افغانستان میں امریکہ کی قبضہ سے افغانستانی ثقافت کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں

گزشتہ روز افغانستان میں نیٹو کے فضائی حملے میں دو خواتین اور دس معصوم بچوں سمیت ایک درجن افراد جاں بحق ہو گئے جو دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے لئے افسوس ناک ہے کہ نیٹو ایک ناپاک ادارہ اسلام کے معصوم بے گناہ خواتین اور بچوں کو یوں سر عام للکار للکار قتل کر رہا ہے اور دنیا کے ایک چوتھائی آبادی حصے پر مشتمل مسلمان امن و سلامتی کے دعوےدار خاموش تماشائی بن کر اپنی ماضی کے تمام اعمال کو خود اپنے ہاتھو ں سے مٹا رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ، ایران ، سعودی عرب جیسے ممالک کے موجودہ حکمرانوں کے خیرت کی بات ہے کہ آج اسلام کے باشندوں کو سر عام کفار اور دشمنان اسلام قتل کر کے ظلم کی انتہا کر رہے ہیں مگر پھر بھی خاموشی مگر کیو ں اور کب تک ؟ کیا اللہ کو جواب دینا نہیں ہے ؟ بحرحال موجود ہ دو سو ارب مسلمانوں میں سے ایک محمد بن قاسم ؒ کی ضرورت ہے جو افغانستان سمیت عراق، فلسطین و کشمیر میں ہونے والے موجودہ ظلم کے خلاف جاگ اٹھے اور کم از کم انسانیت کا قتل ہونے سے روکے ۔

اسلامی جمہوریہ افغانستان کو دہشت گرد تصور کرنے والے اپنی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اس کی اپنی تاریخ اور ثقافت کا زرا مطالبہ کریں تو بہتر ہے کیونکہ سنی سنائی باتوں میں انٹر نیشنل میڈیا نے تقریبا افغانستان کو دہشت گرد قرار دیا ہے طالبان اصلی افغانستانیوں کی سپائیوں کو کہتے ہیں ۔ یاد رہئے کہ طالبان مذہب یا کوئی قوم نہیں ہے۔ صرف ایک تنظیم کا نا م ہے جس طرح ہر ممالک اپنی سپائیوں کے لیے الگ قسم کا نام اور پہچان رکھ کے سمجھنے و پکارنے کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے ۔ افغانی جنگ کے مفکرین بھی طالبان کے نام پکارتے ہیں۔

افغانستان میں میں افغانی ثقافت کی تین بنیادیں ہیں ایرانی ثقافت ، پشتون ثقافت اور اسلام ۔ جس میں اسلام کا اثر بہت زیادہ ہے ۔ افغانیوں کے لیے ان کا ملک، قبیلہ سے وفاداری، مذہب ، اپنا شجرہ نسب اور سب سے بڑکرآزادی بہت اہم ہے۔ افغانیوں میں وفاداری اور مذہب ، قبیلے سے وفادری اور آزادی ہی امریکہ جیسے نام نہاد کمزور ممالک پر اپنی قبضہ جمانے والے خود غرض ممالک کے ساتھ جنگ کو اپنی جہاد تصور کرتے ہیں ۔کرنا بھی چائیے کیونکہ افغانستان نہ صرف مسلم ملک ہے ساتھ ساتھ ایک اپنی پہچان رکھتا ہے۔ مذہب کے ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی بھی ان کے زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ افغانستان اسلامی دنیا و تاریخ میں اپنی الگ پہچان اور الگ تاریخ رکھتا ہے۔ جس کے نشان جابجا آثار قدیمہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ بزکشی افغانستان کو قومی کھیل ہے جو پولو سے ملتا جلتا ہے۔

اگرچہ جدید نئی نسل کے لیے ٹیکنالوجکل تعلیم (Technological Education For New Generation)کی شرح کم ہے مگر حقیقی تعلیم قران پاک کی تعلیم اور اس پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی کو گزارنے میں اہم ہیں اور شاعری خصوصاََ فارسی شاعری ان کی زندگی اور خیالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے ہیں۔

