امہ یا ریاست؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

چندروز قبل ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل پر مزاکرہ نشر کیا گیا۔ملک کے ممتاز دانشور اس میں شریک تھے۔مزاکرے میں سامعین کی طرف سے ایک سوال کیا گیا کہ ــاگر ریاست اور امہ کے مفادات ٹکراجائیں تو فوقیت کس کو حاصل ہوگی؟ایک معروف دانشور نے جواب دیا کہ امہ کے مفادات بہرحال مقدم و محترم رہیں گے اور انہوں نے اپنے موقف کے حق میں دلائل بھی دیے۔بعض دیگر دانشوروں نے ان سے اختلاف کیا ،ایک صاحب نے فرمایاکہ خلافت راشدہ کے بعد سے امہ کا وجود ختم ہو چکا ہے،ایک اور فاضل مفکرنے امہ کو محض لسانی بنیاد وں پر عربوں کی میراث کہا اور غیرعرب مسلمانوں کے امہ ہونے کو جذباتیت قرار دیا۔ایک بزرگ دانشور نے کہا گزشتہ ڈیڑھ ہزارسالوں میں ملوکیت کے باعث امہ کا وجود کہیں نظر ہی نہیں آتااور ایک صاحب نے حالات حاضرہ کے حوالے سے فرمایا کہ صرف ہندوستانی اور پاکستانی مسلمان ہی اپنے آپ کو امہ کا حصہ سمجھتے ہیں باقی پوری دنیا کے کلمہ گو صرف اپنی قوم پرستی میں مبتلا ہیں۔ان سب حضرات نے اپنے اپنے موقف کے حق میں بہت دلائل بھی دیے اور نتیجہ نکالا کہ اگر ریاست اور امہ کے مفادات کا ٹکراؤ ہو جائے تو امہ کو پس پشت ڈال کراپنی قوم،اپنا ملک،اپنی نسل اور اپنی ذریت کے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے ۔

ہمیں ان کی نیت پر قطعاؒبھی شبہ نہیں،انکی شخصیتیں قابل صد احترام اور انکے دلائل قابل غور و فکر ہیں لیکن ہم ان کے موقف سے علمی و تجزیاتی اختلاف کرتے ہوئے اس بات کے حق میں دلائل دینا چاہتے ہیں امہ کسی حادثے کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی اور نہ ہی کسی سانحے کے بعد ختم ہو چکی ہے۔نبی آخرالزماںﷺ کی نبوت مقدسہ سے اسکی تاسیس ہوئی ،اہل بیت مطہرین نے اپنے خون سے اسکی آبیاری کی ،ائمہ امت نے اپنی مجتہدانہ کاوشوں سے اسکو جلا بخشی ،محدثین نے روایت و درایت کے اصولوں سے امت کا علمی و تحقیقی قد اس قدر بلند کر دیا دوسری قومیں اپنے بلندوبالا پہاڑوں پر چڑھ کر بھی اسکے عروج کو نہیں پہنچ سکتیں اور مجددین امت نے وقتاؒ فوقتاؒکبھی اسکی بنیادوں کو مضبوط تر کیا توکبھی اسکی بلندی وپختگی میں مزید اضافہ کیا ۔یہی وجہ ہے کہ فرڈی ننڈ کی توپوں سے مغرب کے میزائلوں تک اور یہود کی سازشوں سے ہنود کی مکاریوں تک کوئی بھی اسکے وجود کو عنقا نہ کر سکا اور آج غلامی کے اندھیر غار سے نکل کر یہ امہ ایک بار پھر اپنے شاندار ماضی کو مستقبل کے آئینہ میں تلاش کیا چاہتی ہے۔

ریاست یا امہ؟یہ سوال اسلامی نظریہ حیات کے اس باب سے تعلق رکھتا ہے جس کے ڈانڈے اسلام کے سیاسی نظام سے ملتے ہیں۔سیاسی نظام کاسہرہ حکمران کے سر پر ہوتا ہے اور قبیلہ بنی نوع انسان نے ماضی سے تاحال حکمرانوں کے چناؤ سے مشکل کام نہیں دیکھا۔کشتو ں کے پشتے اور خون کی ندیاں وہ بھاری قیمت ہے جو حکمرانوں کی تبدیلی کا نتیجہ بنتی ہے یا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔مسلمانوں نے بعد از نبوت ہی اس بالغ نظری کا ثبوت دیا جو اسی امت کے شایان شان ہے کہ صرف مشاورت کے نتیجے میں ہی خلافت راشدہ کے حکمران امت مسلمہ کے اجتماعی معاملات کے نگران مقرر ہوئے۔خلیفہ اول کاانتخاب خواص کی محفل میں ہوا اورعوام نے اسکی تائد کی،خلیفہ دوم کی نامزدگی شورائیت کے ذریعے عمل میں آئی،خلیفہ سوم اور خلیفہ چہارم کے لیے ایک کمیٹی کو مینڈیٹ سونپا گیا جس نے دونوں کوترجیحاؒاولیت اور ثانویت دی جس کے مطابق اقتدار کی باگ دوڑ انکے سپرد کی گئی۔

