سماجی انصاف کا تقاضا، بجلی کی مساوی تقسیم

آغا امجد علی

ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ ماں جب کھانا تقسیم کرتی ہے تو بچوں میں برابری کا برتاﺅ کرتی ہے نہ کہ کسی کے لئے عیاشی کی حد تک وافر مقدار اور نہ ہی کسی کے لئے قلت کی حد تک برائے نام کھانا۔ ماں کی طرح ریاست کے وسائل پر سب شہریوں کا برابر حق ہوتا ہے۔ خاص طور پر ضروریات زندگی کے حوالے سے سماجی انصاف کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ ریاستی وسائل کی منصفانہ تقسیم تمام شہریوں کےلئے بلا امتیاز یقینی بنائی جائے لیکن پاکستان میں خاص طور پر بجلی کے معاملے میں سماجی ناانصافی کی بدترین مثالیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم اور دیہاتی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ شیطان کی آنکھ کی طرح طویل تر ہوتا ہے۔ صرف بجلی جانے کا پتا چلتا ہے آنے کی خبر نہیں ہوتی کیونکہ دیہی پاکستان جو اصل پاکستان ہے وہاں کے باشندوں کی نیوز سینس ویلیو نہیں ہے۔ اس لئے ان کا استحصال ریاستی سطح پر لوڈشیڈنگ کے حوالے سے سوالیہ نشان بھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک میں پیدا ہونے والی تمام بجلی مساوی طور پر کم از کم گھریلو استعمال کےلئے تمام شہریوں پر مساوی تقسیم کی جائے نہ کہ ٹیکس چوروں کے بڑے بڑے فارم ہاﺅسوں اور عالیشان کوٹھیوں میں بجلی چوری کرکے بے دریغ ایئر کنڈیشنز چلائے جائیں دوسری طرف غریب کے گھر میں ایک پنکھا بھی نہ چلے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ موسم گرما کا ابھی پوری طرح آغاز بھی نہیں ہوا کہ ملک بھر میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ اور طویل ترین بریک ڈاﺅن شروع ہو گیا ہے۔ شہروں میں 12سے 18گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جبکہ دیہی علاقے عملی طور پر بجلی سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اکثر علاقوں میں مسلسل چار چار گھنٹے کے بعد بجلی آتی ہے اور ایک آدھ گھنٹے کے بعد پھر چلی جاتی ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی فراہمی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اور لوگ روزمرہ استعمال کےلئے پانی کو ترسنے لگے ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کو سرکاری دفاتر میں چھٹی ہونے سے بجلی کی کھپت کم ہو جاتی ہے۔ اسکے باوجود گھریلو صارفین اس نعمت سے محروم رہے۔ تنگ آکرلوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ صرف پنجاب میں لاہور ، فیصل آباد، ملتان ،حافظ آباد، جہانیاں اور دوسرے مقامات پر لوگوں نے مظاہرے کئے اور حکومت اور واپڈا کے خلاف نعرہ بازی کی۔

بجلی کے تازہ بحران کی بڑی وجہ گیس اور بجلی کی تنصیبات پر دہشت گردوں کے حملے بتائے جاتے ہیں۔ صرف ایک ہفتے میں تخریب کاروں نے ایک گرڈ سٹیشن اور چار گیس پائپ لائنوں کو نشانہ بنایا۔ ان میں اوچ پاور ہاﺅس کو گیس فراہم کرنے والی 18 انچ کی پائپ لائن پر حملہ سب سے خطرناک تھا جس کیوجہ سے یک لخت ساڑھے پانچ سو میگاواٹ بجلی کی ترسیل بند ہو گئی ساتھ ہی دو اور پاور ہاﺅس بھی بند ہو گئے جس سے پیداوار مزید کم ہوئی ،ملک میں بجلی کی پیداوار پہلے ہی ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے ، واپڈا کے مطابق گزشتہ دو روز میں پیداوار کم ہو کر 7 ہزار6سو میگاواٹ رہ گئی ہے جبکہ طلب 12ہزار 4سو میگاواٹ ہے۔ اس طرح اسے 4ہزار 8سو میگاواٹ کے شارٹ فال کا سامنا ہے ٬ لیکن درحقیقت زمینی حقائق سرکاری اعداد و شمار سے بھی بدتر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بجلی کی پیداواری گنجائش میں لائن لاسز ٬ چوری اور ترسیل کے نظام کی خرابیوں کی وجہ سے ویسے ہی ساڑھے چار ہزار میگاواٹ کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس طرح باقی صارفین کے لئے صرف تین ہزار میگاواٹ بچتے ہیں۔ پچھلی حکومت نے عوام کے مسلسل شورشرابے کے باوجود بجلی کی پیداوار بڑھانے کےلئے زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی عملی اقدامات نہیں کئے جسکے منفی نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔ پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی میں تعطل کے علاوہ تیل کی سپلائی میں کمی اور تربیلا اور منگلا ڈیمز میں پانی کا بہاﺅ کم ہونے سے بھی بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ اور خدشہ ہے کہ گرمی کی شدت بڑھنے سے بجلی کی کھپت میں اضافہ ہو گا تو لوڈشیڈنگ بھی بڑھے گی۔ جب آغاز ہی میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی بند رہنے لگی ہے تو آگے کیا صورت حال پیدا ہو گی اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ بجلی کی قلت سے گھریلو صارفین کے علاوہ ملکی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ کارخانے اور فیکٹریاں بند ہونے لگی ہیں ٬صنعتی پیداوار کم ہونے سے برآمدات پر منفی اثر پڑا ہے۔ مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں اور لاکھوں گھروں میں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ نگران حکمرانوں کو اس صورتحال کا ترجیحی بنیادوں پر نوٹس لینا چاہئے اور سماجی انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہونگے ورنہ
اُٹھ کھڑے ہونگے عوام
اور لیں گے انتقام
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.