مکافات عمل ،باز گشت

ایک لڑکا اپنے والدکے ہمراہ پہاڑوں پرجا رہا تھا اچانک وہ لڑکا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گر پڑا اْسے چوٹ لگی تو بے ساختہ اْس کے حلق سے چیخ نکل گئی! ’’آہ اْس لڑکے کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اْسے پہاڑوں کے درمیان کسی اور جگہ سے یہی آواز دوبارہ سنائی دی ’’آہ… تجسس سے وہ چیخا اور کہا ’’تم کون ہو؟ اْسے جواب میں وہی آواز سنائی دی ’’تم کون ہو؟‘‘ اس جواب پر اْسے غصہ آگیا اور وہ چیختے ہوئے بولا، ’’بزدل!‘‘ اْسے جواب ملا ’’بزدل!‘ تب لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟اْس کا باپ مسکرا دیا اور بولا ’’میرے بیٹے! اب دھیان سے سنو!‘اور پھر باپ نے پہاڑوں کی سمت دیکھتے ہوئے صدا لگائی ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں‘ آواز نے جواب دیا ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں‘‘ وہ شخص دوبارہ چیخ کر بولا ’’تم اچھے ہو!‘‘ آواز نے جواب دیا ’’تم اچھے ہو!‘‘ لڑکا حیران رہ گیا، لیکن اْس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تب اْس کے باپ نے اْسے سمجھایا ’’لوگ اِسے’’بازگشت‘‘ کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ زندگی ہے یہ تمھیں ہر وہ چیز لوٹا دیتی ہے جو تم کہتے یا کرتے ہو ہماری زندگی ہماری کارکردگی کا عکس ہوتی ہے اگر تم دنیا میں زیادہ پیار چاہتے ہو تو اپنے دل میں زیادہ پیار پیدا کرو اگر تم اپنی ٹیم میں زیادہ استعداد چاہتے ہو تو اپنی استعداد بہتر بناؤ اگر اپنے لئے ہمدردی چاہتے ہو تو دوسروں کے لئے ہمدردی پیدا کرو اگر اپنے لئے اچھا چاہتے ہو تو دوسروں کے لئے اچھا کرو یہ تعلق ہر وہ شے لوٹا دیتا ہے جو تم نے اْسے دی ہوتی ہے تمھاری زندگی کوئی اتفاق نہیں، یہ تمھارا ہی عکس ہے(ماخوذ)

اس کہانی کے بیان کرنے کامیرا بڑا مقصد یہ ہے کہ اس میں ہمارے سیاست دانوں کے لئے ایک سبق چھپا ہوا ہے جس کے مطابق جو بھی ہم دوسرے لوگوں کو ڈیلور کرتے ہیں وہ وقت کی رو میں بہتے بہتے ہمارے ہی سامنے آکر کھڑا ہو جاتا ہے جس کو آپ مکافات عمل یاباز گشت کہہ سکتے ہیں-

