وِش کے زہر سے ہندوستان کی آلودہ فضا

’وِش منتھن ‘کے مطالعہ سے ”عمل کا ردعمل “اور ”گھسایانی بلی گھمبا نوچے“والی مثل کی عملی تفسیر سامنے آ جاتی ہے ۔

اس ناول میں ہندوستانی سیاست پر چھائی تعصب اورفرقہ پرستی کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کب کہاں ، اس کی آگ دہک اٹھے اندازانہیں کیا جاسکتا ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ اس میں گجرات فساد کی جانب بھی ایک لطیف اشارہ ہے توکوئی مضائقہ کی بات نہیں ۔

کامران عرف بٹو اورراجیش کے درمیان ہونے والے مقابلہ میں بٹو کامیاب ہوجاتا ہے ، شکست خوردہ راجیش اپنے اندر احساس برتری کی دہکتی آگ پر قابو نہ پاکربٹو پر نازیباں کلمات کی تیر چلانے لگتا ہے ، شکست کا بادل چھانٹنے کے لئے راجیش نے جو کیا وہ ”گھسیانی بلی گھمبا نوچے “کی عملی تفسیر ہے اور بٹو نے راجیش کے جواب میں تھپر چلانے کی جوکوشش کی ہے ،و ہ دراصل ”عمل یا ایکشن “ہے ، مگر اس کے بعد کامران کے اوپر لوگوںکے گھونسے اور مکے برستے ہیں ، یہ ہے ”ردعمل یا ری ایکشن‘۔ اس ردعمل کی آگ یہیں پر ٹھنڈی نہیں ہوجاتی ہے ، بلکہ ہر جگہ ناول میں اپنی غضبناکی دکھاتی ہے ۔

مقابلے والے اس واقعہ میں چند ایک پہلو انتہائی توجہ طلب ہی ، وہ اس طورپر کہ راجیش نے شکست کے بعد جو حرکت کی وہ بہت ہی غلط قدم ہے ، مگر اسی کے ساتھ ہی وہاں موجود لوگوں نے بٹو کے ساتھ جو رویہ اپنا یا ، وہ تو اوربھی غلط ہے ،گویا ان لوگوں نے اپنے عمل سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ظالم اگر طاقتور ہوتو اس کی ہی حمایت کی جائے ۔ راجیش کی بھپتی سے اس کا دل چھلنی چھلنی ہو ہی گیا تھا ، لوگوں نے مزید تھپڑوں اورمکوں سے اس کی درگت بنادی ، اس کا بدن سوجھ گیا تھا ، چہرہ کا رنگ بدل گیا تھا ۔
مقابلہ کے وقت کا واقعہ اپنے آپ میں خود شرمناک تھا ، مگر اس کی شرمناکی پر یہ کہاسکتا تھا کہ وہاں جنونی لوگوں نے چھوٹے سے مسئلہ کو طول دے دی تھی ، مگر شکست خوردہ گروہ کے افراد نے پنچایت میںانا کی تسکین کے لئے سرعام بٹو اور اس کے والد کی جوبے عزتی کی، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے اقلیتی فرقہ کی ترقی اور کامیابی اکثریتی فرقہ کی آنکھوں میںکھٹکتی ہے ، ان کی کامیابی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے ۔ گویا اس پنچایت کے مدنظر یہ کہاجاسکتا ہے کہ منصوبہ بند طریقہ سے بھی مسلمانو ں کو رسوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

اگر یہ کہا جائے کہ اس پنچایت، جس میں بٹو کے والد سے معافی منگوائی گئی ، میں ہندوستانی عدالت پر بھی چوٹ ہے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہوگی ، کیونکہ اس واقعہ سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر مظلوم کمزور ہوتو اس کے حق میں مبنی برانصاف فیصلہ نہیں کیا جائے گا ، جیساکہ آج عدالت بھی رفتہ رفتہ فرقہ پرستی کی آگ میںبس جھلسنے والی ہے اور مسلمانوں کے تعلق سے نہ سمجھ میں آنے والے فیصلہ ہورہے ہیں۔ کامران راجیش کے گھر انہ کے مقابلہ میں کمزور تھا ، اسی لئے اس والد کو جھکنا پڑا ،سرعام غلطی ماننا پڑی ۔

