ناصر ملک کی شعر فہمی :’ہتھیلی‘ کی روشنی میں

بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے باتیں کرکے یا پھرجن کا ذکر خیر سن کر روحانی مسرت اور اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ایسی شخصیت اہل تصوف کے یہاں پیرو مرشد کی ہوسکتی ہے ۔اہل اسلام بالخصوص اہل علم کے نزدیک عالم باعمل کی ہوسکتی ہے۔یاپھر کوئی بھی شخص جسے اپنا آئیڈل تصور کر لیتا ہے ۔اسے قلب ونظر میں یہ مرتبہ عطاکردیتا ہے۔لیکن ایسی شخصیتیں بہت کم ہوتی ہیں جو مذکورہ بالامیں سے نہ ہوتے ہوئے بھی دلوں پر حکمرانی کرتی ہیں جن سے کمپیوٹرکے ذریعہ آن لائن اور فون پر گفتگو کرکے مسرت اور محبت کا احساس ہوتاہے ۔جن کی تصویر دیکھ کراحترام وعقیدت کا جذبہ پیدا ہوتاہے اورجن کا ذکر خیر باعث اطمینان قلب ہوتاہے ۔دراصل ایسے اشخاص انتہائی بلند کردار اوراعلیٰ درجہ کے انسانی بالخصوص ،اسلامی اخلاقیات کے حامل ہوتے ہیں ۔حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کو پورے شعور کے ساتھ نہ صرف فریضہ تصور کرتے ہیں بلکہ ہر وقت اسے عملی طور پر انجام دینے میں پس وپیش سے کام نہیں لیتے۔ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ سے بے نیاز ہو کر ادبی اور انسانی خدمت کرتے ہیں ۔میری نظر میں ایسی بہت کم شخصیات میں سے ایک ناصر ملک بھی ہیں جو اپنے مرتبہ ومقام علمی حیثیت جذبۂ انسانی خدمت منسکر المزاجی ،مہمان نوازی،ایثارو قربانی اور اردو و اہل اردو سے بے لوث محبت کی وجہ سے وہ بڑی قدآور شخصیت کے مالک ہیں ۔جسے عام قد وقامت والوں کے درمیان ناصر ملک صاحب کی شعری اورنثری تخلیقات میں سے کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جو آن لائن بھی ان کے ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔مجھے اعتراف ہے کہ موصوف کی جملہ کتابوں کے مطالعہ کا موقع فراہم ہوا ہے۔میں نے ان کے آن لائن میگزین اردو سخن کے دیباچے اور دیگرادبی تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے علمی موضوعات پر پیش کی گئی تقاریر کو پڑھنے کا موقع ملا ہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مستند علمی شخصیت اور معتبر ادیب ہیں ۔ان کا مشاہدہ اور مطالعہ بہت وسیع ہے ۔ناصر ملک صاحب کی شخصیت ہر اعتبار سے قابل تقلید ہے ۔اہل پاکستان با لخصوص اردو کے لیے موصوف کی اس ارض بہشت میں یعنی مراد ان کی آبائی وطن سے ہے ۔میں موجودگی کو نعمت غیر مترقبہ ہے۔

ہتھیلی جو کہ ناصر ملک کا شعری مجموعہ ہے اس میں حمد ونعت ،غزلیں،نظمیں اور آزاد نظمیں شامل ہیں ۔ناصر ملک نے اس مجموعہ میں تمام شعری وفنی تقاضوں کو برتتے ہوئے مختلف موضوعات مثلاً انسانی جذبات واحساسات کی ترجمانی اور قومی ملی کے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔بعض نظموں میں زندگی کے تلخ تجربات کو بیان کیا ہے۔ یا اس شعری مجموعہ کے ذریعہ بالخصوص مجموعے کے آخر میں پنجاب وسندھ میں 2010میں آئے سیلاب میں ہونے والی تباہی وبربادی سے متعلق تخلیقات پیش کی ہیں ۔ناصرملک کا شعری سفر اس مجموعہ میں پختہ اور حساس نظر آتا ہے ۔ان کا اندازہ پیش کش ،موضوعات اور مسائل زندگی کے مطالعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔
مہندی سے اِک خواہش اپنے ہاتھوں پر
سکھیاں لکھ کر چوری چوری پڑھتی ہیں

