ظلم و جبر کی تاریکی اورقہر
واستبداد کی گٹھائیں ہر سو انسانیت کو روندتی نظر آتی ہیں ۔چنگیزی قوتیں
چہار سو اپنے مکروہ عزائم کے ساتھ روئے زمین پر پھیل چکی ہیں ۔ہر ایک اسی
غم میں مبتلا ہے کہ کل کیا ہوگا ؟یہ خوف اور تشویش بے بنیاد نہیں ہے حالات
ایک حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ہر عقل مند اس جانب غور کریں اور دیکھے کہ اس
اجتماعی فساد کو کس طرح روکا جا سکتا ہے ؟نعروں سے ،تمناؤں سے ،آرزؤں سے ،گپین
مارنے سے ،چیخ و پکار سے ،دھاڑنے سے یا قدم ٹھہرا کر سوچنے،غور وفکر کرنے
اور مستقل و پیہم عملی طور پر کچھ کرنے سے ؟سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم
صرف حالات کی تندی کا رونا روئیں ،جابروں کے جبر پرواویلامچائیںیا زندگی
میں ’’حقیقت کشمکش‘‘کے ابدی اور فطری اصولوں کو مد نظر رکھ کر اگلی منزل کی
حصول سے قبل پہلے اپنی موجودہ حالت کا تعین کریں ،ضروری ہے کہ ہم اگلے قدم
سے قبل موجودہ حالت کا جائزہ لیکر مستقبل کی کامیابی کی جانب بڑھنے کیلئے
اپنی تیاری دیکھ لیں ایسا نہ ہو کہ جو قدم ہم آج اٹھائیں کل کو اسی پر
پچھتاوأ ہو اور پھر آگے کے بجائے پیچھے مڑنے کی حماقت ،جس کا خمیازہ نئی
نسلوں کو بھگتنا پڑے ۔
تاریخ میں پچاس سو برس کوئی لمبی مدت نہیں ہوتی ہے بلکہ کبھی کبھار صدیوں
تک اس عالم فانی کے حالات ایک جیسے رہتے ہیں مگر انسان۔۔۔۔جس کے بارے میں
قول مشہور ہے کہ وہ جلد باز اور عجلت پسندہے۔ فطرت سے مجبور اپنی مرضی و
منشأ کے نتائج قدم قدم پر دیکھنے کا متمنی اور حریص نظر آتا ہے۔ خودمالک
الملک اسی آرزؤکو ’’واُ خری تحبونھا‘‘ فرماکر اس کے اندر ودیعت کی ہوئی
خواہش کا اعلان کرتا ہے کہ گبھراؤنہیں ۔۔۔فرشتے تیری نصرت کو اُتر سکتے ہیں
گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی ۔اس حقیقت سے انکار کی ذرابرابربھی گنجائش
نہیں ہے کہ نصرت مشروط ہے فضاءِ بدر کے ساتھ !ا گر یہ کہا جائے کہ خلفاءِ
اربعہؓ کے بعد سے اب تک وہ نصرت نہیں آئی یا انہی کے ساتھ اُٹھا لی گئی
شاید بے جا نہ ہوگا اس لئے کہ جیسے ہم ویسی نصرت۔۔۔۔لمبی تاریخی اور
فلسفیانہ بحث سے بچتے ہوئے بہتر یہ ہے کہ ہم سیدھے ۱۹۲۳ کے اس دن کے بعد
کی بات کریں جس دن کے بارے میں شاعر اسلام نے کہا تھا اور برحق کہا تھا’’
چاک کردی ترک نادان نے خلافت کی قئا‘‘۔ اس بارہ برس کم لمبی سیاہ صدی میں
کیا کچھ نہ ہو اتصور سے ہی کلیجہ منہ میں آنے لگتا ہے قبلۂ اول سے لیکر غنی
مرحوم کا’’اگر بروئے زمیں‘‘تک جگہ جگہ’’و بعثنا علیکم عباداََلنا اولی
باسِِ شدیدِِفجاسوا خلٰل الدیار‘‘کے روح فرسا مناظر نظر آئے، چشم فلک نے
کیا کیا نہیں دیکھاعزتوں کی نیلامی،گھروں کی بربادی اور کمینوں کی حکمرانی
