جب کسی بھی ملک صوبے میں آفاﺅت
سماوی نے رخ کیا وہاں کے علاقہ کو آفت زدہ قرار دیا جاتا ہے ،جب بھی آفاﺅت
سماوی نے زمین کا رخ کیا تو اس نے نیلم ویلی کو اپنا نشمین بنایا انڈین
آرمی کے بلا اشتعال فائرنگ نے پندرہ سال سے عوام کی کمر توڑ دی سینکڑوں لوگ
شہید ہوئے سینکڑوں معذور اور ہزاروں بچے یتیم اور سینکڑوں خواتین بیواہ
ہوئیں کھانے کے لیے جب عوام کے پاس ایک وقت کی روٹی تک میسر نہیں تھی عوام
نے مورچوں کو اپنا گھر بنا کر وطن کے ساتھ حب الوطنی کا ثبوت دیا نیلم کے
بلا تنخواہ سپاہی بھوک ،افلاس ،بے روزگاری ،بیماری کی حالت میں اسپرین کی
گولی تک دستیاب نہیں تھی تب بھی ہم نے وطن کے ساتھ محبت کی وہ تاریخ رقم کی
جس کی مثال شاہد ہی کہیں ملتی ہو مگر اہلیان نیلم نے حب الوطنی میں حد کر
دی تھی اس روران اس علاقہ کو آفت زدہ قرار دیا مگر صد افسوس وہ مراعات یہاں
کے باسیوں کو نہ مل سکیں نہ ہی بجلی مفت فراہم کی گی نہ ہی کمیونیکشن کا
جدید سسٹم دیا گیا ،رہی سہی کسر زلزلہ نے نکال دی جب زلزلہ آیا بیرون ممالک
سے بڑی تعداد میں امداد آئی مگر اس سے مستفید ابتدائی مراحل میں غیر ریاستی
لوگ ہوئے چونکہ زلزلہ کے دوران تمام ملکی سسٹم غیر ریاستی لوگوں کے پاس تھا
تاہم زلزلے ہوں ،آندھیاں آئیں ،طوفان آئے مگر ان تمام طوفانوں کا مقابلہ
کسی للو پنچو کے بس کی بات نہیں اہلیان نیلم بارود پہ پیدا ہوئے اور طوفان
ان کا مکتب رہا تو ایسے حالات میں جب نشمن پہ بجلیوں پہ بجلیاں گرتی رہی
آشیانے ٹوٹتے رہے زمین سے بھینی بھینی خوشبو کی جگہ آج کہیں سال گزرنے کے
باوجود بارود کی بد بو آرہی ہے تو اس دوران کس قدر نیلم کے باسیوں کی اشک
شوئی ہوئی یہ ایک بات جو سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیا نیلم کی عوام انسان
نہیں ؟کیا نیلم ویلی کے غیور سپاہی اس قابل نہیں وہ دور جدید کے ساتھ
مقابلہ کر سکیں آخر ان کا کیا قصور ہے بیعنیہ گو چہ جرم ہے کیا اس کی معافی
کی اپیل خارج از امکان ہے تو طوفانوں سے لڑنے والے نیلم کے پہاڑ آج بھی ہر
طرح کی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں ہمارئے لیے کل بھی قیامت تھی اور
آج بھی قیامت ہے نہ جانے مدہوش حکمراں طبقہ کو کس قیامت کا انتظار ہے ہماری
ایک نسل مورچوں میں پناہ لیتے ہوئے ناخواندہ گزر گی جو بچہ پندرہ سال قبل
پیدا ہوا دوران گولہ بھاری سکول تو نہیں کھلے کے وہ سکول جاتے مورچوں میں
سکول لگے نہیں پندرہ سال کے بعد وہ بچہ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ دیتا ہے
حاصل بحث یقینا ہماری ایک نسل ناخواندہ گزر گی پاکستانی حکمرانوں کے بچے
بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے رہے اور نیلم کا احساس کسی کو زرہ بھر نہیں ہوا