افغانستان کی سر زمین کو قدیم زمانے میں خراسان بھی کہا جاتا تھا مگر آ جکل خراسان ایران کے ایک حصے کو کہا جاتا ہے مگر یہ دونوں علاقے (ایرانی اور افغانستانی خراسان ) تاریخی طور پر ہمیشہ متعلق رہے ہیں۔

افغانی خراسان نے بہت اہم لوگ جنم دیئے ہیں جن کو عام طور پر عرب سمجھتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ کے قریبی اجداد کا تعلق بھی افغانستان سے تھا۔ بو علی سینا اسلامی اور مغربی دنیاو ¿وں اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب اور گنا جاتا ہے اس کا تعلق بلخ سے تھا۔ بو علی سینا کے والد نے عرب کو ہجرت کی تھی مولانا جلالدین محمد بلخی رومی کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابوالحسن الفارابی کا تعلق بھی افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا۔

مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبدالرحمن جامی کا تعلق بھی افغانستان کے صوبی غور کے ایک گاؤں جس کا نام جام ہے سے تھا جس وجہ سے جامی بھی کہتے تھے ۔

اسی طرح کے ایسے عظیم انسان ہزاروں کی تعداد میں ہیں جن لوگوں اپنے متعلقہ شعبہ میں اپنی الگ پہچان بنائی ہے جدید دور میں طالبان بھی دنیا میں الگ نام رکھتے ہیں جن سے مقابلے کے لیے نیٹو جسی ادارے تیار کیے گئے ہیں جس لوگوں وقت سپر پاور روس کو بھی دال پانی کھلادیے ہیں سوویت یونین کو توڑنا کوئی عام بات نہیں تھا مگر ان افغانیوں نے صفہ ہستی سے مٹا دیا ہے اب جبکہ نیٹو کی باری ہے جس کو کھربوں ڈالر کا نقصان بھی ہزاروں جوجیوں ہضم کی ہے۔

افغانستان کی تاریخ تو ایسا نہیں تھا جیسا پچھلے چند برسوں سے ناپاک سوچ رکھنے والے امریکہ نے بنا دیا ہے ۔ امن پسند و مہمان نواز افغانیوں کو امریکہ نے آ ج انتہائی زیادہ متاثرہ کیا ہے جس کی احتساب طالبان کی جنگ کی شکل میں جاری ہے۔ طالبان نے اپنے دور حکومت میں انصاف اور امن کی وہ مثال بنائی ہے جو شائد جدید دورمیں کہیں کم وقت میں ایسا دوسرا کوئی مثال ملے۔

افغانی طالبان تو اپنی سر زمین پر کسی کی قبضہ نہیں چاہتے ہیں یہ افغانی سوچ نہیں بلکہ دینا کی ہر خطے میں رہنے والے لوگ ایسا نظریہ ضررور رکھتے ہیں ۔ کوئی سر زمین پر کسی غیر کی قدم نہیں چاہتا ہے۔ جیسا کہ پاک و ہند برصغیر ہندوستان پر 1865ءمیں برطانیہ برٹش گورئمنٹ نے تجارت کے بہانے آ کر قبضة کی تو ہندوں و مسلمان نے خون بہا کر اسے آخر کا 1947ءمیں آزاد کردیا ۔ اسی طرح طالبان بھی اپنی افغانستان کی سر زمین پر امریکہ کا قدم نہیں چاہتا ہے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان افغانستان سے کب تک امریکہ قدم کی برداشت کرتے ہیں اور افغانستان سے امریکہ حکومت کا خاتمہ کر کے افغانستان میں امن اور مساواتی انصاف کا بحالی یقینی بناتے ہیں۔

