ کیاسندھ کے
شہری علاقوں کی مقبول جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے چار اراکین حیدر عباس
رضوی، رضا ہارون، عبدالمعید صدیقی، اور فرحت محمد خانہ دوہری شہریت رکھنے
کے باعث آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے قاصر ہیں حیدر عباس رضوی گذشتہ
انتخابات میں این اے 244 کراچی سے منتخب ہوئے تھے اور وہ قومی اسمبلی کی
مختلف کمیٹیوں کے رکن بھی رہے ایم کیو ایم کے رکن رضا ہارون گذشتہ صوبائی
انتخابات میں کراچی سے منتخب ہوئے اور انہوں نے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی
کی صوبائی وزارت کا قلمدان سنبھالا تھاگذشتہ انتخابات میں عبدالمعید صدیقی
بھی ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر جیتے تھے جبکہ فرحت خان گزشتہ انتخابات میں این
اے 254 نارتھ ناظم آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ان سب حقائق کو
مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی جماعت
نوجوانوں کے ووٹ کو کھونا نہیں چاہتی اس لئے سب سے زیادہ نئے امیدواروں کو
آزمایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پرانے ممبران اسمبلی کو شدید مشکلات کا
سامنا ہے اور قوی امکان ہے کہ ایسے لوگ اب کی بار اسمبلی سے اوٹ ہو جائے گے
یہ بات بھی اہم ہے کہ زیادہ تر نوجوان امیدواروں کا بیک گراونڈ سیاسی
خاندانوں میں سے ہے اور ان کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار بھائی، چچا، وغیرہ
سابق اسمبلی رہ چکا ہے اس لئے اس بات بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا
ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سیاسی حکمرانوں نے اپنی نوجوان نسل کو
سامنے لا کر نوجوانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ملکی سیاست
نوجوان طبقے کے ہاتھ میں دی جا رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ پاکستان کے
سیاسی میدان کو کسی اور کے لئے خالی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اس لئے
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیا سی جماعتیں صیحح معانوں میں نوجوان نسل کو
الیکشن میں حصہ لینے کے لئے خصوصی اقدامات کرئے اور نوجوانوں کے لئے مخصوص
سیٹس مختص کی جائیں کیونکہ پاکستان کی ابادی کے تناسب سے ضروری ہے کہ
نوجوانوں کو مواقع دیا جائے وہ پاکستان کے تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا
کریں ۔ |