کوہالہ تا دھیر کوٹ پسماندگی.... کیا کوئی حل بھی ہے؟

یوں تو سارا آزاد کشمیر ہی پسماندہ ہے وجہ یہ نہیں کہ وسائل کی کمی ہے بلکہ معاملہ کچھ اور ہے۔ اگر سنجیدگی سے اسباب پر غور کیا جائے تو یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ قیادت کے بحران نے پورے علاقے کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔ پورے آزاد کشمیر میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ جو مسائل پیدا ہوئے، ان کے حل کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ کسی ایک فرد کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں، سب نے کوتاہی کا ارتکاب کیا۔ ایک دو استشنادات ہو سکتے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی معاملہ بدقسمتی کا رہا ہے۔

پورے آزاد کشمیر کا تعلیمی ماحول تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ سماجی نظام ختم ہوکر رہ گیاہے، سیاسی اعتبار سے آزاد کشمیر کے لوگ ایک دوسرے کی نظر میں گر چکے ہیں۔ معاشی لحاظ سے غریب اور امیر کی تفریق بڑھتی جارہی ہے۔ زرعی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے۔ مذہبی اعتبار سے تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے۔

یہ توہوئی آزاد کشمیر کی مجموعی صورتحال، جو تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ کہلاتا ہے، لیکن امید کی ایک کرن بہرحال ضرور موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت جب بھی کوئی معاملہ سنگین ہو جائے تو ایک جگہ بیٹھ جاتی ہے اور کسی نہ کسی حد تک مقبوضہ کشمیر والوں کو اچھا پیغام ضرور دیتی ہے۔ اس کا اظہار مختلف مواقع پر ہوتا رہتا ہے تازہ ترین مثال افضل گورو کی پھانسی کے موقع پر دیکھا جانے والا مثالی طرز عمل ہے۔ جب پورا آزاد کشمیر یک آواز ہو گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر سے آئے رہنما یاسمین ملک کا یہ کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کے لوگوں کو اپنی پسماندگی دور کر کے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کیلئے ایک مثال بننا چاہئے۔ ان کی رائے تھی کہ دنیا میں ترقی پانے کے تمام عوامل کو بروئے کار لایا جانا چاہیے اور آزاد کشمیر کو سونے کی ایک چڑیا بنا دینا چاہئے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل سکے کہ بھارت اور پاکستان میں جوہری فرق ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مثالی ترقی ہوئی ہے اور وہاں پسماندگی کی سطح وہ نہیں ہے، جو آزاد کشمیر میں ہے۔ یاسین ملک گزشتہ سال دھیر کوٹ اور باغ کے دورہ پر گئے تو انہوں نے جگہ جگہ استقبالی ہجوموں سے خطاب کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ اپنی حالت پر توجہ دو۔ اپنا وقت برباد نہ کرو۔ اگر آزادی کا بیس کیمپ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے تو خود کو مضبوط کرو۔ سماجی، معاشی، زرعی، سیاسی اور مذہبی ہر لحاظ سے آگے بڑھو اور پسماندگی کو شکست دو۔ یاسین ملک واپس مقبوضہ کشمیر چلے گئے لیکن ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اب بھی لوگوں کے اذہان میں موجود ہے۔

آزاد کشمیر کا علاقہ کوہالہ تا دھیر کوٹ پسماندگی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی وجہ نہ ہی لکھی جائے تو بہتر ہوگا، اس لیے کہ وجہ زبان زد عام ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ آج کل اس علاقے سے نمائندگی حزب اختلاف کے پاس ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ہمیشہ سے اقتدار میں رہا ہے اور معاملہ چراغ تلے اندھیرا کا ہے۔ آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں کے لوگ یہ سمجھتے رہے کہ عربی باغ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہ رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ علاقہ پسماندگی میں تمام علاقوں سے بڑھ کر رہ گیا۔ سرکاری تعلیمی ادارے برباد، معاشی پسماندگی، زرعی پیداوار کا نہ ہونا اور سماجی ماحول کی تباہی۔ یہ اس علاقے کی خصوصیات ہیں۔

