اقتدار کے دو مراکز: کیا حقیقت کیا فسانہ؟

کیا سچ مچ اقتدار کے دو مراکز ہیں؟
کیا یہ دونوں کامیاب ہیں یا ناکام ؟

پہلے سوال پر تقریبا ً اتفاق ہے کہ اقتدار کے دو مراکز ہیں ، مگر دوسرے سوال میں اختلاف کہ آیا یہ دونوں مراکز کامیاب ہیں یا ناکام؟کانگریس کے قابل ذکر لیڈر دگوجے سنگھ اور جناردن دویدی بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اقتدار کے دو مراکز ہیں ، مگر اختلاف ان کے درمیان کامیابی وناکامی کو لے کر ہے ۔ دگو جے سنگھ کا ماننا ہے کہ اقتدار کے موجودہ دو نوں مراکز ناکام ہیں ، تاہم دوید ی جی مطمئن کہ یہ کامیاب ہیں ۔ تاہم میرا ماننا ہے کہ اقتدار کا فقط ایک ہی مرکز ہے ، مگرجور ہی کھینچاتانی کی بات تو میری نگاہ میں اس کے تین مراکز ہیں ، مسزسونیا گاندھی، مسٹر منموہن سنگھ اور راہل گاندھی ۔ اگر کامیاب ہیںتو تینوں مراکز کامیاب، ناکام ہیں تو تینوں مراکز ناکام ۔ کیونکہ ”مراکز “کے لفظ کا استعمال اس وقت مناسب ہوتا ، جبکہ تینوں یا دونوں اپنے اپنے طور پر فیصلے لینے کے کچھ ”حقدار یا قابل “ہوتے ، یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ کوئی تنہا ایک بھی فیصلہ نہیں لے سکتا ، سب اندرونی طورپر باہم متفق ہو کر ہی کوئی فیصلہ لیتے ہیں ، اس طرح ایک مرکز کے علاوہ کوئی دوسرا مرکز نظر نہیں آتا ، مسلسل دونوں مدت کار میں کبھی ایسا ہوا ہی نہیں کہ مسز سونیا گاندھی کو ئی فیصلہ لے اور مسٹر منموہن سنگھ اس سے اختلاف کرے یا منموہن سنگھ کوئی فیصلہ لے اور سونیاگاندھی انگشت نمائی کرے ، اگر فی الحقیقت دومراکز ہوتے تو کبھی نہ کبھی ایسی نوبت ضرور آتی کہ وہ باہم مختلف نظر آتے ، چنانچہ میرا مانناہے کہ دومراکز تو سرے سے ہے ہی نہیں ، وہ بھی کانگریس میں ، کانگریس میں کب کس کی دال گلی ہے ، وہاں تو صرف اور صرف سکہ چلتا ہے گاندھی خاندان کا ، بالفرض اگر دو مراکز ہیں تو تین کیوں نہیں ؟۔

کانگریس کی موجودہ جو صورتحال ہے ، ایسی پہلے بھی رہاکرتی تھی ، پنڈٹ جواہر لال نہرو کے زمانہ میں وزیر اعظم اور کانگریس کے صدر الگ الگ ہوا کرتے تھے ، جیسا کہ آج ہے ۔ مگر اندرا گاندھی نے اس نظام کا خاتمہ کیا اور دونوں کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں رکھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں کے الگ ہونے یا ایک کو ہی دونوں عہدے پر فائز ہونے سے کبھی کوئی واضح فرق نظر نہیں آیا ۔

جہانتک کامیابی وناکامی کا تعلق ہے تو بہ ظاہر دونوں اپنے اپنے موقف میں حق بہ جانب ہیں ۔ جناردھن دویدی کے ماننے کی طرح ہم بھی مانتے ہیں کہ ’چند پہلو ‘ سے یہ مراکز کامیاب ہےں ، نیو کلیر ڈیل معاہدہ ہو کہ ایف ڈی آئی ، کول بلاک معاملہ ہوکہ ٹو جی اسپیکٹرم ، صدر جمہوریہ کے انتخاب کا مسئلہ ہو یا کہ پارٹی کی نیابت (راہل گاندھی)، پروموشن بل ہو کہ انسداد دہشت گردی بل ، دہشت گردی میں جانبداری کامسئلہ ہو کہ وڈیرا معاملہ میں کچھ بولنے کا ، دونوں نے مل کر ہی کوئی فیصلہ لیا ، کوئی اختلاف رونما نہیں ہوا ۔ ان پہلووں کے مدنظر دویدی جی کا قول بھی صحیح لگتا ہے کہ دونوں مراکز کامیاب ہیں ۔

