صلیبیں.(ڈرامہ
سین 1
عابد بیگ اپنی بیگم مہوش کے ساتھ گھر کے صحن میں بیٹھ کر بہت سے چراغوں کی
لو تیز کر رہا ہے اور بہت سی شمعیں گل کر رہا ہے
عابد بیگ.زندگی میں بہت سی چیزیں زندگی کووہ زندگی عطا کرتی ہیں جو روح بھی
عطا نہیں کر سکتی.ہماری شادی کے پانچ ساون ہمیں نگہتیں بانٹے بغیر ھی گزر
گے لیکن پھر بھی خدا کا شکر ہے سلیم کے روپ خدا نے ہماری کشت ویران کو برگ
و بار سے نوازا ہے
مہوش.خدا کا شکر ادا کرنے کیلے ایک زندگی کم ہے جس نعمت سے خدا نے ہمیں
نوازا ہے وہ پوری کاںنات مل کر بھی ہمیں عطا نہیں کر سکتی.بغیر اولاد کے
ازدواجی زندگی ایسے ہیں جیسے بغیر پھل کے شجر
عابد بیگ.میرا ایک دوست ہے رفیق اس کی شادی کو دس برس گزر گںے ہیں لیکن اب
اس کا گھر ایسے لگتا جیسے کسی باغ میں بہت ساری بلبلیں ہوں اور گلاب کا ایک
پھول بھی نہ ہو پانچ بیٹیوں کا بوجھ لیے وہ اس شاخ کی طرح لگتا ہے جسے خزاں
نے اپنے تھپیڑوں سے الگ کر دیا ہو
مہوش.خداسے توبہ کرو بیٹیاں تو گھر کی زینت ہوتی ہے جو ماں باپ کے آنگن کو
زندگی میں بھی سنوارے رکھتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی گل مرقد بن کر اپنی
خوشبو سے معطر رکھتی ہیں.
عابد بیگ.بیٹیاں جلتے چراغ کی طرح ہوتی ہیں جو تب تک روشنی دیتا ہے جب تک
باہر کی
ہوا فانوس بن کر اس کے شعلوں کو اپنے آنگن میں بسا نہیں لیتی اور بیٹے وہ
روشندان ہوتےہیں جو بجھ بھی جاںے تو گھر کی تاریکیوں کو چھوڑ کر نہیں جاتا
سلیم.بستہ کمر پر ڈالے داخل ہوتا ہے سوری مماں آج سکول میں آتے دیر ہو
گی.اپنے چار سالہ منے کو دیکھ کر دونوں میاں بیوی ایسے آگے لپکتے ہیں جیسے
مہتاب کی کرنوں کو سمندر کی لہریں اپنی آغوش میں لینے کیلے آگے لپکتی
ہیں.ماں بیٹے کا بستہ پکڑتی ہے اور باپ بیٹے کو اٹھا کر ڈاںنگ روم کی طرف
لے جاتا ہے ماں کھانا لے کر آتی اور دونوں میاں بیوی بیٹے کو اپنے ہاتھوں
سے کھلانے لگتے ہیں بیٹے کے منہ میں جاتا ہوا لقمہ ان کے چہرےپر بشاشت کی
کرنیں نمو دار کرتا ہے.
