مغل صاحب پھر دوبارہ سے 20,20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ شروع
ہوگئی ہے پھر کوئی احتجاج کرو تاکہ بجلی کی صورت حال دوبارہ سے بہتر ہوسکے۔
کیونکہ واپڈا اور حکومت ڈنڈے کی یارہے یہ ویسے بجلی نہیں دے گی۔ اس قسم کے
ملتے جلتے خیالات کا اظہار میرے چھ سات جاننے والوں نے آج کل میں کیا۔
کیونکہ پچھلے دنوں ہمارے علاقے میں لوڈشیڈنگ کا عذاب حد سے تجاوز کرگیا تھا
اور بہتری کی کوئی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی تھی تو سکولوں کے چند
پرنسپلز دوستوں نے پروگرام بنایا کہ طلبا و طالبات تو ویسے بھی سکولوں میں
گرمی میں بے حال ہیں کیوں نہ ان کو سڑکوں پہ لایا جائے اور حکومت ،ارباب
اختیار اور واپڈا کی غیرت کو جگایا جائے شاید کوئی امید کی کرن سجھائی دے
جائے۔ اس سلسلے میں سکولز کے پرنسپلز نے ایک میٹنگ کال کی اور دوسرے دن
تقریبا 60 سکولوں کے 2 سے ڈھائی ہزار طلبا نے شہر کے معروف چوک بخاری چوک
میں دھرنا دیا اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس احتجاج کے سرکردہ لوگوں میں
محمود الحسن عباسی، قیصر علی رانا، راقم الحروف بندہ ناچیز، نواب عرفان
احمد، سلیم خالد، چوہدری اسلام، عتیق الرحمن غوری اوررانا خالد نے اس
احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کامیاب کرایا اور میں سمجھتا ہوں کہ بلا
مبالغہ یہ ملکی تاریخ کا بہت ہی منفرد اور بڑا احتجاج تھا کیونکہ پاکستانی
تاریخ تو ویسے بھی احتجاجوںسے بھری پڑی ہے اور طلبا بھی مختلف اندازمیں
احتجاج ریکارڈ کراتے رہے ہیں لیکن کہروڑپکا میں ہونے والا احتجاج اس نوعیت
سے مختلف تھا کہ اس میں کلاس دوم سے ہفتم تک کے طلبا نے یعنی پرائمری سکول
کے طلبا نے بھرپور حصہ لیااور اپنی مادر علمی کو چھوڑ کر اپنی کتابیں اور
قلم بند کرکے روڈز پر آکر بیٹھ گئے۔ وہ نونہالان قوم جنہوں نے مستقبل کا
معمار بننا ہے 4 سے پانچ گھنٹے چلچلاتی دھوپ میں اپنی بدقسمتی کا رونا روتے
رہے لیکن بے حس و بے شرم حکمرانوں کے کانوں پر کوئی جوں نہ رینگی اور آخر
کار جب مظاہرین اپنی تقاریر ختم کر چکے تو ایکسیئن واپڈا نے رابطہ کیا اور
احتجاج ختم کرنے کی درخواست کی اور یقین دہانی کرائی تو کرمی کے ستائے اور
اپنی قسمت سے گھبرائے بچے اپنے اپنے سکولوں کو مایوس لوٹ گئے کہ شہر بے
حساں میں کوئی درد آشنا نہیں ہے۔
بہرحال اس احتجاج کے بعد تقریبا15 سے 20 دن بجلی کی صورت بہتر رہی اور پھر
واپس اپنی ڈگر پر آنے لگی تو ملنے اور جاننے والوں نے یہ کہنا شروع کردیا
کہ مغل صاحب، رانا صاحب عباسی صاحب سلیم بھائی یہ بجلی تو پھر سے اپنی
اوقات پر آرہی ہے تو میں نے ان کو کہا کہ جس قوم کے لوگ اور نوجوان جب
دوسروںپر توکل کرنے لگ جائیں۔ دوسروں کے کندھوں پر بھروسہ کرنا شروع کردیں
اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے دسروں کو ان کے فرائض یاد کرائیں لیکن اپنے
فرائض اور ذمیہ کام خود نہ کریںتو ان پر ایسے ہی حکمران مسلط کر دیئے جاتے
ہیں جو خود دوسروں کی ہڈی پر نظر رکھتے ہیں جن کے اپنے پاس کرنے کو کوئی
کام نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کی محنت و قیمت پر اپنی دکانداری چمکانے کی کوشش
کرتے ہیں پھر یہی ہوتا ہے کہ نکمے اور نا اہل حکمران دوسرے ملکوں کے
