آج کیا پکاؤں۔۔؟

مشرق میں عموماخواتین کا اور مغرب میں خصوصا حضرات کا ،یہ صدیوں پُرانا مسئلہ رہا ہے کہ’’ آج کیا پکایا جائے‘‘۔مگر داد دینے پڑے گی ان سب گھریلوخواتین (اور حضرات کو بھی )کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے ہیں ۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم نے اپنے میاں جی کے دفتر جانے سے قبل پوچھا،آج کیا پکاؤں ؟۔انہوں نے ہمارے سراپا سوالیہ نشان بنے چہرے کی طرف دیکھا اور جھنجھلا کر بولے،کتنی دفعہ کہا ہے کہ جب کام پر جانے کے لئے نکلنے لگوں،تو ایسے سوال مت کیا کرو۔جو جی میں آئے پکا لینا (ویسے آپس کی بات ہے کہ ان کو بھی اس سوال کا جواب نہیں آتا)مگر پھر بھی ہم نے ان کی طرف محبت پاش نظروں سے دیکھا اور اک شانِ بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصومانہ انداز میں پوچھا۔اچھا !تو آج خیالی پلاؤ،تھالی کا بینگن یا یہ منہ اور مسور کی دال کیسی رہے گی۔؟(واﷲ !،یہ کہتے ہوئے ہمارا اشارہ ہرگز ان کی طرف نہیں تھا)انہوں نے ہمیں غصیلی نظروں سے گھورا، ہم تھوڑا سہم سے گئے،مگرڈر اور خوف ظاہر کئے بغیر کہا،اچھا ٹھیک ہے اب ٹماٹر کی طرح لال پیلے تو نہ ہوں ،ہم خودہی کچھ سوچ و بچار کرلیتے ہیں۔

بچوں کو ناشتہ دے کر اسکول بھیج دیا، کام کاج سے فارغ ہو کر گھر کے ایک کونے میں ’’اداس بلبل‘‘کی طرح بیٹھ کر سوچنے لگے ،کہ آخر آج پکایا کیا جائے۔۔تھوڑی ہی دیرمیں ہم خوشی سے چلائے۔وہ مارا۔!آج مرغی پکا لیتے ہیں ،سبزی کی طرح ،نہ چھیلنی پڑے گی اور نہ ہی کاٹنی ۔بازار سے آئی ۔دھوئی ۔اور پکنے چڑھادی۔

اگلے دن ہم پھر اسی صورتحال سے دوچار تھے،کافی غورو خوض کے بعد میاں صاحب کے لئے ان کی ایک پسندیدہ ڈش تیار کی (یہاں میاں صاحب سے مُراد ،وہ والے خادم اعلی ہرگز نہیں ہیں )خیر ان کے آنے پر کھانا قرینے سے چُن دیا ۔بُلانے گئے تو بولے ،’’بھئی ابھی تو بھوک نہیں ہے‘‘۔ہمارا ماتھا ٹنکا دال میں کچھ کالا نظر آیا ۔روایتی بیویوں کی طرح جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ پوری کی پوری دال ہی کالی ہے ،موصوف چائینز کھا کے آرہے تھے ۔

پھر ایک دن اور آگیا ،آج تو واقعی کچھ سُجائی نہ دے رہا تھا کہ کیا پکایا جائے،جب کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا تو اطمینان سے کمرے میں آکر بیٹھ گئے،ایک سرد آہ بھری ، اور پرانے وقتوں کو یاد کرنے لگے ،۔۔تب کتنے مزے ہوا کرتے تھے ، نہ مہنگائی کا رونا تھا نہ کھانا پکانے کی فکر ۔۔جب بھوک لگی سامنے درخت سے دو،چار پتے توڑے اورکھالیئے،کسی دن عیاشی کرنے کو دل کیا توہمسائے کی دیوار پھاندی ۔۔۔اور املی کے دو چار پتے اُڑالیئے۔۔بالوں اور چہرے کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کا خیال آیاتو ایلو دیرا آدھی توڑ کے چہرے اوربالوں پہ لگائی ،باقی ماندہ دوپہر کے کھانے کے لئے رکھ دی،پیٹ میں درد اُٹھا تو پودینے کے پتے اُبال کر قہوہ بنالیا ۔