پہلے دو خلفاء راشدین کے وقت تو صرف عرب علاقے ہی زیراسلام تھے ،اگر امہ کا وجود نسل یا زبان کا مرہون منت ہوتاتو عجم کی فتوحات غلامی کے خاتمے کا مقدمہ کبھی نہ بن پاتیں اور خلیفہ دوم کے عہد حکمرانی میں ہی غیراقوام کے گلے میں عربوں کی غلامی کا طوق ڈال دیا جاتالیکن یہ امت صرف ایک کلمہ کے باعث ہی اپنا وجود رکھتی ہے۔چنانچہ تاریخ نے جہاں اس زمانے کا ایک ایک لمحہ اپنے سینے میں محفوظ کیا ہے وہاں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ امہ کے کسی حصہ سے عرب قومیت کے خلاف یا اپنی مقامی قومیت کے حق میں آواز اٹھی ہو اورمہینوں کی مسافت کے علاقے بھی مرکز سے دور ہونے کے باوجود کبھی اپنے بارے میں اس احساس کمتری کا شکار نہ رہے کہ عربوں کو ہمارے اوپر حق حکمرانی حاصل ہے یا وہ ہمارے وسائل سمیٹ کر تو ہمارا استحصال کر رہے ہیں۔

ممکن ہے ان حقائق کوجذباتیت سمجھ لیاجائے جیسا کہ ایک فاضل دانشور نے اپنی گفتگو میں اس کا تذکرہ بھی کیالیکن کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ فاتح اقوام جہاں بھی گئیں انہوں نے غلاموں پر اپنی ثقافت اور تہذیب کے ڈنڈے اس مضبوطی سے گاڑے کہ صدیوں تک اسکے اثرات باقی رہے؟اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ غلاموں نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کس کس طرح کی غداریاں کیں اور اپنی ہی قوم کا سر نیچا کر کے توآقاؤں کی آشیر باد حاصل کی؟برصغیر پاک و ہند اسکی زندہ مثال ہے کہ اکیسویں صدی کی دہلیز پر چکاچوند روشنیوں اور ’’روشن خیالی‘‘کے باوجود غلامی کی زنجیریں آج بھی پو ری شدومد سے باقی ہیں۔لیکن یہ مسلمانوں کے لیے امہ ہو نے کا ثبوت ہے ایک ہزار سال کے دورانیے میں مشرق سے مغرب تک حکومت کرنے والے مختلف النسل،مختلف اللسان اور حتی کہ مختلف الخیال مسلمان حکمرانوں نے کسی قوم کو خواہ وہ غیر مذہب سے بھی تعلق رکھتی تھی اپنا تہذیبی و ثقافتی ومعاشی غلام نہیں بنایا۔

کتاب اﷲ تعالی اور سنت رسول اﷲ ﷺ امہ کے ہر علاقے میں پہنچے لیکن عربی تہذیب و تمدن عرب سے باہر نہ نکل سکا،نماز ،روزہ،حج ،زکوۃاور جہاد ہر مسلمان کی فرائض کی فہرست میں شامل ہیں لیکن عربی زبان کو کسی مسلمان نے اپنے آقاؤں کی زبان سمجھ کر قبول نہیں کیااور فقہی مذاہب عرب کے علاقوں سے ہی نکل کر پوری امہ میں پھیلے اور آج تک موجود ہیں لیکن کوئی مسلمان ان مسالک کی پیروی کرتا ہوا اپنے آپ کو عربوں کا ذہنی غلام تصور نہیں کرتا۔عربی چغہ،عربی کھانے،عرب شعائراورعرب رسوم و رواج کو کبھی کسی مسلمان معاشرے نے جاری نہیں کیا۔یہ اظہر من الشمس ثبوت ہیں کہ مسلمان ایک قوم نہیں بلکہ ایک امہ ہیں اور اس امہ میں کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے۔

مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اقتدار میں اس بات کے بے شمار ثبوت ہیں کہ کل مسلمان ایک سیاسی وحدت میں پروئے ہوئے تھے اورامہ کا تصور ہر حال میں موجود تھا۔جنگ صفین کے موقع پر رومی حکمران نے حضرت امیر معاویہ کو مدد کی پیشکش کی ،حضرت نے اسے واضع طور پر باور کرا دیا کہ یہ انکا داخلی معاملہ ہے اوراس معاملے میں کوئی خارجی مداخلت قبول نہ کی جائے گی۔امیرمعاویہ کا جواب اس قدر شدید تھا کہ اس حکمران کو پھر کبھی ایسی بات کی جرات نہ ہوئی۔عباسیوں کے دور خلافت میں پوری اسلامی دنیا میں جہاں کوئی حکمران تخت پر بیٹھتا تھااس وقت تک اسکی تاج پوشی نہ کی جاتی تھی جب تک مرکز خلافت میں امیرالمومنین اسکی سند اجازت پر اپنے دستخط نہ ثبت کر دیتا۔حتی کہ اندلس میں جہاں عباسیوں کے جانی دشمن اموی حکمران اقتدار میں تھے وہ بھی ایک طویل عرصے تک مرکزخلافت کی سیاسی قیادت کے عنوان کے باعث صرف امیر کا لقب ہی اختیار کیے رہے۔

ریاست اگر امہ سے برترہوتی تو صلیبی جنگوں میں پوری اسلامی دنیا کی نمائندگی کبھی نہ ہوتی اور ہر ریاست یہ سوچتی کہ قبلہ اول جاتا ہے تو جائے بس ہماری مملکت ہی محفوظ رہے۔اور اگر ریاست کے مفادات امہ سے بالاتر ہوتے تو افریقہ کے مسلمان اندلسی مسلمانوں کی مدد کو کبھی نہ آتے اور ریاست اورامہ کے ٹکراؤ میں ریاست اول نمبر پر گردانی جاتی تو مصر سے مسلمان نکل کر تو صحرائے گوبی سے امڈتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لیے عراق و شام کاسفرصسعوبت طے نہ کرتے۔

بھلا سمرقندوبخارا ،ترمذ،نساء اور خراسان کا حجاز سے کونسا نسبی،نسلی،علاقائی،لسانی یا سیاسی تعلق ہے کہ آج تک ان علاقوں سے نکلنے والے علماء کی کتب حجازیوں سمیت پوری عرب دنیاکا قیمتی سرمایا ہیں۔کیا کبھی عرب علماء اسلام نے صحیح بخاری یا صحیح مسلم یا سنن نسائی یاجامع ترمذی کو اس نظر سے دیکھا ہے کہ یہ عجمیوں کی کتب ہیں اوراس لیے درجہ دوم میں شمارکیا جائے؟امام ابوحنیفہؒسمیت فقہا کی ایک لمبی فہرست ہے جو عجم کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہیں عرب سمیت پورے عالم اسلام میں جو پزیرائی حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔یہ وہ ان مٹ ثبوت ہیں جو یہ باور کراتے ہیں کہ مسلمانوں کا خمیر ایک کلمہ کی بنیادپر قائم ہے اور یہی خمیر امہ کاسرمایا ہے جس کا ایک ایک فرد ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر ایک عضو بیمار ہو تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جائے۔

مسلمان کسی علاقے کے رہنے والے ہوں ،کوئی زبان بولنے والے ہوں ،کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں ،کوئی سارنگ انکے جسموں پر نظر آئے،غریب ہوں امیر ہوں،پڑھے لکھے ہوں ،جاہل ان پڑھ ہوں،کسی تہذیب و تمدن کے حامل ہوں انکی بستیوں میں ایک ہی آذان گونجے گی،انکی مساجدکا رخ ایک ہی قبلے کی طرف ہو گا،انکی نمازیں ایک ہی زبان میں ادا کی جائیں گی،انکا قرآن ایک ہی ترتیب کا حامل ہو گا،انکی عقیدتوں،محبتوں،اطاعتوں،فرمانبرداریوں اوروفادریوں کا مرکزو محور ایک ہی ذات بابرکات ﷺ ہو گی اور وہ ایک ہی معبودکے عبادت گزار ہونگے۔اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تاریخ کے کسی دور میں یہ ترجیحات بدل گئی ہوں یاکسی صدی میں مسلمانوں نے ان سے اجتماعی روگردانی کر لی ہو یاکسی خاص مدت کے بعد ان میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہوں۔یہ نشانیاں ہیں ایک امہ کی جو تاریخ کے پر دور میں امہ رہی ہے ،آج بھی امہ ہے اور تاقیامت امہ ہی رہے گی۔

