جمشید خٹک
جشن نور وز فارس (پرشیا) (PERSIA) کا سب سے بڑا تہوار ہے ۔ فارس موجودہ
ایران کا پرانا نام ہے ۔ ایران کا موجودہ نام 1930 سے متعارف ہوا۔یہ تہوار
مذہبی ہے نہ قومی بلکہ موسمی ہے ۔موسم کے اعتبار سے جب موسم بہار کی ابتدا
ہوتی ہے ۔تو خوشی کے طور پر سخت سردی سے نجات کے بعد بہار کی آمد آمد پر یہ
تہوار منایا جاتا ہے ۔قدیم زمانے میں زندگی کا دارو مدار زراعت پر
تھا۔زراعت میں کاشتکاری اور گلہ بانی دو اہم پیشے تھے۔انسان اور حیوان کا
چولی دامن کا ساتھ تھا۔انسان کی بقاء کیلئے اور جانوروں کی نشوونما کیلئے
خوراک کا ملنا خوشی اور نیک بختی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔خوراک کاانحصار
زراعت پر تھا۔اور زراعت کا انحصار موسم پر تھا۔ہراُس موسم کا خیر مقدم کیا
جاتا تھا۔جس میں وافر مقدار میں خوراک میسر ہو ۔اور یہ موسم سخت سردی گزرنے
کے بعد موسم بہار سے شروع ہوتا تھا۔اس لئے موسم بہار کی آمد کا ہمیشہ
استقبال کیا گیا۔خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے ۔ کہ اب انسان اور حیوان
دونوں کے خوراک میں کمی نہیں آئیگی۔ان خوشیوں کا اظہار کرنے کیلئے باقاعدہ
طور پر اہتمام کیا گیا ۔منانے کے کچھ اُصول وضع کئے گئے ۔جس نے آہستہ آہستہ
جشن اور میلوں کا روپ دھا ر لیا۔
جشن نو روز کی تاریخ چار ہزار سال پر محیط ہے ۔یہ تہوار مشترکہ طور پر تمام
ایرانیوں ، زرطشت ، یہود ، عیسائی ، بہائی اور مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ ہے
۔اس خطے میں اسکی صدائے بازگشت ذرادیرسے پہنچی ہے ۔ابتدائی طور پر یہ تہوار
پہلی دفعہ زرطشتوں نے منایا۔ہزاروں سال قبل فارس کے بادشاہ جمشید کے دور سے
اس تہوار کی ابتداء ہوئی ۔یہ دن ساسانیوں ، پارتین ، ڈونگا سس ، کے خیسرو ،
ایز گرد اور مختلف ادوار میں منایا گیا۔حتیٰ کہ ترک اور منگول حملہ آوروں
نے بھی اس کو ختم نہیں کیا۔شہنشاہ ایز گرد کی تاج پوشی بھی نوروز کے دن
ہوئی ۔بادشاہ بے بی لوت کی حکومت بھی نوروز میں عمل میں لائی گئی۔نوروز
ایرانی کیلنڈر کا پہلا دن ہوتا ہے ۔پہلے پہل قمری کیلنڈر کے حساب سے منایا
گیا ۔لیکن زرطشتوں نے جب 365 دن ، 5 گھنٹے کے حساب سے نیا کیلنڈر ترتیب
دیا۔تو آج تک اُسی ترتیب سے منایا جارہا ہے ۔حتیٰ کہ چار ہزار سال گزرنے کے
بعد اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 2010 میں نوروز کے دن کی باقاعدہ طور پر
تو ثیق کی ۔ہر سال یہ دن دُنیا کے مختلف ممالک میں تین سو ملین (300 m) لوگ
مناتے ہیں ۔امریکہ میں مقیم دس لاکھ ایرانی النسل کے لوگ اس جشن کو اُسی
شان وشوکت سے مناتے ہیں ۔جیسے وہ کئی سال پہلے اپنے آبائی وطن ایران میں
مناتے تھے ۔اسی طرح شیراز سے نقل مکانی کرنے والے ایرانی جو اب زنجبار میں
آباد ہیں ۔وہ اپنے رسم ورسوم نئے مسکن میں دھو م دھام سے مناتے ہیں ۔ایران
کے علاوہ جن ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے ۔اُن میں افغانستان ، ترکی ،
ترکمانستان ، کرغستان ، قازقستان ، کووسوو ، البانیہ شامل ہیں ۔آہستہ آہستہ
اس کے اثرات جارجیا ، آرمینیا ، آذر بائیجان اور پاکستان تک پھیل گئے ہیں ۔جن
ممالک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے ۔اُس میں ایران ، افغانستا ن ،
البانیہ ، آذر بائیجان (آذری) ( جوجارجیا میں آباد ہیں) پارسی ( جو بھارت
میں آباد ہیں ) ،کووسوو ، اُزبکستان ، تاجکستان ، ترکمانستان شامل ہیں ۔ایران
میں اسلامی انقلاب کے بعد نوروز کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن اس