اس نفرت و تعصب کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان نمبر دو کے شہر ی ہیں یا باہر ی ۔ مسلمان اپنے اوپر چسپاں اس لیبل کو اتارپھینکنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر سیاستداں انہیں کامیاب نہیں ہونے دیتے ہیں ۔
چھوٹی عمر میںہی بٹو جوانمردی کے ساتھ ہرجگہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم بھی ہندوستان میں برابر کے حقدار ہیں ، ہم نے اور ہمارے پرکھوں نے اس چمن کو زینت بخشی ہے ، آج بھی ہم اپنے ملک کے حسن کو دوبالا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر اس کی بات ، اس کی جوانمردی اوراس کے دلائل سیاسی گردمیںد ب کر رہ جاتے ہیں ۔ بٹو نے پنچایت میں بھی ہمت وحوصلہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم باہری نہیں ، یہ ملک ہمارا بھی ہے ___ :
”مگر ہمارے بزرگ توکئی پشتوں سے یہیں دفن ہیں ، بٹو نے نہایت ٹھہرے ہوئے لہجہ میں جواب دیا ۔
’اور ان سے پہلے ‘
وہ بھی یہیں کے ہوں گے ‘
’اور سب سے پہلے والے ‘۔“(صفحہ :23,24)
”__’تم نے تو چپی سادھ لی ہے ‘۔معمر شخص نے بٹو کو مخاطب کیا ۔
’میں نہیں مانتا ‘
’کیا نہیں مانتا‘
’یہی کہ میرا کوئی بزرگ باہر سے آیا تھا ‘
’تم جھوٹ بول رہے ہو، اتہاس گواہ ہے کہ تمہارے پوروج باہر سے آئے تھے ‘
’میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں ، میرے حساب سے میرے دادا ، پردادا ، سگڑ دادا سب یہیں کے رہنے والے تھے ‘
’یہ ستیہ نہیں ہے ، دنیا جانتی ہے کہ تمہارے بزرگ باہر سے آئے تھے ‘
’باہر سے آنے والا باہری نہیں ہوجاتا ہے ‘۔ بٹو نے اپنی نظریں معمر شخص کے چہرے پر جمادیں ، جیسے اپنی پتلیوں کے آئینہ میں وہ انہیں کچھ دکھانا چاہتا ہو۔“(صفحہ 27,28)
”تم بہت بڑھ چڑھ کر بولنے لگے ہو ‘
’ اس کے لئے آپ ہی مجبور کررہے ہیں ‘۔
’دیکھو! ستیہ یہی ہے کہ تمہارے پوروج باہر سے آئے تھے اس لئے تم بھی باہری ہو،یدی تم باہری نہیں ہوتو یہاں والوں کی طرح کیوں نہیں رہتے‘
’یہاں والوں کی طرح ؟ ‘چونک کر بٹو ان کی طرف دیکھنے لگا ۔
’ہاں ، یہاں والوں کی طرح ‘
’یعنی ہماری طرح ‘
’ہماری طرح کس طرح ؟ آپ کی طرح ؟ ان کی طرح یاان کی طرح جو آپ کے پیچھے ہیں “۔

اس مکالمہ میں بٹو نے یہ بھی جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ آخر مسلمانو ں کے رہنے کے طور طریقہ پر اعتراض کیوں ہے ، ہندوستان میں سکھ بھی رہتے ہیں ، عیسائی بھی ، ان کے رہن سہن اور عبادتوں کے طریقے مختلف ہیں ، مگر ان پر کوئی اعتراض نہیں ، صرف مسلمانوں پر اعتراض کیسا کہ وہ ہندووں کی طرح رہیں ، جیسا کہ معمر شخص نے کہا کہ اگر تم باہری نہیں ہو تو ہماری طرح رہو ۔ اس کا مطلب تو یہ بھی نکا لا جاسکتا ہے کہ سکھ یہاں کے نہیں ہیں ، عیسائی یہاں کے نہیں ۔