الغرض ہر سو ہوکے عالم اور تاریکی در تاریکی ۔ایسے میں ایک صاحب نظر کی ندا
آئی خبردار !گبھرانا نہیں وہ دیکھو صبح کاذب کے بعد اب صبح صادق طلوع ہو
رہی ہے اب کمیونزم کو روس میں اور سوشلزم کو نیو یارک میں پناہ نہیں ملے گی
،ذرا سا صبر سے کام تو لو سن لو اس عالم رنگ وبو کی ریت یہی ہے تلک الایام
نداولھابین الناس جب سے اس دنیا میں انسانوں کا چلن ہے تب سے کفرواسلام کے
ما بین معرکے چلتے ہی آرہے ہیں مولیٰ کی مرضی کے سامنے سر جھکائے بغیر چارہ
ہی کیا ہے البتہ غورطلب امر یہ ہے کہ ہم نے اپنے حصے کے کام کو کس احسن
انداز سے نبھایا۔احسن انداز سے نبھانے کی بات کچھ بلند نہیں بہت بلند اور
بہت اعلیٰ میعار کے کام کامطالبہ ہے جس سے اس جلدبازاور عجلت پسند انسان کے
لئے شاید نبھانا مشکل ہولہذا الفاظ کے تغیر کے ساتھ ’’کچھ نبھایا ‘‘بھی ہے
کہ بس جھوٹی امیدوں کے سہارے جینے کی عادت سے مجبور صرف متیٰ نصراﷲ کی چیخ
وپکار ۔یہی ہے وہ حقیقت جس سے منع کیا گیا ہے کہ صرف آرزؤں،تمناؤں اور
جھوٹی امیدوں کے بل جینا مسلمان کو زیب نہیں دیتا ہے۔ مسلمان کی نگاہ
طوفانی بادوباراں میں بھی اس خدائے لم یزل پر رہتی ہے جس کا ایک اشارہ بود
کو نابود اور نابود کو بود کر دیتا ہے گو وہ مالکِ کل جس کی صفت ’’کن
فیکون‘‘ ہے وہ اپنا ہر فیصلہ عظیم حکمت کے تحت کرتا ہے مسلمانان عالم صدیوں
سے جس اندہوناک صورت حال سے دوچار ہیں وہ اس سے بے خبر نہیں ہے
’’ومااﷲبغافل عما تعملون’’لا تحسبن الذین کفروا معجزین فے الارض‘‘ ۔
آج کے حالات بیس سال پہلے جیسے نہیں ہیں نہ ہی دنیا کے حالات ایک جیسے کبھی
رہتے ہیں تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی بخوبی جانتاہے کہ دنیا کے حالات
لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہی رہتے ہیں ۔کل تک اس سر زمین پر روم وایران کی
حکومتوں کے ڈنکے بجتے تھے ،پھر مسلمانوں نے مدتِ مدید تک جزیرۃ العرب سے
لیکر چین کی سرحدوں تک اپنے جھنڈے گاڈدیئے،انکے بعد خاکان کاسیاہ دور آیا
اور انھوں نے مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی انکے نام سے یورپ کے مچھیرے
تک کانپ اُٹھے تھے پھر وہ بھی نہ رہے پھر دنیا میں متفرق اور مختلف قوموں
نے حکومت کی حتیٰ کہ دنیا پر ۱۸۰۰ سے لیکر ابتک مذاہب بیزار قوتوں نے
اپنی چودھراہٹ قائم کی اور وہ مسلسل نئی نئی صورتوں کے ساتھ سامنے آتے رہے
۔روس نے سویت یونین کے نام پر ایسی غنڈاگردی قائم کی کہ عالمی ظاقتوں بشمول
امریکہ اور فرانس نہ کسی کو خاطر میں لاتا تھا اور نہ ہی سنتا تھا،اب روس
کے بکھر جانے کے بعد عرصۂ دراز سے امریکہ ’’عالمی پولیس مین ‘‘کا رول
نبھاتا آ رہا ہے اس ظا لم نے اپنی خوف ودہشت کا سب سے زیادہ نشانہ عالم