آخر کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟یہ وہ سوال ہے جو نیلم ویلی کے ہر بوڑھے ،بچے ،جواں کے
زیر لب ہے اس سوال کا جواب دیئے بغیر کوئی حکمراں بچ نہیں سکتا یہ سوال
ابھی ان کے زہنوں میں اٹھ رہے ہیں جس کا جواب ہمارئے حکمرانوں کے پاس نہیں
جس دن یہ ناخواندہ بچے کدال ،بیلچے اٹھائے حکمرانوں کے سر اتارنے میدان عمل
میں آگئے تو ان غوری ،غزنوی کے بیٹوں کو کون مائی کا لعل روکے گا حکمراں بد
مست ہاتھی کی طرح مد ہوش ہیں اور غیر ریاستی ظلم پہ ظلم ڈھائے جا رہے ہیں
عوام کے دلوں میں نفرت کے الاﺅ بھڑک رہے ہیں آسمانوں سے باتیں کرتے شعلوں
میں حکمراں بھسم ہو کر رہ جائیں گئے ،نیلم کی عوام چاہتی ہے اب ظلم کی
داستان بند ہونی چاہیے ہمیں تیسرئے درجے کا شہری تصور بند کیا جائے ہمارئے
حقوق ہمیں ملنے چاہیں ورنہ حشر نہ ہو گا برپا ۔ضرورت اس امر کی ہے شاہرائے
نیلم کو حسب وعدہ بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا جائے اور اس میں
غفلت کے مرتکب افراد کو غداری کے جرم میں تختہ دار پہ لٹکایا جائے ،نیلم
ویلی کی عوام کو نیلم سے پیدا ہونے والی بجلی مفت فراہم کی جائے ،ٹیلی
کمیونکشن کا جدید سسٹم متعارف کروایا جائے بلا عذر موبائل سروس بحال کی
جائے اور تمام پرائیویٹ کمپنیوں کو نیلم میں سروس شروع کرنے کا پابند بنایا
جائے ،ایس سی او اپنا طریقہ کار پاکستان کے جدید طرز پہ لائے جس میں بوگس
ٹیکسز لائن رینٹ ،لوکل کالز ایورج جیسے ظالمانہ سسٹم سے مستثنیٰ قرار دیا
جائے ،صحت کی جدید سہولیات جن میں لیڈی ڈاکٹر سمیت جدید دوسرئے اضلاح جیسے
ہسپتال قائم کیے جائیں ،بے روز گار نوجوانوں کو روز گار فراہم کیا جائے
پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نا خواندہ کو بلا سود قرضے شخصی ضمانت پہ
دیئے جائیں متاثرین انڈین آرمی و متاثرین زلزلہ کی آباد کاری کے لیے ہنگامی
بنیادوں پہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے زرائع آمدن کے حساب سے یوٹلیٹی
سٹوروں سے راش اجراءکیا جائے یعنی کے راشن کارڈ جاری کے جائیں اور معاجرین
مقبوضہ کشمیر کے برابر مراعات دی جائیں جس طرح معاجرین کو ماہانہ وظیفہ
ملتا ہے اسی طرح نیلم کی عوام بھی مستحق ہے ان کی ملک کے لیے لازوال
قربانیاں ہیں ۔اگر یہ کام حکمراں نہیں کر سکتے تو ان کو اپنا لیڈر تصور
کرنے والا ہزاروں سال قبل غاروں میں رہنے والوں سے بھی بد تر ہے نیلم ویلی
والو اٹھو ان ظالموں کے خلاف علم بغاوت اٹھاﺅ بتاﺅ اہلیان نیلم نے کس طرح
اپنی زندگی گزاری بند کر دو لکڑی کی ترسیل اور روبی و دیگر معدنیات کی
سمگلنگ کو خود کنٹرول حاصل کر لو محکمہ جات پہ عوامی عدالت میں عوام کا
فیصلہ ہی یہی ہے ظلم حد سے گزر چکا ہے ۔ |