شام میں حزب اللہ کے جنگجو

شام ایک لمبے عرصے سے خون خرابہ اور غارت گری کا شکار ہے۔بے گناہ شہری مسلسل جارح افواج کی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں،شام میں مارچ دوہزار گیارہ میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تھے ،شام کے عوام نے برس ہابرس شام پر عوام کی مرضی کے بغیرجبراً صدر رہنے والے بشارالاسد سے نجات حاصل کرنے کے لیے مظاہرے شروع کیے تھے،جس کے جواب میں بشارالاسد نے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیے، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر ناوی پلے کے مطابق نومبر 2012ءکے اختتام تک بشارالاسد کی افواج کے ہاتھوں شام میں مرنے والوں کی تعداد انسٹھ ہزار چھ سو اڑتالیس سے تجاوز کرچکی تھی۔ نومبرکے بعد بھی صدر بشار الاسد کی فورسز اور اس کے حامی بے گناہ شہریوں کو بدستور قتل کررہے ہیں، اس لیے وہاں ہلاکتوں کی تعداد اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔اقوام متحدہ اور بشارالاسد کے خلاف جاری تحریک لشکر الحر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ شام میں بشارالاسد کی حمایت میں دوسرے ملکوں کے لوگ بھی لڑ رہے ہیں جن میں سرفہرست لبنان کی دہشتگرد تنظیم حزب اللہ کے جنگجو ہیں۔
گزشتہ روز آنے والی اطلاعات نے اقوام متحدہ کی اس بات کی تصدیق کردی ہے، سعودی روزنامے الوطن میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق لبنانی تنظیم حزب اللہ کے بارہ سو کے لگ بھگ جنگجو شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں انقلابیوں سے لڑنے کے لیے گزشتہ چند روز کے دوران آبی راستوں کے ذریعے شام پہنچے ہیں۔ سعودی روزنامے الوطن میں اتوار کو شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے قریباً بارہ سو جنگجو شام کی بندرگاہ طرطوس پہنچے ہیں۔اس کے علاوہ عراق سے بھی اسد حکومت کی وفادار سیکورٹی فورسز کی مدد کے لیے جنگجو شامی علاقے میں داخل ہوئے ہیں۔ اخبار نے اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ شام کے ریزرو فوجی آرمی کمان کی جانب سے انقلابی جنگجوو ¿ں کے خلاف لڑائی کے لیے احکامات کو مسلسل نظرانداز کرتے چلے آرہے ہیں جبکہ شامی فوج کو اس وقت باغیوں کے مقابلے میں ہزیمت کا سامنا ہے۔ یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ شامی سیکورٹی فورس چالیس سال تک عمر کے افراد کو گرفتار کر کے فوجی بھرتی کے لیے کیمپوں میں لے جایا جارہا ہے اور عسکری تربیت کے عمل میں شرکت پر مجبور کیا جارہا ہے تاکہ انھیں ضروری تربیت کے بعد انقلابی جنگجوو ¿ں کے خلاف لڑائی کے لیے میدان میں اتارا جاسکے۔ ہفتے کے روز شام کے وسطی صوبے حمص میں انقلابی جنگجوو ¿ں کے ساتھ جھڑپوں میں حزب اللہ کے چالیس جنگجو اور فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ شامی صدر بشارالاسد کے خلاف گزشتہ دوسال سے جاری مسلح عوامی تحریک کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ حزب اللہ کے جنگجو شامی حدود میں اتنی زیادہ تعداد میں لڑتے ہوئے ایک ساتھ مارے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ لبنانی تنظیم حزب اللہ شامی صدر بشارالاسد کی کھلم کھلا حمایت کررہی ہے اور وہ وقفے وقفے سے اپنے جنگجوؤں کی اکا دکا ہلاکتوں کے اعلانات بھی کرتی رہتی ہے، حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ نے بھی اکتوبر 2012ءمیں یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کی جماعت کے جنگجو شامی انقلابیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں لیکن ان کے بہ قول وہ انفرادی طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ انقلابیوں کے خلاف لڑائی میں شریک ہیں ۔ حزب اللہ کے نائب سیکرٹری جنرل نعیم قاسم کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ حزب اللہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شام میں رہائش پذیر لبنانی شہریوں کو تربیت اور اسلحہ دے ۔گزشتہ دنوں شامی اپوزیشن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ لبنان کی تنظیم حزب اللہ کے جنگجوؤں کو لے کر 25 بسیں شامی علاقے میں داخل ہوئیں ہیں اور برطانوی اخبار ”ٹائمز“ نے شام میں حزب اللہ کے 1500 جنگجوؤں کی موجودگی کی تصدیق بھی کی تھی۔ اخبار نے اتنی ہی تعداد میں ایرانیوں کی موجودگی کی تصدیق کی تھی جس کا تعلق پاسداران انقلاب سے بتایا جاتا ہے۔ ٹائمز اخبار نے شامی ایئرفورس سے منحرف ہونے والے ایک سابق عہدیدار کے حوالے سے یہ بیان بھی جاری کیا تھا کہ حزب اللہ کے ارکان شام کی سرکاری فوج کو لاجسٹک امداد کے علاوہ افرادی قوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ نیز وہ فوج میں شامل شوٹرز کو پیشہ وارانہ تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے ارکان سرکاری فوج میں شامل کرائے کے قاتلوں کو گینگ وار کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔ حزب اللہ اپنے بشار الاسد کی حامی فوج کو افرادی قوت سے لے کر جنگی ساز و سامان تک پہنچا رہی ہے۔ انہی معلومات کی بنیاد پر امریکا نے حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری اور تنظیم کے دیگر عہدیداروں پر شامی بحران میں ملوث ہونے کی پاداش میں پابندیاں عائد کیں تھیں۔ ”سیرین یوتھ الائنس“ کے صدر وحید صقر نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کے پاس اس دعوے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ حزب اللہ شام میں مظاہرین کے قتل عام میں براہ راست ملوث ہے۔ لبنانی عسکری تنظیم ”مزاحمت“ کے نام پر اپنے جنگجو شام بھیج رہی ہے تاکہ انقلابیوں کو شامی فوج کے ساتھ مل کر قتل کیا جا سکے۔دوسری جنرل شامی انقلاب جنرل کمیشن سے تعلق رکھنے والے ہادی العبداللہ نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا تھا کہ لبنانی حزب اللہ کے جنگجوؤں نے شام کے آٹھ سرحدی دیہاتوں پر قبضہ کر رکھا ہے،حزب اللہ کے جنگجو شام کی سرحد کے دوسری جانب وادی بقاع میں موجود ہیں۔اس علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی حد بندی نہیں ہے اور وہاں حزب اللہ کے جنگجوؤں نے مخلوط آبادی والے چار دیہات پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ دو ماہ قبل شام کے انقلابی جنگجوؤں پر مشتمل جیش الحر نے لبنان کی تنظیم حزب اللہ کو شام میں کارروائیاں بند کرنے کے لیے اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو جنوبی لبنان میں اس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔جیش الحر کے چیف آف اسٹاف بریگیڈئیر جنرل سلیم ادریس نے کہا تھا کہ حزب اللہ اڑتالیس گھنٹے میں شام میں اپنی مداخلت کا سلسلہ بند کر دے، ورنہ ان کے جنگجو لبنان میں اس تنظیم کی تنصیبات پر حملے شروع کر دیں گے۔ شام میں حزب اللہ کی کارروائیاں لبنان کو شامی حکومت کی جانب سے اس تنازعے میں گھسیٹ لیں گی۔لبنانی ارکان پارلیمان نے بھی شامی تنازعے میں حزب اللہ کے ملوث ہونے کی اطلاعات پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کی مداخلت لبنان کو ایک ایسے میدان جنگ میں تبدیل کر دے گی جو ایرانی مفادات کے لیے سود مند ہو گا۔یہ بھی واضح رہے کہ امریکا ،کینیڈا سمیت متعدد ممالک نے حزب اللہ کو بلیک لسٹ قرار دے رکھا ہے اور ان ممالک نے اپنے ہاں اس کے بنک اثاثے منجمد کردیے تھے۔ یورپ میں صرف نیدرلینڈز نے حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے جبکہ برطانیہ نے اس کے عسکری ونگ کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔گزشتہ ہفتے خلیجی ریاست بحرین نے لبنانی تنظیم حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ اس نے حزب اللہ پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ بحرین میں اپنے ہم نواﺅں کو حکومت کے خلاف محاذ آراءکرنے کے لیے تربیت دے رہی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.