وقت کا فرعون امریکہ کس طرح
دوسرے ممالک میں مداخلت کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے اس کا اندازہ امریکی
ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کی پاکستان میں تعیناتی سے متعلق شائع رپورٹ سے کیا
جاسکتا ہے جس پر ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ اسے سی آئی اے نے لشکر
طیبہ کی جاسوسی کیلئے مامور کیا تھا اور لاہور میں ہونیوالے واقعے کے بعد
ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد سی آئی اے کے حکام اس بات پر زور دیتے رہے کہ
ریمنڈ ڈیوس سفارت کار ہے اور اسے باقاعدہ استثنی حاصل ہے اور اس کی رہائی
کیلئے امریکی صدر اوباما نے باقاعدہ پریس کانفرنس کردی تھی جس میں اسے
سفارتکار قرار دیا تھا اور حکومت پاکستان پر زور دیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو
رہا کیا جائے-کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اگر ان کے جاسوس کو پھینٹی لگے گی تو
وہ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے امریکی ایجنٹوں کی کہانی سامنے
لائے گا اور یوں اس جذباتی قوم کو اندازہ ہو جائیگا کہ دوستی کی آڑ میں یہ
امریکی کس طرح چھپ کر وار کرتی ہیں - پینگوئن پریس سے چھپنے والی اس رپورٹ
میں مزید بتایاگیا ہے کہ سی آئی اے کو ریمانڈ ڈیوس سے صرف یہ مقصد تھا کہ
ان کا مشن حکومت پاکستان کی نظر میں نہ آئے کہ کتنے امریکی اور مقامی لوگ
پاکستانی میں جاسوسی کررہے ہیں - 2008 ء میںسی آئی اے میں بھرتی ہونیوالے
ریمنڈ ڈیوس نے پشاورمیں بھی کام کیا تھا اور اسے اس مقصد کیلئے سالانہ
200000 ڈالر تنخواہ کی مد میں ملتے تھے امریکی ریاست ورجینیا سے تعلق رکھنے
والا ریمنڈڈیوس ہائی سکول میں دوران طالب علمی فٹ بال کا کھلاڑی اور بہترین
ریسلر تھا - لاہور میں پیش آنیوالے واقعے کے بعد جب اسے مقامی پولیس نے
گرفتار کیا اور تھانے لے گئے تھے دوران تفتیش اس نے پانی طلب کیا تھا جس پر
وہاں پر تفتیش میں تعینات پولیس اہلکار نے کہا تھا کہ"اگر ڈالر نہیں دو گے
تو پھر پانی بھی نہیں ملے گا" اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت کے
امریکی سفیر منٹر کی سی آئی اے کے سربراہ سے جھگڑا بھی ہوا تھا تاہم بعدمیں
امریکی حکام نے اس وقت کے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو سی آئی
اے ہیڈ کوارٹر میں طلب کیا تھا اور ان سے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے اپنا
کردار ادا کرنے پر زور دیا تھا 21 فروری کو ہونیوالے اس ملاقات میں امریکی
ادارے سی آئی اے کے اعلی حکام موجود تھے اس موقع پر حسین حقانی نے سی آئی
کے سربراہ کو کہا تھا کہ اگر امریکہ جیسن بورن جیسے کردار پاکستان بھیجے تو
ان میں اتنی اہلیت ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے آپ کو اس صورتحال سے نکال سکے-
دی وار آف نائف دی سی آئی اے سیکرٹ آرمی اور وار دی اینڈ آف دی ارتھ سے لئے
گئے اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار کے روپے میں
بھجوانے میں حسین حقانی کا کردار تھا اسی بناء پر بارک اوباما نے تکنیکی
بنیاد پر بات صحیح کی تھی کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار ہے کیونکہ وہ سفارت کار
