جدید شاعری کے ترجمان:ناصر ملک

ہر دور کاادب اپنے عہدکی تہذیب اور زندگی کا عکاسی ہوتاہے اوراپنے دورکی عصری حیثیت کو پیش کرتاہے جس کا اظہار کم وبیش زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتاہے۔اس حقیقت کو وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں جو ادب برائے ادب کے قائل اوراس کا رشتہ ذہن اور زندگی سے زیادہ کتاب اور لغت سے جوڑنا چاہتے ہیں بقول ڈاکٹر محمد حسن ’’انفرادی ذہن بھی بالآخر سماجی زندگی کا آئینہ دار ہوتاہے اور وہ ادیب بھی جو اپنی نفسیاتی الجھنوں کی عکاسی کرتے ہیں دراصل زندگی ہی کے عکاسی ٹھہرتے ہیں ۔‘‘ادب انسانی جمالیات او راس کے فنی شعور وصلاحیت کا مکمل مظہر و عکاسی ہوتاہے ۔انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ فنی شہہ پارے کے مطالعہ کے ذریعہ خود کو سنواریں اوراس کو قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھیں۔

کسی ملک کی تاریخ میں تہذیب سے ہی اس کی شناخت ہوتی ہے۔دیکھا جاتا ہے کہ تہذیب کی اساس کیاتھی ،کس حد تک اس میں اخذ وقبول کی صلاحیت تھی اور کس حد تک دوسرے تہذیبی دھاروں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی سکت یا قوت تھی۔ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے مختلف تہذیبی دھاروں سے اپنی شناخت یا پہچان بنائی ہے اورہزاروں برس کی اقوام عالم کی تاریخ میں اگر آج ہندوستان زندہ ہے تو اس کا سبب اسکے مختلف علاقوں کے تہذیبی دھارے تھے جوایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود مشترکہ عناصر بھی رکھتے تھے۔ان تمام تہذیبوں کے مختلف رنگ تھے مگر سب مل کر ایک رنگ تھا جسے ہندوستانی تہذیب کہاجاتاہے ۔بالکل اسی طرح جیسے انسانی وجود میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں مگرسب ایک ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔سنگم پر گنگا اور جمناکے پانی کا رنگ مختلف ہوتاہے مگر بہر حال وہ ایک ہوتاہے ۔

اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گزرتارہا ہے ۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور ادیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں اور ترقی کے راستے پر اسے گامزن کرتے رہے ہیں ۔ ناصرملک میں شاید ایک بات تھی کہ جس نے ان میں اوائل طالب علمی سے ہی ہر شئے کو غور سے دیکھنے پر مجبور کیا ۔ غور وفکر اور ذہنی ورزشیں اوائل عمری سے ہی ان کے اندر موجود تھیں ۔ تجسس کے جذبے نے انہیں آج اس مقام پر پہنچا دیا کہ ہندو و پاک میں ان کی شہرت اور ان کے چرچے اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اردو ادب کے کونے کھدروں میں جھانک جھانک کر ان کا مطالعہ کیا ۔ میں جانتا ہو ں کہ ہماری زبان کا دامن جتنا وسیع ہے اس کے تمام گوشوں پر نظر ڈالنے کی صلاحیت کسی ایک طالب علم میں نہیں ہوسکتی لیکن یہ بھی یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ناصر ملک اپنا فرض پوری ایمانداری سے ادا کرنا جانتے ہیں۔ اور مضامین قلم بند کر تے وقت انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے ۔ انہیں قطعی یہ دعویٰ نہیں کہان کے یہ مضامین اپنے موضوع کو پوری طرح واضح کر سکتے ہیں لیکن اگر میرے مضامین کے ذریعہ کسی اہم موضوع کی نشاندہی بھی ہو جائے تو میرے لیئے یہ بات باعث تسکین ہو گی ۔ ایک زمانہ تھا اردو شعر و ادب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اردو شاعری میں گل و بلبل اور لب و رخسار کی باتیں ہی قلمبند کی جاتی ہیں ۔ اسی طرح اردو ادب عشقیہ داستانوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس سلسلے میں غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں اور اب اردو شعر و ادب میں زندگی کے سلگتے مسائل سے بھی بحث کی جارہی ہے ۔اس دورکے ادب کامطالعہ کرتے وقت ہماری جن ادیبوں اور شاعروں میں جاتی ہے ان میں ناصر ملک سرفہرست ہیں ۔

