انٹر نیٹ کے ذریعے اسلامی دنیا میں الحاد کی یلغار

انٹرنیٹ وہ غیر معمولی ایجاد ہے جس سے ایک نئے عہد یعنی انفارمیشن ایج کا آغاز ہوا۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی طرح یہ بھی ایک میڈیا ہے جسے اصطلاحاً سائبر میڈیا کہا جاتا ہے۔ اوریہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ دنیا بھر کے تعلیم یافتہ افراد کے خیالات اور اقدار کو متاثر کرنے میں یہ میڈیا، دوسرے میڈیا کی بانسبت بہت زیادہ اثر انگیز ہے۔

انٹرنیٹ کے ہمارے معاشرے پر جو اثرات ہورہے ہیں ، وہ ہمہ جہتی قسم کے ہیں۔ یہ اثرات مثبت بھی ہیں اور منفی بھی۔اس سائبر جال کے ذریعے انسانی زندگی پر جو تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں وہ تین قسم کی ہیں۔ اول زندگی کو تیز اور آسان بنانے والی تبدیلیاں مثلاً ای بینکنگ، ای مارکیٹنگ اور ای میل وغیرہ۔دوم وہ تبدیلی جو ہر موضوع پر معلومات کے خزانے کے آسان حصول کی وجہ سے آرہی ہے۔ بڑی بڑی لاکھوں کتابیں رکھنے والی لائبریریاں اب صرف چند کلک پر ایک طالب علم کی دسترس میں ہوتی ہیں۔انٹرنیٹ کے ذریعے آنے والی تیسری بڑی تبدیلی کا تعلق خاص مسلم ورلڈ سے ہے، یہ وہ منفی رجحانات ہیں جن کے تاریک سائے تیزی سے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ان منفی رجحانات میںسے ہم مسلم دنیا کے لیے سب سے زیادہ مضر دو رجحانات کا جائزہ لیں گے۔ ایک انٹر نیٹ کے ذریعے مسلم دنیا میں تیزی سے پھیلتی ہوئی فحاشی وعریانی اور دوسرا خطرناک ترین رجحان انٹرنیٹ کے ذریعے مسلم دنیا میں الحاد کی یلغار ہے۔ ان دونوں رجحانات کاجائزہ ہم نے حالیہ دو خبروں کی بنیاد پر لینا ضروری سمجھا۔

پہلی خبر کا تعلق بنگلہ دیش کے درالحکومت ڈھاکا سے ہے، جہاں چند دن پہلے ہزاروں مسلمانوں نے انٹرنیٹ پر اسلام کی تضحیک کرنے والے بلاگرز کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے مظاہرے کیے۔ دوسری خبر خاص پاکستان سے تعلق رکھتی ہے جوپاکستانیوں کے لیے نہایت شرمناک ہے۔ خبر یہ ہے کہ ایک حالیہ مغربی رپورٹ کے مطابق سرچ انجن گوگل پر غیر اخلاقی مواد کے سرچ کرنے کے اعتبار سے پاکستانی دنیا بھر میں سرفہرست ہیں۔

پہلے بنگلہ دیش والی خبر کو دیکھتے ہیں، یہ خبر ویسے تو بنگلہ دیش سے متعلق ہے، لیکن ہر وہ مسلمان جو باقاعدگی سے انٹرنیٹ کی مشہورسماجی رابطے کی سائٹس پر گزرتا ہے اور وہاں پیش کیا جانے والا مواد سرسری بھی دیکھ لیتا ہے، وہ خوب اندازہ کر سکتا ہے کہ ملحدین کا انٹر نیٹ کے ذریعے دینِ اسلام کے بنیادی اصولوں پر اوچھے وارکرنا اور شکوک کے بادل پھیلا کر الحاد کی برسات کرنا صرف بنگلہ دیش کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کی نظریاتی بنیادوںپر سلگنے والاوہ آتش فشاں ہے جو کسی وقت بھی دھماکے سے پھٹ سکتا ہے۔