پھر بٹو کا یہ جملہ بھی ’باہر سے آنے والا باہری نہیں ہوجاتا ہے ‘انتہائی معنی خیز ہے ، وہ اس طور پر کہ اس نے معمر شخص کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ہندو بھی تو باہر سے آئے ہیں ، کبھی نہ کبھی ان کے آبا واجداد بھی توباہر سے ہی آئے ہوں گے، اس کا مطلب تو یہ نہیں نکلتا کہ ہندو بھی باہری ہے ، ناول نگار نے یہاں ایشا کوچک کی تاریخ ناول میں سمونے کی کوشش کی ہے ۔

کامران عرف بٹو اسی کالج میں زیر تعلیم تھا ، جس میں اس معمر شخص کا پوتا بھی تھا ، یہ مسئلہ اوربھی معمر شخص کے لئے عار کا سبب تھا کہ ایک مسلمان بھی اس کے بچوں کی طرح ایک اچھے اسکول میں پڑھتاہے ۔ بٹو سے اس کا ہر ایک ساتھی خوش تھا ، اس کی اداو ¿ں سے ہرایک کو محبت تھی ، بے شمار ہندو لڑکیاں بھی اس سے قربت بڑھانے کی کوشش کرتی تھیں ، کوئی لڑکی اس سے بہن کارشتہ جوڑتی تھی تو کوئی دوست بنناچاہتی تھی ، خود اس معمر شخص کا پوتا اس کا دوست تھا ،ایسے ماحول میں ہندو لڑکے یاکسی لڑکی کو یہ خیال نہیں آتا ہے کہ وہ باہری ہے یا نمبر دو کا شہری ۔ ہرایک کامران سے ایک اچھا انسان ہونے کے ناطے محبت کرتے تھے ۔ ہندو لڑکیاں بٹو سے اس طرح ہم کلام ہوا کرتی تھیں ۔
”تمہارا کھیل دیکھنے میں میں روز لیٹ ہوجاتی ہوں ، ڈیلی گھر پر ڈانٹ پڑتی ہے ۔‘
’تو کیوں دیکھتی ہو ؟‘
’اچھا لگتا ہے۔‘
’کیا کھیل تمہیں اتنا اچھا لگتا ہے ؟‘
’کھیل نہیں ‘
’تو‘
تمہارا کھیلنا ‘
’کیا میں اتنا اچھاکھیلتاہوں
’ہاں بہت ہی اچھا ، تم جب اچھل کر گیند پکڑتے ہوتو ایسا لگتا ہے کہ تم نے چاند کو پکڑ لیا ہے ، اس وقت میں آسمان میں اڑنے لگتی ہوں“۔
_______
”سنبھل کھیلا کرو ، کہیں پاوں ٹوٹ جاتا تو؟‘
’توکیا ہوتا ‘
’چاند میرے ہاتھو ں سے پھسل جاتا ، میرا آسمان میں اڑنا رک جاتا “۔(صفحہ :45,46)

ان جملوں سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح بٹوسے ہندو لڑکیاں محبت کرتی تھی ۔

بٹو کی اسی دوستی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ ہر جگہ نہیںلگی ہے ، ہرجگہ مسلمانوں کے تئیں تعصب نہیں ہے ، مگر سیاسی نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ تعصب اورفرقہ وارانہ روش کو شہہ دیتا ہے ، جس سے کہ ہندوستانی فضا مکدر ہونے لگتی ہے ، یعنی سیاست ہی مسلمانو ں کے تئیں پاک صاف دل میں نفرت کازہر گھول دیتی ہے ۔ معمر شخص اور ان کے پوتے کے مکالمہ سے بھی ایسا ہی اندازہ ہوتا ہے ، اس مکالمہ میں پوتے نے جو پتے کی بات کہی ہے ، وہ واقعی برادرانِ وطن کے بہت سے سوالوں کا ایک مسکت جواب ہے ۔