کوہالہ سے دھیر کوٹ تک سفر کتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے جو اس علاقے میں سفر کرے اور Suffer ہو جائے۔ ایک عدد شاہراہ زیر تعمیر لیکن یہ شاہراہ بھی مسئلہ کشمیر کی طرح ہو چکی ہے۔ جس طرح دکانوں پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے۔ اسی طرح یہ شاہراہ بھی مسئلہ کشمیر کی طرح لاینحل ہو چکی ہے۔ سردار عتیق احمد خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کے اولین دور میں اس سڑک پر کام شروع کروایا تھا لیکن بعد میں حکومتوں کی بار بار تبدیلیوں نے اس سڑک پر کام کو آگے بڑھنے سے مسلسل روکے رکھا۔ لوگوں کی زمینیں تباہ ہو چکی ہیں لیکن سڑک تعمیر نہیں ہو سکی۔ کوہالہ سے دھیر کوٹ تک ہل سرنگ کے راستے جانے والی سڑک بھی تیزی سے تباہی کی جانب گامزن ہے۔ اس لیے کہ وہ بھاری گاڑیوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔

علاقے میں ہل سرنگ اوردھیر کوٹ میں دو ہسپتال قائم ہیں لیکن ادویات کی شدید کمی سے دو چار ہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری انتظام میں چل رہے ہیں لیکن چل چلاﺅ والا معاملہ ہے۔ اساتذہ کرام معاشرے میں اپنی حیثیت کھو چکے ہیں اور شدید مایوسی کے باعث قوت عمل سے محروم ہو چکے ہیں۔

مذہبی سطح پر دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہاں کے مذہبی تعلیمی ادارے بھی پورے ملک کے اداروں کی طرح زمینی حقائق سے کوسوں دور ہیں۔ ایک مدرسہ میں جانے کا موقع ملا، اعلان ہوا کہ ایک سال میں کم ازکم 500 طلبہ نے سند فراغت حاصل کی، لیکن درس نظامی میں یہ نہیں بتایاگیا کہ وہ ان اسناد فراغت کو زیر عمل کہاں لائیں گے؟

کوہالہ تا دھیر کوٹ تو محض ایک حوالہ تھا ورنہ مجموعی صورتحال پر بات کرنامقصود تھی۔ آزاد کشمیر کی پسماندگی کو اگر مختصر وقت میں دیکھنا ہو تو کوہالہ تا دھیر کوٹ براستہ مناسہ سفر کریں، پتہ چل جائے گا کہ پسماندگی کیا ہوتی ہے؟ دھیر کوٹ سے آگے نہ جائیں تو بہتر ہو گا، اس لیے کہ غازی آباد پہنچ کر یہ تلخ حقیقت ابھر کر سامنے آجائے گی کہ آزاد کشمیر کے ہی نہیں، پاکستان کے بلکہ بہت سوں کے دعوے اور یقین کے مطابق ایشیا کے عظیم ترین انسان کا اپنا گاﺅں بھی ابھی تک پسماندہ ہے۔ باقی جگہوں مثلاً چمیاٹی، چڑالہ، رنگلہ، جہالہ، چمن کوٹ، سنگھڑ بٹھارہ کا تو ذکرہی کیا۔ غازی آباد پسماندہ ہے تو پورا غربی باغ پسماندہ ہے بلکہ پورا آزاد کشمیر پسماندہ ہے۔ ہمارے دوست زاہد عباسی کو انقلاب برپا کرنے کا شوق ہے۔ آج کل وہ کپتان صاحب کے ساتھ اننگز کھیل رہے ہیں، کپتان صاحب پورے پاکستان کو بدلنے چل نکلے ہیں، امید ہے زاہد عباسی پورے آزاد کشمیر کو نہ سہی، غربی باغ کو ضرور بدل دیں گے۔ انہوں نے پوری زندگی ایشیا کے عظیم انسان کے ساتھ گزاری، اب وہ انہیں خیرباد کہہ کر کپتان کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ شاید کہ غربی باغ کی تقدیر بدل جائے۔
Syed Muzamil Hussain
About the Author: Syed Muzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzamil Hussain: 41 Articles with 61948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.