کے ویزے پر آیا تھا حالانکہ وہ سفارتکار نہیں تھا اور جاسوسی کیلئے آیا تھا
امریکی اخبار میں چھپنے والی اس رپورٹ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ
اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کس طرح بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کررہا
ہے اس رپورٹ میں امریکہ کی سرگرمیوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے وہیں پر ہماری
پولیس اور مقتدر لوگوں کی امریکی ڈالروں کیلئے کی جانیوالی کاوشیں بھی
نظرآتی ہیں - ابھی بھی اس وقت صحافی کے روپ میں ایک امریکی شخصیت کا نام
لیا جارہا ہے جو ایک وقت میں دو افراد کو لاھور میں قتل کرنے والے ریمنڈ
ڈیوس کا ساتھی تھا، اور اب وہ اپنی ایک نئی ٹیم کے ساتھ کام کر رہا ھے اور
اس وقت اسلام آباد میں تعینات ہے اس جاسوس کو بھی خیبر پختونخواہ اور
قبائیلی علاقوں کی جاسوسی اور حافظ سعید سمیت گنج مدرسہ پشاور کے امام شیخ
امین اللہ عرف پشاوری کی جاسوسی کا ٹاسک سونپا گیا ھے، جس نے پشاور سمیت کے
پی کے اور اسلام آباد میں اپنے کئی کارخاص جاسوسی کے لیئے چھوڑ رکھے ہیں،
اور اکثر اوقات پشاور اور قبائیلی علاقوں میں بھی خفیہ طور پر اس کا آنا
جانا لگا رہتا ھے
یہ آخری واقعہ نہیں بلکہ یہ سلسلہ بہت پہلے سے جاری تھا اور پتہ نہیں کب تک
جاری رہیگا بلکہ اب تو پاکستان میں امریکی اداروں سے وابستہ پاکستانی بھی
اپنے آپ کو "پوتر"قسم کی شے سمجھتے ہیں اور انہی امریکنوں کے بل بوتے پر ان
اداروں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی بدمعاشی بھی بڑھ گئی ہیں کیونکہ
انہیں پتہ ہے کہ ان کے پشت پر امریکہ بہادر ہے امریکی اداروں سے وابستہ
پاکستانیوں کی بدمعاشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں
پشاور میں امریکی ادارے سے وابستہ ایک خاتون اہلکار نے پریس فریڈم آف
انفارمیشن اور امریکی گوروں کے حوالے سے چھپنے والے ایک بلاگ/ کالم پر
مقامی صحافی کو دھمکیاںدی اور اسے مزہ چکھانے کا کہا اس بارے میں صحافی نے
پشاور کے تھانہ شرقی میںدرخواست دی پہلے تو تھانہ شرقی اور غربی کے اہلکار
ایک دوسرے کے کھاتے میں اسے ڈالتے رہے تاہم بعد ازاں تھانہ شرقی کے
اہلکارنے صحافی سے درخواست لی اور ابھی تک مقامی پولیس اس حوالے سے کوئی
اقدام نہیں اٹھا رہی مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے
لیکن ابھی تک اس ایف آئی آر کی کاپی شکایت کرنے والے صحافی کو فراہم نہیں
کی گئی متعلقہ تھانے کے افسران اور دیگر افسران کن سے ڈرتے ہیں یا پھر کس
کے کہنے پر متعلقہ اہلکار جو کہ پاکستانی ہے اور صرف امریکی ادارے سے
وابستگی کی بناء پر کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں یہ وہ سوال ہے جو صحافی اس
ملک کی میدان سیاست میں لیڈری کا دعوی کرنے والوں سے کرنا چاہتا ہے کہ آخر
کب تک گورے اور ان کے پالتو اس ملک کے شہریوں کو اپنی بدمعاشی جتلاتے رہیں
گے یہ سب کچھ جمہوری دور میں ہورہا ہے اور مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے منشور
سامنے لا رہی ہیں لیکن اس خطے میں امریکی گوروں کے سامنے ان کی گھگی بندھ
جاتی ہیں-
|