ناصر ملک ایک روشن خیال ادیب معروف افسانہ نگار، تاریخ داں، محقق اور میٹھے لہجے کے شاعر ہیں۔ ان کا نام بہت طویل عرصہ قبل تحقیقی ادب اور شاعری کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔انہوں نے کئی شاہکار تخلیق کئے اور اپنی نثر نگاری، ناول نگاری، شاعری اور صحافتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لفظوں سے ایسی خوبصورت تحریروں کو ادب کا حصہ بنایا کہ ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں انہیں انفرادی مقام حاصل ہوگیا۔

ناصر ملک 15 اپریل 1972ء کو چوک اعظم(ضلع لیہ) میں پیدا ہوئے۔1987ء میں میٹرک کا امتحان اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ 1989ء تک گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں زیرِ تعلیم رہے۔ انٹر میڈیٹ کے بعد گورنمنٹ ہیلتھ ٹیکنشن کالج ڈیرہ غازیخان میں داخلہ لیا اور 1991ء میں پنجاب میڈیکل فیکلٹی ٹاپ کرتے ہوئے کالج سے فارغ التحصیل ہوئے۔ گریجویشن اور ایم اے (اسلامیات) کرنے کے بعد سلسلہ تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ ناصرملک کے تعلیمی سفر پر اگرہم نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ طالب علمی کے زمانہ سے ہی ذہین وفطین تھے اور اپنے ہم جماعت طلبا سے ہمیشہ ممتاز رہے۔دورانِ تعلیم اُن کا شمار اچھے اورباذوق طلباء میں کیا جاتا تھا۔

اُن کے ادبی سفر کا آغاز1985ء میں ہوا۔بچوں کے ایک ماہنامہ میں پہلی کہانی شائع ہوئی جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔پھردوسرے بڑے اور اہم رسالوں میں ان کے افسانہ شائع ہونے لگے اور یہ سلسلہ قومی اخبارات تک پھیلتا چلا گیا۔1986ء میں لاہور کے ایک ادبی جریدے ’’آداب عرض‘‘ نے اُن کی فنی وتخلیقی صلاحیتوں کو بے حد نکھار ا۔ابتدائی مراحل میں ہی اُن کے معاشرتی ناول ’’سحر ‘‘ نے اُن کو ملکی سطح پر روشناس کرادیااور مسلسل آج تک ناصر ملک آب تاب کے ساتھ اردو کی خدمت کررہے ہیں۔ ناصر ملک ایک ہی وقت میں اَدب کی کئی اصناف میں کام کرتے ہیں اور یقینا اُن کو ہر صنف میں غیر معمولی دسترس بھی حاصل ہے۔ناصر ملک کا تصنیفی سرمایہ بہت کثیرہے ۔ان کا شمار موجودہ دورکے کثیر التصانیف ادبا میں ہوتا ہے ۔