الحاد کا لفظ عربی زبان میں لغوی اعتبار سے، انحراف یعنی درست راہ سے ہٹ جانے کے معنوں میں آتا ہے۔الحاد کو انگریزی میں atheism کہا جاتاہے ۔ عموماًاس لفظ کا الحاق وجودِ خدا، نبوت و رسالت اور آخرت میں سے کسی ایک کے یا تینوںکے انکار پر کیا جاتاہے اوریہ انکار بے مہار عقل کے استعمال کی بنا پر ہوتا ہے،عقل جوخود مادے کی پیداوار ہے اورمادی قوتوں کے ذریعے غیر مادی ہستی کو سمجھنے کی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہے۔ ایسی الجھنوں کے پیدا ہونے کا بنیادی سبب دراصل اپنی حدود سے تجاوز کر نا ہوتا ہے۔ نفسی قوتوں کا غلبہ انسان کو تکبر اور بڑائی میں مبتلا کر دیتا ہے، یوں ناپاک قطرے سے بنا انسان اپنی غلاظتوں کو بھول کرکبھی انفرادی حیثیت میں اناربکم الاعلیٰ کا نعرہ لگاتا نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی طور پر انسان کو خدا کے درجے پر فائز کرتے ہوئے لا الہ الا الانسان کاکلمہ پڑھتا دکھائی دیتا ہے۔

شروع ہی سے مذہب کے ساتھ الحاد بھی تمام معاشروں میں رہا ہے لیکن یہ تاریخ میں کبھی بھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاءکرام علیہم الصلوٰة والسلام کے متبعین‘ ایک اللہ کو رب ماننے والے غالب رہے یا پھر شرک کا غلبہ رہا۔چند مشہور فلسفیوں اور ان کے معتقدین کو چھوڑ کر تاریخ میںانسانوں کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ پہلے زمانے میں مذہب کے مقابلے میں الحاد و دہریت کا پھیلاؤ اس لیے بھی کم رہا کہ انبیاءکرام اللہ تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ کیا کرتے تھے، جب کہ ملحد الحاد کے کبھی داعی نہیں رہے۔لیکن انیسویں صدی میںجب چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاءکو قبولِ عام حاصل ہوا توگویا الحاد نے ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی ، جس کا پیغمبرڈارون تھا اور اس کا نظریہ اس مذہب کا دیباچہ۔ بس کیا تھا، اس صدی میں لاکھوں لوگ جن میں اکثریت تعلیم یافتہ افراد کی تھی، مذہب سے بیگانہ ہو کر ملحد ہو گئے۔پھر ان افراد نے نظریہ ارتقاءکی باقاعدہ تبلیغ کرنا شروع کردی اور اس کے اثرات عالمگیر سطح پر پڑے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاءمیں الحاد کے نظریاتی اور فلسفیانہ پہلواہم تھے جس نے خصوصاً الہامی ادیان کے بنیادی عقائد یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اورعقیدہ آخرت پر حملہ کیا۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فکری اور نظریاتی میدان میں الحاد اسلام کے مقابلے میں کلیتاًناکام رہا البتہ عیسائیت کے مقابلے میں اسے جزوی فتح حاصل ہوئی.... لیکن سیاسی، معاشی اورمعاشرتی میدانوں میں الحاد کو مغربی اور مسلم دنیا میں بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے۔ پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیاہے۔ سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو مسجد تک محدود کردیا جائے اور کاروبار زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کی بنیاد پر چلایا جائے جس میں مذہبی تعلیمات کا کوئی حصہ نہ ہو۔ مغربی دنیا نے تو سیکولر ازم کو پوری طرح قبول کر لیا اور اب اس کی حیثیت ان کے ہاں ایک مسلمہ نظریہ کی ہے۔ انہوں نے اپنے مذہب کو گرجے کے اندر محدود کرکے کاروبار حیات کو مکمل طور پر سیکولر کر لیا ہے۔ ان کی اتباع میں مسلمانوں کی اشرافیہ بھی الحاد کے اثرات کو قبول کرنے لگی، اور آخر کاربہت سے اسلامی ممالک نے سیکولر ازم کو بطور نظامِ حکومت کے قبول کرلیا۔ بعض ممالک جیسے ترکی اور تیونس نے تو اسے کھلم کھلا اپنانے کا اعلان کیا لیکن مسلم ممالک کی اکثریت نے سیکولر ازم اور اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی جس میں بالعموم غالب عنصر سیکولر ازم کا ہی رہا۔