عابد بیگ.بیٹے کو آرام کرنے دو شام کو ساحل پر گھومنے چلیں گے
مہوش.گھومنے صرف ویک اینڈ پر جایا کروبچہ تھک جاتا ہے صبح پھر سکول نہ جانے
کی
ضد کرتا ہے
عابد بیگ.مجھے سکول سے زیادہ بچے کا کھیلنا اچھا لگتا ہے بیٹا چاھے ان پڑھ
بھی ہوباپ کےنام کو زندہ رکھتا ہے خاندانی وراثت کا پودابیٹے کی وجہ سے ہی
کبھی آتش خزاں میں نہیں سلگتا
مہوش.صرف وراثت زندہ رکھنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ
کس وقار اور شان سے وراثت کے پودے کی نشوونما کی گی ہے وقار اورر عزت صرف
تعلیم کے آنگن میں ہی اپنے وجود کو آشکار کرتے ہیں ورنہ بغیر تعلیم کے
قوموں کے خیابان سوکھ سوکھ جاتے ہیں وراثت کی کلی کب تک بچ پایے گی
عابد بیگ.بحث چھوڑو بچے کو سلا دو اور میں بھی تھوڑی دیر آرام کرتا ہوں
سین2 ساحل سمندر
عابدبیگ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ساحل سمندر پر شام کے وقت تفریح کیلے
آتا ہے.رفیق بھی اپنی بیوی اورپانچ بیٹیوں کے ساتھ وقت کے طلاطم سے لڑتا
ہوا ساحل پہ آ پہنچا ہے.رفیق اور عابد بیگ کی اچانک ملاقات ہوتی ہے دونوں
فیملیز بیٹھ جاتی ہیں
عابد بیگ.یار رفیق لگتا ہے بییٹیوں کے بوجھ نے تمہیں بوڑھا کر دیا ہے
رفیق.ہاں اور لگتا ہے بیٹے کی خوشی نے تمہیں جوان
عابد بیگ.اس میں کوںی شک نہیں میرا بیٹا میرے لیے وہ چمک لے کر آیا ہے جو
سبزہ گل پر طلوع آفتاب کے وقت ہوتی ہے.
رفیق.میں تو کبھی کبھی حالات سے تنگ آ کر سوچتا ہوں بچیوں کو یتم خانے چھوڑ
دو یا کہیں اور میرے حالات ایسے نہیں ہیں کہ میں بچیوں کی صیح پرورش کر
سکوں
عابد بیگ.اگر حالات اچھے ہوتے بھی تو کون سا سہارا بڑے ہو کر وہ بنتی شادی
کرتی اور کسی اور کے گھر کو آباد کرتی.
مہوش.مسکان رفیق کی بیوی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے خاوند کی پریشانی کا تذکرہ
کرتی ہے جو اسے اپنی بچیوں کے بارے میں لاحق ہے
مسکان.میں اپنے خاوند کو کیسے سمجھاؤں کہ بچیاں بھی خدا کی نعمت ہوتی
ہیں.وہ کوںی بات سننے کیلے تیار ہی نہیں ہوتے
مہوش.وہ ایسا کب سے سوچنےلگے ہے
مسکان.ان کے پیدہ ہوتے ہی پہلے تو اتنے شدید نہیں تھے محلے میں کچھ لوگ
اپنی بیٹیوں کو نرسنگ سنٹر اور یتیم خانے چھوڑ آتے ہیں تب سےرفیق نے ٹھانی
ہے بچیوں کو گھر میں نہیں رکھنا
مہوش.اے خدا بیٹیوں پر کرم فرما.بیٹیوں سے نفرت کی بیماری شہر میں وبا بن
کر پھیلی ہوئی ہے
مسکان.آپ بڑی خوش قسمت ہے جو خدا نے بیٹے سے نوازا ہے
مہوش.ہاں خدا کا کرم ہے لیکن میرےخاوند بھی بہٹیوں کے بارے میں کوںی اچھی
رائے نہیں رکھتے.مجھےچوتھا مہینہ جل رہا ہے اور ہر روز مجھے چیک اپ کروانے
کا کہتے ہے کہ اگر بیٹی ہے تو حمل ضاںع کروا دو
مسکان.آپ کے خیال میں کون سا طریقہ ہے کہ ان کی سوچ بیٹیوں کے متعلق تبدیل
کی جاںے
مہوش.میرے خیال میں کوئی طریقہ نہیں ہے کیونکہ یہ سارا وقت باہر گزارتے اور
شام کو لوٹتے ہوئے بہت سی مثالیں اور بہت سے جواز لے کر آتے ہیں بیٹیوں کے
خلاف.پتا نہیں شہر مہیں وحشت کے یہ بادل نمودار ہوئے
مسکان.غربت,دین سے دوری,نفسہ نفسی کا عالم,بے راہروی,اخلاقی
زوال,بےروزگاری, ناانصافی,کرپشن,تعصب,نا اہل حکمران یہ سارے اسباب ہیں ہر
طرح کے زوال کے اور اس موت کا سب سےپہلا لقمہ بیٹیاں بنتی ہیں
مہوش.اگر کوںی بیٹی بج کر اس شہر آشوب میں جوان بھی ہو جاںے تو ہر وقت وہ
موت کی صلیب پر لٹکیر رہتی ہے کبھی شادی کی صلیب,کبھی جہالت کی صلیب,کبھی
غیرت کی صلیب,کبھی نشہ آور باپ کے نشے کی صلیب,کبھی ہوس کی صلیب ,کبھی
تہزیبی اور ثقافتی صلیب.