طالبان کے حامی حضرات کہتے ہیں کہ امریکہ نے بیشتر ممالک کے ساتھ تعاون کی درخواست کی ہے جہاں سے مالی و فوجی امداد بھی ملتا ہے مگر طالبان کو اپنے خالق کائنات اللہ رب العزت پر یقین ہے وہ عبادت کر کے اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ اور دیکھنے میں بھی آتا ہے کہ طالبان کو شہادتیں بھی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ لیکن طالبان کی تعداد کم ہونے کے بجائے تعداد میں اضافگی ہوتا رہتا ہے یہ ایک معجزہ کے ساتھ ساتھ حق اور باطل کی جنگ میں حق کی فتح بھی ہے-

افغانستان کے کھا نے بھی لاجواب ہوتے ہیں جن میں سے افغانی یا کابلی پلاؤ، خمیری روٹی، تکے کباب شاید دنیا میں اہم قسم کے اور لذیز کھانوں میں شامل ہے اور دیگر علاقوں میں خاص طور پر ایران و پاکستان میں بھی مشہور ہیں۔ مذہب اسلام کو افغانستان میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ان کے چار اہم چھٹیاں عید الفطر، عید العضیٰ ، اور عید میلاد النبی ﷺ مذہبی نوعیت کے ہیں اور اس کے علاوہ افغانستان کا یوم آزادی 19اگست اور نوروز 19 مارچ بھی چھٹیوں میں شامل ہیں۔افغانستان میں مسلمانوں کی تعداد 99فیصد ہے جن میں سنی مسلمانوں کی تعداد اکثریت میں ہے مسلمانوں کے علاوہ ہندو ں اور سکھ بھی موجود ہیں جو کابل ، کندھار اور جلال آباد سے تعلق رکھتے ہیں ۔افغانستان میں پشتون ، تاجک، ہزارہ ، ازبک،ترکی، بلوچی،کھوار زبان بولنے والی قوم کھو اور دیگر لوگ بھی آباد ہیں۔

لیکن آج ناپاک امریکہ نے افغانستان میں اپنی کی قبضہ سے افغانستانی ثقافت کی دھجیاں اڑائی دیئے ہیں افغانستان میں طالبان ہی کی اصل حکومت ہے جس میں افغانستان میں امن و امان کی مثال قائم ہوگئی تھی انصاف عام اور مساوات نے عروج حاصل کی تھی ۔ تمام غیر قانونی سر گرمیاں بند کر دیے گئے تھے جس سے پورا افغانستان کی رونقیں بکھرنا شروع ہو گئے تھے۔امریکہ کو ڈر پیدا ہوگیا تھا کہ طالبان نے افغانستان امن و امان بحال کی ہے اس کے بعد طالبان پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے کر شریعت نافذ کر کے خطے کو امن و امان ترقی بخشیں گے جس سے امریکہ کو حسد پیدا ہوگیا اور طالبانائزیشن کے خلاف جنگ شروع کر کے انھیں دہشت گرد قرار دینے میں اہم کرداد ادا کی ہے۔ آج افغانستان آگ میں جل رہی ہے جس سے افغانستانی اپنے گھر چھوڑ کر امن کی تلاش میں در پدر ہیں ۔

امریکہ کی جنگ سے لاکھوں بے گناہ عام معصوم شہری بھی قتل ہوئے ہیں ۔افغانستان میں امریکہ کی قبضہ سے افغانستانی ثقافت اور اسلامی معاشرہ کے ساتھ مدارس بھی متاثر ہوئے ہیں ۔ لوگ اپنے بال بچوں کی نہیں اپنی سر زمین ، ثقافت اور اپنے مذہب کو بچانے کے لے طالبان کی شکل میں افغانستان میں امریکہ سے چھٹکارا دلانے کی جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں۔ امریکہ کو افغانستان میں طالبان کی جنگ سے اب شرمندگی تو بہت ہو رہی ہے ۔ کیونکہ مٹھی بھر طالبان نے نیٹو کو شکست دی ہے اور الٹے پاؤں واپس ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
Asif Yaseen
About the Author: Asif Yaseen Read More Articles by Asif Yaseen: 31 Articles with 30634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.