مشتری ہوشیار باش

جیسے ہی خلیفہ وقت منبر رسول ﷺ پر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو مجمع میں موجود ایک فرد کھڑا ہوا اور خلیفہ وقت کے لباس کی طرف انگلی کر کے بولا کہ مال غنیمت سے حاصل ہونے والی چادروں میں سے ہر کسی کو ایک ایک چادر ملی ہے جب کہ آپ کا لباس دو چادروں کا بنا ہوا ہے ۔پہلے ان دو چادروں سے بنے لباس کا جواب دیں پھر خطبہ دیں ۔

اس سوال پر وہ خلیفہ وقت کہ جس کے رعب و دبدبہ سے مکہ کی پہاڑیاں بھی کانپتی تھی،چپ ہوگیا۔مجمع میں موجود لوگوں کی طرف دیکھا تو تمام افراد کے چہرے سوالات سے بھرے ہوئے تھے اور ہر کوئی اپنے خلیفہ کا ان دو چادروں کے معاملہ میں احتساب کرنا چاہتا تھا۔اسی اثناء میں مجمع سے خلیفہ وقت کا بیٹا آگے بڑھا اور نہایت عاجزانہ انداز سے مجمع سے اجازت طلب کر کے اس احتسابی عمل کا جواب دینا چاہا جسے تمام افراد نے قبول کر لیا۔خلیفہ وقت کے بیٹے نے مجمع سے کہا کہ چوں کہ میرے والدکے پاس لباس کی کمی ہے اور میرے والد کی جسامت بھی ایسی ہے کہ مال غنیمت سے ملنے والی چادر میرے والد کے لباس کے لیے ناکافی تھی لہٰذا میں نے اپنے حصے کی چادر اپنے والد کودی تاکہ وہ ان دو چادروں کو ملا کر اپنے لیے لباس تیار کر سکیں ۔

یہ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ تھے کہ جنہوں نے 23لاکھ مربع میل کے علاقے پر حکومت کی،سلطنت میں سونے ،چاندی ، ہیرے ، جواہرات اور ریشم کا انبار لگا ہوا ہوتا تھا مگر اپنے لیے رہنے کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے کا انتخاب کیا کہ جس میں آسائشات زندگی تو دور کی بات ضروریات زندگی کا بھی فقدان تھا ۔

اس واقعہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ عوام نے ایک ایسے حکمران کا احتساب کیا کہ جو ان کی مفلسی و کسمپرسی کا نجات دہندہ بنا اور خوشحالی کی موجب بھی ۔مگر پھر بھی عوام نے صرف ایک چادر پر اس حکمران کا احتساب کیا ۔وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ لوگ ذہنی و جسمانی طور پر آزاد تھے انہیں اس چیز کا ادراک تھا کہ حکمران کا کام اپنے لیے مال و جائیداد بنانا نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود ہوتا ہے جب کہ ہم اسی مذہب کے پیروکار ہیں کہ جس کے پیروکار حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور ان کے عوام تھے لیکن ہمارا انداز حکمرانیت و پسندیدگی ہی الگ ہے ۔ہمارے ہاں حکمران حکومت پربرجمان ہو کر اپنے لیے خوب مال و اسباب جمع کرتے ہیں عوام کو ظلم ، مہنگائی ، کرپشن جیسی لعنتوں میں پھنسا کر عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ بعد یہی حکمران جب عہدہ حکمرانیت سے دستبردار کیے جاتے ہیں تو ظلم و بربریت کا شکار ہونے والی یہی عوام انہی کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیتی ہے انہی کے جلسوں جلوسوں میں ان کے شانہ بشانہ شامل ہو کر انہیں حکمرانیت کے لیے چن لیتے ہیں اور پھرہاتھ پہ ہاتھ دھر کے ظلم ، کرپشن اور جانی انجانی معاشرتی و معاشی بیماریوں کا سبب بن جاتی ہیں ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی عوام اور ہم میں نمایاں فرق آزادی کا ہے ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہیں مگر پینسٹھ سال ظلم و بربریت میں پسنے کے باوجود بھی ذہنی طور پر آزاد نہ ہوئے اور غلام کبھی احتساب نہیں کر سکتے ۔