1993ء کو اُن کی یادداشتوں پر مشتمل پہلی انگلش کتاب "Golden Memories" شائع ہوئی۔1993ء میں اُن کا اردو ناول ’’پتھر‘‘ کتابی صورت میں شائع ہوا۔1995ء میں ان کے شاعرانہ افکار پر مبنی پہلی اردوکتاب ’’یہ سوچ لینا‘‘ شائع ہوئی۔1996ء میں اُنہوں نے اَدبی میگزین ’’شاہکار‘‘ کا ماہ بہ ماہ اجراء کیا جو سال بھر تسلسل کے ساتھ شائع ہوا اورپھرمالی وسائل کی کمی کے باعث تعطل کا شکار ہوگیا۔ 2002ء میں اُن کی تاریخی تحقیق پر مبنی ضخیم کتاب ’’انسائیکلو پیڈیا آف لیہ‘‘ شائع ہوئی۔ 2003ء میں اُنہوں نے پنجابی اَدبی بورڈ لاہور کے لیے اپنی مادری زبان پنجابی میں ’’لیہ دی تاریخ‘‘ لکھی جو کسی وجہ سے شائع نہ ہو پائی۔ حالیہ دِنوں میں اِسی کتاب کو لہراں اَدبی بورڈ لاہور نے شائع کیا ہے جو تاریخ کے وسیع اور دقیق میدان میں اپنی مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔ 2008ء میں اُن کا مجموعہ کلام ’’غبارِ ہجراں‘‘ شائع ہوا جس نے ملکی سطح پر بہت پذیرائی حاصل کی۔ اُن کے کلام کا دوسرا مجموعہ ’’جان، جگنو اور جزیرہ‘‘منظر عام پر آچکا ہے۔ اُن کی ایک کتاب ’’لیمپ والی لڑکی‘‘ جس میں فلورنس نائٹنگیل (جدید نرسنگ کی بانی) کی سیر حاصل بائیوگرافی دی گئی ہے۔شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔

ناصر ملک کی گھریلو مالی حالت بہت بہتر نہیں رہی ۔وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ والد ، ملک محمد بخش، محکمہ جنگلات میں بہ طور فاریسٹر ملازم تھے۔ وہ چونکہ نہائت مذہبی اور شرعی طرزِ زندگی گزارتے تھے، اِس لیے گھر میں محض تنخواہ کی رقم ہی آیا کرتی تھی جو اتنی مضبوط ہرگز نہیں تھی کہ حلقۂ امارت میں شامل کرتی۔ ان کے بھائی اور دو بہنیں ہیں۔والد صاحب نے ملازمت کے سلسلے میں 1965ء میں سرگودھا سے نقل مکانی کی اور تھل کے دِل، چوک اعظم میں سکونت اختیار کرلی۔یہاں صحرائی مناظر، خشکی، غربت اور قحط سالیوں کے علاوہ زندگی کا کوئی منظر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ناصر ملک یہیں پیدا ہوئے،یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر اَدبی سفر کا آغاز کیا۔تصویر کشی اور سنگ تراشی کی طرف اولیں دور میں طبیعت مائل رہی۔ اِس دوران انہوں نے بچوں کیلئے بھی کچھ لکھا اور بعد میں لاہور کے ماہناموں میں افسانے بھیجنا شروع کر دیے۔ شائع بھی ہوتے رہے، حوصلہ افزائی ہوتی رہی اوران کا شوق بڑھتا رہا۔ بعد میں تحقیق کے میدان میں بھی قدم رکھا۔

ناصرملک نے کبھی بھی شعر اور تاریخ کو کہانی پر ترجیح نہیں دی بلکہ ہر تحریر کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ شاعر پہلے تھے، افسانہ نگار اور تحقیق نگار بعد میں۔ وہاں چونکہ شعر وادب کا ماحول نہیں تھا اور اِس ہنر میں کمال کتابوں کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا ، اُن دِنوں یہاں کے اَدبی حلقوں تحقیق و فلسفہ میں ڈاکٹر خیال امروہوی کا نام گونجتا تھا۔ وہ اُن مقتدر ہستیوں سے اَدبی استفادہ حاصل نہیں کر پائے تھے۔ بعد میں ڈاکٹر خیال امروہوی اور ظفر اقبال ظفر جیسے معتبر اور معروف شاعروں کی صحبت اور رہ نمائی حاصل ہوئی تو ان کے ہنر میں پختگی آگئی۔