کم و بیش تین سو سال کا عرصہ امہ پر غلامی مسلط رہی لیکن اس دوران بھی امہ اپنی حیثیت کو فراموش نہ کر پائی اور ایک نظریاتی وعلامتی وجود باقی رہا۔اسکی شاندار مثال ہندوستان کے مسلمانوں کی تحریک خلافت ہے ۔یہ اس تحریک کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے تاہم ترکی جو بالکل ایک الگ براعظم میں واقع ہے اسکے مسلمانوں کے دکھ کو ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی تکلیف سمجھااور 1917ء میں جب سلطان ایک مختصرمدت کے لیے تخت نشین ہوا تو ہندوستان کے طول و عرض اوردوردراز جزیروں سے پہاڑی دروں ،وادیوں اورچوٹیوں تک ہر جگہ پر آنے والے پہلے جمعے کے خطبے میں علماء نے سلطان کا نام پڑھا جس سے تاج برطانیہ اندر تک کانپ گیا۔سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنی کتاب’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘میں دورغلامی کے دوران مسلمان زعماکے باہمی رابطوں پر اجمالی روشنی ڈالی ہے۔

تبلیغی جماعت کے بزرگ کاندھوں پر بستراٹھائے بعض اوقات ہفتوں کے سفر کے بعد منزل مقصود پر پہنچتے ہیں اور ایسی ایسی جگہوں پر پہنچتے ہیں جہاں انکی زبان نہیں سمجھی جاتی،وہاں کا پانی انہیں راس نہیں آتا،وہاں کے کھانے انہیں ہضم نہیں ہوتے اوروہاں کے لوگ انہیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے تماشابھی نہیں دیکھا جاتا لیکن ان سب کے باوجودان غیر مسلم بستیوں کے مسلمان انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ان کی اتنی قدرکرتے ہیں کہ قیام کا دورانیہ پورا ہو جاتا ہے لیکن وہ گھرابھی باقی ہوتے جہاں سے ان مبلغین کے لیے کھانا آنا ہوتا ہے ۔اور جب رخصت کا وقت آتا ہے تو سگے بھی اس طرح جدا نہیں ہوتے جس فرط محبت سے یہ مسلمان مبلغین کو جدا کرتے ہیں،ان سے گلے مل مل کر روتے ہیں اور پھر کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ان ان جان مسلمان بھائیوں کے لیے دامن اٹھا اٹھا کر دعائیں کرنا’’ امہ‘‘ کا وہ سرمایا ہے جسے اس زمین کے سینے پر دنیا کاکوئی پیمانہ ناپ نہیں سکتا اور زمانے کا کوئی ترازو اس کا وزن نہیں کر سکتا۔

ہم واشگاف الفاظ میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں ریاست کوامہ سے برترقرار دینااور امہ کے مفادات کو قربان کر کے تو ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی تاریخ سے بغاوت ہو گی بلکہ شریعت اسلامیہ کے قوانین سیاسی کی صریح خلاف ورزی گردانی جائے گی۔اسلام نے مسلمانوں کوایسی کسی ریاست کا تصور نہیں دیا جو رنگ،نسل،علاقہ،زبان یا کسی خاص تہذیب کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتی ہو۔ان سب تعصبات کے قدآور بتوں کو توڑ کر ہی ایک مسلمان امہ کا فرد بنتا ہے پھر کسی ایسی ریاست کے مفادکو امہ کے مفاد سے عزیز تر رکھنا چہ معنی دارد؟ہم امام خمینیؒکایہ قول نقل کریں گے کہ اسلامی ممالک کے درمیان سرحدیں دراصل شیطان کی لگائی ہوئی حد بندیاں ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح ؒکے بھی یہی الفاظ کہے تھے جب وہ صوبہ سرحد کے دورے کے موقع پر پاک افغان سرحد پرموجود افغان سپاہی سے ہاتھ ملا کر کہ رہے تھے کہ یہ سرحدیں شیطانی ہیں اور ہم دراصل دین اسلام کے ناطے سے سب بھائی بھائی ہیں۔

