صاحب، یوں تو دورِ جدید میں
خودکُشی کے کئی مؤثر اور شارٹ کٹ طریقے ایجاد ہو گئے ہیں مگر پھر بھی عوام
کی اکثریت سگریٹ نوشی کو ہی ترجیح دیتی ہے، جس طرح عزرائیل علیہ السلام کو
چُکمہ نہیں دیا جاسکتا اور وہ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پہنچ سکتے ہیں اسی
طرح عزرائیل علیہ السلام کے ان رضاکاروں، یعنی سگریٹ نوشوں سے بھی پیچھا
چھُڑانا قطعی ناممکن ہے۔ کسی بھی جگہ چلے جائیے، عوام کی اکثریت شوقِ
دھُواں نوشی میں مصروف نظر آئے گی۔ حد تو یہ ہے کہ سگریٹ بطور مدارات کے
بھی پیش کی جانے لگی ہے، مثلاً آپ کسی دوست یا عزیز سے مُلاقات کے لئے
تشریف لے گئے ہیں، قبل اس کے کہ آپ کوئی ضروری یا غیر ضروری بات کریں آپ کا
دوست یا عزیز بڑی شان سے سگریٹ کا پاکٹ آپ کی جانب بڑھائے گا اور آپ کے
انکار پہ آپ کو اِس طرح گھُورے گا جیسے اچانک آپ اُس جانور سے مُشابہ ہوگئے
ہیں جِس کے سر پر سینگ نہیں ہوتے اور جو کہ جُملہ انسانوں و حیوانات میں
اپنی ڈبل کک یعنی دولتی کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہم کسی
ویرانے میں تنِ تنہا راستہ بھُول جائیں اور دور دور تک کسی آدم یا آدم زاد
کا کوئی وجود نہ ہو، تب بھی اچانک جو پہلی آواز ہمارے کانوں میں پڑے گی وہ
یہی ہوگی کہ “ماچس ہوگی آپ ک پاس؟“
ہمارے غیر مُحتاط اندازے کے مُطابق (جس سے خود ہمارا مُتفق ہونا بھی قطعی
ضروری نہیں ہے) ہر دس میں سے پونے پانچ افراد سگریٹ نوشی کے عادی ہوتے ہیں،
جبکہ بقیہ سوا پانچ افراد محض شوقیہ سگریٹ پیتے ہیں یہ الگ بات کہ پھر
سگریٹ اُن کی عادی ہوجاتی ہے۔ دُنیا بھر میں اتنی سگریٹ پی جاتی ہے کہ اگر
ایک دِن سگریٹ نہ خریدی جائے تو کئی مُلکوں کی اسٹاک مارکیٹ ایسے ہی بیٹھ
جائے جیسے بھینس ندی میں بیٹھ جاتی ہے۔ سگریٹ کینسر کا باعث ہوتی ہے اور ہر
سو میں سے پینتیس افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے سرطان (کینسر) کا شکار ہوتے
ہیں جبکہ بقیہ پینسٹھ افراد سگریٹ نوشوں کی وجہ سے۔
ایک زمانے میں حکومتِ پاکستان نے “پینے“ کی کچھ چیزوں پر پابندی عائد کی
تھی، یعنی عوام اُن “مشروبات“ کو عوامی مقامات پر نہیں پی سکتے تھے، جبکہ
خواص اُن کو خاص خاس مقامات پر خصوصیت کے ساتھ “نوش“ کر کے بِلا نوش کہلا
سکتے تھے۔ ہماری ذاتی رائے ہے کہ اسی طرح کی کوئی پابندی سگریٹ پہ بھی لگا
دی جائے تو ہم جیسے کتنے ہی لوگوں کا بھلا ہوجائے۔
ہمیں بارہا غیر سرکاری کاموں سے سرکاری دفاتر جانے کا اتفاق ہوا ہے، اور
اکثر و بیشتر ہمیں سرکاری عمّال، خُمارِ سگریٹ میں ٹُن نظر آیا ہے۔ ہم نے
ایک صاحب سے پُوچھا کہ “میاں کیوں پیتے ہو؟“ بولا، “پینے کی یہ واحد چیز ہے
جو آسانی سے دستیاب ہے“ ہم نے وضاحت چاہی تو ہنس کر کہنے لگا، “نَل، پانی
سے اور دِل صبر کے گھُونٹ سے خالی ہے، چائے کی چاہ نہیں، لسّی کی راہ نہیں
اور کولڈ ڈرنک سے نباہ نہیں۔“ ہم نے کہا “غصہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟“
بولا، “میں حرام چیزوں کو منہ نہیں لگاتا، اسی لئے غصہ پیتا نہیں ہوں،
تھُوک دیتا ہوں۔“
ایسا نہیں ہے کہ وزارتِ صحت کو عوام کی پرواہ نہیں ہے، اسی لئے تو وزارتِ
صحت نے پیکٹ پہ باریک لفظوں میں لکھوا رکھا ہے کہ “تمباکو نوشی صحت کے لئے
مضر ہے، وزارتِ صحت“ اب اگر لوگ دیگر سرکاری احکامات کی طرح اس حُکم کو بھی
خاطر میں نہ لائیں تو بھلا سرکار کر ہی کیا سکتی ہے۔ ہم نے ایک سرکاری اہل
کار کی توجہ پیکٹ کی عِبارت کی طرف دلاتے ہوئے کہا، “کم از کم سرکاری اہل
کاروں کو تو سرکار کے احکامات کا پابند ہونا چاہئے۔“ ہماری جانب طنزیہ
نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا، “اس کا صاف مطلب ہے کہ وزارتِ صحت کی جانب سے
کی گئی سگریٹ نوشی، عوام کی صحت کے لئے مضر ہے“ چونکہ بات سیاسی ہوگئی تھی،
اِس لئے ہم نے وہاں سے کھسک جانے میں ہی غنیمت جانی۔
صاحب، ہماری دانست میں اکثر نوجوان، فلموں میں اداکاروں اور اشتہارات میں
اہم شخصیات کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھ کر “کُول“ نظر آنے کے زُعم میں سگریٹ
نوشی شروع کرتے ہیں حالانکہ اگر دھواں چھوڑنے سے کوئی “کُول“ ہو پاتا تو
ریلوے انجن اتنا گرم نہ ہوتا اور ویسے بھی مسلسل دھواں نوشی کرنے سے انسان
کی شکل ریلوے انجن جیسی ہی ہو جاتی ہے۔
ہماری درخواست ہے کہ کھلاڑی یا اداکار، جب سگریٹ کے اشتہارات میں یا فلموں
میں سگریٹ نوشی کرتے ہیں تو اُن کو ایک لمحہ کےلئے یہ ضرور سوچ لینا چاہیئے
کہ اس طرح نہ جانے کتنے نوجوان اُن کی دیکھا دیکھی اِس علّت کو اختیار کر
کے اپنی صحت اور دولت دونوں کو ضایع کرنے لگیں گے اور جس کا وبال لامُحالہ
اُن کھلاڑیوں اور اداکاروں پر ہوگا۔
ہماری ذاتی رائے میں سَٹہ ایمان کے لئے اور سُٹہ جان کے لئے شدید خطرہ ہے۔ |