اسی طرح معاشی میدان میں کارل مارکس کی اشتراکیت یا کمیونزم وہ نظریہ تھا، جس نے الحادکے ڈھانچے میں نئی جان ڈال دی۔ مارکس اور اس کا ساتھی فریڈرک اینجلز، جو بہت بڑا ملحد فلسفی تھا،کے مشترکہ نظریے نے کمیونسٹ انقلاب برپا کیا، جس نے یکلخت ملحدوں کی تعداد لاکھوں کے ہندسے سے نکال کر کروڑوں تک پہنچا دی۔ لیکن اس زبردست کامیابی کے بعد بھی الحاد کا زور ابھی تک مخصوص خطوں میں تھا۔ کچھ یورپی ممالک جہاں نظریہ ارتقاءبہت مقبول ہوا، اور روس و چین جہاں کمیونزم کی وجہ سے دہریت پھیلی، باقی متمدن دنیا میں اور خصوصاًمسلم دنیا میں اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر رہے۔ لیکن پھرکمپیوٹر ایجاد ہوااوراس کے بعد نوے کی دہائی میں انٹرنیٹ کی ایجاد سے توملحدوں کو عالمی سطح پر الحاد کی ترویج کے لیے ایک وسیع اور تیز ترین پلیٹ فارم مہیا ہو گیا۔اس سائبر میڈیا کی بدولت ملحدین کو صرف بیس سالوں میں وہ کامیابی ملی جو وہ پچھلی ایک صدی میں حاصل نہ کر سکے تھے، یعنی ادیان کے خلاف ایک عالمگیر اور ہمہ گیر جدوجہد.... اور اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ، آج الحاد کے دنیا بھر میں پھیلاو ¿ کا یہ حال ہے کہ11دسمبر2012کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں الحاد کے اثرات ہر شعبے فلسفے، سیاست، معیشت ، معاشرت اور اخلاق میں تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں مسیحیوں اور مسلمانوں کے بعد تیسرا بڑا گروہ ملحدین افراد پر مشتمل ہے جبکہ ہندو چوتھے نمبر پر ہیں۔اس رپورٹ میں تعداد کے اعتبار سے 2 ارب 20 کروڑ کے ساتھ مسیحیت سب سے بڑا مذہب ہے۔مسلمانوں کی آبادی ایک ارب 60 کروڑ ہے جن میں سے بیشتر سنی مسلم ہیں جبکہ 10 سے 13 فیصد شیعہ ہیں۔ ملحدین کی تعداد ایک ارب 10 کروڑ ہے، جن میں سے 70 کروڑ صرف چین میں رہتے ہیں‘جو چین کی آبادی کا 52.2 فیصد ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر جاپان ہے جہاں مذہب بیزار افراد کی تعداد7 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ امریکہ میں ان افراد کی تعداد5 کروڑ 10 لاکھ بنتی ہے۔ اس تحقیق کا عنوان ’گلوبل ریلیجیس لینڈاسکیپ ہے، جس کے نتائج واشنگٹن میں قائم ایک فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نے جاری کیے۔
ایک عرب اخبار کے مطابق ملحدین نے الحاد کی تبلیغ کے لیے دنیا کے مختلف زونز میں عموماً اور مسلم دنیا کے لیے خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس قسم کی الحادی فکر رکھنے والے39گروپس ہیں ،جن میں سے اکثر کا تعلق ”فیس بک“سے ہے۔ہماری تحقیق کے مطابق باقاعدہ طور پر پاکستانی نیٹ کی دنیا میں ملحدوں نے 2008ءکے اوائل میں اپنے قدم جمائے اور آہستہ آہستہ اپنا دائرہ عمل بڑھاتے چلے گئے۔پہلے پہل انہوں نے بلاگ بنائے ، جو انٹرنیٹ پرآزادی اظہار کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ لفظ ”بلاگ(Blog)“ ویب لاگ( Web Log) سے بنا ہے اور یہ ایک طرح کی آن لائن ڈائری ہے۔اس نے باقاعدہ عوامی مقبولیت تب حاصل کی جب اگست 1999ءمیں پائرا لیبس نامی ایک امریکی ادارے نے پہلی مفت بلاگنگ سروس شروع کی اور اس کا نام بلاگر رکھا۔ پھر رفتہ رفتہ دنیا بھر میں بلاگنگ کے تصور نے آزادی اظہار کے لیے لوگوں کو انٹرنیٹ پرگویا ایک ہائیڈ پارک دے دیا ۔

آپ اس نقطہ نظر سے صرف پاکستان کی بلاگنگ دنیا میںجھانک لیں، جہاں بلاگنگ انتہائی تیزی سے ترقی کررہی ہے اور ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت ہزاروں افراد بلاگنگ کر رہے ہیں۔یہاں کی بلاگنگ دنیا میں شعائر اسلام کا مضحکہ اڑانا یا کم ازکم ان کے بارے میں شکوک پھیلانا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ انگلش بلاگنگ توخیر سیکولرازم کی تبلیغ کے لیے وقف ہے ہی، اردو بلاگنگ کی دنیا میں بھی کئی بلاگر ایسے ہیں جن کی تحریریں توہینِ اسلامِ کے زمرے میں آتی ہیں۔بے شک انگریزی اور اردو بلاگنگ میں یہ فرق ضرور ہے کہ اردو بلاگنگ کی دنیا میں ایسے کئی بلاگر موجود ہیں جو گستاخانہ مواد شایع کرنے والوں کی سخت گرفت کرتے ہیں، لیکن بہرحال یہ زہریلا مواد بدستور نیٹ پر نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنے متنازعہ مواد کی وجہ سے بہت زیادہ ریٹنگ بھی پا جاتا ہے اور اللہ اپنی پناہ میں رکھے، اس مواد کو سراہنے والے اور بلاگر کی پیٹھ تھپکنے والے بھی کئی مل جاتے ہیں۔ایک عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کی نیٹ دنیا میں اکثر اسلام کے مسلمہ اصول و ارکان کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والے وہ ہیں ، جن کے نام بدستور مسلمانوں والے ہیں، اور وہ کھلے عام کفریہ باتیں کر کے اور ہر طرح کی گستاخی کر کے بھی اپنے کفر کا کھل کر اقرار نہیں کرتے۔ ان کی یہی رٹ ہوتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں ،بلکہ اصل مسلمان ہیں۔ یا للعجب! اللہ کی شان میں گستاخی، اس کے کلام پر اعتراضات کی بھرمار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کا مضحکہ اڑا کر اور جنت دوزخ اور دوسرے مغیبات کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلا کر بھی یہ لوگ مسلمان ہیں تو پتہ نہیں کفر اور کیا ہوتا ہے! یہی لوگ سیدھے سادھے نوجوانوں کے ایمان پر ڈاکا ڈالنے میں سب سے زیادہ کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔اس ضمن میں ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی ملحد بلاگر محمد علی مکی تو شیطان کی طرح مشہور ہے۔ اس نے ہمارے خیال میںپاکستان کی نیٹ دنیا کو سب سے زیادہ اپنے گستاخانہ اور ملحدانہ خیالات سے نجس کیا۔ یہ زندیق جو بزعم خود عربی جانتا ہے ،اپنی عربی اور انگریزی دانی کے غرور میںبے دریغ اللہ تعالیٰ کے کلام پر اعتراض ، اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی اورپیارے نبی کی شان میں گستاخی کرتا چلا جاتا ہے( نعوذ باللہ)۔ شدید احتجاج کے بعد جب اردو محفل سے اس کی زہریلی تحریریں ہٹائی گئیں تو اس نے” حقیقی اپروچ “کے نام سے اپنی ویب سائٹ بنا لی اور وہاں ”ناستک“ کے نام سے اپنے نظریات کا پرچار کرنے لگا۔مکی کے علاوہ اور بھی نام ہیں لیکن میں خاص طور پر ایک اور بدنصیب شخص طارق احمد صدیقی کاذکر کرنا چاہوں گا جو پہلے ایک مذہبی تحریک کے سرگرم رکن اور ایک دینی رسالے کا مدیر بھی رہے، لیکن نہ جانے کس عمل کی نحوست کی وجہ سے یقین کی وادی سے نکل کر شکوک کے گڑھوں میں جا گرے۔ اور اب نیٹ پرتشکیک کے علمبردار ہیں، ان کی دعوت ہے کہ ہر چیز پر شک کرو کہ یہی انسانیت کی معراج ہے۔ اسی شک نے انہیں جنت، دوزخ ، قرآنی آیات اور صحیح احادیث ہر چیز کو اپنی عقل کے مطابق جانچنے کی راہ دکھائی، اور اب یہ ”درایت“ کے نام سے ایک پرچہ اور ویب سائٹ کے ذریعے الحاد کی ترویج میں مصروف ہیں۔یہ کم علم نوجوانوںکے ذہنوں پر ملاحدہ کے صدیوں پرانے سوالات (جن کے شافی جوابات صدیوں پہلے ہی دیے جا چکے)کی بھرمار کرتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب اسلام کے نام پر ہوتا ہے۔