عابدبیگ.چلو بیگم کافی وقت ہو گیا ہے چلتے ہیں.
سین 3
صبح کا پر نور منظر کرنیں بکھیر رہا ہے اتنے میں گلی میں شور اور رونے کی
آوازیں گونجتی ہیں.عابد بیگ جلدی سے باہر بھاگتا ہے پیچھے سے اس کی بیوی
بھی.باہر لوگ جمع ہیں کہ اصغر کی اکلوتی بیٹی گھر سے پیسے اور زیورات
اٹھاکر اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گی ہے.عابد بیگ دوڑ کر اصغر کے پاس جاتا ہے
اصغر گھر کے ایک خاموش کونے میں ایسے بیٹھا ہے جیسے لاش کو سہارہ دے کر
بیٹھا دیا گیا ہو اصغر کی بیوی طراب اپنے سر میں مٹی ڈالے تازہ قبر کی طرح
نظر آرھی ہے
عابد بیگ.بیگم جلدی سے تیار ہو جاؤ کہیں جانا ہے وہ گھر سے اپنی بیوی کے
ساتھ سیدھا کلینک میں جاتا ہے ڈاکٹر سے گزارش کرتا ہے چیک کرنے کیلے کہ
بیٹا ہے یا بیٹی .ڈاکٹر چیک اپ کرتا ہے تھوڑی دیر کے بعد نرس رپورٹ لے کر
آتی ہے اور بڑے افسوس سے کہتی ہے بیٹی ہے
عابد بیگ اپنی بیوی سے کہتا ہے جیسے ہی بیٹی پیدہ ہو اسے مار دو ورنہ وہ
ہمیں مار دے گی مہوش خاموش رہتی ہے
مہوش.جب پیداںش کے دن قریب آتےہیں مہوش اپنے خاوند سے کہتی ہے یہ ظلم مت
کرو
عابدبیگ.تم یہ چاہتی ہو سلیم جو ہماری نسل کا وارث ہے ہماری شان ہے در در
کی ٹھوکریں کھاںے اور یہ بیٹی جاںداد میں حصہ لے کر کسی اور کو دے دے
مہوش.میں ماں ہوں میں یہ ظلم کیسے کر سکتی ہوں.قیامت تک لوگ مجھ پر لعنتیں
بھیجتے رہ گے کہ ایک ماں نے یہ کیا کیا
عابدبیگ.اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں یہ اعلان کر دو گا یہ میری بیٹی نہیں
ہے پتا نہیں کس کا پاپ ہے.مہوش کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے.وہ سوچنے
لگتی ہے اب کیا کروں
عابدبیگ.بیوی کو ہر روز پیٹتا ہے کہ بچی کے پیدہ کرنے کی ذمہ دار وہ ہے.کچھ
دنوں کے بعد جب بچی کی پیدائش ہو جاتی ہے تو اگلے دن رات کو عابد بیگ بچی
کے پاس آتا ہے بیگم پوچھتی ہے کیا کرنا چاہتے ہو
عابد بیگ کہتا کہ بچی کو مارنا چاھتا ہوں مہوش اس کے پاؤں پکڑ لیتی ہے ایسا
ظلم مت کرو مہوش کہتی صبح ہوتے ہی ہم بچی کو یتیم خانے کے گیٹ پر رکھ دیں
گے عابد بیگ اس تجویز پر راضی ہو جاتا ہے.مہوش پوری رات بچی کو گود میں لیے
روتی رہتی ہے اور سوچتی ہے اگر میں بچی کی خاطر اپنے شوہرکو چھوڑ دو تو
اچھا ہے لیکن پھر سوچتی ہے جب وہ الزام لگائے گا کہ یہ بچی میری نہیں ہے تو
بچی کا مستقبل کیا ہو گا کون اس سے شادی کرے گا
عابدبیگ.صبح ہوتے ہی میں سلیم کو چھوڑنے سکول جا رہا میرے آنے تک تیاری کر
