لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری حسن
نصر اللہ نے چند روز قبل ایرانی مرشد اعلیٰ علی خامنہ ای سے خفیہ طور پر
ملاقات کی ہے۔ ملاقات شام میں لبنان اور حزب اللہ کی مشترکہ دفاعی پالیسی
پر عملدرآمد کا حصہ تھی، جس کے تحت ایران، شام میں اپوزیشن حملوں کا دفاع
کرنے میں مدد کی بجائے اب جارحانہ پالیسی کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ کویت سے
شائع ہونے والے عرب روزنامے ”الرائے“ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے اپنی
حالیہ اشاعت میں دعویٰ کیا ہے کہ حسن نصر اللہ نے پاسداران انقلاب کے القدس
بریگیڈ کے سربراہ قاسم سلیمان سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات میں دونوں رہنماﺅں
نے جن امور پر بات کی انہیں بہ قول ”الرائے“ اخبار خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ یہ
خفیہ ملاقاتیں اور مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں کہ جب شامی اپوزیشن کے
لیے عرب اور مغربی دنیا کی حمایت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور دمشق کے
حلیف ممالک بالخصوص ایران اور لبنان اس بڑھتی ہوئی امداد سے سخت پریشان ہیں۔
”الرائے“ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے ایران کی ان کوششوں کی جانب اشارہ کیا
ہے، جو تہران اور دمشق کے درمیان طے پائے جانے والے مشترکہ دفاعی معاہدے کو
عمل میں لانے کے سلسلے میں کی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر اگر مغربی دنیا شامی
اپوزیشن پر مشتمل جیش الحر کی مدد میں مزید آگے بڑھتا ہے تو بہ قول اخبار
ایران یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو گا کہ شامی اپوزیشن مغربی ایجنڈے کو نافذ
کر رہی ہے۔اخبار کے مطابق ملاقات میں زیادہ وقت شامی صورتحال پر تبادلہ میں
صرف کیا گیا۔ گفتگو کا محور ایران کی جانب سے زمینی حقائق کو تبدیل کرنے پر
رہا، اس مقصد کے لیے مندرجہ ذیل اقدام اٹھانے پر بھی غور کیا گیا جن میں
نمایاں یہ ہیں:
1۔بشار الاسد کی سرکاری فوج کو ملکی دفاع میں مدد فراہمی کے لیے عراقی
کوارڈی نیشن کے بعد ہزاروں جنگجو شام میں داخل کیے جائیں۔
2۔ دفاعی حکمت عملی کو جارحانہ اقدامات سے تبدیل کیا جائے۔
3۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر دینی مقامات کو مہندم کرنے کی مہم کے بعد
شام میں ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
4۔ شام کا تحفظ، اسرائیل کے خلاف جنگ کا مقدمہ سمجھا جائے۔
حسن نصر اللہ اور علی خامنہ ای کے درمیان ہونے والی مبینہ خفیہ ملاقات پر
تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی امور کے ماہر نجاح محمد علی کا کہنا تھا کہ حزب
اللہ کے جنرل سیکرٹری اور ایرانی عہدیداروں کے درمیان ملاقاتیں نہ تو نئی
ہیں اور نہ کبھی ان میں توقف آیا۔ درمیانی رابطہ کاروں کے ذریعے ہونے والی
یہ ملاقاتیں معمول کی بات ہیں۔نجاح محمد علی کے مطابق القدس بریگیڈ کے
سربراہ قاسم سلیمانی اب بھی شام میں موجود ہیں، وہاں سے لبنان اور شام آنا
جانا آسان ہے۔ ایران اور حزب اللہ شامی حکومت کو زمینی فوج کے علاوہ ہر طرح
مدد فراہم کر رہے ہیں کیونکہ تہران اپنی لڑائی دوسروں کے کندھے پر بندوق
رکھ کر لڑنے کا عادی ہے۔ ایران، بشار الاسد کی حکومت 2014ءتک ہر قیمت پر
برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
سعودی روزنامے الوطن میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق لبنانی تنظیم حزب
اللہ کے بارہ سو کے لگ بھگ جنگجو شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں
انقلابیوں سے لڑنے کے لیے گزشتہ چند روز کے دوران آبی راستوں کے ذریعے شام
پہنچے ہیں۔ سعودی روزنامے الوطن میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق حزب اللہ
کے قریباً بارہ سو جنگجو شام کی بندرگاہ طرطوس پہنچے۔اس کے علاوہ عراق سے
بھی اسد حکومت کی وفادار سیکورٹی فورسز کی مدد کے لیے جنگجو شامی علاقے میں