زندگی میں امید اور ناامیدی کی کیفیت ان کی شاعری کا حصہ ہے ۔وہ زندگی سے مثبت نتائج اخذ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔لیکن ان کی نظر موجودہ دور کے نظام حیات پر گہری ہے ۔ان کی امیدیں جہاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں وہیں وہ پر امید بھی نظر آتے ہیں ۔
چراغِ شب جلا کہیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
سحر نے ڈھونڈ لی زمیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

ان کی شاعری میں کلاسیکی موضوعات کی رنگا رنگی بھی خوب نظرآتی ہے ۔مقتل ،جگنو،چشم جیسے الفاظ سے تغزل کا انداز پیدا کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔مثلاً
چشمِ تر میں نقوش لرزاں ہیں
غم یہاں بے لباس ہے میرا
جگنوؤں کو اُجال رکھا ہے
اس کا ملنا قیاس ہے میرا
ہیں بدن پر حقوق مقتل کے
دل مگر اُس کے پاس ہے میرا

جہاں ایک طرف قدیم روایتوں کے پاسداری ہے وہیں فرسودہ نظام سے بغاوت واحتجاج بھی موجود ہے ۔عمل کے مقابلہ جتنے بھی بے عملی و پر مبنی خیالات کا رواج ہے وہ اس پر ضرب لگاتے ہیں ۔ہتھیلی کو استعارہ بنا کر زندگی کے مختلف جہات کی اشارہ کرتے ہیں ۔شعر ملاحظہ ہو۔
لکیروں کو مٹا بھی دو، لکیریں مار دیتی ہیں
ہتھیلی کاٹ پھینکو ناں، ہتھیلی مار دیتی ہے
اے لڑکی! اِس ہتھیلی سے بغاوت ہو نہیں سکتی
اگر یہ رُوٹھ جائے تو محبت ہو نہیں سکتی
یہی تو لمس دیتی ہے شروعاتِ تعلق کو
سمندر ہے ، سمندر سے عداوت ہو نہیں سکتی
ہتھیلی کی لکیروں میں چھپے ہیں اوس کے موتی
مگر بے فیض ہاتھوں سے کرامت ہو نہیں سکتی
سنو! اپنی شرارت یا پہیلی مار دیتی ہے
ہتھیلی سے نہ اُلجھو یہ ہتھیلی مار دیتی ہے

زندگی کے تگ ودوہ میں انسان آج بھی ……کے زمانہ سے آگے نہیں بڑھ پا یا ہے ۔آج بھی اسے سخت محنت ومشقت کے عوض دو وقت کی خوراک میسر نہیں ہوتی۔ کہنے کو زمانہ نے تو بہت ترقی کرلی ہے اور زیست کو آسان سے آسان تر بنانے میں انسان نے نئے نئے آلات خلق کرلیے ہیں اور نئی نئی ترکیبیں ایجاد کرلی ہیں ۔لیکن ایک عام شخص کیا ان وسائل سے فیضیاب ہوپاتا ہے جواب نفی میں ملے گا ۔ناصر ملک اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ان کی نظر سماجی وسائل کی طرف گہری ہے ۔مثلاً
یہ اور بات قافلے سرعت سے چل دیے
وہ شخص راہِ زیست میں اَب بھی کھڑا تو تھا
پلتا ہے غریبوں کی کمائی پہ جو بدبخت
رہزن ہے حقیقت میں وہ مخدوم نہیں ہے

جب بھی تشدد یا مذہبی منافرت نفرت کے عوض بے گناہوں کی جانیں جاتی ہیں اور برسہا برس انصاف کے لیے گجرات کے اندر ذکیہ جعفری جیسے دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں تو ناصرملک کا دل کرب سے تڑپ اٹھتا ہے ۔
ساٹھ برسوں بعد بھی بوڑھی زبانوں پر ملے
حرص کے مارے ہوئے بلوائیوں کے تذکرے