کچھ عرصے کے بعدپاکستانی ملحدین نے بلاگنگ سے ایک قدم آگے بڑھا کراور انفرادی طور پر کام کرنے کی بجائے متحد ہو کر پاکستان کے یومِ آزادی 14 اگست2011ءکو ایک ویب سائٹ PAA کے نام سے لانچ کی( PAA مخفف ہے ‘Pakistani Atheists and Agnostics group’ کا)۔انتہائی صدمے اور افسوس کی بات ہے کہ ایمان سوز عزائم لیے یہ ویب سائٹ بے حدمقبول ہوئی ، جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لانچ ہونے کے اگلے 48گھنٹوں میں 95ممالک سے 17000افراد نے اس کو دیکھا ، پسند کیا، اور اس میں اکثریت مسلمان ناموں کی رہی۔وہ جو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے لیکن اب ملحد ہیں اور اپنے کو ‘closet’ atheist یعنی چھپا ہوا ملحد کہتے ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مسلم معاشرے میں الحاد کا اعلان کرنے میں اپنی جان کا خطرہ ہوتاہے، ورنہ ہماری تعداد بہت زیادہ ہے۔اور زیادہ عبرت کی بات ہے کہ نیٹ ٹریفک کے اعدادو شمار کے اعتبار سے اس ویب سائٹ پر پچانوے ممالک میں سے سب سے زیادہ وزیٹرز پاکستان، سعودی عرب اور امریکا کے تھے۔صرف دو دن میں پاکستانی ملحدین کو اس ویب سائٹ کے ذریعے پانچ سو ممبر مل گئے ۔ ساری دنیا کے ملحدین نے پاکستانی ملحدین کی اس موقع پر ہمت بندھائی اور کہا کہ تم اکیلے نہیں ہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں!

اسی سال 2011ءکے اواخر میں پاکستانی ملحدین کے سب سے سرگرم رکن ’حضرت ناخدا‘ جس کا تعلق لاہور سے ہے،نے مشہور سوشل سائٹ ’فیس بک‘ پر ایک گروپ” پاکستانی ملحدین(Pakistani Atheists) “کے نام سے بنایا۔پاکستانی” فیس بکیوں“ کے لیے یہ بات شاید بہت نرالی تھی ،اس لیے تجسس کے لیے ہی سہی انہوں نے اس فورم پر ”ہلا“ بول دیا اور یوں بغیر کسی محنت کے ان لوگوں کا مقصد پورا ہو گیااور ابتدائی مہینوں میں ہی اس گروپ کے آٹھ سو ممبر ہو گئے۔بتایا جاتا ہے کہ ان ممبران میں نناوے فیصد نوجوان تھے، جن کی عمریں 16سے 32سال کے درمیان تھیں اور ان کی بڑی تعداد کا تعلق کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے تھا۔

