وینزویلا میں ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات میں
آنجہانی صدر ہوگوشاویز کے نائب وجانشین نیکولس مادورو معمولی فرق سے کامیاب
ہو کر وینزویلا کے صدر منتخب گئے ہیں۔ انتخابات میں ایک کروڑ 90 لاکھ سے
زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ نیکولس مادورو نے 50.66 فیصد جبکہ
ان کے مدمقابل امیدوار اینریک کیپریلس کو 49.1 فیصد ووٹ ملے، اس طرح قائم
مقام صدر نیکولس مادورو صرف چند لاکھ ووٹوں کے فرق سے صدارتی انتخابات جیت
گئے ۔ مادورو کی کامیابی کا سن کر ان کے حامی سڑکوں پر نکل آئے ،ان کے حق
میں نعرے لگاتے رہے اورفتح کا جشن منایا۔ انتخابات میں ان کے مدمقابل
اینریک کیپریلس نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ووٹوں
کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔جبکہ نیکولس مادورو نے انتخابات میں فتح
کو شفاف اور قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سابق صدر ہوگو شاویز کی
پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔
نیکولس مادورو کو سابق صدر ہوگو شاویز نے مرنے سے پہلے خود ہی قائم مقام
صدر منتخب کیا تھا۔نیکولس خود کو ہوگو شاویز کا جانشین اور بیٹا قرار دیتے
ہیں۔کیونکہ نیکولس مادورو نے ہوگو شاویز کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزارا ہے
اوروہ ہوگو شاویز کی پالیسیوں کو شروع سے ہی پسند کرتے رہے ہیں،اور ہوگو
شاویز کے نظریات و افکار کے بہت بڑے داعی بھی ہیں،ہوگو شاویز سپر پاﺅر کہے
جانے والے امریکا کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور ان کے روبرو
سینہ تان کر حکمرانی کرتے رہے۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی انتہا پسندانہ
اور جنگ پسندی پر مبنی جارحانہ پالیسیوں کی شدید مخالفت کرتے رہے۔ہوگوشاویز
نے اپنے دوراقتدار میں غریب پرور معاشی پالیسیاں اپنائیں جس کی وجہ سے
سرمایہ دارطبقہ اسے اپنا مخالف سمجھتا تھا۔ وہ اسرائیل کی فلسطین کش
پالیسیوں کے بھی شدید نقاد تھے اور فلسطینی نصب العین کی ہر پلیٹ فارم پر
حمایت کی۔ ہوگوشاویز نے اسرائیل کو ایک استعماری ملک اور اسرائیلی حکومت کو
ایک ”نسل کش“ حکومت قرار دے دیاتھا۔ ہوگو شاویز نے کہا تھا کہ اسرائیل
فلسطینیوں کی نسلی کشی کر رہا ہے، اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت
ہے۔ اسرائیل کو دوسرے ملکوں کی طرح جینے کا حق حاصل ہے لیکن اسے بھی
فلسطینیوں کی آزادی کا احترام کرناچاہیے۔ اس نے بے شمار ایسے بہادرانہ
اقدامات کیے جو صرف ہوگو شاویز کا ہی خاصا تھے۔وینزویلا کے عوام نے شاویز
کے نعرے کی مکمل حمایت کی، اس کا ساتھ دیا، اسی لیے ہوگو شاویز14سال تک صدر
کے عہدے پر فائز رہے۔ جب وہ 6دسمبر 1998ءکو پہلی بار وینزویلا کے صدر منتخب
ہوئے، ان کی ہر دلعزیز اور غریب پرور پالیسیوں کے سبب عوام نے انہیں لگاتار
تین بار صدر منتخب کیا۔ ہوگو شاویز نے علالت کے تین ماہ کے دوران نیکولس
مادورو کو اپنا جانشین بنایا تھا۔نیکولس مادورو صرف اس لیے شاویز کے جانشین
بنے اور ان کے عہدے پر نامز و ہوئے کہ وہ شاویز کے کٹر وفادار تھے اور ان
میں بھی ہوگو شاویز کی سی خصوصیات پائی جاتی تھیں اوراسی لیے ہوگو شاویز سے
محبت کرنے والے عوام نے ان کے جانشین کو انتخابات میں کامیاب کروایاہے۔
1997ءمیں ہوگوشاویز نے جب نئی پارٹی کی بنیاد رکھی تو مادورو نے اس
میںشمولیت اختیار کی۔ 1992ءمیں جب شاویز ایک ناکام بغاوت کے باعث جیل میں
تھے تو مادورو نے گلیوں میں ان کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہروں کی مہم کی
قیادت کی تھی اور مادورو کی اہلیہ سیلیا قانون دانوں کی اس ٹیم کی قیادت