اسلام کو بنا رکھا ہے اور عالم اسلام کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے
۔ماہرین کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے بیچ جنگجویت کو فروغ دینے والے وہی لوگ
رہے ہیں جنکی اسلام کے پر امن مزاج سے کد ہے۔آج بھی سارے عالم اسلام میں
جگہ جگہ یہی ظالم مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن بنانے پر کمر بستہ ہیں جہاں
انکی براہ راست مداخلت نہیں وہاں یہ دوسروں کو اکسا کر اُ مت مسلمہ کو
جنگوں میں الجھا رہے ہیں ۔امت مسلمہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ اپنی
اہمیت،ضرورت اور افادیت سے ناواقف غفلت کی نیند سو رہی ہے یہ خود سے جاگ
جانے کے باکل برعکس دوسروں کی مار سے جاگ جاتی ہے ۔آج اُمت جس انتشار اور
تباہی سے دوچار ہے اس کا علاج عجلت اور بے سوچے سمجھے اقدامات میں نہیں ہے
اسلئے کہ یہ امت کوئی وقتی اور ہنگامی کردار نبھانے کے لئے نہیں آئی ہے یہ
امت امت آخراور اُمت خیرہے ۔ا سکے پاس انسانیت کے لئے ابدی اور حتمی
پروگرام اور آئین موجود ہے ہاں اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اس سے
عالمی کردار نبھانے کے لئے ’’ واخریٰ تحبونھا ‘‘کی تلاش اور جستجو ضروری ہے
اسکے بغیر خلافت ارضی کا تصور ممکن ہی نہیں ہے المیہ یہ ہے کہ اس کی پہلی
کڑی جہاں مکمل ہو چکی ہے وہاں اس سے اپنے آخری مرحلے میں داخل نہیں ہونے
دیا جاتا ہے اور جہاں یہ ابھی پہلی ہی سیڑھی چڑھی ہے وہاں شکوک و شبہات کے
وحشتناک غبار نے اس سے اپنے منحوس سائے تلے دبائے رکھا ہے البتہ حوصلہ افزأ
بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کے لئے حالات بتدریج تبدیل ہوتے جارہے ۔ان حالات کے
بیک وقت دو پہلو ہیں ایک یہ کہ ارض مقدس فلسطین سے لیکر کشمیر تک جگہ جگہ
مسلمان ہی تباہی اور بربادی سے دوچار ہیں لہذا پہلی نظر میں کسی کے لئے یہ
قبول کرنا بہت مشکل ہے کہ ’’حالات ‘‘ ٹھیک ہو رہے ہیں ۔جن حالات کے تبدیلی
کا میں تذکرہ کر رہا ہوں وہ حالات کے دوسرے رُخ پر غور کرنے سے ذہن نشین ہو
سکتے ہیں گیارہ ستمبر کے واقعہ کی کوکھ سے مسلمانوں کے لئے مصیبتوں کا نہ
تھمنے والا سلسلہ جب شروع ہوا تھا عام تو عام اخص الخواص بھی اپنی سوچ اور
فکر میں ہل پڑے اور معلوم ہو رہا تھا کہ اب اسلام کی وہی تشریح دنیا کو
قابل قبول ہو گی جس سے امریکہ بہادر تسلیم کرے گااور یقیناََ بعض نام نہاد
اسکالر اس نا پاک مقصد کے لئے آج بھی یورپ سے لیکر براعظم ایشیا تک بہت
مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ ستمبر کا و اقعہ کیوں پیش آیا ،اس سے کس نے پلان