اس سے پہلے کہ ہم سوچ کی وادیوں میں مزید آگے بڑھتے اچانک دروازے کی گھنٹی بجی اوہو!یہ اس وقت کون آگیا؟دیکھا تو پڑوسن کا بچہ ہاتھ میں ساگ اور پالک لیئے کھڑا تھا ،سلام دعا کے بعد بولا’’اماں نے یہ آپ کے لیئے بھجوایا ہے ،گاؤں سے آیا تھا ،کچھ بچ گیا،اماں نے کہا کہ آنٹی کو دے آؤ۔۔ہم بچے کی اس سچی بات پر غصے کے کڑوے گھونٹ پی کر رہ گئے۔چاروناچار شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا کہ چلو آج کا دن گزر جائے گا۔

ابھی ہم دروازہ بند کرکے پلٹے ہی تھے کہ گھنٹی ایک دفعہ پھر بج اُٹھی ،دروازہ کھولا تو سامنے ماسی دودھ کے دو تین برتن سر پرلیئے کھڑی تھی۔۔۔آج پانی میں دودھ کچھ زیادہ لگ رہا تھا ، ہمارے استسفار پر بولی،(پنجابی سے اُردومیں ترجمہ اختصار کے ساتھ)بس جی کیا کریں ؟برف ڈالنی پڑتی ہے، بعد میں یہ پانی بن جاتا ہے ، قسم لے لو بی بی جی ،اگر الگ سے زرا سا بھی پانی ڈالا ہو۔ماسی نے معقول سائینسی فارمولا دلائل سے بیان کیا ،اس کے بعد اِدھراُدھر کی خبریں کسی اخباری رپوٹر کی طرح سنانی شروع کر دیں ،ہم نے ہاتھ کے اشارے سے اسے رُکنے کا سیگنل دیا،دوسرے ہاتھ سے دروازہ بند کیا ،ماسی گئی تو سوچا توبہ!کتنی خبریں ہوتی ہیں اس کے پاس ۔۔اس کو تو کوئی اپنا ،نیوز چینل کھول لینا چاہیے۔۔ایمان سے چلتی پھرتی اخباری رپوڑر ہے۔بھلا اس سے زیادہ تیز ، اس سے زیادہ آگے اور اس سے زیادہ ہر ایک پر کس کی نظر ہو گی۔جیوماسی!۔

ہم نے اپنے خیالات کو جھٹکا اور ساگ کو دھونے کے بعد کاٹنے کی غرض سے چھری اور بڑی سی پرات لے کر صحن میں آلتی پالتی مارر کر بیٹھ گئے۔اُف۔! اب ایک ایک پتے کو کون چنے ،ہم نے ساگ کو ایک ترتیب سے رکھا اور چھری چلادی ،ساگ کاٹتے ہوئے چرر ،چرر کی مدھر آواز نے ہمیں مسحور کر دیا۔

بچے اور میاں جی، مقررہ وقت پر گھر میں موجود تھے،ہم نے قرینے سے ٹیبل سجائی،ساگ ہنڈیا سے نکال کر رکھا ،ہمارے اہل وعیال نے جو ساگ دیکھا تو چلائے۔ہم نے یہ کھانا نہیں کھانا۔کیوں بھئی۔؟کیا سکول سے مار اور دفتر سے ڈانٹ کھا کر آرہے ہیں۔۔ہم نے بچوں کو غصے سے اور اُن کو پیار سے پوچھا ۔۔سب ایک ساتھ بولے بس ہم یہ’’ پٹھے ‘‘نہیں کھائیں گے،۔ہیں۔ہیں کیا کہا۔؟؟کیا تم سب کی عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے ۔؟یہ تو ہمارے دیس پنجاب کی خاص ثقافتی ڈش ہے ، اب ہماری یہ ہی تو ایک پہچان رہ گئی ہے۔ہم حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ جزباتی سے ہوگئے،مزید قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔اس میں spinach بھی تو ہے، اسے تو پاپا بھی شوق سے کھاتا ہے ،دیکھا نہیں ٹی وی میں۔۔پاپا کے نام پر میاں جی چونکے ،ان کے چہرے پر حیرت نمایاں تھی ، احتجاجا بولے ارے بھئی ،میں کب کھاتا ہوں ۔؟۔اوہو۔!آپ کا نہیں کہا۔وہ جو کانگڑی سا نہیں ہے popay the sailor manدیکھا نہیں کیسے پالک کھاتا ہے ،اس میں آئرن بھی تو ہے۔ساگ نہیں کھاؤ گے تو بڑے کیسے ہو گے۔؟ہمارے یوں قائل کرنے پر سب نے جیسے تیسے کر کے کھانا زہر مار کرلیا۔