ناصر ملک نے شعر وادب کے ذریعہ ہی اردو کی خدمت نہیں کی بلکہ اردوزبان کے تحفظ وبقا کے لیے بھی سرگرداں رہے ۔ اردو کے سلسلے میں ان کے افکار ونظریات بہت واضح ہے ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ اردو ادب کے بارے میں لوگ بے طرح مایوسی کا شکار ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دَم توڑ رہا ہے مگر انہیں ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی۔اردو کے مستقبل سے قطعی مایوس نہیں ہے لیکن اردو اکادمیوں اوراداروں کی سرگرمیوں اور ان کے فلاح وبقا پر خرچ کئے جانے والے کثیر رقم سے مثبت نتائج برآمد ہونے کی امید کرتے ہیں ۔ ان کا یقین ہے کہ وہ پاکستان میں فعال ادیبوں کی عدم سرکاری توجہ کے باوجود کی جانے والی کوششوں سے مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہے کہ آنے والا کوئی قریبی عہد اُردو زبان اور اردو اَدب کا ہوگا۔پوری دنیا میں اردو کی صورت حال پر نظر رکھتے ہوئے بطور خاص پاکسانی ادب سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اِس وقت ملک کے اندر لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کی آگ کا جلاؤ بھڑک رہا ہے۔ وطنِ عزیز اور ہماری قوم ایسی ریشہ دوانیوں اور بدعنوانیوں کی متحمل نہیں ہے۔ دُشمن کی چالاکیاں، سازشیں اورخطرناک چالیں ہماری معاشرتی زندگی کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ اس سنگین صورتِ حال کا مقابلہ صرف ادیب ہی کرسکتا ہے کیونکہ ملک کا ہر باشندہ اَدیب پر اعتماد کرتا ہے۔ اُس کے لکھے ہوئے کومعتبر خیال کرتے ہوئے راہنمائی طلب کرتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ شاعروادیب اپنی تحریروں کے ذریعہ معاشرے کو ایک مثبت سمت کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اخوت ومحبت بھی ادیب ہی پیداکرسکتا ہے۔ ویسے بھی ہر ایسے دور میں پاکستانی ادیبوں نے جاندارنہ کردار ادا کیا ہے خواہ اُنہیں کتنی بڑی قیمت ہی ادا کیوں نہ کرنا پڑی ہو۔وہ ادب کے ذریعہ حکومتی سطح پر پھیلی بے ضابطگیوں کو اجاگر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ 1947ء سے شروع ہونے والا سفر ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔حکومتی کارندوں کی بے ضابطگیوں کی طرف انگلی اٹھانے کے ساتھ انسانیت کے اخلاقی زوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ان کے اشعار میں تہذیبی زوال کی پریشانیاں بھی ہیں اور ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل کی آرزو بھی ۔بحیثیت ایک حساس شاعر کے انہوں نے زندگی اور اس کی محرومیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔حکمراں طبقہ سے مصالحت یا سستی شہرت یا مقبولیت کو اخلاقی قدروں کے خلاف تصور کرتے ہیں ۔
مصلحت نے جھکا دیا اس کو
ٹوٹ جاتا تو آج اس کا تھا
٭
تجھ کو تو بازؤں پہ بہت ناز تھا مگر
دستار گر پڑی ہے تری خود کشی کے بعد
دھبے ردائے پاک پہ اتنے لگے کہ آج
دھرتی لرز اُٹھی تِری بخیہ گری کے بعد
غربت گھروں کے چولھے چراغوں کو کھا گئی
ہر آنکھ بجھ گئی ہے تری روشنی کے بعد
رہبر ! زمانِ غار ، یہ روشن خیالیاں
یہ قوم مرگئی ہے تری بُزدلی کے بعد

ہم ہر آنے والی حکومت پر انگشت اُٹھاتے ہیں اور اسے اپنے لئے خدائی عذاب قرار دیتے ہیں مگر کبھی بھی ہم نے یہ سوچنے کی ہمت نہیں کی کہ ہم کونسی فصل بیج رہے ہیں۔ جو شخص جتنے وسائل رکھتا ہے اتنی ہی بے ایمانی کرنے کاسوچتا رہتا ہے۔کوئی بھی شخص تعمیر کا جذبہ نہیں رکھتا بلکہ ہر کوئی اینٹ اکھاڑنے کے چکر میں ہے۔ ایسے میں کوئی بھی حکومت کیا کر سکتی ہے۔ حکومت عوام کے چنے ہوئے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جیسے لوگ ہوں گے ویسی ہی حکومت ان کے گلے پڑے گی۔ معاشرے میں ہر سطح پر بے ضابطگیاں، بے ایمانیاں اور بے قاعدگیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔قانون اور آئین تک محفوظ نہیں۔ آخری طبقے کا فرد بھی قانون توڑنے اور بائی پاس کرنے کے خیالات رکھتا ہے تو ایسے میں کسی بھی حکومت سے ہم یہ توقع کِس طرح کر سکتے ہیں کہ وہ اﷲ دین کا چراغ رگڑ کر ملکی حالات سنوار دے گی۔

ناصر ملک نے اردو کے علاوہ دوسری زبانوں مثلا میں بھی انگریزی، اردو اور پنجابی زبانوں میں بھی لکھالیکن ان کا کثیر اوراہم سرمایہ اردو میں ہی ہے ۔وہ زندگی کے حقیقتوں اور مصائب زمانہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔وہ اپنے اشعار کے ذریعہ ایک پر امید فضا پیدا کرنے چاہتے ہیں جس میں انسان اورانسانیت کا احترام ہو۔
ناصر ملک کی نمایاں کی خصوصیت ان کے موضوعات ہیں وہ عشق وپیمان کی زبان میں دل کے لطیف جذبات کی عکاسی کرتے ہیں ۔ان کو سماج کے اس طبقہ کے ہمدردی ہے ۔جو سامراجیت کے شکار ہیں ۔جن کے ہاتھ میں سخت مشقت کی وجہ سے چھالے پڑگئے ہیں لیکن آج بھی ان کی محنت کی عوض مناسب مزدوری نہیں ملتی ۔مثالیں ملاحظہ ہوں۔
پھر مفلسوں نے رکھ دیے اُن کے سروں پہ تاج
جن رہبروں کا اُن سے کوئی واسطہ نہیں
اے زمیں! دوزخ کدہ ہے تُو غریبوں کیلئے
خون سے تُو رہبروں کو پالتی ہے کس لیے
لہو کی روشنائی سے مرے قاتل نے لکھا تھا
رہِ مقتل سجا دو ، اِک مسیحا ڈھونڈ لایا ہوں

مفلس ہیں، فاقہ کش جو یہاں بدنصیب لوگ
لائیں گے انقلاب وہی عن قریب لوگ
ملت کا خون چوسنے والے امیر تھے
کوٹھی لگے ہیں آج مگر ہم غریب لوگ

مفلس زادوں کو لقمے بھی خون کے بدلے ملتے ہیں
ایسا حاکم کیوں دھرتی نے اپنے رَب سے مانگا تھا
بانجھ کتابوں کی قبریں تو شہر میں ہر سُو پھیلی تھیں
لیکن حرف کو ہم نے گونگے کھیت میں اُگتے دیکھا تھا
کاغذ چننے والے ننھے ہاتھ میں چھالا دیکھا تو
میرے پہلو میں دل ناصر کتنی زور سے دھڑکا تھا

مِرے نصیب پہ روتا ہے آج کیوں منصف
مجاز تھا کہ وہ مجھ کو معاف کر دیتا
اَنا جواز کو کیسے قبول کر لیتی
مجھے شعور ہی اُس کے خلاف کر دیتا

لوگ قیدی ہو گئے ہیں گھر بنا کے شوق میں
بے گھروں کے سامنے دُنیا پڑی ہے آج بھی
پھر سراجِ عہد و پیماں نے جلائے ہیں نقوش
تالیوں کے شور میں وہ رو پڑی ہے آج بھی

رہ گئیں محنت کشوں کے ہاتھ میں کچھ ٹہنیاں
جیت تاجر کی ہوئی ، سارا ثمر اُس کا ہوا
ایک نقطے میں سمٹ کے رہ گئی ہے زندگی
ایک پل میں طے جوانی کا سفر اُس کا ہوا