میں حکومت ایران کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔افغانستان میں
طالبان دور میں نوروز پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔لیکن 2001 کے بعد دوبارہ
افغانستان میں نوروز کی اہمیت اور شہرت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ہندوستان میں
جب مغلوں نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اپنے ساتھ اُن کے رسم ورواج اور
فارسی زبان نے بھی ہندوستان میں قدم جمانے شروع کئے ۔مغل ترک النسل تھے ۔جبکہ
سنٹرل ایشیا سے ہوتے ہوئے افغانستان میں وارد ہوئے ۔ تو فارسی (دری) زبان
کے گرویدہ ہوگئے ۔
ظہیر الدین بابر’’ نوروز ‘‘ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
’’ نوروز نو بہار و میے دلبر آست
بابر بہ عیش کو ش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘
ہندوستان میں زرطشت (پارسی ) ، یہود ، بھی نوروز کو مناتے ہیں ۔اسماعیلی
اور شعیہ جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی نوروز انتہائی جوش وخروش کے
ساتھ مناتے ہیں ۔نوروز کے تہوار کو منانے کیلئے ایرانی لوگ اپنے عزیزوں ،
رشتہ داروں ، دوستوں کے گھر جاتے ہیں۔اپنے ساتھ تحفے تحائف لیکر جاتے ہیں
۔مہمانوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے ۔گھر میں ہر قسم کی شیرینی ، پھل اور
میوے پیش کئے جاتے ہیں۔روایتاً سب سے پہلے خاندان کے سربراہ کے گھر جاتے
ہیں ۔یہ ملاقات تھوڑی دیر کیلئے ہو تی ہے ۔وہ اس لئے کہ ایک دن میں سارے
کنبہ کے افراد کے ہاں جانا پڑتا ہے ۔اُن عزیزوں یا رشتہ داروں کے گھر ضرور
جایا جاتا ہے ۔جس گھر میں چند دن پہلے فوتگی ہوئی ہو۔اس موقع پر خصوصی قسم
کے کھانوں کا بندوبست کیا جاتا ہے ۔کھانے کے میز کے ساتھ رنگ بہ رنگ اشیاء
خصوصاً سرخ رنگ کا استعمال زیادہ ہوتا ہے ۔یہ عام عقیدہ ہے ۔کہ جو فرد
نوروز کے دن جو کچھ کرتا ہے۔اُس کا پورا سال ایسا گزریگا۔اگر نوروز کے دن
ہنسی خوشی کے ساتھ خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ ملنساری خلوص ، محبت سے
پیش آئے ۔ تو آئندہ پورا سال پیار ومحبت سے گزریگا۔ اس کے بر عکس اگر
شروعات لڑائی ، جھگڑے اور بد امنی سے ہوئی تو یہ بد شگونی کی علامت ہے
۔پورا سال جنگ وجدل اور بد امنی میں گزریگا۔
ہر سال 21 مارچ کو نوروز منایا جاتا ہے ۔اس سال باقی دُنیا سمیت پاکستان
میں کئی اداروں ، چینلز اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے نوروز
منانے کا اہتمام کیا۔لیکن جب بھی کسی سے بات ہوئی ۔اور نوروز کے بارے میں
سوالا ت پو چھے گئے ۔تو لاعلمی کا اظہار کیا گیا ۔خصوصی طور پر خیبر
پختونخواہ میں مقابلتاً نوروز کے بارے میں آگاہی کم ہے ۔اور ہر خاص وعام
نوروز کے تاریخ سے نا بلد ہے ۔کیونکہ نوروز کا تعلق اسلام یا مسلمانوں کے
تہواروں سے نہیں ہے ۔اس لئے مدرسوں ، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اس کے
بارے میں بہت کم بتایا گیا ہے ۔پاکستان میں اسلامی تہواروں کے ساتھ ساتھ
موسم کے اعتبار سے کئی تہوار منائے جاتے ہیں۔جیسے بیساکھی کا میلہ اور جشن
بہاراں وغیرہ ۔لیکن تاریخی اعتبار سے ان تہواروں کے تانے بانے نوروز سے
نہیں ملتے ۔اس مضمون کا بنیادی مقصد اس خیال کے ساتھ لکھا گیا ۔کہ باقی
تہواروں سمیت نوروز کے بارے میں بھی علمی ذخیرے میں اضافہ ہو ۔آئندہ دیگر
تہواروں کے بارے میں بھی اظہار خیال کرونگا ۔تاکہ تاریخی ، قومی ، مذہبی
اور ثقافتی تہواروں کی اہمیت کو اُجاگر کرسکوں۔ |