مگر جب بدعنوانی اور مہنگائی کے روک تھام کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو یہ مراکز ڈھلمل یقین نظر آتے ہیں ، ایسا معلوم پڑتا ہے کہ فی الحقیقت ان کی عدم دلچسپی سے ہی یہ وبا دن بدن پھیلتی گئی ، ان دونوں معاملہ کو لے کر ہی گانگریس باشندگان ہند کی نگاہ میںمبغوض ہوتی چلی گئی ۔ اس پہلو سے دیکھیںتو دگی دادا کے بیان میں صداقت نظر آتی ہے کہ یہ مراکز ناکام ہیں۔

دونوں کے بیان کو جس نظریہ سے ہم نے دیکھا ہے ، اگروہی نظر یات ان دونوں کے بھی ہوں تو دونوں حق بہ جانب ہیں ، مگر جب ان کے نظریات مختلف ہوں تو باتیں مختلف انداز میں ہوںگی اور شاید وہ دونوں حق بہ جانب بھی نہ ٹھہریں۔ منشا چاہے جو بھی ہو مگر دگوجے سنگھ نے حق بات کہہ دی کہ یہ مراکز ناکام ہیں ، گویا ان دونوں کی ناکامی حکومت کی ناکامی ہے ۔ مگر سوال یہ ہوتا ہے کہ مدت کار کے آخری ایام میں حقیقت سے پردہ اٹھانے پر دگی دادا کیوں مجبور ہوئے ؟ کیا اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہیں سونیا گاندھی کا خوف محسوس نہیں ہوا ؟

حقیقت یہی ہے کہ یہ حکومت ناکام ہوئی ہے ، یہ حقیقت دگوجے کی زبان سے’حکومت‘کے ساتھ نہیں بلکہ ’مراکز ‘ کے روپ میں ظاہر ہوئی ، اس کنایہ میں شاید یہ حکمت عملی پوشیدہ ہے کہ لوگ کانگریس سے متنفر نہیں ہوں گے ،ناامید نہیں ہوں گے ، بلکہ انہیں امید ہوگا کہ کانگریس تو ناکام نہیں ہوئی ہے ، کانگریس بہت کچھ کرسکتی ہے ، مگر شرط یہ ہے کہ مراکز ختم ہوجائیں اور پھر دومراکز ہی قائم ہوں ،مگر ایک شخص اور کوئی ہو ، یعنی مراکز سونیا -منموہن نہ ہوں کر سونیا -راہل ہوجائیں ، گویا دگوجے سنگھ مراکز کو کمزور کہہ کر سیاسی گوٹیاں کھیل رہے ہیں ، یعنی حکومت نہ بدلو ، پارٹی نہ بدلو ، حکومت اچھی ہے ، پارٹی اچھی ہے، اگر کچھ خرابی اور کمزوری ہے تو مراکز میں ، چنانچہ مراکز بدل کر سونیا-راہل کو قبول کرلو ۔