بخت بے احتیاج اُس کا تھا
کھیت میرا ، اَناج اُس کا تھا
وقت نے کی عجب مسیحائی
درد میرا ، علاج اُس کا تھا

ناصر ملک کی زندگی کی سچائیوں ،نشیب وفراز ،آرزؤں اور زندگی کی تمام حققتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مثلاً
وہ گلی میں رُک گیا تھا آج میرے رو بہ رُو
اُس کی باتوں میں گھلی تھی اُس کے لہجے کی تھکن
ہو گیا تھا رقصِ تشنہ کام سے وہ مضمحل
چشم تر میں بھیگتی تھی ہر ستارے کی تھکن
صعوبتوں کا جہاں ہے جہانِ حرف وادب
رہینِ شوق ذرا تیز گام کر لینا

میرا آغاز میری موت کے ڈر پر رکھا
گویا آلام کا سایہ میرے گھر پر رکھا
تند حَربوں کے بپھرنے کی خبر آئی ہے
تاج قدرت نے اَنا کا میرے سر پر رکھا
عہد کے آغاز میں بہتا رہا آدم کا لہُو
دہر کے انجام کو بھی خوف و خطر پر رکھا
تُو نے اپنایا نہیں مجھ کو وگرنہ میں نے
اپنا ہر سجدہ ہمیشہ تیرے دَر پر رکھا
تقسیم کسی اور کے ہاتھوں سے ہوئی، پھر بھی
الزام میرے شہر کے لوگوں نے شجر پر رکھا
منزل کا تعین بھی بڑی بات ہے ناصر
فیصلہ قدرت نے مگر زادِ سفر پر رکھا

ناصر کی شاعری کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نیچر کے الفاظ کے ذریعہ اپنی شاعری کی تعمیر کرتے ہیں۔مثلاً ان الفاظ کے ذریعہ نخل ،دار،سفر،مقتل،ملک،زمین،اس طرح کے الفاظ کے ذریعہ اپنے خیالات کو شعری پیکر میں ڈالتے ہیں ۔
وہ مے خانہ نہیں دشتِ جنوں کا اِک سمندر تھا
جہاں سے جگنوؤں کا میں جزیرا ڈھونڈ لایا ہوں
محبت سے کبھی اُس نے مری جانب نہیں دیکھا
کہ اَب نخلِ فلک سے میں ستارا ڈھونڈ لایا ہوں

ان کی نظموں کے عناوین بھی منفرد ہیں مثلاً’’بہار،بادل،بجلی‘‘،’’بت،برکھااور بے ثمر‘‘وغیرہ ہیں۔وہ اسی دنیا کی اشیا سے اپنی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں اور ماورائی دنیا سے الگ نئے زمانے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ہجرت ایک ایسا المیہ رہا ہے جس نے انسانیت کوکبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا ۔ناصر ملک کی اس مسئلے کو پیش کرتے ہیں۔آج زمانہ میں کتنی بھی ترقی کیوں نہ کر لی ہوآمد ورفت کتنا ہی آسان سے آسان تر کیوں نہ ہوگیا ہے برقی ذرائع سے دوریاں کیوں نہ مٹا دی گئی ہو لیکن آج بھی روٹی کپڑا اور مکان اس تعلیم بھی شامل کرلینا چاہئے کے مسائل جوں کہ توں ہیں اور ایک مہاجر اس کو شدت سے محسوس کرتا ہے ۔ناصر ملک نے انہیں کی ترجمانی کی ہے۔
ہے پڑاؤ رائیگاں ناصر تمہارا شہر میں
ہجرتوں کے دور میں یہ بھی نگر اُس کا ہوا
مجھ کو میرے شہر میں بدنام کرنے کے لیے
آگیا ہے میرا گھر نیلام کرنے کے لیے
اَب ضروری ہو گیا ہے میرا تجھ کو چھوڑنا
زندگی میں اور بھی ہیں کام کرنے کے لیے