کررہی تھیں جس نے ہوگو شاویز کو دو سال کے اندر جیل سے رہا کروانے میں مدد
دی تھی۔ اس نے ہی شاویز کے خلاف بغاوت کو شکست دی تھی۔ میکسکو میں وینزویلا
کے سابق سفیر ولادیمیر ولیگاس کا کہنا ہے کہ مادورو نے ہمیشہ شاویز کی غیر
مشروط پیروی کی لیکن اس لیے نہیں کہ وہ اس کے علاوہ کچھ اور کرنے کی صلاحیت
نہیں رکھتا۔
انتخابات میں نیکولس مادورو کے کامیاب ہوجانے کے بعد غالب گمان یہی ہے کہ
وہ ہوگو شاویز کی پالیسیوں پر ہی عمل پیرا رہےں گے، جن میں نیشنلائزیشن،
معیشت پر سخت ریاستی کنٹرول، اپنے اتحادیوں اور مسئلہ فلسطین کی حمایت اور
امریکا کے خلاف سخت رویہ اپنانا شامل ہے۔ مادورو کے سابقہ ریکارڈ سے لگتا
ہے کہ وہ واقعی ہوگو شاویز کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے والے شخص ہیں۔
مادورو کے صدر منتخب ہوجانے کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا کے راستے میں بدستور
ہوگو شاویز کے بعد نیکولس مادورو کی شکل میں مستقل دیوار کھڑی رہے گی
کیونکہ نیکولس مادورو شاویز کی پالیسیوں کو ترک نہیں کریں گے۔ نیکولس
مادورو ہوگو شاویز کی جگہ صدر کے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنے باس کی حکمت
عملی اور پالیسیوں پہ عمل پیرا رہے ہیں۔ انہی کا طرز تقریر اور امریکا
مخالف ویسا ہی لہجہ استعمال کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی شاویز کا طرز
اختیار کیے رکھنا ضروری ہوگا۔ کیونکہ عوام عوام نے انہیں ہوگوشاویز کی
پالیسیوں پر عمل کرنے کی وجہ سے کامیاب کروایا ہے اور عوام یہی چاہےں گے کہ
وہ آئندہ بھی ہوگوشاویز کے راستے پر چلیں۔نیکولس مادورو نے انتخاب جیتنے کے
بعد خود بھی ہوگو شاویز کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اگرچہ ان کی شخصیت ہوگو شاویز کی مشہور کرشمہ ساز شخصیت کے قریب نہیں پہنچی
لیکن نیکولس مادورو دھواں دار تقریروں، تاریخی حوالہ جات، دھوکہ داروں اور
فریبی حریفوں پر الفاظ کے تیز وتند کوڑے برسانے میں انہی کی نقل کرتے ہیں۔
مادورو نے سرکاری ٹیلیویژن پر کہا تھا کہ ہوگو شاویز نے ہمیں جو رستہ
دکھایا ہے ہم اپنے مقاصد، منصوبوں کی تکمیل کے پروگرام پر سختی کے ساتھ
کاربند ہیں۔ ہمارے عوام ایک ایسے سماجی ماڈل کو مستحکم کریں، جو سب کو
تحفظ، معاشی استحکام، ترقی اور حقیقی جمہوریت بخشے گا۔ہوگو شاویز کی طرح
مادورو نے بھی نجی کاروبار کو وینزویلا کے مسائل کا سبب بتایا تھا جو ذخیرہ
اندوزوں اور سٹے بازی پر مبنی ہوتا ہے۔ ان کے نظریات بھی وہی ہیں جو ہوگو
شاویز کے تھے لیکن وہ ان کے دلنشیں انداز کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔
وزیر خارجہ کی حیثیت سے نیکولس مادورو نے دنیا بھر کا سفر کیا اور امریکا
کی پالیسیوں کی کھل کر مذمت بھی کی۔ وزیر خارجہ کی حثیت سے نیکولس مادورو
نے ہمیشہ ہوگو شاویز کی ہدایت کی پیروی کی اور انہی کے دیے گئے خطوط پر کام
کرتے رہے۔ وہ امریکا کے ساتھ وہی رویہ اپنائیں گے جو ان کے ”باس“ ہوگو
شاویز نے اپنایا تھا، اس کاواضح ثبوت شاویز کی موت پر سامنے آیا جب
وینزویلا کے نائب صدر نیکولس مادورو نے ہوگوشاویز کی موت کا ذمہ دار امریکا
کو ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے انہیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے
زہردیا ہے جبکہ دو امریکی سفیروں کو جاسوسی کے الزام میں ملک بدر بھی
کردیاگیا۔ نیکولس مادورو نے کہا کہ دونوں سفیروں نے جاسوسی کرکے ہوگوشاویز
کو زہر دینے میں کردارادا کیا۔ اب ہوگو شاویز کے جانشین نیکولس مادورو
وینزویلا کے صدر تو بن گئے ہیں،اب دیکھتے ہیں کہ نیکولس مادورو کس حد تک
اپنے باس ہوگو شاویز کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ |