کسی بھی مشینری کو بناتے وقت ایک
ماہر کاریگر اس بات کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھتا ہے کہ اُس مشینری کو کسی
بڑے نقصان اور حادثے سے محفوظ رکھتے ہوئے مقررہ مدت تک انتہائی فہم و فراست
کے ساتھ اور بآسانی آپریٹ کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیئے مشینری کے ساتھ ہی
ایک ہدایت نامہ بھی تیار کیا جاتا ہے جس سے مستفید ہونے کے لیئے اور بغیر
کسی حادثے کا شکار ہوئے مطلوبہ فوائد و مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا
جاتاہے۔ ربِّ کائنات کی عظیم کاریگریوں میں سے ایک انسانی تخلیق بھی ہے جس
کے بنیادی مقاصد کو سمجھنے کے لیئے مختلف ادوار میں قوموں کی ضروریات، مزاج
اور حالات و واقعات سے مطابقت رکھنے والے ”ہدایت نامے“ اس دنیا میں اپنے
برگزیدہ بندوں کے ذریعے اتارے۔ انسانی نظام حیات کو اُس کے بھیجے گئے ضابطہ
حیات کے مطابق سمجھنا ایسا ہی ناگزیر ہے جیسے ایک جدید مشینری کے مزاج کو
سمجھ کرآپریٹ کرنے کے لیئے اس کے ساتھ دیئے گئے ہدایت نامے پر عمل کرتے
ہوئے حقیقی فوائد و ثمرات کا حصول ضروری ہوتا ہے۔ جس طرح ایک مشینری بغیر
ہدایت نامے کے انسان کے لیے بے کار ڈھانچہ سے کم نہیں اسی طرح انسان بھی
بغیر کسی حقیقی ضابطہ ¿ حیات کے بالکل اندھیرے میں سرگرداں نظر آتاہے۔
انسان جتنا بھی عروج پر پہنچ جائے یہ خود اپنے ہی مزاج کو سامنے رکھ کر
کوئی اصول وضع کرنے میں حتمی طور پر یقینی کامیابی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
دنیا کے اندر مختلف نظام ہائے زندگی میں پائی جانے والی خرابیاں اور
قباحتیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کیوں کہ انسانی تخلیق کی کاریگری اور
مزاج کا ادراک اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ اس
”کاریگر“ نے جو اصول و ضوابط انسان کے لیئے وضع کر دیئے اُن سے انسان چاہتے
ہوئے بھی پہلو تہی کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جہاں انسانی تخلیق خود اس
کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے وہاںاس کی رہنمائی کے لیئے آنے والے ”ہدایت
نامے“ اور صحیفے بھی ایک لازوال طاقت اور حکمت و دانائی سے لبریز ہیں۔
قرآن کریم جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا، قیامت تک آنے والوں کے لیئے ایک واضح
نصیحت اور مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ایک مقام پر کچھ اسی انداز
میں ہمارے لیئے پیغام ہے کہ:( ترجمہ) ” یہ (قرآن) لوگوں کے لیئے بیان صریح
اور اہل تقویٰ کے لیئے ہدایت اور نصیحت ہےo“(سورة آل عمران، آیت138)۔ یہی
”ہدایت نامہ“ انسان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی جانب گامزن ہونے کی
ترغیب بھی دلاتا ہے:( ترجمہ) ”جس سے اللہ اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات
کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا
اور ان کو سیدھے رستے پر چلاتا ہےo“ قرآن کریم کے مطابق جن قوموں نے اپنی
زندگیوں کو ڈھال لیا تو دنیا و آخرت دونوں میں راحتیںاور برکتیں ان کا مقدر
ٹھریں، جہالت کا خاتمہ حتمی ہو گیا اور علم کی روشنی کے چراغ حقیقی روشنی
کی ضمانت دینے لگے، پھران کی مدد کے لیئے فرشتے بھی اتر آئے، کفر کے بت بھی
پاش پاش ہو گئے، قوموں کے اندر حقیقی معنوں میں جمہوریت نے بھی ڈیرے ڈال
دیئے، عدل و انصاف کا چرچہ بھی عام ہوا، قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں بھی زمیں
کی خاک چاٹنے پہ مجبور ہوہیں اور تخت و تاج کا سلسلہ سمر قند و بخارا تک
پھیل گیا، پوری دنیا میں ”دین اسلام“ امن و آشتی کی علامت سمجھا جانے لگا
اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے آپس میں اخوت و بھائی چارے کی لازوال داستاں
بن گئے۔ دوسری جانب اس قرآن اور حقیقی ضابطہ حیات کو جھٹلانے اور پسِ پشت
ڈال دینے والی قوموں کا انجام بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کا غرور و
تکبر خاک میں مل گیا، عرب و عجم کی سلطنتیں چھن گئیں، ان کی تہذیب و تمدن
کے نشاں تک مٹ گئے ، کل تک جو جنگی سورماو ¿ں کے نام سے جانے جاتے تھے آج
ان کی بہادری خاک میں مل چکی تھی اور جو ان کی باقیات میں سے تھے وہ بھی
ذلت و رسوائی کے باعث نشانِ عبرت بن چکے تھے۔ سورة آل عمران کی آیت137 بھی
اسی طرح کے زوال کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہے: (ترجمہ)”آپ لوگوں سے پہلے
بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں تو آپ زمین میں سیر کر کے دیکھ لیں کہ
جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا“o۔
قرون اولیٰ کے عروج و زوال سے سبق حاصل کرتے ہوئے قرآن کریم کو اپنا حقیقی
رہنما اور ضابطہ حیات تسلیم کرنے میں عصر حاضر میں بھی شاید تاخیری حربوں
کا سہارا لے کر ہم اپنے آپ کو طفل تسلیاں دینے میں ہی مصروف عمل ہیں ۔ ہم
اِسے اپنے اوپر نافذ کرنے میں انفرادی یا اجتماعی طور پر جس دیانت داری کا
عملی ثبوت دے رہے ہیں اس سے بخوبی عیاں ہو جاتا ہے کہ ہم اپنی حقیقی منزل
کی تلاش میں کس قدر مخلص ہیں؟۔ |