جب بھی ظلم وجبر نے سراٹھایا ہے تو ادیبوں اور قلم کاروں نے اس کے خلاف آواز بلندکی ہے۔آواز بلند کرنے کے نتیجہ میں حکمراء طبقہ نے ادیبوں اور شاعروں کو زدوکوب بھی کیا ۔فیض اور حبیب جالب جیسے شاعروں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور کبھی جعفر زٹلی کی طرف شہید بھی کیاگیا ۔لیکن ناصر ملک نے اپنا فرص نبھاتے ہوئے اس مسئلہ کی طرف اپنی شاعری میں اشارہ کیا ہیتاکہ ادیبوں ،شاعروں اور صحافیوں کو حق گوئی کا حق حاصل ہوسکے ۔
کبھی اِس جرم کی پاداش میں ایسا ہوا بھی ہے
کہ شاعر یا کہانی کار مقتل میں کھڑا ہو اور
اسے اتنی اجازت بھی نہ ہو کہ گفت گو کر لے
گھڑی بھر دیکھ لے اُس کو ، جسے اُس نے تراشا ہو
جسے ترتیب بخشی ہو،جسے برسوں تلاشا ہو
مجھے منظور ہو گا تم کوئی بھی فیصلہ لکھ دو
میں اپنے ہر ہنر میں بھی اُسے ترتیب دیتا تھا

وادیٔ سوات میں خواتین پر ہورہے ظلم وجبر کے خلاف اپنی آواز یوں بلندکرتے ہیں ۔
(وادی سوات کی ہجرت کے تناظر میں)
ہمارا حوصلہ انصار کا سا تھا مگر اُس کو
ہمارے ناتواں دل سے اسی قصرِ امارت کے
لہو آلود جبڑوں نے اچانک نوچ ڈالا ہے
ہمیں معلوم ہے کل کو ہمارے گھر میں بھی ایسی
ہزاروں میّتوں پہ روٹیوں کے بین گونجیں گے

ناصر ملک کی شاعری میں ہجرت کے کرب کا احساس موجود ہے۔ آبائی وطن سے رخصت ہونے کے بعد سفر کی صعوبتیں اور نئی منزل کی تلاش وجستجو اور اجنبیت کے احساس کی تڑپ کو انہوں نے جذباتی انداز میں یوں پیش کیا ہے۔
چار کمروں کی جنت کہانی ہوئی
میرے پُرکھوں کی محنت کہانی ہوئی
فصل اُجڑی، شجر، پھول، پودے گئے
ایک پل میں مویشی بھی اوجھل ہوئے
میری املاک کے سب نشاں مٹ گئے
سارے منظر اچانک بیگانے ہوئے
گھر کا رستہ بھی مجھ کو دکھائی نہ دے
کیا کروں آج کچھ بھی سجھائی نہ دے
میری بیٹھک نہ ڈیرہ ، نہ مسجد یہاں
دادی اماں نہ دادا کا مرقد یہاں
اب نہ بہنیں ، نہ بھابھی ، نہ بھائی یہاں
کیوں یہ قسمت مجھے لے کے آئی یہاں
میرا گھر ، میری دُنیا ٹھکانے لگی
زندگی کس طرف لے کے جانے لگی
نام درکار ہے اِس کڑے درد کو
زندگی چاہیے آخری فرد کو
ماں کی عظمت اور اس کی تقدس پر اشعار کہتے ہیں ۔
چارہ گر ! بس مجھے سائباں چاہیے
چند لقمے نہیں لختِ جاں چاہیے
گھر کے سامان کا تذکرہ مت کرو
اور کچھ بھی نہیں، مجھ کو ماں چاہیے