لو
مہوش.بچی سو جاتی ہے مہوش بازار جاتی ہے یہ سوچ کر کہ بچی کو چھوڑتے ہوںے
کچھ کھلونے بچی کےپاس رکھ دونگی وہ کھلونوں کی دکان پر جا کر پوچھتی ہے
گڑیا ہے دکاندار کہتا ہے ہے ھمارے پاس صرف لڑکوں کے کھلونے ہیں بچیوں کے
نہیں وہ پو چھتی ہے کیوں دکاندار کہتا ہے بہن کوئی خریدتا ہی نہیں.وہ کافی
دکانیں گھومنے کے بعد گڑیا ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتی ہے واپسی پر بچی کو
نہلاتی نئے کپڑے پہناتی ہیے اتنے میں عابد بیگ باہر سے آواز دیتا ہے بچی لے
آؤ وہ یتیم خانے کی طرف نکلتے ہیں
راستے میں ایدھی سنثر کے پنگھوڑے نظر آتے ہیں وہ بچی کو پنگھوڑے میں ڈال
دیتےھیں
سین4
عابدبیگ.بیگم اب رونا بند کر و اور یہ اخبار پہ دیکھو کیا لکھا ہے
مہوش.دوڑتی ہوئی آتی ہے کہ شاید اس کی بیٹی کی کوئی خبر ہو لیکن وہ اخبار
پڑھ کر اور بھی دکھی ہو جاتی ہے اخبار میں لکھا ہے ایک نئی نویلی دلہن اپنے
خاوند کو مار کر اپنے عاشق کے ساتھ فرار.
عابد بیگ.بیگم غم نہ کرو اب ہماری تو کوئ بیٹی نہیں ہے
ایدھی سنٹر والوں نے اس بچی کا نام زینب رکھا جب زینب تھوڑی بڑی ہوئ اور
اپنے جیسی سہلیوں کے ساتھ کھیلنے لگی تو اچانک ایک دن زور سے رونے لگی باقی
بچیاں بھی رونے لگیں کسی نے کسی سے رونے کی وجہ نہیں پوچھی کیونکہ سب کا غم
ایک ہی ہے
یاسمین.جو نرس ہے بچیوں کو روتے دیکھ کر آتی ہے اور بچیوں سے کہتی میں آپ
سے یہ بھی نہیں کہتی میں آپ لوگوں کا غم شریک کرو کیونکہ آپ کا غم توتو
اتنا بڑا ہے اگر پہاڑ بھی ہوتے تو ریزہ ریزہ ہو جاتے وہ بچیوں کو کمرے میں
لے کر جاتی ہے
زینب.باقی سب بچیوں سے کہتی ہے ماں باپ اور اولاد کا رشتہ تو ایسے جیسے جسم
اور روح کا.پھول اور خوشبو کا,سورج اور روشنی کا.بدن اور سانسوں کا پھر یہ
کیسے ہو سکتا ہے والدین اپنے بچوں کو الگ کر کے زندہ رہیں
عذرا.ایک بچی بولتی ہے شاںد وہ بہت زیادہ مجبور ہوں ورنہ والدین بچوں کے
ساتھ ایسا نہیں کرتے
زینب.میں نہیں سمجھتی کہ ایسی بات ہے والدین تو بچوں کی خاطر خودمجبوری کی
آگ میں سلگتے رہتےہیں لییکن کبھی بچوں کو آنچ نہیں آنے دیتے
عذرا.ہمیں اپنے والدین کیلے دعا کرنی چاھیے وہ جہاں بھی ہوں خوش رھیں
زینب.ایک دکھ ہمیشہ آتش بن کر جلاتا رھے گا آخر کیوں والدین بچوں کے ساتھ
ایسا کرتے ھیں.اس ملک میں مسلمان بستے ہیں اور ہمارےآقا نے تو فرمایا ہےجس
نے بچیوں کی صیح تعلیم و تربیت کی وہ جنت میں میرے اتنا قریب ہو گا جیسے یہ