حضرت عمررضی اﷲ عنہ طاقت و حکومت رکھنے کے باوجود بھی عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش ہوئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بادشاہ حقیقی عوامی رہنما تھے جو اپنے آپ کو عوام اور قانون سے برتر و بالا تر نہیں سمجھتے تھے مگر ہمارے منتخب کردہ عوامی رہنماؤں نے پانچ سال گزار کر عوام کی کیا خدمت کی اس کے لیے مندرجہ ذیل رپورٹ ملاحظہ کریں :

الیکشن کمیشن کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات سمیت 284ارکان پارلیمنٹ کی فہرست موصول ہوئی ہیں فہرست کے مطابق پارلیمنٹیرنز 1کروڑ،21لاکھ،40ہزار کے ٹیلی فون بلز کے نادہندگان ہیں ۔نیشنل ٹیلی کام کارپوریشن کی طرف سے جاری ہونے والی فہرست کے مطابق سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف 6,27000روپے،چودھری احمد مختار 86,225روپے،چودھری نثار80,200روپے،پرویز الٰہی 26,700روپے،رحمان ملک1,95000روپے،فیصل کریم کنڈی1,26000روپے،اسفند یار ولی2,00244روپے،فہمیدہ مرزا34,600روپے،فضل الرحمان52,900روپے کے نادہندہ ہیں دریں اثنا ء 400سے زائد سابق ارکان پارلیمنٹ انٹرنیٹ کے بلوں کے بھی نادہندہ ہیں۔

جمہوری و عوامی حکومت نے ابھی کچھ دن ہوئے ہیں اپنی مقررہ معیاد حکومت پوری کی ہے ان کچھ دنوں میں ایسے ایسے کرپشن کے شاہ کار سامنے آرہے ہیں کہ ایک غیرت مند پاکستانی شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے کوئی جعلی ڈگری سے پانچ سال وزیر رہا تو کوئی کمیشن اور کرپشن سے ملک کو لوٹتا رہا مگر افسوس تو تب ہوتا ہے کہ یہی کرپٹ حکمران جب عدالتوں یا عوامی اجتماع میں شریک ہوتے ہیں تو ان کے احتساب کے لیے کوئی شخص کھڑا نہیں ہوتا ہے کوئی ان سے لاکھوں روپے مالیت کے لباس ، کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی ، پلاٹ ، کارخانوں یا فیکٹریوں کا احتساب لینے کے لیے کھڑا نہیں ہوتا ہے یہ نعروں کی گونج گرج میں عدالتوں میں جاتے ہیں یہ کندھوں میں بیٹھ کرجلسوں میں شریک ہوتے ہیں یہ زندہ بادزندہ باد کے نعروں سے اپنی زبانوں کو کھولتے ہیں لیکن افسوس در افسوس کہ ان کی زبانوں کو گنگ کر نے کے لیے کسی کی انگلی نہیں اٹھتی ہے ۔ہم عمر رضی اﷲ عنہ جیسا حکمران تو مانگتے ہیں مگر عمر رضی اﷲ عنہ کی رعایا بننے کو تیارہی نہیں ۔

کچھ دن بعد ایک ڈرامہ رچنا ہے کہ جس کے لیے عوام کا خون پینے والے اور عوام کے بدترین حالات کے ضامن افراد اپنے کچھ حواریوں کے ساتھ عوام کے سامنے ایسے پیش ہورہے ہیں کہ ان جیسا معصوم دنیا میں کوئی نہیں ،بلند و بانگ دعوے کیے جارہے ہیں انہیں بس اقتدار اقتدار اور بس اقتدار کی ہوس ہے جس کو یہ کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں ،کوئی گلی پکی کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو کوئی سڑک ،کوئی گیس لائن کا وعدہ کررہا ہے تو کوئی بجلی کا ، کوئی نوکریوں کا جھانسہ دے رہا ہے تو کوئی کاروبارکا ۔مگر انہوں نے کرنا وہی ہے جو یہ پہلے کرتے رہے ہیں ۔اب جب کہ گیند عوام کی کورٹ میں ہے تو عوام اگر انفرادی مفادات سے ہٹ کر اجتماعی مفادات کو سامنے رکھے تو یقینا یہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے یہاں سے ان کاایسا پتہ صاف ہوکہ ان کانام و نشان مٹ جائے ۔۔۔۔۔مگر یہ تب ہی ہو گا جب عوام حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی رعایا بننے کی سعی کرے۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 79559 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.