ماں اس کائنات میں زندگی کا سرچشمہ ہے ۔اس کا سایہ ہی کسی بھی شخص کی زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہے ۔ ہندوستان کے قدیم مذاہب میں اپنے وطن کو ماں کا درجہ دیا گیا ہے ۔ناصر ملک زندگی دینے والے اور زندگی کی حفاظت اور پرورش کرنے والے دونوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اوران کی عظمت کے قائل ہیں۔کسی بھی آفت ،مصیبت،یا پریشانی میں انسانوں کی مدد کرنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے ۔پنجاب میں آنے والے سیلاب میں رضا کاروں کے لیے کہی گئی نظم میں وہ کہتے ہیں کہ
وہ جو موت کی آنکھ میں آنکھ ڈالے
وہ پانی میں پھنسے ہوؤں کو نکالے
وہ معدوم ہوتی ہوئی چیخ سن کر
اجل کے شکنجے سے بیٹی چھڑا لے
کہیں مامتا کو تڑپتا نہ چھوڑے
کہیں باپ کی زندگی کو بچا لے
وہ ساگر میں پیاسوں کو پانی پلائے
وہ بھوکوں کو کھانا کھلا کر دعا لے
خبر دے وہ بیمار کو زندگی کی
وہ تن ڈھانپ کر آخرت بھی کما لے
وہ صدیق ثانی بنے ، گھر لٹا دے
وہ انصار بن کر مہاجر سنبھالے
وہ دریا سے ، پتھر سے ، آفت سے لڑ کر
کسی ایک ہی زندگی کو بچا لے

رضا کاروں کو جنہوں نے اپنے جانوں پر کھیل کر آفت آسمانی کی چنگل سے چھڑانے کے لیے خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالتے ہیں ۔
بیٹے کے ہاتھ سے نیا بستہ پھسل گیا
بیٹی کا تھا جہیز جو دریا نگل گیا

سیلاب سے ہوئی بربادی وتباہی کا ذکر بہت ہی جذباتی اندازمیں کیا ہے ۔یہاں ان کا رنگ کربلائی مرثیے سے جا ملتا ہے ۔وہیں کرب وہ اندوہ جو کہ تاریخ اسلام کا حصہ ہے ۔ناصر ملک اس حادثہ میں محسوس کرتے ہیں جس میں سیلاب نے ہزاروں بے گناہوں کو نگل لیا تھا۔

ناصر ملک اپنی شاعری میں ایک پختہ کار شاعر کے حیثیت سے موجودہ دورکے صف اول کے شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں ۔اس کا اندازہ ان کیشاعری کی مطالعہ سے بحسن وخوبی کیا جا سکتا ہے ۔چند مثالیں ملاحظہ ہو۔
یہ کس مقام پر ہمیں خدا نے لا کھڑا کیا
کوئی بتائے تو سہی کہ جرم ہم نے کیا کیا
یہ دھوپ کتنی تیز ہے ، کھلا ہے سر پہ آسماں
یہ بھوک بھی بلا رہی ہے ایک مرگِ ناگہاں
نگل گئی ہے پیاس میرے نونہال سینکڑوں
یہ آگ چاٹ کر چلی ہے باکمال سینکڑوں
جنہیں بچا رکھا تھا میلی آنکھ سے، وہ بیٹیاں
اَب عالمِ بے پردگی کی نذر ہو گئیں یہاں
یہ سیلِ بے ثمر ہمیں بھکاریوں کے روپ میں
کھڑا کیے ہے محوِ رقص دل شگاف دھوپ میں
سیاستِ وطن کا فیض ، بہہ گئے غریب گھر
وہ دشمنانِ قوم کی بچی رہی زمیں مگر
ہماری بے کسی کے اشتہار کس قدر بکے
مذاکروں کے نام پر کھلے ہیں اور مَے کدے
ہمارے نام پر برس رہی ہیں زر کی بارشیں
سجی ہوئی ہے منظروں سے ہر دکان دیکھ لیں
غریب کا معاوضہ حکومتوں کا مال ہے
فریب ہے ، یہ مقتدر کی بھوک کا سوال ہے
مرے خدا ! وطن کی سرزمین مجھ پہ تنگ ہے
مری طرف اُٹھی ہوئی نگاہ سرخ رنگ ہے