داخل ہوئے ہیں۔ اخبار کے مطابق شام کے ریزرو فوجی آرمی کمان کی جانب سے
انقلابی جنگجووں کے خلاف لڑائی کے لیے احکامات کو مسلسل نظرانداز کرتے چلے
آرہے ہیں جبکہ شامی فوج کو اس وقت باغیوں کے مقابلے میں ہزیمت کا سامنا ہے۔
گزشتہ دنوں امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے ایران پر شام میں حکومت نواز
ملیشیا تشکیل دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے خبر دار کیا تھا کہ تہران کے
بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے زمینی صورتحال مزید خراب ہو گی۔ پینیٹا نے چیئرمین
جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں
کہا تھا کہ بلاشبہ ایران شام میں کئی لحاظ سے اہم کردارادا کررہا ہے۔ اب اس
بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ ایران، شام کے اندر ایک ملیشیا قائم کرنے کے
علاوہ اسے تربیت دینے کی کوشش کررہا ہے ،تاکہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر
انقلابیوں سے لڑنے کے قابل ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ وہ شام میں ایران کے
اثرورسوخ میں اضافہ دیکھ رہے ہیں جو کہ ان کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔
ایران کو اس مرحلے پر ایسا کردارادا نہیں کرناچاہیے جو خطرناک ثابت ہو اور
جس سے شام میں پہلے سے جاری قتل عام میں مزید اضافہ ہو۔امریکی وزیر دفاع نے
تہران پر زوردیا کہ وہ تنازعہ معاملات سے دور رہے اور امید کا اظہار کیا کہ
ایران اس معاملے پر مثبت انداز میں غور کرے گا۔انہوں نے مزید کہاکہ صرف
شامی عوام ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں ، ایران نہیں۔جنرل ڈیمپسی
کاکہنا تھا کہ ظاہری طور پر حکومت نواز ملیشیا کے زیادہ تر ارکان ایک مخصوص
فرقہ سے ہیں۔اس فورس کا عراق میں مقتدر صدر کی مہدی آرمی سے موازانہ بھی
کیا ۔شام سنی اکثریتی ملک ہے تاہم اس پر اقلیت کی حکمرانی ہے۔چند روز قبل
مصر کے صدرمحمد مرسی نے بھی شام میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے تاکید کی کہ مصر شام میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت کی مخالفت کرتا
ہے اور پرامن راہ کا مشورہ دیتا ہے۔اس کے علاوہ مصری صدر نے شام کے مسئلے
کے بارے میں ایران، ترکی، مصر اور سعودی عرب پر مشتمل ممالک پر مبنی گروہ
کی موثر میٹنگ پر بھی تاکید کی۔ حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ نے
اکتوبر 2012ءمیں خود یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کی جماعت کے جنگجو شامی
انقلابیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ حزب اللہ کے نائب سیکرٹری جنرل نعیم قاسم کا
یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ حزب اللہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شام
میں رہائش پذیر لبنانی شہریوں کو تربیت اور اسلحہ دے ۔
گزشتہ دنوں برطانوی اخبار ٹائمز نے شام میں حزب اللہ کے 1500 جنگجوؤں کی
موجودگی کی تصدیق بھی کی تھی۔ اخبار نے اتنی ہی تعداد میں ایرانیوں کی
موجودگی کی تصدیق کی تھی جس کا تعلق پاسداران انقلاب سے بتایا جاتا ہے۔
ٹائمز اخبار نے شامی ایئرفورس سے منحرف ہونے والے ایک سابق عہدیدار کے
حوالے سے یہ بیان بھی جاری کیا تھا کہ حزب اللہ کے ارکان شام کی سرکاری فوج
کو لاجسٹک امداد کے علاوہ افرادی قوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ نیز وہ فوج میں
شامل شوٹرز کو پیشہ ورانہ تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے ارکان
سرکاری فوج میں شامل کرائے کے قاتلوں کو گینگ وار کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔
حزب اللہ اپنے بشار الاسد کی حامی فوج کو افرادی قوت سے لے کر جنگی ساز و
سامان تک پہنچا رہی ہے۔سیرین یوتھ الائنس کے صدر وحید صقر نے بھی اپنے ایک
بیان میں کہا تھا کہ ان کے پاس اس دعوے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ حزب اللہ
شام میں مظاہرین کے قتل عام میں براہ راست ملوث ہے۔ |