اگلے دن گھر کی صفائی ابھی شروع ہی کی تھی کہ اچانک فقیر نے دروازے پر آکر صدا لگائی بی بی جی، کچھ کھانے کو دے دو،ساتھ ہی کھانا کھلانے پر مشروط ،دعا دینے کا طویل سلسلہ شروع کردیا،ہم دروازے پر گئے،فقیر سے پوچھا کیا کل کا سالن کھا لو گے ۔؟فقیر خوشی خوشی بولا۔۔ہاں جی۔ ،ہم نے اطمینان سے جواب دیا۔۔اچھا تو پھر کل آنا۔۔

آج ہم بازار گئے،گوشت اور سبزی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں جیسے وہاں موجود کسی خلائی مخلوق سے کہہ رہی ہوں ــ،’’اُتے ای رہنا۔تھلے نا آنا،قسمے !بڑی ظلالت اے(یہ انگلش سے پنجابی میں اختصار سے اور بڑی مشکل سے ترجمہ کیا ہے۔)

آلو ،جو کہ ایک غریب کی سبزی سمجھی جاتی ہے ،(حالانکہ اس کا غریب کے گھر سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔)60سے لے کر70روپے فی کلو تک فروخت ہورہا تھا۔مرغی کاگوشت بھی ہاتھ سے بھاگا جاتا تھا۔دھنیہ، سبز مرچ جسے عوام مفت کا مال سمجھتی رہی تھی،اب سبزی کے ساتھ فری نہیں بلکہ پیسوں کے ساتھ الگ سے فروخت ہوتا ہے۔بہت عیاشی کر لی عوام نے ،۔۔۔۔بازار سے واپسی پر پرس ہلکا اور دل پر بھاری بوجھ تھا۔

اگر مہنگائی کا یہ ہی حال رہا تو کچھ عرصہ کے بعد مائیں اپنے بچوں کو سبزی،پھلوں اور گوشت کی تصویریں دیکھا دیکھاکر ڈرایا کریں گی،۔مانا کہ مہنگائی ہے ۔۔مگر جنس کا تو کم از کم کوئی حجم ہو،۔ایک روپے کی ،ایک ٹافی اور وہ بھی یہ زرا سی ،مُنہ میں رکھتے ہی گھل جائے۔۔ذائقہ محسوس ہوا نہیں کہ ختم ۔اور تو اور پیکٹوں میں چیز کم اور ہوا زیادہ بھری ہوئی ہوتی ہے، ۔۔کھولو ،تو اس کے کونے میں کہیں دور ،چپس یا نمکو پڑے ملیں گے ،۔ بعد میں بچے اسی پیکٹ کو پٹاخے کی طرح پھاڑ کر باقی ماندہ خوشی پوری کر لیتے ہیں۔۔پتہ نہیں کس ماہرِمعاشیات نے یہ مشورہ دیا ہے ۔کہ غریب عوم کو جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لو ، قیمتیں بڑھا دو ۔۔سائزگھٹا دو اور پھر خوب منافع کماؤ۔۔واہ صاحب!واہ۔۔بہت خوب۔!کیا ہی اچھی logicہے۔

معاف کیجئے گا، شک سا ہو رہا ہے کہ ہم کہیں پھر سے جذباتی تو نہیں ہو رہے۔۔ غالبابھوک کی شدت نے غریبوں کی بھوک کا احساس دلادیا ہے ۔۔اس میں ہمارا بھی کیا قصور ۔۔مہنگائی ہی اس قدر ہو گئی ہے کہ الامان الحفیظ۔۔! ہمارے ملک میں کتنے ایسے غریب ہیں کہ جن کو دو وقت کی روٹی تک بھی نصیب نہیں،ہم ان کا دکھ محسوس کر کے مزید دکھی ہو گئے،اسی دوران گھڑی دیکھی تو اوسان خطا ہو گئے ،سب کے آنے کا وقت ہوچکا تھا ۔بچوں اور میاں نے آتے ہی کھانے کی فرمائش کر دی ،ہم نے ایک سرد آہ بھری،لہجے میں دکھ کی آمیزش شامل کی اور کہا،۔

۔آج کیا تاریخ ہے ۔۔؟سب نے اس غیرمتوقع سوال پر حیرت سے دیکھا ۔!۔ارے بھئی، آج 28مئی،غربت کا عالمی دن ہے،اس لئے ان سے اظہارِیکجہتی کے لئے ،آج ہم نے کھانا نہیں بنایا۔

کیا۔؟سب ایک ساتھ چلائے۔،ان کی آواز پورے گھر میں گونج اٹھی،۔اس دن بچوں نے بسکٹ پر اور میاں نے صبر کے گھونٹ پی کے گزارا کیا
مریم ثمر
Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 3 Articles with 2013 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.