”اچھا ہوا آپ نے خود ہی بٹو کی بات چھیڑ دی ، میں آپ سے پوچھنے والا ہی تھا کہ آپ نے اسے Punishکیوں کیا ‘
’اس لئے کہ اس نے قصور کیاتھا‘
’کیاقصورتھا ‘
’اس نے ہمارے ایک بچے کو مارا تھا ‘
’لیکن اس نے یوں ہی تو نہیں مارا ہوگا ، ضرور اس کا کوئی ریزن ہوگا ‘
’ریزن کیا !بچے نے اسے باہری کہہ دیا تھا ، بس اس سادھارن سی بات پر اس نے تھپڑ ماردیا ‘
’بٹ بٹو از ناٹ آو ¿ٹ سائڈ گرینڈ پا ، وہ یہیں کا رہنے والا ہے ، لائک میں اینڈ یو ۔ ‘
’سو ٹھیک ہے ، پر اس کے پوروج باہر سے آئے تھے ۔‘
’پوروج منس ‘
’اوہ ! پوروج نہیں سمجھتے ، پوروج منس Ancesters,for For Fathers‘
’او ، گرینڈ پا ، کیا وہ سچ مچ باہر سے آئے تھے ؟‘
’نی سندیہہ ، وہ باہر سے آئے تھے ‘
’نی سندیہہ؟ سوری گرینڈ پا !میری ہندی ذرا پوور ہے‘
’ان ڈوٹلی ‘اس بار معمر شخص نے ناگواری سے جواب دیا ‘۔
’تھینک یوگرینڈپا ____وہ کیا کرنے آئے تھے ‘
’اس دیش کو لٹنے اور کیا کرنے ‘
’ہاں ، اس Conutryکو لوٹنے ‘
’لوٹا‘
’ہاں ، خوب لوٹا ، جی بھر کے لوٹا ، دونوں ہاتھوں سے لوٹا ‘
’عجیب بات ہے ، لٹیرے تولوٹ پاٹ کرکے چلے گئے مگر اپنی سب سے Costlyچیز کیوں چھوڑگئے ؟‘
’کون سی Costlyچیز‘
’اپنی Progency“
’ Progency‘اس بار معمر شخص چونکا۔
’Generationگرینڈ پا !‘
’او___وہ گئے نہیں ، وہ بھی یہیں ر ک گئے ۔‘
’تب تو ان کا لوٹا ہوا مال بھی یہیں رہ گیا ہوگا ؟
معمر شخص سے اس سوال کا جواب نہ پن پڑا ، وہ خاموش ہوگیا ’گرینڈ پا ‘آپ کا Silenceبتارہا ہے کہ مال یہیں رہ گیا ، اِٹ منس کہ ان کی لوٹ پاٹ سے اس ملک کو کوہارم نہیں پہنچا ‘۔“(صفحہ :62،63)
”او رسب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے یہاں کی مہیلاؤں کی عزتیں لوٹیں ‘
’گرینڈ پا ہمارے لوگوں نے اپنی عورتوں کی عزتیں کیوں لوٹنے دیں ؟انہوں نے انہیں بچایا کیوں نہیں ؟اتنے زیادہ تو نہیں رہے ہوں گے کہ ان سے اپنی عورتوں کی عزت بچانا Impossibleتھا ، کہیں ایسا تو نہیں کہ جن عورتوں کی عزتیں لوٹیں ، انہیں ہم بچانا ہی نہیں چاہتے تھے ؟ سننے میںتو یہ بھی آتا ہے کہ ہم خود بھی ان(عورتوں) کی عزت سے کھلواڑ کیا کرتے تھے ، اورہمارے ہی ڈر سے وہ ان کی پناہ میں گئیں ‘
’یہ سب بکواس ہے ۔‘معمر شخص تمتما گیا ۔ (صفحہ :64)

اس مکالمہ کا نکتہ بھی اپنے آپ میں ایک بڑا نکتہ ہے کہ دنو (پوتا)جو ابھی بچہ ہے ، اس کا دل صاف ہے ، مسلمانوں کے تئیں تعصب ونفرت سے دل پاک ہے ، مگر ظاہر ہے کہ جب دادا ایسی باتیں بچوں سے کریں گے تو ایک نہ ایک دن بچوں کے دلوں میں یہ آگ لگ ہی جائے گی اور وہ بھی مسلمانوں سے نفرت کرنے لگیں گے ، اس طرح آہستہ آہستہ ملک کی فضا مکدر ہوگی ۔