دو انگلیاں
یاسمین.کمرے کی لائٹ اون دیکھتی ہے آکر لائٹ آف کرتی ہےاور بچیوں کو سونے
کیلے کہتی ہے.جاتے ہوئے دعا کرتی ہے اے خدا یا ان بچیوں کو پیدہ نا کرتا یا
ان کےوالدین کے دل میں ان کیلیے رحم ڈال دیتا
زینب.لیٹے لیٹے سوچتی رہتی ہے آخر کیوں والدین صرف بچیوں کے ساتھ ایسا کرتے
ہیں.اس سے تو اچھا ہوتا وہ پیدہ ہوتے ہی زہر دے کر مار دیتے اس پل پل کے
مرنے سے تو اچھا تھا.پھر اچانک والدین کیلے دعائیں کرنے لگتی ہے سسکیوں کی
آوازیں کمرے میں گونجنے لگتی ھیں باقی بچیاں زینب کو چپ کرانے
آتی ہیں جیسے وہ بھی سوںی نہیں تھیں
سین 5
عابد بیگ اور مہوش اپنے بیٹے کے بارے میں پریشان ہیں جس نے عہد شباب کی
سیڑھیاں چڑھتے ہی اپنے والدین کو گرانا شروع کر دیا.مہوش کپکپاتے ہوئے
ہونٹوں کے ساتھ کہتی ہے رات کافی ہو گئ ہے سلیم ابھی تک نہیں آیا.اتنےمیں
سلیم شراب سے شرابور لڑکھڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوتا ہے.دونوں دوڑتے ہوئے
سلیم کو تھامتے ہیں لیکن وہ غصے سے اپنا دامن چھڑوا کر کمرے میں داخل ہو
جاتا ہے
عابد بیگ.میں نے سب کچھ بڑی محنت سے کمایا ہےجسے تم شراب میں بہا رہے ہو
سلیم.آپ کا سارا کچھ اب میرا ہے میری مرضی میں جیسے چاہو استعمال کروں تم
کون ہو مجھ سے پوچھنے والے
مہوش.ہم تمہارے والدین ہیں .اتنے میں سلیم بھڑک اٹھتا ہے وہ دونوں کو دھکے
مار کر گھر سے باہر نکال دیتا ہے
بڑھاپے اور بیٹے کے ظلم کا بوجھ لیے وہ گھر سے ایسے رخصت ہوتے ہیں جیسے خشک
پتے خزاں میں شجر سے بچھڑتے ہیں
عابد بیگ.اس سردی کی شدت کو ہمارا بڑھاپا نہیں سنبھال سکے گا بیگم کسی گھر
دستک دو رات کے دو پل گزارنے کیلیے
مہوش.جو بچیوں کو گھروں سے نکالیں انہیں گھر میں رکنے کی اجازت کوئی نہیں
دیتا
عابدبیگ.ٹھیک کہتی ہو ہم نے بچی کو گھر سے اس وقت نکالا جب اس ناتواں کو
ہماری ضرورت تھی اور ہمارے بیٹے نے ہمیں گھر سے تب نکالا جب جب ہمارے کمزور
جسموں کو اسکی ضرورت تھی
سخت سردی میں عابد بیگ سے چلا نہیں جاتا وہ بیگم سے کہتا ہے کسی سہارے کی
اوٹ لے کربیٹھ جائیں بیگم ٹھنڈی ہوا نے بھی بیٹے کا مزاج اختیار کیا ہوا ہے
وہ ایک دیوار کی اوٹ لیکر بیٹھ جاتے ہیں عابد بیگ کہتا ہے بیٹھنے سے بھی
کوئی فرق نہیں پڑا اگر لیٹ جائیں تو شاید کچھ فرق پڑ جائے وہ لیٹ جاتے ہیں
اتنے میں گاڑی میں سوار ایک لڑکی کا گزرہوتا ہے وہاں سے لڑکی گاڑی روک کر
کمبل نکالتی ہے اور ان کے اوپر ڈال دیتی ہے اتنے میں عابد بیگ لڑکی کی طرف