کیا،اس سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوا ا یک الگ اور تفصیلی مو ضوع ہے
ا لبتہ اس سے اگر نقصان ہوا تووہ یقیناَمسلمانوں کوہوا ۔کئی سال گزر جانے
کے بعد اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ حالات کی تندی سے گبھرانے والے
حضرات نے ہر قدم عجلت میں اُٹھاکر اپنی ساخت کو ہر طرح متاثر کیاتھاحالانکہ
کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے آگے اور پیچھے کا قدم برابر نہیں ہوتا ہے ۔مکہ
معظمہ اور مدینہ طیبہ کے حالات ایک جیسے نہ تھے اور نہ ہی بدرواُحد،احزاب
وحنین اور حدیبیہ کے اگلے پچھلے حالات ایک جیسے تھے گو حالات کا پھیر بدل
کہیں اور سے ہوتا ہے یہاں نہیں، یہ ایک آزمائشی اور عارضی مرحلہ ہوتا ہے
دائمی نہیں ۔مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کا سارا سامان اللہ عزوجل کے اس
ارشاد مبارک میں موجود ہے ’’یریدون لیطفؤا نوراللہ بافواھھم واللہ متم نورہ
‘‘ نور حق شمع الہٰی کو بجھا سکتا ہے کون۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی
کرشمہ سازی دیکھئے جنھوں نے اُمت محمدؐیہ کو مٹانے کاقصد کیا وہی اسلام پر
گرویدہ ہو کر اس کے پاسبان بن گئے ۔۔۔پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے
سے۔۔۔مولانا ابوالحسن علی الحسنی الندوی ؒ تاریخ اسلام کے لئے گیارہ ستمبر
سے بھی بدترین اور سیاہ ترین واقعہ کا تجزیہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں
’’ساتویں صدی میں عالم اسلام کو وہ حادثہ پیش آیا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ
میں مشکل سے ملے گی ،اور جو قریب تھا کہ اسکی ہستی کو فنا کر دے ،یہ تاتاری
غارتگروں کا حملہ تھا ،جو مورو بلخ کی طرح مشرق سے بڑھے،اور سارے عالم
اسلام پر چھاگئے۔۔۔۔قریب تھاکہ سارا عالمِ اسلام اس سیلاب بلا میں بہ جائے
،اور جیسا کہ اس وقت کے اہل نظراور درد مند مسلمان مصنفین نے خطرہ ظاہر
کیاہے ،اسلام کا نام ونشان مٹ جائے کہ دفعتہََ تاتاریوں میں اشاعت اسلام
شروع ہوگئی ،اور جو کام مسلمانوں کی شمشیریں اور مسلمان بادشاہ نہ کر سکے
،اسلام کے داعیوں اور خدا کے مخلص بندوں نے انجام دیا ،اور خود اسلام نے
اپنے خون آشام دشمنوں کے دل میں گھر کرنا شروع کر دیا ۔(تاریخ دعوت
وعزیمت،حصہ اوّل)
خانان کے اس وحشت ناک حملے سے اگر کسی اورکو سابقہ پڑتا وہ یقیناََ صفحہ
ہستی سے ہی مٹ جاتامورخ امام ابن اثیر کی زبانی انکے قلبی تاثرات کو سنئے
اور اندازہ لگائے کہ فتنۂ تاتار کس قدر ہیبت ناک فتنہ تھا وہ لکھتے ہیں
’’یہ حادثہ اتنا ہولناک اور ناگوار ہے کہ میں کئی برس تک اس پس وپیش میں
رہا کہ اس کا ذکر کروں یا نہ کروں ،اب بڑے تردد اور تکلف سے اسکا ذکررہا