اس مکالمہ کے بعد دادا جہاں یہ سوچتے ہیں کہ آخر ہماری نسل ہم لوگوں کی طرح کیوں نہیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے ؟کیوں ہندولڑکیاں مسلمانوں سے قریب ہوتی ہیں؟وہیں پوتا کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ آخر دادا کیوں مسلمانو ں سے نفرت کرتے ہیں ؟ اندازہ کیا ہی جاسکتا ہے کہ پوتا کے دل میں بھی نفرت کی آگ دہک سکتی ہے ۔

پوتا کے مسکت جواب کے بعد دادا صرف اس غرض سے میٹنگ بلاتے ہیں کہ کیسے مسلمانوں کے تعلق سے نئی نسل میں تعصب بھرا جائے ، کیوں کہ پوتے کا ہم خیال نہ ہونا ان کے لئے پریشانی کا باعث تھا ۔
اس ناول میں ایک فرضی ڈرامہ ’ساگرمنتھن‘بھی ہے ، جس کے مناظر تعصب سے زہر آلود ہیں ، ساگر منتھن کے دیوی دیوتاؤں کا قصہ اس طرح ہے کہ اس کے منتھن میں بہت ساری چیزیں نکلی تھیں ، مثلا ، دھنونتری ، لکشمی ، رمبھا ، منٹری ، سنکھ ، گجراج اور ششی ہلاک کردینے والے رتن تھے ، اس لئے بھگوان شنکرنے ان زہر آلود چیزوں کو اپنے اندار اتارکر دنیا کو تباہی سے بچا لیا ، اب رہی بات امرت کی تو ایک راکشش نے پی لیاتھا ، شنکر بھگوان نے یہ سوچ کر اس کا سر قلم کروادیا کہ وہ امر نہ ہوجائے ،کیونکہ راکشش بدی کی علامت ہے ،مگر اس ڈرامہ کے منتھن میں صرف برباد کردینے والے رتن ہی نکل رہے تھے ، لاکھ کوشش کے باوجود بھی امرت نہیں نکلا ، چنانچہ رشی گیانیشور سے پوچھاجاتا ہے کہ امرت کیوں نہیں نکل رہا ہے تو رشی کہتے ہیں کہ امرت پہلے ہی نکال لیاگیا ہے ، وہ کسی انسان کے اندار ہے ، مگر ابھی تک امرت پوری طرح نہیں گھلاہے ، اگر امرت لینا ہوتو اس انسان کو ختم کرنا ہوگا اورمنتھن میں جووش نکلے ہیں ،ا نہیں بھی ٹھکانہ لگانا ضروری ہے ،و رنہ دنیا تباہ ہوجائے گی ۔

اس ڈرامہ میں اس طور پر نفرت بھرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امرت اب کسی راکشش کے اند ر نہیں ، بلکہ انسان کے اندر ہے ، اور یہاںانسان سے مراد دلت یا مسلمان ہیں ، گویا امرت لینا ہے تو مسلمانوں اور دلتوںکو مارنا ہوگا ۔ اسی کے ساتھ یہ پہلو بھی ہے کہ بھگوان نے اصل ساگر منتھن میں زہرآلود چیز خود پی لی تھی، مگر اب کمزور لوگوں کو پلانے پر سب متفق ہوگئے ، گویا یہاں بھی مسلمانوں اور دلتوں کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کمزور ہےں ، چنانچہ مسلمانوں اوردلتوں کو ہی زہر آلود چیز پلائی جائے ۔

یہاں پر یہ بات بھی انتہائی توجہ طلب ہے کہ مسلمانوں سے برادران وطن کی نفرت تو کسی حدتک سمجھ میں آتی ہے ، کیونکہ مذہبی چپقلش ہے ، مگر دلتوں سے آ خر وہ کیوں نفرت کرتے ہیں ؟ کیاوہ ہندو نہیں ہے ؟ کیا وہ بھی ان کی طرح ایک انسان نہیں ہے ؟، گویا ہندو اپنے دیگر ہندو کے خیرخواہ نہیں ، انہیں تو اپنوں سے اس قدر نفرت تو دوسروں سے کیوں نہیں ہوگی ؟۔