ہم حیران و پریشان ہیں کہ کس کا ناپاک ذکر کریں، کس کا نہ کریں؟ مکی کے علاوہ”ملا ملحد“، ”کافر حقانی“ ، ”حضرت ناخدا“ اور نہ جانے کتنے ایسے کم بخت ملحد ہیں، جو مختلف آئی ڈی سے اردو زبان میں اللہ جل شانہ اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کائنات کی بد ترین گستاخی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ نیٹ کے محفوظ قلعے میں بیٹھ کر، اپنی شناخت چھپا کرالحاد و زندقہ پھیلا رہے ہیں، سادہ لوح اور کم علم نوجوانوں کے ایمان پر شبِ خون مار رہے ہیں۔اور یہ سب کہاں ہو رہا ہے، اس پاکستان میں جسے ہم اسلام کا قلعہ کہتے نہیں تھکتے۔یہاں 2009ءسے یہ کام بڑی خاموشی کے ساتھ ہو رہا ہے، اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے اسلام کے خلاف توہین آمیز فلم اور دوسرا وہ مواد جس پر پوری دنیا میںاور خصوصاً پاکستان میں بھونچال کھڑا ہو گیا تھا، ہم نے اور بیشتر مسلمانوں نے نہیں دیکھا اور اللہ اسے دیکھنے سے سب کی حفاظت فرمائے لیکن وہ سارا مواد جو ہم نے پچھلے ایک سال میں پاکستانی سائٹس پر دیکھا اور جو خاص اس آرٹیکل کے لیے دیکھنا پڑا ، اس کو دیکھ کر ہم بالیقین کہ سکتے ہیں کہ خدا اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی توہین پاکستان کی نیٹ دنیا میں ہو رہی ہے اور خاص اردو زبان میں ہو رہی ہے، وہ شاید مغرب میں بھی نہیں ہو ئی۔ بنگلہ دیش کے بنگالی بھائیوں کو سلام ہے کہ انہوں نے چند بلاگرزکے بلاگز پر فوراً ردعمل ظاہر کیا اوربھرپور احتجاج کیا۔جب کہ ہم بدستور اپنے روزمرہ میں گم ہیں۔[ہمارا موضوع یہاں نیٹ ہے، کیوں کہ نیٹ کے ذریعے اپنے نظریات کی تبلیغ بہت محفوظ ہے، لیکن پاکستان میں اب ملحدین کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہوں نے فلم، ٹی وی اور پرنٹ میڈیا میں بھی ڈھکے چھپے انداز میں اسلامی احکام اور ارکان کے خلاف شکوک پھیلانے شروع کر دیے ہیں، جس کی واضح مثال پچھلے تین سالوں میں تواتر کے ساتھ ریلیز ہونے والی تین پاکستانی فلمیں ”بول“، ”خدا کے لیے“ اور ”رام چند پاکستانی“ ہیں، جن میں جی کھول کر اسلامی شعائر اور احکامات کا مذاق اڑایا گیاہے۔ ]
یہ تو پاکستان کاحال ہے، نہایت عبرت انگیز بات یہ ہے کہ عرب جہاں سے اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیلا، وہ بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ملحدین کے خاص ٹارگٹ پر ہے اوروہ اپنے اہداف تیزی سے حاصل بھی کر رہے ہیں۔اور اس کام کے لیے انہیں عربوں میں سے ہی اپنے مطلب کے لوگ مل گئے ہیں جنہوں نے اپنی بدبختی کی وجہ سے اس الحاد کی دعوت پر لبیک کہا اور پھر الحاد پھیلانے میں مصروف ہو گئے۔فیس بک پر آپ کو ان کا فورم بھی ملے گا جسے ”عرب ملحدین فورم“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس الحادی فورم میں اب تک سینکڑوںافراد شمولیت اختیار کر چکے ہیں ۔ ملحدوں کی اس سائٹ پر الحادی فکر کے حامل ہر عرب کو اس بات کا موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملحدانہ افکار کا بے باکانہ اظہار کرے۔ عرب ملحدین گروپ (zezoe Ami) سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ ”میں ان دماغوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا جو غور و فکر سے قاصر ہیں یہ ایسے پتھر جیسے دماغ ہیں جو سائنس کی گولیوں سے مقابلہ پر آمادہ ہیں ،ان دماغوں کو ہر وقت آسمان سے کسی بات کے آنے کا انتظار رہتا ہے(نعوذ باللہ)۔“
ایک بات انتہائی قابل توجہ ہے کہ ویسے تو ملحدین کے مناظرے اور بحثیں ہر مذہب کے لوگوں سے ہوتے ہیں، لیکن سچادین ‘ دینِ اسلام ان کا خاص ہدف ہے، اسلام کا تمسخر تمام ملحد گروپوں کا مشترکہ مقصد ہے،جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ اپنا اصل حریف اسلام کو ہی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر مناقشے اسلام کے تعلق سے ہوتے ہیں۔ اب تک انٹرنیٹ پر اس قسم کے قریب ساڑھے چار سو مناظرے ہو چکے ہیں، جن میں جنت، دوزخ کا تخیل، قرآن بحیثیت الٰہی کلام اور رسالت جیسے موضوعات زیر بحث لائے گئے۔ ان بحثوں میں اسلام اور پیغمبر اسلام پر ایسی نازیبا تنقیدیں کی گئیں کہ انہیںبیان نہیں کیا جاسکتا۔مصر کے ملحدین نے تو اتنی جرات کر ڈالی کہ قرآن کی طرز پر چند آیات بھی بنائیں، جنہیں ”قرآن رابسو“ کا نام دیا گیامعاذ اللہ ۔

تمام ملحدین کا باقاعدہ لٹریچر بھی انٹرنیٹ پر موجودہے، جس میں نظریہ ارتقاءکے علاوہ جان کوز کی ایک کتاب بھی ہے جس کا نام ”ملحدین کی مقدس کتاب“ ہے۔اس کے علاوہ وہ مرتدین جو اسلام چھوڑ کر ملحد ہوئے، ان کے کچھ خاص آئیڈیل بھی ہیں۔آئیڈیل ان معنوں میں کہ یہ ان لوگوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔پاک و ہند کے ملحد(سابقہ مسلمان)اسلامی تاریخ میں سے خصوصی طور پر دورِ جاہلیت کے شاعرامیہ بن ا بی ا لصلت (اس کے بارے میں ملحدین کا دعویٰ ہے کہ قرآن نعوذ باللہ اس کلام کی نقل ہے) اور چھٹی صدی ہجری کے مشہور فلسفی اورمتکلم ابنِ رشد، ماضی قریب کے سرسید احمد خان، نیاز فتح پوری اور موجودہ زمانے کے پاکستانی مفکرجاوید غامدی، مشہور سیکولر تاریخ دان پروفیسر مبارک علی اور مصری ملحد ادیب طٰہٰ حسین کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ خصوصاً عرب ملحدین اسلام کے رد کے لیےامیہ بن ا بی ا لصلت کے کلام اور طٰہٰ حسین کی کتاب ”فی الشعر الجاہلی“ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، جس میں اس نے اسلام اور عربوں کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا ہے۔