مذکورہ نظم میں خدا سے شکواہ کے انداز میں قومی بیضاعتی کا ذکر کرتے ہوئے فریاد کناں ہیں کہ خدا کی آفت سے کب نجات ملے گی ۔جب بھی کوئی آفت اور مصیبت آتی ہے تو غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ متاثرہوتے ہیں ۔جبکہ حکمرا طبقہ کے لوگ اظہار افسوس کے بجائے اس لیے خوشیاں مناتے ہیں کہ امداد کی رقم کو کس طرح اپنی ذاتی تصرف میں لیا جائے ۔وہ اس کی ترکیبیں کرنے لگتے ہیں ۔ہندوستان ہو یا پاکستان یا بنگلہ دیش ہر جگہ کے مسائل ایک جیسے ہیں ۔شاعر وادیب کی ذمہ داری بھی سرحدوں کو نہیں دیکھتی ۔بلکہ جب بھی انسانیت کا خون ہوتا ہے ایک سچا اور حساس شاعر اس کر کو ذاتی کرب کی طرح محسوس کرتا ہے ۔ناصر ملک کا شمار انہیں شعراء میں کیا جا سکتا ہے۔
میرے مہمان ! بہتر پتا ہے تجھے
ہم ازل سے کڑی آفتوں میں رہے
خون، جنگ و جدل، زلزلے، آگ بھی
حکمرانوں کے ناوقت کے راگ بھی
آمریت نے توڑا ہمیں بارہا
عہدِ جمہور بھی خون پیتا رہا
ٹیکس کے عوض میں لوڈ شیڈنگ ملی
قحط و بحران کی آگ جلتی رہی
ملک دو لخت ہو کر سسکتا رہا
بینک بیلنس وزیروں کا بڑھتا رہا
اک سپاہی کا ڈنڈا ہی قانون ہے
سلطنت بھی وڈیروں کی مرہون ہے
لاکھ بھونچال ہوں ، لاکھ سیلاب ہوں
رہزنوں کے خزانے تو سیراب ہوں
میرے مہمان ! یوں دل نہ میلا کرو
چند لقمے مرے پاس ہیں ، بانٹ لو
میں نہ ممبر ، وڈیرا ، نہ سردار ہوں
ہاں مگر میں ہی تیرا الم خوار ہوں
ہم غریبوں میں گر یہ جہالت نہ ہو
ان لٹیروں کی ہم پر حکومت نہ ہو

سیلاب کے باوجود امراؤ کے خزانے بھرتے ہی جا رہے ہیں ۔جہاں ایک طرف انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے وہیں دوسری طرف ذخیرہ اندوزی میں بڑے بڑے لوگ مصرورف ہیں۔اس پر شدید طنز کیا گیا ہے ۔ناصر ملک کی شاعری کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ ا نہیں انسانیت سے ہمدردی اور ظلم سے نفرت وبغاوت ہے ۔وہ اپنی بات بے باکی سے کہہ دیتے ہیں ۔ان کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب بھی سماجی وملی یا قومی مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں ان کا شعری آہنگ کبھی متاثر نہیں ہوتا اور یہ ہنر ایک عظیم شاعر وفنکار کی عظمت کی دلیل ہے۔یہاں سے ان کی شاعری سے متعلق خصوصیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے جبکہ وہ اپنی ہمہ جہت خصوصیات کی وجہ سے عالمی پیمانہ پر شہرت کے حامل ہیں ۔چونکہ وہ ابھی بھی ایک فعال ادیب ودانشور کے حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔پوری اردو دنیا میں تمام برقی مجلہ واخبارات سے متعلق صحافیوں کی اپنے برقی مجلے کے ذریعہ رہنمائی فرما رہے ہیں۔موجودہ دورمیں ایک مرد مومن کا یہی جہادہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی قارئین کو اپنی تحریروں افکار وخیالات سے سرفرازکرتے رہیں گے ۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 121322 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More