دیکھتا ہے اور کہتا ہے بیٹی کمبل واپس لے جاؤ میں لڑکیوں کی کسی بھلائی کا
مستحق نہیں ہوں لڑکی کہتی آپ تو میرے باپ کی طرح ہیں وہ کہتا ہے نہیں بیٹی
اپنے لفظ واپس لوخدا نہ کرے کہ دنیا کا کوئی باپ میرے جیسا ہو.وہ لڑکی چلی
جاتی ہے عابدبیگ بیگم سے کہتا ہے تم کمبل کر لو میں اس قابل نہیں کہ بیٹی
کی چیز استعمال کرو
وہ دونوں سو جاتے ہیں سلیم رات کے آخری پہر باہر نکلتا ہے اور تیز رفتاری
میں اپنے باپ کی ٹانگوں کوکچلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے مہوش عابد بیگ کو
سنبھالتی ہے عابد بیگ چلا کر کہتا ہے چھوڑ دو بیگم یہ کسی بیٹے کا ہی کام
ہو سکتا ہے.مہوش کہتی ہے تھوڑی دیر بعد صبح ہو جائے گی پھر کسی ڈاکٹر کے
پاس چلتے ہیں.جب صبح ہوتی ہے بچے بیگ لٹکائے سکول کی طرف جا رہے ہوتے ایک
بچی کی نظر ان کی طرف پڑھتی ہے وہ اپنے بیگ سے اپنا کھانا نکالتی ہے اور
انکے پاس رکھ کر آگے چلی جاتی ہے عابد بیگ چلا کر کہتا ہے بیگم یہ کھانا
مجھے کھانے کیلیے نہ کہنا ورنہ میں شرم کا مارا زمین میں دھنس جاؤں گا.مہوش
روڑ سےگزرتے ہر گاڑی والے,ریڑھی والے,رکشے والے سے التجا کرتی کرتی لیکن
کوئ بھی عابد بیگ کو کلینک لے جانے کیلے تیار نہیں ہوتا اتنے میں ایک لڑکی
گاڑی روکتی ہے وہ انکو ایدھی کے کلینک میں ڈراپ کر دیتی ہے عابدبیگ اس کو
دعا دیتا ہے خدا تمھارے اوپر رحمدل باپ کا سایہ رکھے
سین6
ایدھی سنٹر میں تمام لڑکیاں آپس میں مشورہ کرتی ہیں کہ انسانیت کی بھلائ
کیلے کیا کرنا چاہے کافی بحث کے بعد زینب بولتی ہے کہ ہمیں ہسپتالوں میں جا
کر مریضوں کی تیمارداری کرنی چاھیے
زینب.سوچتی ہے ہو سکتا ہے ان میں کوئ اپنا بھی ہو.زینب اور کچھ باقی لڑکیاں
ایک قریبی کلینک میں جا کرمریضوں کی تیمارداری شروع کر دیتی ہیں.اتنے میں
ایک بزرگ درد سے کراہتا ہے زینب دوڑ کر اس کے پاس جاتی ہے.بزرگ کے پاس
بیٹھتی ہے اس کے پاؤں دباتی ہے کبھی سر دباتی ہے.بزرگ سکون محسوس کرتا ہے
اور سو جاتا ہے.مہوش زینب کو دعا دیتی ہے آپ نے ایک بے سہارا بوڑھے کو آرام
دیا ھے خدا آپ کے والدین کو آرام دے گا.زینب روتے روتے کمرے سے باہر چلی
جاتی ہے
زینب.اگلے روز تمام لڑکیوں کو صبح سویرے ہی کلینک میں جانے کیلے تیار کرتی
ہے زینب لڑکیوں کو بتاتی ہے کہ بزرگ کے پاؤں دباتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا
جیسا کہ وہ اپنے ہی باپ کے پاؤں دبا رھی ہو
بزرگ.بیٹی اب میں ٹھیک ہو گیا ہو خدا تمہیں خوش رکھے.