ناول نگار نے اس میں ہندی سے نوجوان نسل کی بے رغبتی بھی دکھانے کی کوشش ہے ، سچ یہی ہے کہ آج ہندی سے بھی لوگوں کی طبیعت بےزار ہونے لگی ہے ۔
’نی سندیہہ ، وہ باہر سے آئے تھے ‘
’نی سندیہہ؟ سوری گرینڈ پا !میری ہندی ذرا پوور ہے‘

دادانے عام فہم ہندی لفظ”نی سندیہہ“ کااستعمال کیا ہے ، مگرپوتا نہیں سمجھ پایا ،اس سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید نوجوان /نئی نسل ہندی سے دور ہونے لگی ہے ۔

’وش منتھن ‘میں بھی غضنفر دگر ناولوں کی طرح اپنی خصوصیتیں برقرار رکھتے ہیں ، ان کا دلنشیں بیانیہ انداز قارئین کو اپنی طرف کشاں کشاں کھنچتا ہے ، بیدی کے افسانو ں میں جس طرح پنجابی اپنی جھلک دکھا تی ہے ، بالکل اسی طرح غضنفر اپنے ناولوں میں مطلعِ اردو کو ہندی قو س وقزح سے آب دار بناتے ہیں ، اس ناول میں انہوں نے ہندو عقیدہ کی جو جھلک دکھائی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوازم پر بھی ان کا مطالعہ گہرا ہے ، اسی کے ساتھ اس عقیدہ کو ڈرامہ میں جس طرح مسخ کر کے تعصب کی جو لکیریں کھنچ دی گئیں ہیں ، وہ بھی اپنے آپ میں ایک بڑا فن ہے ۔

اس ناول کے مکالمہ میں جوباتیں سمٹ آئی ہیں ، وہ واقعی تاریخ کے کئی صفحات کی نچوڑ ہے ،گویا مکالمہ کا بیانیہ اسلوب بھی دل کو چھو جاتا ہے ، یعنی مکالمہ ’محادثہ‘ہے ۔

غضنفر ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد پر جس طرح کنایتہ گفتگو کرتے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کو ناولوں میں حسین انداز سے سمونے کا ہنر جانتے ہیں ، نیز ابتدا ً ہندوستان آنے والے مسلمانوں سے متعلق تاریخ میں جو گل افشانیاں کی گئی ہیں ، انہیں لوٹ مار کرنے اور عورتوں کو لبھا کر الو سیدھا کرنے والا دکھا یاگیا ہے ، اس خیال کی تردید ایسے نرالے انداز میں کی ہے، جس سے سامنے والے کی زبان خاموش ہوجاتی ہے ، گویا یہ ناول اختتام تک پہونچتے پہونچتے ایک تاریخ بھی بیان کرجاتا ہے اور برادرانِ وطن کو یہ پیغام بھی دیتاہے کہ مسلمان لٹیرے نہیںتھے ، بلکہ محب وطن ہیں ، ان کے دلوں میں بھی وطن کی خدمت کا جذبہ ہے ، خود بٹو کے والد کو ملکی حفاظت کے لئے پیر کا نذرانہ پیش کرکے معذور دکھانا، مسلمانوں کی حب الوطنی کی دلیل ہے۔ ان باتوں کے باوجود برادران وطن کے ایک گروہ کو مسلمانوں کی حب الوطنی مشکوک نظر آتی ہے اور ان کی کامیابیوں پر آپے سے باہر ہو کر وہ سب کچھ کرگزرتھے ہیں ، جس کی اجازت تہذیب دیتی ہے اور نہ ہی ملکی قوانین ۔ بٹوکے گھرانہ نے مقابلہ پھول میں جواول پوزیشن حاصل کی تھی ، اس سے تو برادران وطن کوخوش ہونا چاہئے تھا ، اس گھرانہ کو مبارکباد دینا چاہئے تھا، مگر برادران ِوطن نے دنگا کرکے مسلمانوں کو نقصان پہونچانا شروع کردیا۔

اس ناول میں زبان وبیان ’مانجھی‘ اور’ شوارب ‘کی طرح پرکشش تو نہیں ہے ، مگر اس کا پلاٹ موثر کن ہے ، ایسا لگتا ہے کہ ناول نگار ہر واقعہ میں بذات خود موجود تھے اور سلسلہ وار تمام باتوں کو زیر قلم لارہے تھے ۔

Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92565 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More