لٹریچر کے علاوہ انٹرنیٹ پرملحدین کا ایک ویڈیو چینل بھی ہے۔ اس الحادی چینل کا نام Channel Chakooniہے جس کا آغاز2006ءمیں ہوا۔ اس چینل سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد 80000 تک پہنچ چکی ہے۔ اس چینل پر اظہار خیال کرنے والے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ مذاہب کی کوئی حقیقت نہیں، یہ خیالی داستانیں ہیں۔ الحادی گروپوں میں سے ایک گروپ کا نام یوں ہے ”مجھے ملحد ہونے پر فخر ہے“ اس گروپ کے 27000ارکان ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ دنیا بھر کے علمی اداروں اور یونیورسٹیوں پر ان کا تسلط ہے۔

الحاد دراصل ہر گناہ کی چابی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ یقین کر لے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے جہاں اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا تو پھر حکومت کے قوانین کے سوا کوئی چیز دنیا میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔اورجب الحاد غالب آئے گا تو پھر حکومت کے قوانین بھی صرف انسانوں کو ایک دوسرے کی آزادی میں مخل ہونے سے روکنے کے لیے ہوں گے۔ یوںپھر زندگی کا مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ لذت کوشی ہی رہ جائے گی۔پھر مادر پدر معاشرتی آزادی ایک انسان کو برہنہ پھرنے کا حق دے گی اور انسان کو جانوروں کی سطح پر آنے میں کوئی چیز مانع نہ رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملحدین انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ کرتے پھرتے ہیں کہ مسلمان آج جن مشکلات سے دوچار ہیں، وہ دراصل جنسی خواہش کو دبائے رکھنے اور مرد و عورت کے درمیان تفریق و امتیاز کے نتیجے کی وجہ سے ہے۔

اسلام چھوڑ کر الحاد اختیار کرنے والے ملحدین کے حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ماضی قریب میںان بدبخت مرتدین میں مردوں کا تناسب عورتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا، لیکن ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ماضی کے مقابلے میں آج عالم اسلام میں رفتہ رفتہ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی الحاد کے اثرات قبول کر رہی ہیں۔اس ضمن میں مسلمدنیا کے ملحدیننے یہطریقہ ¿ واردات اختیار کیا کہ انہوں نے نیٹ پر ایسی تعلیم یافتہ مسلمان عورتوں کو جو آزاد خیال اور دین سے بیگانہ ہوتی تھیں، خصوصی طور پر اپنی دعوتِ الحاد کا نشانہ بنایااور اسلام میں خواتین کی عصمت کی حفاظت اور ان کے اعزاز واکرام کے لیے جتنے خصوصی احکامات ہیں( مثلاً پردہ،عورت کے لیے چاردیواری کی اہمیت وغیرہ)،انہی احکامات کو شدید تنقید کا نشانہ بناکر اور انہیں اپنی مرضی کا معنی پہنا کران کی ذہن سازی کی اور بالآخر انہیں ملحد بنا کر چھوڑا۔یوں اسلامی دنیا میں مردوں کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ عورتیں بھی، اسلام کے جداگانہ صنفی احکامات (جو فطرت کے قریب انتہائی خوبصورت احکامات ہیں)کو بنیاد بنا کر خدا کے وجود سے انکار کرنے لگیں، پھر اس کا لازمی نتیجہ خاندانی نظام کا خاتمہ اور فری سیکس کا فروغ نکلا۔ کیوں کہ جنسی زندگی سے متعلق آداب انسان کواللہ تعالیٰ نے انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام ہی کے واسطے سے بتلائے ہیں۔ اور جب ایک مرد یا عورت خدا اور انبیاءکا انکار کردے تو پھر اس کی راہ میں ایسی کون سی رکاوٹ ہے جو اسے دنیا کی کسی بھی عورت یا مرد سے آزادانہ صنفی تعلقات سے روک سکے اورجب حیات بعد الموت اور محاسبہ کا یقین اٹھ جائے توپھرانسان اسی دنیاوی زندگی کو لذت کا جہان بنانے کے لیے نئے نئے راستے کیوں نہ نکالے؟ پھر تو ہم جنس پرستی کاطوفان بھی اٹھے گااور اس سے آگے بڑھ کر محرم خواتین کا تقدس بھی پامال کیا جائے گا(انتہائی لرزہ خیز اور شرم ناک خبر یہ ہے کہ ایک یورپی بائیس سالہ Atheist (ملحد) نوجوان نے اپنی گرینڈ مدر (دادی) سے قانونی شادی کی اور اب ان دونوں کی اولاد بھی ہے)۔