زینب.چلو میں آپ کو گھر چھوڑ دیتی ہوں مہوش کہتی ہے بیٹی ہمارا کوئ گھر
نہیں ہے
عابد بیگ.جو لوگ سر سے آسمان اٹھا دیتے ھیں خدا ان کے پاؤں سے زمین کھینچ
لیتا ہے
زینب.کہتی ہے آپ میرے ساتھ چلو میرے گھر
عابد بیگ.بیٹی ھم پہ اور احسان نہ کرو ہمیں ہمارے کیے کی سلگتی آگ میں جلنے
دو
زینپ.ان کو لے کر ایدھی سنٹر میں داخل ہوتی ہے مہوش اسی پنگھوڑے کے پاس رک
جاتی ہے جہاں کافی سال پہلے اس نے اپنی بیٹی کو چھوڑا تھا وہ ایک ملازمہ سے
پوچھتی ہے اس پنگھوڑے میں کافی سال پہلے ایک بچی کو چھوڑا تھا ان بچیوں میں
وہ کون سی ہے میں نے بچی چھوڑتے وقت اس کے پاس ایک
ایک گڑیا بھی رکھی تھی.ملازمہ کہتی ہے یہاں پر ایک بچی ایسی ہے جس نے گڑیا
کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ شاید یہ اس کے والدین کی نشانی ہے
مہوش.کہاں ہے وہ بچی
ملازمہ.کمرہ نمبر بارہ زینب نام ہے اس کا.وہ کمرہ نمبر بارہ میں جاتی ہے
زینب بزرگ کے پاؤں دبا رھی ہوتی ہے وہ مہوش کو بٹھاتی ھے اور کھانالینے
باہر چلی جاتی ہے
مہوش.سجی ہوئی گڑیا اٹھاتی ہے اور رونےلگتی ہے عابد بیگ پوچھتا ہے بیگم
کیوں روتی ہو مہوش کہتی ہے زینب وہ بچی ہے جسے ہم نے پنگھوڑے میں چھوڑا تھا
عابد بیگ چارپائ سے نیچے گرتا ہے اور اپنی بیگم کا بازو پکڑ کر باھر دوڑتا
ہے
مہوش.دوڑتے ہوئے عابد بیگ سے کہتی کہ ہم اپنی بچی سے معافی مانگ لیتے ہے
عابد بیگ کہتا ہے نہیں بیگم ہمارا جرم ناقابل معافی ہے
مہوش.ہمیں زہر کھا کر خود کشی کر لینی چاہیے اب اور گناہ کا بوجھ اٹھا کر
نہیں جیا جاتا
عابد بیگ.اتنی آسان موت ہرگز نہیں بیگم ہم اپنے آپ کو ایسی موت دیں گےکہ
زمین پر ہمارہ نشان قبر کی
کی صورت بھی نا رھے.ھم ریلوے ٹریک پر چلتے ہیں ٹرین ھماریے جسم کو ریزہ
ریزہ کر دے گی اور اگر
کچھ بچا تو چیل کوے کھا جائیں گے.وہ شہر سے دور ریلوے ٹریک پر ٹرین آنے کا
انتظار کر رھے ہیں جیسے ہی ٹرین کی آواز آئ وہ جلدی سے ٹریک پر لیٹے اور
تھوڑی ہی دیر میں زندگی کی صلیبیں توڑ کر ریزہ ریزہ ہو گے لیکن زینب صلیبوں
کا کفن لپیٹے آج بھی والدین کیلے تڑپ رھی ھے- |