ہوں ،واقعہ بھی یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے موت کی خبر سنانا کس کو
آسان ہے ،اور کس کا جگر ہے کہ انکی ذلت ورسوائی کی داستان سنائے؟کاش میں نہ
پیداہوا ہوتا ،کاش میں اس واقعہ سے پہلے مر چکا ہوتا ،اور بھولا بسرا ہو
جاتا،لیکن مجھے بعض دوستوں نے اس واقعہ کے لکھنے پر آمادہ کیا ،پھر بھی
مجھے تردد تھا ، لیکن میں نے دیکھا کہ نہ لکھنے سے کچھہ فائدہ نہیں ،یہ وہ
حادثہ عظمیٰ اورمصیبتِ کبریٰ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اسکی نظیر نہیں مل
سکتی ،اس واقعہ کا تعلق تمام انسانوں سے ہے ،لیکن خاص طور پر مسلمانوں سے
ہے ،اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ آدم تا ایں د م ایسا واقعہ دنیا میں پیش
نہیں آیا تو وہ کچھ غلط دعویٰ نہ ہوگا ،اس لئے کہ تاریخوں میں اس واقعہ کے
پاسنگ بھی کوئی واقعہ نہیں ملتا ،اور شاید دنیا قیامت تک (یاجوج ماجوج کے
سوأ)کبھی ایسا واقعہ نہ دیکھے ،ان وحشیوں نے کسے پر رحم نہیں کھایا،انھوں
نے عورتوں ،مردوں اوربچوں کو قتل کیا،عورتوں کے پیٹ چاک کردیئے،اورپیٹ کے
بچوں کو مار ڈالا’’انا للہ وان الیہ راجعون ولا حول ولا قوۃالا باللہ العلی
العظیم‘‘یہ حادثہ عالمگیر وعالم آشوب تھا ،یہ ایک طوفان کی طرح اُٹھا اور
دیکھتے دیکھتے سارے عالم میں پھیل گیا(الکامل ابن اثیر۔جلد ۔اسلام کی عظیم
ترین خصوصیت یہ ہے کہ کسی نمرود وفرعون کے دبانے سے نہیں دبتا ہے بلکہ ایک
نئی قوت اور شان وشوکت کے ساتھ اسطرح اُبھرتاہے کہ اس بات کا یقین کرنا اور
اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی اسلام کو ایسے عظیم سانحات ا
ورحادثات کے ساتھ سابقہ پڑا ہو،پروفیسر آرنلڈاسی واقعہ کے تناظر میں
استعجاب کے ساتھ لکھتے ہیں’’لیکن اسلام اپنی گذشتہ شان وشوکت کے خاکستر سے
پھر اُٹھا،اور واعظین اسلام نے ان وحشی مغلوں کوجنھوں نے مسلمانوں پر کوئی
ظلم باقی نہ رکھاتھا ،مسلمان کرلیایہ ایسا کام تھا جس میں مسلمانوں کو سخت
مشکلیں پیش آیءں کیونکہ دو مذاہب اس بات کی کوشش میں تھے کہ مغلوں اور
تاتاریوں کو اپنا معتقد بنائیں،وہ حالت بھی عجیب وغریب اور دنیا کابے مثل
واقعہ ہوگی جس وقت بدھ مذہب اور عیسائی مذہب اور اسلام اس جدوجہد میں ہوں
گے کہ ان وحشی اور ظالم مغلوں کوجنھوں نے ان تین مذہبوں کے معتقدوں کو
پامال کیا تھا ،اپنا مطیع بنایءں۔(PREACHING IN ISLAM) لہذا آج کے بظاہر
مشکل حالات میں بھی مسلمانوں کو گبھرانے اور خدانخواستہ بد حواس ہونے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے جو واقعات عرب سے لیکر یورپ تک مسلمانوں کے لئے پریشانی
کے باعث بنے ہوئے ہیں انہی کو وہ طاقتور خدا ایک نئی سمت میں مسلمانوں کے