بات کو سمیٹتے ہوئے ہم آخر میں یہ کہیں گے کہ یوں تو ٹی وی وغیرہ کے مقابلے میں انٹر نیٹ کی شرعی حیثیت شروع سے جواز کی رہی ہے، لیکن مندرجہ بالا عبرت انگیز حالات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے منفی پہلو، اس کے مثبت پہلو سے کئی گنا بڑھ کرسامنے آ رہے ہیں۔خصوصاً ان نوجوانوں کے لیے یہ بے حد خطرناک ہیں، جن کے ذہن سادہ سلیٹ ہوتے ہیں اورجن پر کوئی بھی اپنے نظریات کی تحریر لکھ سکتا ہے، وہ تحریر جو اکثر اَن مٹ ثابت ہوتی ہے۔اس لیے نوجوانوں کو نیٹ استعمال کرنے کی کھلی آزادی دینے کی بجائے ان کی نگرانی بہت ضروری ہے۔

اس کے علاوہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک مسلمان الحاد کی گھاٹیوں میں تب ہی اترتا ہے، جب اسے شکوک و شبہات اور وسوسے گھیر لیتے ہیں، اور وہ کسی سے اس کا جواب نہیں پاتے یا پھر اپنی عقل پر بھروسہ انہیں کسی سے کچھ پوچھنے نہیں دیتا، یوں اندر ہی اندر شیطانی وسوسے بالآخر خدا کے انکار کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وسوے ہر ایک کو آتے ہیں، اس لیے کبھی کوئی نوجوان اپنے وسوسے کا اظہار کرے تو اسے سختی سے جھٹلانے کی بجائے بڑی حکمت عملی سے اس کا ذہن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی بے کار ہے تو اسے مصروف کر دینا چاہیے کہ خالی گھر میں شیطان ڈیرہ ڈال ہی لیتے ہیں۔ اگر کوئی بہت بری طرح وسوسوں کا شکار ہو، تو کسی بڑے عالم دین کے پاس لے کر جانا چاہیے، کیوں کہ کبھی براہِ راست جواب کی بجائے ایسے شک کے مریضوں کا علاج صرف الزامی جوابات سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے خیال میںہر شبہ، ہر شک کا حل محبت ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت پیدا کرنے کے لیے، اللہ والوں کی صحبت بہت ضروری ہے۔ انسانوں کی نفسیات یہی ہے کہ جب ان میں محبت پیدا ہوتی ہے تو پھر ان کے سارے شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں، اور محبت کا مرکز عقل نہیں، وجدان ہے۔ نری عقل کے ذریعے محبت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،عقل محبت کے فلسفے اور راز کو نہیں سمجھ سکتی۔اس کے لیے وجدانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ پھروجدان خود گواہی دیتا ہے کہ ربّ کائنات بندے کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔اسی وجدان کو بیدار کرنے کے لیے اللہ والوں کی صحبت ازحد ضروری ہے، اور اللہ والے ملتے ہیں دینی مراکزمیں،مدارس ، خانقاہوں میں اور اللہ کے راستے میں۔

ان سطور کے ذریعے ہم اربابِ اختیار سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک کمیٹی بنا ئی جائے، جو ایسی تمام الحاد کی مبلغ ویب سائٹس اور بلاگز کی فہرست بناکر حکومت کو پیش کرے، تا کہ ان تمام ویب سائٹس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مکمل پابندی لگائی جائے، خصوصاً یوٹیوب کی طرح فیس بک پر تو مستقل پابندی لگائی جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو مسلمانانِ پاکستان کوبنگلہ دیش کی طرح بھرپور احتجاج کر کے حکومت پر دباو ¿ ڈالنا چاہیے کہ یہ ایمان و کفر کا مسئلہ ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام فتنوں سے ساری امت مسلمہ کی حفاظت اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے، آمین۔
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186366 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More