بنیادی طور پر پاکستان کا سیاسی سسٹم موروثی ہے اس لئے ہمارے سیاست دان سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نہیں تو ہمارا ہی کوئی بیٹا اور رشتہ دار اگلی بار اسمبلی کا رکن ہو گا اور شاید اسی سوچ کو اپناتے ہوئے کسی اور کے لئے جگہ خالی کرنا یا دوسرے الفاظ میں ریٹائرڈ ہونانہیں چاہتے پھر ایک وقت آتا ہے جس کو( مکافات عمل )کہتے ہیں اس کے قاعدے اور قانون کی رو سے جب ایسے سیاست دان اپنی سیاسی زندگی پوری کر چکے ہوتے ہیں تو ان کا وہ ضمیر جو ان کے اقتدار کے دوران مردہ ہو جاتا ہے وہ بیدار ہو جاتا ہے اور ان کو اتنا ملامت کرتا ہے کہ ان کے لیے زندہ رہنا ناصرف مشکل ہو تا ہے بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے تب ان کی باتیں بہت خوبصورت ہو جاتی ہیں اور ان میں پنہاں بہت سی نصیحتیں قابل قدر ہوتی ہیں میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس وقت ان کی جو باتیں ہوتی ہیں اگر وہی باتیں ان کی حکمرانی کے وقت ہوتی تو پاکستان اور اس کے عوام کی زندگی ترقی یافتہ ممالک سے بھی بڑھ کر ہوتی ان لوگوں کو آخر کیونکر اس وقت خیال آتا ہے جب وہ اپنا ٹائم پورا کر چکے ہوتے ہیں جس وقت ان حکمرانوں کے پاس سب کچھ تھا وہ عوام کو ڈیلور کر سکتے تھے ان کو آسانیاں دے سکتے تھے لیکن نہیں دیں اور اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے اور مال و دولت جمع کرتے رہے اوریہ لوگ اتنے آگے نکل گئے اور یہ بھول گئے کہ واپسی کا راستہ کہاں ہے اور کہیں نہ کہیں سے واپس ہونا ہے اس وقت جب وہ اقتدارمیں تھے ان کو عوام کی یاد نہ آئی اور جب انھوں نے دیکھا کہ اب اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے تو انھوں نے عوام کونئے خواب دیکھانے شروع کر دیے اور عوام کو ایک نئی کشمکش میں ڈال دیا عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گے کہ ان کو آخر اپنے آخری دنوں میں ہی یہ سب کچھ کیوں یاد آیا بلکل اسی طرھ جس طرح پچھلے دور میں محمد علی درانی( اطلاعات کے وزیر) کا طوطی بولتا تھا وہ جو بھی کہتے تھے جنرل مشرف کی امین ہوتی تھی جب ان سے ان کا تحت و تاج چھن گیا تو انھیں بھی بہاولپور صوبہ بڑی شدت سے یاد آیا اور اس کے لیے میدان میں اتر آئے یہ سوچ کر کہ اگر ہم کامیاب ہو ہی گئے تو ان نئے متوقع صوبوں کی حکمرانی ہمارے پاس ہے کیونکہ عوام کی نظر میں وہ اس نئے صوبے کے سب سے بڑے حمایتی سمجھے جائیں گے لیکن اب عوام بھی اتنے بھولے نہیں ہیں کہ اپنے آزمائے ہوئے لوگوں کو اپنے سروں پر بٹھا لیں اس بات کا فیصلہ آنے والے الیکشن میں بخوبی دیکھنے کو ملے گا عوام کی بھلائی میں ہی حکمرانوں کی بھلائی ہوتی ہے اور جو اس بات کو نہیں سمجھ سکتا اس کا انجام ان بیشمار سیاست دانوں سے مختلف نہیں ہوتا جو زندہ تھے تو کسی انسان کی جرات نہیں تھی کہ ان کے سامنے بات کرئے لیکن آج ان جیسے لوگوں سے قبرستان بھر ے پڑے ہیں اور لوگ پاس سے گزر جاتے ہیں اور یہ تک نہیں جانتے کہ یہ قبر کس کی ہے اس لیے تمام حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کو اور پاکستان کو پہلی ترجیح دیں تاکہ کل کلاں کو جب وہ اکیلے ہو جائیں تو کوئی ایسا تو ہو جو ان کا ساتھی ہو اور ان سے اس برے وقت میں ہمدردی کے دو بول ،بول سکے کیونکہ یہ وقت کا کھیل ہے اور وقت کھبی بھی نہیں رکتا اس نے چلتے رہنا ہے اور راستے میں آنے والے آتے رہیں گے اور راستے کے پتھروں کی طرح آگے سے ہٹتے رہیں گے اس لیے کام وہی ہو جو عوام اور ملک کے فائدے کے لیے ہو کیونکہ نیک عمل ہی انسان کا آخرت کا سامان ہوتا ہے اور جو کچھ بھی وہ اقتدار کے نشے میں بو رہے ہوتے ہیں ان کو کاٹنا ہو گا یہ ایک فطری عمل ہے بلکل اسی طرح جس طرح دنیا کے تمام کام وقت کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں یہ دیکھے بنا ہی کہ کون آرہا ہے اور کون جا رہا ہے اس لئے اس لئے باز گشت یا مکافات عمل کے فارمولے کے تحت حکمرانوں کو بھی تیار رہنا چاہیے کہ ،جس طرح وہ عوام کا امتحان لے رہے ہیں اسی طرح کے امتحان کا کل کلاں کو وہ بھی سامنا کر یں گے اور یہ ضرور ہو گا
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227272 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More