لئے باعث راحت وتسکین بنارہا ہے مغربی اخبارات کی رپوٹوں کو ملاحظ فرمائیں
اور قیاس کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ایک ظاہری شر کو خیر میں بدل دیتا ہے
ISLAM IS THE FASTEST GROWING RELIGION IN AMERICA , A GUIDE AND A PILLAR
OF OUR PEOPLE ( HILLARY RODMAN CLINTON , LOS ANGELES TIMES , MAY 31 P.4
) ISLAM IS THE FASTEST -GROWING RELIGION INTHE COUNTRY..(NEWSDAY--MARCH
.7)
انتہائی حیرت انگیز معاملہ ہے جنھوں نے اسلام کو بھیانک روپ میں پیش کرنے
کے لئے گیارہ ستمبر کے دن کا انتخاب کیا تھا وہی دن اسلام کی عظمت رفتہ کی
بحالی کے آغاز کا دن ثابت ہوا ،اللہ کے ہاں ’’کُن‘‘کہنے میں وقت ہی کیا
لگتا ہو گا،یہ لمحے اور گھنٹے اسی شمسی وقمری عالم کے بکھیڑہیں کون جانے اس
کے بغیر’ کُن‘ کی رفتار اور کون جانے اسکے سوا ’’یکن‘‘کی قیام کی مدت ،جہاں
ایک صحبت صالح میں رہا شخص پیغمبرِ وقت کے فرماش پر یوں عرض کرے ’’انا
اٰتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک ‘‘وہاں کس چیز کی دیر ہے بس اسکی کریمی جوش
میں آجائے ،ہمیں اس کے در پر آنے کی ضرورت ہے دین کے غلبے کی غرورت
مسلمانوں کو ہے اس سے نہیں وہ تو الحمیدالصمد ہے وہ عبادت اور ریاضت کا
محتاج نہیں ہے نہ ہی اس کیْ قدرت پر کسی کے کفر اور کسی کے اسلام سے فرق
پڑتا ہے ۔ لہذااپنی بے بسی، محتاجی اور کم ظرفی کو مد نظر رکھتے ہوئے احساس
ندامت کے اظہار کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے دلوں کے قرار کے لئے اسکی رحمت
کاملہ کا’’ اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کی شکل میں‘‘ نزول ہو جائے۔یہ بات
گرہ میں باندھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک اسلام کی احیأاور غلبے کے لئے مسلمان
اللہ کی مقرر کردہ شرائط کو پورا نہیں کرتے ہیں تب تک ایں خواب است ومحال
است وجنون است۔۔۔مایوسی اور قنوطیت کفر ہے ہمیں مایوسی اور عارضی دنیاوی
حالات سے گبھرانے کے بجائے اپنے قدم ٹھہرانے کے بعد ’’انفرادی اور اجتماعی
محاسبہ‘‘ کرتے ہوئے خدا ئے عزیز و جبروت پر نظر رکھنی چاہئے اور تمناؤں
،آرزؤں اور خالی اُمیدوں سے آگے برھکر عمل کی دنیا میں عملی طور پر غلبہ
دین کا کام کرنا چاہئے اس لئے کہ یہ کام ہر کام سے بڑا کام ہے اور ہر مقصد
سے زیادہ اہم مشن ہے جو انفرادی نہیں اجتماعی طور پر مل جل کر کرنے کی
ضرورت ہے ۔اگر ہم نے اس حوالے سے ذرا بھی غفلت برتی تو ہمیں ’’آرہے دجالی
فتنے اور شر ‘‘سے بچانے والا کو ئی نہیں ہو گا اس لئے کہ ہم اسی طرف قدم
بڑھا رہے ہیں جس کے متعلق فرما گیا کہ صبح کا مومن شام کو کافر ہو جائے گا
اور شام کا مومن صبح کو کافر ہو جائے- |