ستاون اسلامی ممالک کے حکمران آپس میں جو بھی جذبات رکھتے ہوں لیکن پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔1993ء مین جب ہم اپنے ایک صحافی ساتھی کے ہمراہ مرحوم نسیم حجازی کو ملنے گئے تو انکا کمرہ ہسپتال کے کمرے کے مشابہ ہو چکا تھااور پیرانہ سالی کے باعث انکی گفتگو بعض اوقات ناقابل فہم ہو جاتی تھی،باتوں میں جب مسلمانان بوسنیا کا ذکر آیا تو وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے،انکی سسکیاں آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہیں۔اگر یہ تکلیف امہ کا درد نہیں ہے دنیا کا کونسا طبیب اسکی مرض شناسی کرے گا۔کشمیر اور شیشان کے لیے دعا کرتے ہوئے اگر امام کعبہ کی ہچکی بندھ جاتی ہے اور کئی لمحوں تک وہ بولنے سے قاصررہتے ہیں اورانکے عقب میں کھڑے مسلمانوں کی آہیں اور سسکیاں لاؤڈ اسپیکرسے پھوٹ نکلتی ہیں تو کیا یہ جذبہ امت کے وجود کے لیے ناقابل تردید شہادت فراہم نہیں کرتا؟

امت کے کل مسلمان کتنے ہی کم ایمان کے مالک ہوں،کیسے ہی بے عمل ہوں ،خوردونوش اور بوردباش میں حرام و حلال کی پابندی کریں یا نہ کریں،فرائض وواجبات کے پابندہوں یا ان سے غافل ہوں انکے سینے اگر نور ایمان سے منورہیں تو وہ بذات خود امہ کا حصہ ہیں اور 9/11کے بعد تو امہ کا تصور بعض علاقوں میں تعصب بن کر ابھرا ہے ۔گویا طوفان مغرب نے مسلمان کو مسلمان کر دیا ہے۔دنیاکے دوردراز کونوں کھدروں میں بسنے والے مسلمان جو اپنی حقیقت سے غافل تھے اور امہ کے وجود سے کٹ سے گئے تھے آج پھر اپنی اصل کی طرف گامزن ہیں۔جہاد افغانستان کے بعد عام طور پر اور گزشتہ چند سالوں سے خاص طور پر ایسے ایسے علاقوں سے حجاج کرام سفر کر کے اس مقدس فریضہ کے لیے آتے ہیں جہاں کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہاں بھی مسلمان کبھی موجود تھے۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں دوقومی نظریہ پیش کیا گیا کہ تہذیب و تمدن اور زبان و بیان کی ہم آہنگی کے باوجود مذہب کا فرق امہ کو دیگر اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔بالشویک انقلاب کے وقت یہ نظریہ غلط ثابت ہو گیا کیونکہ مذہب کے فرق کے باوجود کئی اقوام نے مل کر کیمونسٹ نظریہ حیات کے مطابق زندگی گزاررنے کا فیصلہ کیا۔قیام پاکستان کے وقت یہ نظریہ پھر صحیح ثابت ہوا کہ ایک قوم ہونے کے باوجود مذہب کے فرق نے ایک ریاست کے درمیان خونی لکیر کھینچ دی۔سقوط ڈھاکہ سے اس نظریہ کی تردیدمکررہوگئی کہ ایک مذہب ہونے کے باوجودقومیت کے فرق نے ایک ملک کو دولخت کر دیالیکن اس دوقومی نظری کاقطعی ثبوت گزشتہ صدی کے آخر میں اس وقت میسر آیا جب ماسکو کے سب سے بڑے لینن گراڈ چوک پرلینن کے مجسمے کوکرین کے ذریعے اٹھا کر انتہائی بلندی سے زمین پر پھینک کر چکنا چور کر دیا گیا۔وسطی ایشیائی ریاستیں سترسالہ ظلم واستبدادسے آزاد ہوئیں اور کسی اور کیمپ کی بجائے انہوں نے بالاجماع امہ کی ٹھنڈی چھاؤں میں آکرخاک کاشغر کوایک بار پھر راہ حجاز کا مسافر بنا دیا۔