ہجرت میں ریاضت کی تھکن میرے لیے تھی
ریت میری تھی مگر رنگِ صدف اُس کے لیے تھا
اُسے ہجرت کا شوق کتنا تھا
اپنا گھر تک جلا دیا اُس نے
ناصر ملک کی شاعری میں تغزل کا خوبصورت انداز ملتا ہے ۔
ایک سورج آگیا تھا آئینے کے روبرو
زلف کو کھلنا پڑا تھا کام کرنے کے لیے

آج ، اِسی لمحے، اِسی وقت، یہیں سے ہو
عشق آغاز تو ہو، چاہے نہیں سے ہو
برسوں اِس آس پہ جاگیں میری پُرنم آنکھیں
سامنا وَید کا مجھ خاک نشیں سے ہو
کوئی روزہ نہ دُعائیں نہ عبادت درکار
عشق کافی ہے مگر پختہ یقیں سے ہو
منصف لئے پھرتے ہیں تماشائی آنکھیں
ظلم پھر کیسے عیاں اُس کی جبیں سے ہو
یوں تو ظلمت کے ستاروں سے کئی اُترے ہیں
کسی راہ بَر کا تعلق تو زمیں سے ہو
آؤ اِس ریت پہ ہم خیمے لگائیں ناصر
چشمِ جاناں بَرملا یہ کہہ گئی ہے دوستو!
پیار کی دولت نہیں ہے عام کرنے کے لیے
حیرت سے دیکھتا ہے پلٹ کر مِرا جنوں
یہ کس نے اُس کو چوم لیا اور مر گیا
وہ شخص باخبر تو ہے میرے ملال سے
آنے کا اُس کے پاس مگر راستہ نہیں
اُس کو جانے کی جلدی تھی ورنہ میں بھی
آخر اِک دن اُس کے دل کو بھا سکتا تھا
میرا فن بھی ایک جدائی مانگ رہا تھا
ورنہ جانے والا واپس آ سکتا تھا
میں ہنر میں طاق تھا یا اُس کا پیکر موم تھا
میرے ہاتھوں میں کھلا تو میرے جیسا ہو گیا

کیا خبر تھی اِس طرح رستہ جُدا ہو جائے گا
وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے خفا ہو جائے گا
دھڑکنوں سے آج کیسی پھوٹتی ہے یہ صدا
دل بڑا ویران ہے ، کیا حادثہ ہو جائے گا

رہینِ بخیہ گر تو ہے مگر ملحوظ خاطر ہو
مِری دستار کو تم نے کبھی ململ نہیں کہنا
محبت اضطرابِ زندگی کے ساتھ پلتی ہے
سکونِ دل کو ناصر مسئلے کا حل نہیں کہنا

ناصر ملک کی شاعری میں تاریخ اسلامی سے خوبصورتر اور معنی خیز تلمیحات ہی بھی ملتی ہیں ۔
لہو نے روک رکھی ہیں یزیدِ وقت کی راہیں
زمانہ کس طرح روکے مجھے خیمے لگانے سے
کھٹکتا ہوں میں فرعونِ جہاں کی سرخ آنکھوں میں
مگر ٹلتا نہیں پھر بھی غریبوں کو جگانے سے

ناصر ملک کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جن کی شاعری زندگی کے ہمہ جہت مسائل آرزؤں ،امنگیں اور احساس وجذبات کی ترجمانی کرتی ہیں ۔موجودہ دور میں وہ ایک عظیم شاعر وفنکار کی حیثیت سے ہماری اردو کی میراث کا حصہ ہے اور مسلسل اردو شعر وادب کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔عالمی ادب کے اعلیٰ سے اعلیٰ پیمانے پر ان کی شاعری کو پرکھیں تو وہ اس میں کھڑی اتریں گی ۔وہ دن دورنہیں جب گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصاب میں ان کی شاعری مطالعہ میں رکھی جائے گی ۔

Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 132882 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More