حکمرانوں کے مرہون منت نظر آتے ہیں ان کے ممنون احسان دکھائی دیتے ہیں ان
کے جائز و ناجائز احکامات کی پاسداری پر اپنا سر خم تسلیم کرتے ہوئے اپنے
ملک کا وطن عزیز کا بے لوث عوام کا اس حدتک نقصان کرتے ہیں کہ جس کی تلافی
صدیوں میں ممکن نہیں ہوتی -
میں نے ان دوستوں کو سمجھایا کہ بھائیو اب بھی جاگ جاﺅ ،خواب غفلت سے بیدار
ہوجاﺅ، گھوڑے بیچ کر سونا بند کردو اپنی کھیتوں اور کھلیانوں کی خبر لو
ایسا نہ ہو کہ چڑیاں بچا کچھا کھیت بھی چگ جائیں اور پھر صرف کف افسوس ملنے
کے کوئی چارہ نہ ہو۔اپنے علاقے کے نام نہاد حکمرانوں اور ٹھیکیداروں کو
جھنجھوڑو انہیں ان کی ذمہ دارویں کا احساس دلاﺅ انہیں بتاﺅ کہ تم ہمارے
ووٹوں کی پیداوار ہو۔ ہمارے منتخب کئے ہوئے نمائندے ہو۔ ہماری اور ہمارے
علاقے کی نمائندگی کرو اس کی فلاح و بہبود کیلئے اپنے محلوں اور کوٹھیوں سے
نکلو۔انہیں باور کرایا کہ خود پہلا قطرہ بننے کی کوشش کرو نہ کہ پہلے قطرے
کا انتظار کرو۔ ان ننھے ننھے معصوم بچوں کو دیکھ کر ہی سبق حاصل کرو کہ وہ
بچے وہ طالب علم جنہیںسکول کی زینت بننا تھا جنہیں پرسکون ماحول میں پڑھنا
تھا،پلنا تھا بڑھنا تھا آج اپنی کم سنی اور مم عمری میں ہی اپنے حقوق
بنیادی اور جائز حقوق حاصل کرنے کیلئے سڑکوں پر بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے
حکومت اور حکمران مخالف نعروں کے جواب دے رہے ہیں۔ نہایت ہی شرم اور ڈوب
مرنے کا مقام ہے کہ ان بنیادی حقوق کی خاطر جن کو مہیا کرنا حکومت کی اولین
ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے اس ملک میں روٹی کپڑا اور مکان دینے کی باتیں کرنے
والے کھوکھلے نعرے لگانے والے جانے کیا ہوئے۔لوڈشیڈنگ کے گھمبیر اندھیرے
انہیں نگل گئے مہنگائی کا عفریت انہیں کھا گیا کیا ہوئے کہاں گئے۔
اے مرے شہر کے باسیو! خدارا اب تو جاگ جاﺅ کہ تمہارے اس علاقے کو اس ڈسٹرکٹ
کو اس کے گردونواح کو پستی میں ڈبونے کی قسم کھائی گئی ہے۔ حکمران اور
ارباب اختیار شہر کہروڑپکا اور ڈسٹرکٹ لودہراں میں ترقی اور خوشحالی نہیں
دیکھ سکتے ہیں ان علاقوں کی ترقی ان کی آنکھوں میں کنکر کی طرح کھٹکتی ہے
کیونکہ استطاعت و طاقت اور اقتدار رکھنے کے باوجود اس شہر کی مایوسیوں کی
کبھی بھی ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسے مایوسیوں کے اندھیروں میں
دھکیلا جاتا رہا ہے وہ تعلیم کا شعبہ ہو کہ صحت کا ۔کھیل کا میدان ہو کہ
ترقی کا زینہ ہر جگہ حکمرانوں کی غفلت بے اعتنائی اور لاپرواہی نے اسے
پستیوں میں دھکیل دیا ہے ۔اٹھو لوگو اٹھو کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
غفلتوں میںگھری قوم اٹھ تو سہی
اٹھ کہ تیرا مقدر بدلنے کو ہے
اٹھ گرادے فصیلیں ہر اک ظلم کی
دیکھ اس پار سورج نکلنے کو ہے
اس شعر کو پڑھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے اور سمجھ آنے کے بعد مقدر کی تبدیلی
کو کوئی نہیں روک سکتا اس پر صرف اور صرف عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ورنہ
ایسا نہ ہو کہ بقول دوست کے آپ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں ” کہ بڑے برے
پھنسے رے پاکستان میں آکے“ یہ جملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے- |