اب رہیں دویدی جی کہ آخر وہ کیوں ان دونوں مراکز کی کامیابی کی وکالت کررہے ہیں ، تو اس معاملہ کو بھی ذرا گہرائی میں جا کر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے ، وہ اس طرح کہ 2004انتخابات سے قبل دو مراکز نہیں تھے ، مگر 2009انتخابات سے بہت قبل یہ دونوں مراکز وجود میں آگئے تھے ، لوگوں نے کانگریس کو (دونوں مراکز سونیا-منموہن کو دیکھتے ہوئے) ووٹ دئے تھے ، دویدی جی یہی سوچ کر یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ دونوں مراکز کامیاب ہیں ، تاکہ لوگ 2009کی طرح 2014میں بھی ووٹ دیں ، کیوں کہ پہلے کی طرح یہی دونوں چہرہ سامنے ہے۔ ادھر دگی دادا ان مراکز کو اس لئے کمزور کہہ رہے ہیں کہ لوگ سونیا -منموہن کے نام پر ووٹ دیں یا نہ دیں ، مگر سونیا -راہل کے نام پر یہ سوچ کر ووٹ دیں گے کہ ایک بار نئے دومراکز کو آزما کر دیکھ لیتے ہیں ، گویا بہ ظاہر دونوں کے راگ الگ الگ ہیں ، مگر ذرا گہرائی میں جانے سے انداز ہوتا ہے کہ دونوں کی ڈفلی ایک ہی ہے ، دونوں کا مشن ایک ہی ہے ، دونوں کا مقصد ایک ہی ہے ، یعنی 2014کے قلعہ کی فتح ۔ لوگ چاہیں موجودہ دونوں مراکز کو بہترسمجھ کر(دویدی جی کی بات کو صحیح مانتے ہوئے ) ووٹ دیں یاامکانی دو اچھے مراکز کو ، کانگریس کا ہی فائدہ ہوگا ۔

بالفرض اگر ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تو شاید اس حقیقت کے بیان کر نے پر دگی دادا کو کوئی بھاری قیمت چکانا پڑتی ، مگر وہ گزر تے وقت کے ساتھ اور بھی واضح لفظوں میں ان کی ناکامی کا رونا رو رہے ہیں ۔ گانگریس کے اعلی لیڈران بھی سمجھ دار ہیں ، وہ بھی دگی دادا کو ایسے بیان دینے سے روکتے اور پھر کچھ نہ کچھ وہ صفائی ضرور دیتے ، مگر ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے ، وزیر داخلہ شندے کو بھگوا دہشت گردی پر جس طرح بیان بدلنے کے لئے مجبور کیا گیا اسی طرح اس معاملہ میں دگی دادا پر بھی زور ڈالا جاتا۔ جس طرح بینی پرساد ورما کو ملائم پر تیکھے حملے سے روکنے کی کوشش کی گئی اسی طرح اس معاملہ میں کچھ نہ کچھ رنگ بدلنے کو کہا جاتا ، مگر اس بیان پر ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے ، تو گویا ۔

ایک نظریہ سے دیکھیں تو دگی دادا نے کوئی بالکل نئی نہیں بات نہیں کہہ دی ، بلکہ یہ حقیقت تو اپوزیشن پارٹیوں نے برسوں پہلے ہی بیان کردی تھی کہ وزیر اعظم کمزور ہیں ، دو مراکز سے میں ایک ناکام ہے ،کٹ پتلی وزیر اعظم ، سچ اگر گہرائی میں نہ جاکر دیکھیں گے تو ایسا لگے گا کہ دگی خود اپوزیشن پارٹیوں کی تصدیق کررہے ہیں اور وزیرا عظم واقعی کٹ پتلی یعنی کمزور ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اپنوں کی برائی اتنی آسانی سے کوئی کہاں کرتا ہے ، کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے ، بالکل اسی طرح دگی دادا (کانگریسی اعلی دماغ کے کہنے پر) کھیل کھیل رہے ہیں ، گویا گانگریس سونیا-منموہن اور سونیا-راہل کے ناموں سے سیاسی گلیاروں میں رنگ بکھیرنے جارہی ہے ، کچھ لوگ سونیا-منموہن کو بہتر متبادل سمجھ کر ووٹ ڈالیں گے تو کچھ لوگ امید کے سہارے سونیا -راہل کو ووٹ دیںگے ، اس طرح 2014 کا قلعہ فتح کرنے میں کانگریس لگ گئی ہے ، یہ توبات کی بات ہے کہ وزارت عظمی کی کرسی راہل کو ملے گی یا پھر منموہن کو ، جس کو بھی ملے اقتدار تو رہے گا نا کانگریس کے پاس، دراصل یہی حقیقت اور فسانہ ہے دومراکز کا ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100849 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More