سوال یہ ہے کہ تقلید مغرب کے نتیجے میں کیا ہم اپنی حقیقت فراموش کر دیں گے؟کیااپنی ذات میں اس قدرمحو ہوکر خود غرض بن چکیں گے کہ آنے والی نسلوں کو بھلا بیٹھیں؟اورکیا تاریخ سے کبھی سبق نہ سیکھ پائیں گے؟کم و بیش ایک صدی گزرنے کے بعد آج بھی ترکی جب یورپی یونین کا رکن بننے کی درخواست کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ نہیں ابھی ایمان کچھ رمق تم میں باقی ہے۔فلسطینیوں کے ایک گروہ نے اپنے آپ کو مکمل طور پر مغربیت میں ڈھال لیا تو کیا ان پر اہل مغرب بہت مہربان ہو گئے اور انکے مسائل ختم ہو گئے؟ماضی نہیں تو حال سے ہی سبق لے لیا جائے کہ یورپی اقوام کو صرف پاکستان کااسلامی بم نظر آتا ہے ،یہودی،ہندو،عیسائی اور سیکولر بم تو کہیں بھی انہیں دکھائی نہیں دیتے اورمشرقی تیمور کے دو عیسائیوں کا قتل انہیں چبھتاہے کشمیرسمیت دنیا بھر کے کتنے ہی مسلمان علاقوں میں دریاؤں میں پانی کی بجائے جہاں مسلمانوں کا خون بہہ رہاہے وہ انہیں نظر نہیں آتا۔امت مسلمہ کے حکمران کسی انتخاب کے ذریعے حکومت میں نہیں آئے اس لیے امہ ان کے اعمال سے بری ہے لیکن یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں کی پالیسیوں میں انکے عوام براہ راست ذمہ دار ہیں کہ وہاں جمہوریت انکی مرضی کی شکل میں موجود ہے۔

بچپن سے یہ سبق پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ’’اتحادمیں برکت ہے‘‘۔فرد کو خاندان کی خاطر اپنا مفاد قربان کرناپڑتاہے،خاندان کو قبیلے کی خاطر اپنامفاد قربان کرتا پڑتا ہے ،قبیلے کو جرگہ کی خاطر اپنا مفاد قربان کرنا پڑتا ہے ،جرگے کو ریاست کی خاطر اپنامفاد قربان کرنا پڑتا ہے اور ریاست اگرامہ کی خاطراپنا مفاد قربان کرے گی اسی میں امہ،ریاست،جرگہ،قبیلہ،خاندان اور فرد کا بھلاہوگابصورت دیگر آج عراق کے شیعہ اور سنی فرقوں کے راہنماؤں نے پریس کے سامنے اس بات کو بیان کیا ہے دشمن نے انہیں باہمی لڑائی کے لیے الگ الگ اوربھاری بھرکم رقومات فراہم کیں،دشمن ہمیں اچک لے گا،جداجداکرکے ہمیں شکار کرے گاہمارے درمیان آگ لگائے گا اور ہمیں جلتا دیکھ کر خوشیوں کے گل چھڑے اڑائے گا۔

امت کے دانشوردراصل امت کے امین ہیں،انہیں صبح روشن کی نوید امہ کو دینی ہے۔اہل فکرودانش سرمایا بے بہا ہوتے ہیں انکی بات کو سنا جاتا ہے ،انکے اقوال کو محفلوں میں دہرایا جاتا ہے،وہ ایک معتبر حوالہ ہوتے ہیں یہ لوگ وہ روشن دان ہیں جہاں سے شب تاریک کے اندھیرے چھٹنے کی خبر داخل ہوتی ہے،باد صبا انہیں لوگوں کے نفیس خیالات کا استعارہ ہے اور شبنم کے موتی انہیں کی شب خیزیوں سے عبارت ہیں ،عوام ان کے ہاتھوں میں یوں ہوتے ہیں جیسے مردہ بدست زندہ۔ہم امید کرتے ہیں یہ طبقہ امہ کوصحیح راستہ دکھائے گا،غلامی کی باقی ماندہ زنجیریں بھی توڑنے کاباعث بنے گا،اپنے جزو کوامہ کے کل کی طرف لے کر بڑھے گا ۔قرآن و سنت اور اسلاف کے طریقہ کو تھامے صراط مستقیم پر امہ کی قیادت کرتا ہوا نظر آئے گااور ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق سے ایک بار پھر امت کے عروج کا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے اور انسانیت کی آسودگی کے دن قریب سے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں جب نفسانیت،خودغرضی،شائلاکیت ،خوں ریزی اور جنسیت کی بجائے پیار،محبت،امن و آشتی ،خودآگاہی و خدا آگاہی کا دوردورہ ہوگا انشاء اﷲ تعالی۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک
ترے بازو میں ہے پرواز شاہین کہستانی (اقبال)
 
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.