ڈاؤ یونیورسٹی کی تیار کردہ سانپ کے کاٹے کی ویکسین کو
عالمی لیبارٹریز نے معیاری قرار دے دیا۔ ڈاؤ یونیورسٹی نے عالمی اداروں کی
تصدیق کے بعد مقامی طور پر ویکسین کی تیاری کے لئے، ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا
میں ویکسین تیار کرنے کے لئے خودکار (کمپیوٹرائزڈ) مشین لگانے کا فیصلہ کر
لیا۔
جنگ نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ ویکسین ڈاؤ یونیورسٹی کے شعبہ لیبارٹری
انیمل سائنسز نے تیار کی ہے۔ اس ویکسین کی تیاری کے بعد اب ڈاؤ یونیورسٹی
دیگر ویکسین، جن میں اینٹی ریبیز، اینٹی ٹیٹنس، اینٹی خنان، بلڈ فیکٹرز،
ویٹرنیری ویکسینز اور ڈائیگنوسٹک کٹس کی تیاری میں بھی مصروف ہے۔
|
|
ڈپارٹمنٹ آف لیبارٹری انیمل سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر ضمیر احمد کے مطابق
سانپ کاٹے کی ویکسین کے بعد دیگر ویکسین بھی یکے بعد دیگرے سامنے آئیں گی
اور یہ تمام بھی مقامی اور بین الاقوامی تحقیقی اداروں کی تصدیق کے بعد ہی
مارکیٹ میں لائی جائیں گی۔
ڈاکٹر ضمیر احمد نے کہا کہ ڈپارٹمنٹ آف لیبارٹری انیمل سائنسز کا قیام
2008ء میں عمل میں لایا گیا جس کا مقصد مختلف امراض کی ویکسین جانوروں پر
تحقیق کے بعد تیار کرنا تھا تاکہ ہم ویکسین کی تیاری میں خودکفیل ہوسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال 3 سے 4 ہزار افراد سانپ کے کاٹنے کی
وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی تک ہمارے یہاں سانپ کے
کاٹے کا جو سیرم لگایا جا رہا ہے وہ باہر کا ہوتا ہے، جو مقامی سانپوں کے
زہر کے لئے اثر نہیں دکھاتا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے یہاں سعودی عرب، ایران اور بھارت سے سیرم آتا
ہے، جو ان کے اپنے سانپوں کے زہر کے مطابق تیار کیا جاتا ہے جبکہ یہ اقسام
باآسانی دستیاب نہیں ہوتے اور ان کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
|
|
ڈاکٹر ضمیر کے مطابق ملک میں ہرسال 40 ہزار والیم (سانپ کے کاٹے کے)
منگوائے جاتے ہیں۔ ملکی طور پر سانپ کے کاٹے کی ویکسین تیار ہونے سے ہمارا
کثیر زرمبادلہ بچے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا شعبہ پاگل کتے کے کاٹے کا
سیرم بھی تیار کر رہا ہے۔
ڈاکٹر ضمیر کے مطابق ملک میں اینٹی ریبیز کے 2 لاکھ وائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاگل کتے کے علاوہ یہ شعبہ خناق، بچھو کے کاٹے، سمندری سانپ، شہد کی مکھی
کا سیرم، خون کے اجزا بنانے اور علیحدہ کرنے پر بھی کام کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خون کے اجزا کی خون کے کینسر، بچوں کی پیدائش، ڈینگی،
ہیپاٹائٹس کے امراض میں ضرورت ہوتی ہے۔ سانپ کے کاٹے کی ویکسین کے بارے میں
ڈاکٹر ضمیر احمد نے بتایا کہ یورپی یونین، ساؤتھ امریکہ کی لیبارٹریز نے اس
ویکسین کے معیار کی تصدیق کر دی ہے جس کے بعد اب یونیورسٹی اس ویکسین کی
پروجیکشن کے بارے میں منصوبے پر کام کر رہی ہے جبکہ ویکسین کے خودکار نظام
کے لئے باہر سے مشین منگوائی جا رہی ہے جو آئندہ ماہ تک پہنچ جائے گی۔
|